عربی زبان کا ایک محاورہ ہے’’ الاشیاء تعرف باضدادھا‘‘ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ جیسے روشنی اندھیرے سے ، دن رات سے ، میٹھا کڑوے سے ، سرد گرم سے ، نرم سخت سے ، بلندی پستی سے،خیر شر سے ، حتیٰ کہ خوشی کا احساس بھی اس لیے ہوتا ہے کہ غم موجود ہے۔اربابِ منطق کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ قضیہ کا عکس لازم اور صادق ہوتا ہے ۔
درکار خانہ عشق از کفر نا گزیر است
دوزخ کرابسوزدگر بولہب نباشد
سائنس کہتی ہے کہ مخالف قوتوں میں کشش ہوتی ہے ۔ جیسے مقناطیس کے قطب۔ جیسے بجلی میں الیکٹرون کا بہائو ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہاتھ تبھی باہم ملتے ہیں جب مخالف سمتوں میں ہوں ۔ گرہ بھی تب ہی بندھتی ہے جب دونوں سرے آمنے سامنے ہوں ۔ دیکھا جائے تو زندگی کی ہمہ ہمی ، رنگینی اور دلچسپی اسی اختلاف میں ہے ۔ یکسانیت سے طبع مضمحل ہو جاتی ہے۔
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت ِ چمن
اے ذوقؔاس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
لیکن جہاں ہر متضاد شے دوسرے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور ان میں ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، وہاں جب بات مرد اور عورت کی آجائے توجیسے یہ آفاقی اصول ٹوٹ سا جاتا ہے ۔ کہاں تو ساری کائنات ایک ردھم میں ، ایک دوسرے کی معاون اور حلیف بن کر نظام زندگی چلا رہی ہوتی ہے ، اورکہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بن کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں پیہم مصروف نظر آتے ہیں۔
ایک طرف مرد حضرات کو خواتین پر بہت سے اعتراضات ہیں تو دوسری طرف خواتین کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ مردوں نے انھیں کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور عورت کو ایک پہیلی قرار دے کر سبک دوش ہو گئے ہیں ۔ ہم نے سوچا کہ کیوں نا مردوں کے اعتراضات کا شافی جواب دے کر صدیوں سے جاری اس بحث اور حریفانہ کشمکش کو ختم کیا جائے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس پر خلوص کوشش کو تاریخ میں سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا ۔
مردوں کا خیال ہے کہ خواتین ناقص العقل ہوتی ہیں ۔ ہر گز نہیں۔ وہ تو اتنی عقل مند اور ہوشیار ہوتی ہیں کہ شوہروں سے سچ اگلوا لیتی ہیں۔
ایک بیگم صاحبہ نے اپنے صاحب کو میسج کیا ۔’’ آتے آتے ایک ڈبل روٹی اور ایک درجن انڈے لیتے آئیے گا ۔ سبزی والے سے ایک کلو ٹماٹر ، آدھا کلو بھنڈی اور آدھا کلو کھیرے۔ پھل والے سے ایک درجن کیلے اور آدھا کلو انگور ، ایک کلو دودھ اور ایک پائو دہی بھی لانا ہے ۔ لانڈری والے سے استری شدہ کپڑے اور موچی سے احمدکا بیگ جو زپ لگانے کودیا ہے ۔ درزی سے میرا جوڑا لانا نہ بھولیے گا اور ہاں ، شہلا نے آپ کو سلام کہا ہے‘‘۔
شوہر کا فوراً جواب آیا ۔’’ کون شہلا؟ ‘‘ بیوی نے جواب لکھا : ’’کوئی نہیں ۔ بس یہ چیک کرنے کے لیے لکھا تھا کہ آپ نے میسج دیکھ لیا ہے یا نہیں ۔ کیوں کہ آپ اکثر بہانہ بنا دیتے ہیں کہ میسج نہیں دیکھا تھا ‘‘۔
عورتوں پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ فضول خرچ ہوتی ہیں۔قطعی نہیں ۔ وہ تو اتنی سلیقہ شعار ہوتی ہیں کہ ایک چیز سے دو فائدے اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
’’ بیگم صاحبہ بازار سے لوٹیں تو خوشی خوشی شوہر کو ایک کپڑا دکھا کر کہنے لگیں ۔’’ دیکھیے تو میں آپ کے رومال کے لیے کپڑا لائی ہوں ‘‘۔ شوہر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔’’ رومال کے لیے اتنا بہت سا کپڑا؟‘‘وہ معصومیت سے بولیں ’’بچے ہوئے کپڑے سے میں اپنی ساڑھی بنا لوں گی ‘‘۔
مردوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ وہ دور اندیش نہیں ہوتیں ۔ یہ اعتراض بھی بے جا ہے۔
’’ بیمار شوہر نے کراہتے ہوئے کہا :’’ بیگم تم میرا کتنا خیال رکھتی ہو وقت پر کھانا ۔ وقت پر دوائی۔ تم کتنی سگھڑ ہو ‘‘۔ بیوی خوش ہو کر بولی:’’ ابھی کیا میں نے تو سیاہ ماتمی سوٹ بھی بنوا کر رکھ لیا ہے ‘‘۔
ایک گلہ یہ بھی ہے کہ شوہر کی خوشی کا احساس نہیں کرتیں ۔ یہ بھی غلط
’’بیوی نے شوہر سے کہا :’’ میں نے آپ کی سالگرہ پر اتنا قیمتی تحفہ خریدا ہے‘‘ شوہر نے خوش ہوتے ہوئے کہا :’’ اچھا؟ دکھائو‘‘ بیوی: ’’ ذرا ٹھہر یں، ابھی پہن کر دکھاتی ہوں ‘‘۔
بھلا ایسی سمجھدار ، باوفا اور سگھڑ بیوی کو پاکر کون کفرانِ نعمت کر سکتا ہے ؟
ابھی یہیں تک لکھ پائے تھے کہ صاحب بہادر کی نظر اس پر پڑ گئی شکایت آمیز لہجے میں بولے :’’ بھلا ہمیں آپ نے کب نا شکری کرتے دیکھا ہے ؟ جب جب بھی آپ میکے گئی ہیں ، ہماری زبان سے بے ساختہ یہی نکلا ہے فَبِأِیِّ اٰلائِ رَبّکُمَا تُکَذِْبَانِ۔( پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے )‘‘۔
اس کے بعد کیا ہؤا؟ یہ محتاج بیان نہیں ۔ بس اتنا ہے کہ ہم نے تاریخ میں اپنا نام جَلی حروف میں لکھوانے کا ارادہ ترک کردیا۔
٭…٭…٭