اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا ایک خلیفہ مقرر کرنے کا ارادہ کیا، اس کے ذمہ ایک بھاری امانت کی ادائیگی تھی۔اللہ تعالیٰ نے س امانت کو کئی مخلوقات کے سامنے پیش کیا، مگر وہ اس کے اٹھانے سے عاجز رہے، ارشاد الٰہی ہے:
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے‘‘۔ (الاحزاب،۷۲)
اس جگہ امانت سے مراد وہی ’’خلافت‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔اس لفظ ’’امانت‘‘ کو قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہاں انہی کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت اور متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے تھے، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے۔(تفہیم القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
اس ارضی خلافت کا بوجھ اٹھانے کی بنا پر انسان کا مقام اللہ کی دیگر مخلوقات سے منفرد ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارادہ، ادراک اور اختیار اور ذمہ داری اٹھانا ہی انسان کی امتیازی خصوصیات ہیں۔ اور یہی وہ کرامت اور شرف ہے جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے عالمِ بالا میں کیا تھا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور قرآن کے اندر یہ اعلان قیامت تک ثبت کر دیا گیا کہ :
’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘‘۔ (بنی اسرائیل،۷۰)
انسان کی تکریم کی اصل وجہ یہی ہے کہ اللہ نے اس کے حوالے ایک امانت کی ہے، جسے اس نے قبول کیا ہے اور جس کے اٹھانے سے آسمانوں ،زمین اور پہاڑوں نے انکار کیا اور ڈر گئے۔ لہٰذا انسان پر جو ذمہ داری عائد ہے وہ ادا کرنے کے لیے وہ اللہ کا مطیع ہو جائے جس طرح کائنات کی ہر چیز اس کی مطیع ہے اور ذرہ برابر اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرتی۔
انسان اس دار العمل میں اللہ کا خلیفہ قرار پایا ہے، لہٰذا عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اپنے کئے کا ذمہ دار ہو اور جو اس نے بویا ہو، اسے کاٹے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
خلافت کا قرآنی تصوّر
قرآن میں خلافت کا جو تصوّر دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں انسان کو جو قدرتیں بھی حاصل ہیں وہ خدا کی عطا اور بخشش سے حاصل ہیں۔
ارشاد ربانی ہے: ’’وہی ہے جس نے تمھیں زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمھاری آزمائش کرے‘‘۔ (الانعام،۱۶۵)
خلافت کے حوالے سے قرآن تین حقیقتیںبیان کرتا ہے:
۱ ۔ تمام انسان زمین میں اللہ کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر نصرّف کے اختیارات بخشے ہیں۔
۲ ۔ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا ہی نے رکھا ہے، کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرّف کے اختیارات دیے ہیںاور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوتِ کارکردگی دی گئی ہے اور کسی کو کم، اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
۳ ۔یہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے۔ پوری زندگی ایک امتحان گاہ ہے، اور جس کو جو کچھ خدا نے دیا ہے، اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے خدا کی امانت میں کس طرح تصرّف کیا ، کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا، اور کس حد تک اپنی قابلیت و ناقابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجے پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعیّن منحصر ہے۔ (تفہیم القرآن،ح۱،ص۶۰۶)
قبل از خلافت حلف
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی تخلیق کے وقت دنیا کے تمام انسانوں سے ایک حلف بھی لیا تھا جسے ’’عہدِ الست‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، فرمایا:
’’اور اے نبیؐ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمھارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انھیں خود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ’’کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انھوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں‘‘۔ (الاعراف،۱۷۲)
یہ معاملہ تخلیقِ آدم کے موقع پر پیش آیا تھا۔ اس وقت جس طرح فرشتوں کو جمع کر کے انسانِ اول کو سجدہ کرایا گیا تھا، اورزمین پر انسان کی خلافت کا اعلان کیا گیا تھا، اسی طرح پوری نسلِ آدم سے جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اسے اپنے سامنے حاضر کیا تھااور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی تھی۔اور یہ بات انتہائی معقول معلوم ہوتی ہے کہ انسان جیسی صاحبِ شعور اور صاحبِ تصرّف و اختیارات مخلوق کو زمین پر بحیثیت خلیفہ مامور کرتے وقت اللہ تعالیٰ اسے حقیقت سے آگاہی بخشے اور اس سے اپنی وفاداری کا اقرارلے۔ اس معاملہ کا پیش آنا قابلِ تعجب نہیں، البتہ اگر پیش نہ آتا تو ضرور قابلِ تعجب ہوتا۔ (تفہیم القرآن،ج۲،ص۹۶)
خلافت کی حقیقت
خلافت کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرتوں، عطا اور بخشش کو اللہ کی زمین میں اس کا خلیفہ اور نائب بن کر استعمال کرے، اس لیے کہ انسان یہاں خود مختار مالک نہیں بلکہ اصل مالک کا خلیفہ ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اسے بتا دیا ہے:
’’(اے انسانو) ہم نے تمھیں زمین میں اختیارات کے ساتھ بسایا اور اس میں تمھارے لیے سامانِ زیست فراہم کیے‘‘۔ (الاعراف،۱۰)
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام اور گروہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا اور انہیں زمین میں استخلاف (اقتدار کے ساتھ اختیار ) عطا کیا۔ اور انہیں کام کرنے کا موقع عطا کیا۔ اور اگر انھوں نے ظلم اور بغاوت کی روش اختیار کی اور انبیاء علیھم السلام کی بات نہ مانی تو وہ اللہ کے امتحان میں ناکام ہوئیں اور میدان سے ہٹا دی گئیں۔ اہل ِ عرب کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا: ’’لوگو، تم سے پہلے کی قوموںکو (جو اپنے اپنے زمانہ میں برسرِ عروج پر تھیں) ہم نے ہلاک کر دیا جب انھوں نے ظلم کی روش اختیار کی اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور انھوں نے ایمان لا کر ہی نہ دیا۔ اس طرح ہم مجرموں کو ان کے جرائم کا بدلہ دیا کرتے ہیں۔ اب ان کے بعد ہم نے تم کو زمین میں ان کی جگہ دی ہے، تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔(یونس،۱۳۔۱۴)
ہر دور میں اقوام کا یہی امتحان ہے کہ وہ زمین کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے کیسے عمل کرتے ہیں؟ اچھے عمل یا برے؟ گزشتہ اقوام کے احوال سے عبرت اندوز ہو کر پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں؟
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا میٹھی اور سرسبز ہے۔ اللہ تم کو یہاں گزشتہ اقوام کا جانشین بنائے گا اور دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔
ہر وہ قوم جسے زمین کے کسی حصیّ میں اقتدار حاصل ہوتا ہے، دراصل وہاں کی خلیفہ ہوتی ہے:
’’(اے قومِ عاد) یاد کرو جب کہ اللہ نے تم کو قومِ نوح کے بعد خلیفہ بنایا‘‘۔ (الاعراف،۶۹)
اس کے بعد ان کی جانشین قوم سے بھی یہی کہا:
’’(اور اے قومِ ثمود) یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں عاد کے بعد خلیفہ بنایا‘‘۔ (الاعراف،۷۴)
اہل ِ ایمان کے لیے اسی استخلاف کی پیش گوئی بھی کی:
’’(اے بنی اسرائیل) قریب ہے وہ وقت کہ تمھارا رب تمھارے دشمن (فرعون) کو ہلاک کرے اور زمین میں تم کو خلیفہ بنائے اور پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ (الاعراف،۱۲۹)
استخلاف کا وعدہ
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے قرآن میں وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں دنیا میںاستخلاف عطا فرمائے گا، ارشادِ الٰہی ہے:
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا‘‘۔ (النور،۵۵)
ان آیات میں اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیںبلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی وغلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصّہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔(تفہیم القرآن، ج۳،ص۴۱۷)
’’وہی تو ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا ہے‘‘۔ (فاطر،۳۹)
اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں : ایک یہ کہ اس نے پچھلی قوموں اور نسلوں کے گزر جانے کے بعد اب تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرّف کے جو اختیارات دیے ہیں وہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم اصل مالک کے خلیفہ ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص۲۳۸)
اختلاف میں راہ
اس دنیا میں انسان اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفہ ہے، اسی لیے اللہ کا حکم اس پر نافذ ہو گا، اور خلفاء کے درمیان اختلاف کی صورت میں اس معاملے کو اللہ کی جانب پھیرا جائے گا۔
’’تمھارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے‘‘۔ (الشوری،۱۰)
اللہ تعالیٰ مالکِ کائنات ہے۔ جب بادشاہی اور ولایت اس کی ہے تو لا محالہ حاکم بھی وہی ہے، اور انسانوں کے باہمی تنازعات واختلاف کا فیصلہ کرنابھی اسی کا کام ہے۔ جس طرح وہ آخرت میں مالکِ یوم الدین ہے اسی طرح اس دنیا کا احکم الحاکمین بھی ہے۔ حق اور باطل اور پاک اور ناپاک اور جائز اور حلال اور حرام اور مکروہ کا تعین وہی کرتا ہے۔معاشرت، تمدّن اور سیاست اور معیشت میں کون سے طریقے درست ہیں اور کون سے غلط، وہی قرار دیتا ہے۔آخر اسی بنیاد پر تو قرآن میں یہ بات اصول کے طور پر بیان کی گئی ہے کہ ’’اگر کسی معاملہ میں تم میں نزاع پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی جانب لوٹا ؤ‘‘۔ (النساء،۵۹ا)
اطاعت کی حدود
خلافتِ ارضی کے نظام کو چلانے کے لیے جو ریاست قائم ہو گی، عوام اس کی اطاعت صرف معروف میں کرنے کے پابند ہوں گے، اللہ کی معصیت میں نہ کوئی اطاعت ہے اور نہ کوئی تعاون۔اور جائز کاموں میں معصیت اور نافرمانی نہ ہو گی۔
تمام خلفائِ ارضی کا باہم تعلق بھی ایسا ہو گا کہ خیر کے کاموں میں تعاون اور شر کے کاموں اور راہوں میں عدم تعاون! ارشادِ الٰہی ہے:
’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘۔ (المائدۃ،۲)
یہ اسلام کی تربیت ہے کہ اس نے اجڈ اور جاہل قوم کو ضبطِ نفس عطا کر کے ان کے اندر نہایت ہی قوی شعور پیدا کردیا۔ اور عربوں کی عام روش، کہ اپنے بھائی کا ساتھ دو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔یہ جاہلانہ حمیت تھی اور دورِ جاہلیت کی عصبیت تھی۔ ان کے نزدیک گناہ اور ظلم پر باہم تعاون کرنا، نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرنے سے زیادہ پرکشش تھا۔ وہ ہمیشہ باطل اور گمراہی پر باہم تعاون کے معاہدے کر لیتے تھے اور حق اور سچائی پر ان کا اجتماع بہت ہی کم ہؤا کرتا تھا۔ تاریخِ جاہلیت میں سچائی پر کم ہی حلف منعقد ہوئے۔ اور یہ ہر اس معاشرے کا قدرتی خاصہ ہے جس کا رابطہ اور تعلق اللہ کی ذات کے ساتھ نہ ہو اور جس کی عادات اور تقالید اسلامی منہاج اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ پیمانوں کے مطابق نہ ہوں۔اسلام نے جاہلیت کے تعاون کی بنیاد کو اپنے پاؤں تلے کچل ڈالا اور اسلامی نظام کی تربیت میں یوں فرمایا:
’’اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمھارے لیے مسجدِ حرام کا راستہ بند کر دیا تو اس پر تمہارا غصّہ تمھیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو‘‘۔ (المائدۃ،۲)
اسلام نے آکر دلوں کو اللہ کے ساتھ جوڑ دیا۔ اسلام نے پوری انسانیت کو حمیتِ جاہلیہ سے نکالا۔ نعرہ عصبیت سے منع کیا، ذاتی میلانات، شخصی تأثرات،خاندانی اور قبائلی محدود سوچ سے نکالااور دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئی صرف انسانیت کو محور بنایا۔(دیکھیے: فی ظلال القرآن،تفسیر نفس الآیۃ)
خلافت ارضی میں اطاعت کی حدود بھی مقرر کیں اور فرمایا:
’’ان میں سے کسی گناہ گار اور ناشکرے کی اطاعت نہ کرو‘‘۔ (الدھر،۲۴)
اسلامی نظامِ حکومت
’’خلیفۃ اللہ فی الارض‘‘ ہونے کے سبب انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی سے سرِمو انحراف نہ کرے۔اللہ تعالیٰ کا قانوں انسانوں تک پہنچنے کا ذریعہ اللہ کے رسول ہیں، وہ اللہ کے احکامات بندوں تک پہنچاتے ہیں اور اپنے قول و عمل سے ان احکام وہدایات کی تشریح فرماتے ہیں، لہٰذا اللہ کے نمائندے کی اطاعت دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے۔رسول کے امرونہی اور اس کے فیصلوں کو بے چون وچراں تسلیم کرنا اور دل میں بھی اس پر ناگواری محسوس نہ کرنا ایمان کے لیے ضروری ہے۔لہٰذا اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول کے احکام اور اوامر ونواہی کی اطاعت پر ہو گی۔رسول اللہ ﷺ کا اسوۃء حسنہ ہی بنیاد بنے گا۔
ملک کے حکمرانوں کی اطاعت قرآن و سنت کی پیروری کے ساتھ منسلک ہو گی۔عوام صرف اطاعت فی المعروف کے پابند ہوں گے۔ریاست کا پورا کام، اس کی تاسیس وتشکیل سے لےکر رئیسِ مملکت (صدر) اور اولی الامر (حکومت اور پارلیمنٹ) کے انتخاب اور تشریعی اور انتظامی معاملات تک، اہلِ ایمان کے باہمی مشورے سے چلیں گے، خواہ یہ مشاوت بلواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور مسلمانوں کا کام آپس کے مشورے سے چلتا ہے‘‘۔ (الشوری،۳۸)
اولی الامر کی صفات
اس ریاست کا نظام چلانے والوں کے انتخاب میں جن امور کو ملحوظ رکھنا چاہیے وہ یہ ہیں:
۱ ۔وہ ان اصولوں کو مانتے ہوں جن کے مطابق خلافت کا نظام چلانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جا رہی ہے، اس لیے کہ ایک نظام کو چلانے کی ذمہ داری اس کے مخالفین پر نہیں ڈالی جا سکتی۔
۲ ۔وہ ظالم، فاسق وفاجر ، خدا سے غافل اور حد سے گزر جانے والے نہ ہوں، بلکہ ایمان دار خدا ترس اور نیکو کار ہوں۔
۳ ۔وہ نادان اور جاہل نہ ہوں بلکہ ذی علم، دانا اور معاملہ فہم ہوں اور کاروبارِ خلافت چلانے کے لیے کافی ذہنی اور جسمانی اہلیت رکھتے ہوں۔
۴ ۔وہ ایسے امانت دار ہوں کہ ذمّہ داریوں کا بوجھ ان پر اعتماد کے ساتھ رکھا جا سکے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے حوالے کرو‘‘۔ (النساء،۵۸)
(دیکھیے: خلافت وملوکیت، سید ابوالاعلی مودودیؒ،ص۳۷۔۴۱)
اسلامی ریاست کا ڈھانچہ
اسلام اس زمین پر خلافت اور حکمرانی کا پورا نظام اور ایک مکمل ڈھانچہ دیتا ہے۔ اس میں معاشرے کی فکری، اخلاقی ، تمدّنی،معاشی اور قانونی بنیادوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
۱ ۔انسان کے لیے سب سے پہلا رابطہ رابطہء عقیدہ ہے۔ عقیدے اور نظریات ہی انسانوں کو متحد رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے وضح ہدایت دی:
’’تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اس (اللہ) کی‘‘۔ (بنی اسرائیل، ۲۳)
اس کا مطلب صرف اتنا نہیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کسی پرستش اور پوجا نہ کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ بندگی اور غلامی اور بے چون وچراں اطاعت بھی صرف اسی کی کرو۔ اسی کے حکم کو حکم اور اسی کے قانون کو قانون مانو اور اس کے سوا کسی کا اقتدارِ اعلی تسلیم نہ کرو۔ اور یہ صرف ایک ہدایت ہی نہیںبلکہ اس پورے نظامِ اخلاق و تمدّن وسیاست کا سنگِ بنیاد بھی ہے جو مدینہ طیبہ پہنچ کرنبی اکرم ؐ نے عملاً قائم کیا۔
۲ ۔ ’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو، اور نرمی ورحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو ‘‘۔(بنی اسرائیل،۲۳)
اس میں بتایا گیا کہ اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولادکو والدین کا مطیع ، خدمت گزار اور ادب شناس ہوناچاہیے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والانہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کر چکے ہیں۔ یہ آیت محض اخلاقی سفارش نہیں ہے بلکہ اسی کی بنیاد پر والدین کے شرعی حقوق و اختیارات مقرر کیے گئے۔اور یہ اصول طے پا گیا کہ اسلامی ریاست اپنے قوانین اور انتظامی احکام اور تعلیمی پالیسی کے ذریعہ سے خاندان کے ادارے کو مضبوط اور محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی نہ کہ اسے کمزور بنانے کی۔ (تفہیم القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
۳ ۔’’رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق‘‘۔ (بنی اسرائیل،۲۶)
’’فضول خرچی نہ کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۲۷)
’’اگر ان سے (یعنی حاجت مند، رشتہ دار ، مسکین اور مسافر سے) تمھیں کترانا ہو تو انہیں نرم جواب دے دو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۲۸)
ان مدات میں اہلِ ثروت کا خرچ محض خیرات اور مہربانی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو ہر مسلمان کی گردن پر لازم آتا ہے۔ اور اس حق کو فریضہ قرار دینے کے بعد اسے اسلامی عقیدہء توحید اور اسلامی عبادت اور بندگی کے ساتھ منسلک کر کے عبادت قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایسا حق اور فریضہ ہے جس سے مکلف صرف ادائیگی کے بعد ہی بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ اس مد میں خرچ کرنے والا اپنا فریضہ ادا کر رہا ہوتا ہے لیکن دوسری جانب اس کے اور مستفید کے درمیان محبت بھی پیدا ہو گی۔(فی ظلال القرآن)
اسلامی ریاست کے باشندے اپنی کمائی اور دولت کو اپنے تک محدود نہ رکھیںبلکہ اپنی ضروریات اعتدال کے ساتھ پوری کرنے کے بعد دوسرے حاجت مندوں کے بھی حقوق ادا کریں۔ اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری وساری ہو۔ معشرے میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص ان سب انسانوں کے حقوق اپنی ذات پر اور اپنے مال پر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہو۔
منشور ِاسلامی کی یہی دفعات مدینہ طیبہ کے معاشرے اور ریاست کی بنیاد بنیں۔ انہی کی بنیاد پر صدقاتِ واجبہ اور صدقاتِ نافلہ کے احکامات دیے گئے اور وصیت، وراثت اور وقف کے طریقے مقرر کیے گئے۔(تفہیم القرآن)
۴ ۔’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ‘‘۔ (بنی اسرائیل،۲۹)
اسلامی نظامِ زندگی میں توازن بنیادی اصول ہے، تفریط کی طرح غلو بھی توازن میں خلل انداز ہوتا ہے۔شریعت کا حکم ہے: ’’میانہ روی بہترین طریق کار ہے‘‘۔(حدیث مرسل)
یہ ایک صالح معاشرے کی اخلاقی تربیت ہے۔ ایک جانب فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو از روئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بے جا صرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری جانب ان رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی ہیں، پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے۔
۵ ۔’’اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۱)
اسلامی معاشرہ کسی بھی گمراہ کن نظریے کو پنپنے نہیں دے گا جس کے نتیجے میں سوسائٹی کے اندر عملی خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ نظریاتی بے راہ روی سے صرف نظریہ ہی خراب نہیں ہوتا یا اس کے نتیجے میں محض مذہبی مراسم میں کمزوری نہیں آتی بلکہ سوسائٹی کا اجتماعی نظام بھی خراب ہو جاتا ہے۔
منشور اسلامی کی یہ دفعہ انسان کو ہدایت کرتی ہے کہ کھانے والوں کو گھٹانے کی تخریبی کوشش چھوڑ کر ان تعمیری مساعی میں اپنی قوتیں اور قابلیتیں صرف کرے جن سے اللہ کے بنائے ہوئے قانونِ فطرت کے مطابق رزق میں افزائش ہؤا کرتی ہے۔ اس نے انسان کو بتایا کہ رزق رسانی تیرے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ اس خدا کے ہاتھ میں ہے جس نے تجھے زمین میں بسایا ہے۔
۶ ۔’’زنا کے قریب نہ پھٹکو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۲)
اسلام زنا کے قریب جانے سے بھی روکتا ہے یعنی مقدماتِ زنا سے۔اور اس غرض کے لیے قانون سے، تعلیم وتربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے اور دوسری تمام مؤثر تدابیر سے کام لے، تاکہ فحاشی میں مبتلا ہونے کا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے۔
اسلام غیر ضروری اختلاط مرد وزن سے روکتا ہے۔غیر مرد اور عورت کی ایک جگہ تنہائی کی ممانعت کرتا ہے۔اسلام نوجوانوں کی شادی کی تلقین کرتا ہے اور ایسی چیزوں سے روکتا ہے جن سے شادی میں رکاوٹ پیدا ہو ۔
۷ ۔’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۳)
اسلام میں دوسرے نفس کا قتل بھی حرام ہے اور خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی۔اسلامی قانون نے قتل بالحق کو صرف پانچ صورتوں میں محدود کیا ہے۔جان اور عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔اور قتل کے بدلے میں قصاص حکومت کی ذمہ داری ہے۔
۸ ۔’’مالِ یتیم کے پاس نہ پھٹکو مگر احسن طریقے سے‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۴)
’’عہد کی پابندی کرو‘‘۔ (بنی اسرائیل، ۳۴)
’’پیمانے سے دو تو پورابھر کر دو، اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۵)
مالِ یتیم کی حفاظت کو ایک اجتماعی نوعیت کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔اسی کے ساتھ ایفائے عہد کے احکام بھی دیے۔ ناپ تول کا پورا کرنا بھی دراصل وفائے عہد کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اجتماعی برکت حاصل ہوتی ہے۔
اسلامی نظریہ ء حیات کا یہ کمال ہے کہ وہ نظریہ، عقیدہ اور تصورات میں بہت زیادہ صفائی، وضاحت اور حقیقت پسندی کا قائل ہے۔اسلامی حکومت کے قیام کے بعد یہ بات حکومت کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ منڈیوں اور بازاروں میں اوزان اور پیمانوں کی نگرانی کرے اور تطفیف کو بزور بند کرے، اور تجارت اور معاشی لین دین میں ہر قسم کی بے ایمانیوں اور حق تلفیوں کا سدّ باب کرے۔
۹ ۔’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمھیں علم نہ ہو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۶)
اسلامی حکومت کسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے سے پہلے پوری تحقیق کرے، اور معاملات اور فیصلوں کا مدار تحقیق اور ثبوت پر ہو نہ کہ مفروضوں پر۔
۱۰ ۔’’زمین میں اکڑ کر نہ چلو‘‘۔ (بنی اسرائیل،۳۷)
یعنی جباروں اور متکبروں کی روش سے بچو۔یہ اسی ہدایت کا فیض تھا کہ مدینہ منورہ میں جو حکومت اس منشور پر قائم ہوئی اس کے فرماں رواؤں ، گورنروں اور سپہ سالاروں کی زندگی میں جباری اور کبریائی کا شائبہ تک نہ پایا جاتا تھا، حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں بھی ان کی زبان سے فخر وغرور کی کوئی بات نہ نکلی۔ ان کی نشست وبرخاست، چال ڈھال، لباس، مکان سواری اور عام برتاؤ میں انکسار وتواضع ، بلکہ فقیری اور درویشی کی شان پائی جاتی تھی، اور یہی حال فاتحانہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہوئے ہوتا تھا۔
یہ ہے حکمرانی کا وہ خاکہ جو خلیقۃ اللہ فی الارض کو اپنی انفرادی زندگی میں بھی اختیار کرنا ہے اور خلافت کی اجتماعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بھی یہی اصول پیشِ نظر رہیں گے۔٭
٭٭