جب سے کائنات وجود میں آئی ہے اس میں انسانوں کے دو گروہ بستے ہیں،ایک سچے اور دوسرے جھوٹے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں سچوں کی سچائی اور جھوٹوں کی کذب بیانی کے درمیان کشمکش رہی ہے، اور تاریخِ انسانی نے ثابت کیا کہ جھوٹ خواہ کتنا بڑا اور کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو ، وہ سچائی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا، اور آخر کار ہر جھوٹے کو منہ کی کھانی پڑتی ہے، حتی ٰکہ اللہ کے مقابلے میں اپنے آپ کو ’’انا ربّکم الاعلی‘‘ کہنے والا فرعون اپنی ساری طاقت کے ساتھ غرق ہوتا ہے، اس کے لشکروں کی حمایت کرنے والے قارون اور ہامان بھی تباہی کا شکار ہوتے ہیں اور ’’انا احیی وامیت‘‘ (زندگی اور موت میں دیتا ہوں) کہنے والا نمرود بھی اپنے جھوٹ کے ساتھ عبرت کا نمونہ بنتا ہے۔
کذب کا مادہ ’’ک ذ ب‘‘ ہے، اور اس کے معنی حقیقت اور سچائی کے خلاف ہونے کے ہیں۔ کذب بیانی سے مراد ایسی چیز کی خبر دینا ہے جو سچی نہ ہو۔ کاذب اس کا فاعل ہے جو صادق کے عکس ہے۔جھوٹ ام الجرائم ہے۔ یہ ایسا حرام فعل ہے جس سے ہر سلیم الفطرت شخص گھن کھاتا ہے۔اور یہ اخلاق میں سب سے نیچ حرکت ہے۔جھوٹ سب سے بڑھ کر جھوٹے کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ یہ اس کی شخصیت وکردار کا غلط رخ متعین کرتا ہے۔جھوٹ انسان کو دوسروں کی نظروں میں ذلیل وخوار، بے عزّت اور بے اعتبار بنا دیتا ہے۔ جھوٹے کی گفتگو اور کردار پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔
کذب اور جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ مزاح میں بولا جائے۔جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے اور یہ آگ کی جانب لے جانے والا عمل ہے۔جھوٹ گناہ کی بنیاد بھی ہے اور اس کی جانب لے جانے والا بھی۔یہ جہنم کی طرف لے جانے والا مختصر راستہ ہے۔رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’جھوٹ سے بچو، بے شک جھوٹ گناہوں کی طرف لے کر جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں۔اور بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب (بہت جھوٹ بولنے والا) لکھ لیا جاتا ہے۔(رواہ البخاری،۶۰۹۴)
انسان کے سارے اخلاقِ ذمیمہ میں سب سے بری اور مذموم عادت جھوٹ کی ہے۔ جھوٹ زبان سے بھی بولا جاتا ہے اور عمل سے بھی۔اس لیے یہ برائی ساری قولی اور عملی برائیوں کی جڑ ہے۔
سب سے بڑا جھوٹ
سب سے بڑا جھوٹ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں جھوٹ یعنی شرک کا ارتکاب ہے، اور اللہ اس جھوٹ کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
ارشادِ الٰہی ہے:
’’اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے‘‘۔ (الانعام،۲۱)
سب سے بڑا جھوٹ اور افترا اللہ پر افترا باندھنا ہے۔یعنی یہ دعویٰ کرے کہ خدا کے ساتھ دوسری بہت سی ہستیاں بھی خدائی میں شریک ہیں، خدائی صفات سے متصف ہیں، خداوندانہ اختیارات رکھتی ہیں اور اس کی مستحق ہیں کہ انسان ان کے آگے بندگی کا رویہ اختیار کرے۔ نیز یہ بھی اللہ پر بہتان ہے کہ یہ کہے کہ اللہ نے فلاں فلاں ہستیوں کو اپنا مقرّب خاص قرار دیا ہے اور اسی نے یہ حکم دیا ہے یا کم از کم یہ کہ وہ اس پر راضی ہے کہ ان کی طرف خدائی صفات منسوب کی جائیں اور ان سے وہ معاملہ کیا جائے جو بندے کو اپنے خدا کے ساتھ کرنا چاہیے۔
اللہ کی نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں بھی ہیں جو انسان کے اپنے نفس اور ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں، اور وہ بھی جو پیغمبروں کی سیرت اور ان کے کارناموں میں ظاہر ہوئیں، اور وہ بھی جو کتب ِ آسمانی میں پیش کی گئیں۔یہ ساری نشانیاں ایک ہی حقیقت کی طرف رہنمائی کرتی ہیں، یعنی یہ کہ موجوداتِ عالم میں خدا صرف ایک ہے، باقی سب بندے ہیں۔(تفہیم القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
مکذبین کا انجام
’’یہ مشرک لوگ ضرور کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ ایسی ہی باتیں بنا کر ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی حق کو جھٹلایا یہاں تک کہ آخر کار ہمارے عذاب کا مزا انہوں نے چکھ لیا‘‘۔ (الانعام،۱۴۸)
قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ بعینہ اسی طرح جھوٹ بول رہے ہیں جس طرح ان سے پہلے لوگوں نے جھوٹ بولا۔ان سے پہلے جن لوگوں نے جھوٹ بولا انہوں نے اپنے جھوٹ کا مزا چکھ لیا ہے اور اب یہ نئے مکذبین آ گئے ہیں اور اللہ کا عذاب ان کے انتظار اور استقبال میں ہے۔
یہ وہ تنبیہ ہے جو سوچنے والے کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ غافل سے بھی غافل انسان بھی ہوش میں آجاتا ہے اور انجام سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
ارشاد ہے: ’’تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک دلیل روشن اور ہدایت اور رحمت آگئی ہے، اب اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے منہ موڑے‘‘۔ (الانعام،۱۵۷)
اللہ کی کتاب نازل ہونے کے بعد کوئی بہانہ باقی نہیں رہتا۔ سب سے بڑا ظالم وہی ہے جو کتاب نازل ہونے کے بعد اس کی آیات کو جھٹلا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے بدترین سزا ہے۔
’’ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ ان پر چسپاں ہو کر رہا‘‘۔ (ص،۱۴)
جھوٹوں کے لیے عذاب
’’ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے‘‘۔ (طہ،۴۸)
’’اور قیامت کے دن تم دیکھو گے کہ جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے‘‘۔ (الزمر،۶۰)
ابن جوزی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’اللہ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حلال اور اس کے حلال کو حرام قرار دے۔
اور آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے مجھ پر جھوٹ گھڑا اس نے جہنم میں اپنے لیے گھر بنا لیا‘‘۔ (الکبائر للذہبی،۱۵۴)
عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ گھڑے،(یعنی حدیث گھڑ کر بیان کرے) تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے‘‘۔(رواہ البخاری،۱۲۹۱)
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’اللہ کے نزدیک سب سے بڑی خطاکارجھوٹ بولنے والی زبان ہے اور قیامت کے دن سب سے بڑی ندامت اسی کو ہو گی‘‘۔(کتاب الکذب، من اقوال السلف، ص۲۱)
جھوٹ ،کفر کی بڑی انواع میں
حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص نبیؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہؐ ، جنت میں لے جانے والا کام کیا ہے؟ فرمایا: سچ بولنا،جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کا کام کرتا ہے، وہ ایمان سے بھرپور ہوتا ہے اور جو ایمان سے بھرپور ہوا وہ جنت میں جائے گا۔ اس نے پھر پوچھا: یا رسول اللہؐ دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے؟ فرمایا: جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا۔ گناہ کے کام کرے گا تو کفر کرے گا، اور جو کفر کرے گا دوزخ میں جائے گا‘‘۔ (مسند احمد،ج۱،ص۱۷۶)
اس حدیث سے معلوم ہؤا کہ جھوٹ کی برائی کی وسعت اتنی ہے کہ اس میں کفر بھی آ جاتا ہے، جس سے زیادہ بری چیز کوئی دوسری نہیں اور جس کے لیے نجات کا ہر دروازہ بند ہے۔
ابن القیم الجوزیہ کہتے ہیں کہ ؛ جھوٹ کی پانچ اقسام ہیں۔۱ ۔کفر تکذیب ۲۔ کفر استکبار ۳۔ کفر اعراض ۴۔ کفر شک۔ ۵ کفر نفاق
۱۔ کفر تکذیب؛ یہ ہے کہ رسولوں کو جھٹلایا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو کئی براہین اور آیات عطا فرمائیں، جن سے حجت قائم ہو گئی اور کوئی معذرت باقی نہ رہی: ’’مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں ان کے پاس آئیں تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا ، حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔ (النمل،۱۳۔۱۴)
جیسے جب مصر پر کوئی بلا نازل ہوتی تو فرعون حضرت موسیٰؑسے کہتا کہ تم اپنے خدا دے دعا کر کے اس بلا کو ٹلوا دو، پھر جو کچھ تم کہتے ہو ہم مان لیں گے، مگر جب وہ بلا ٹل جاتی تھی تو فرعون اپنی اسی ہٹ دھرمی پر تل جاتا تھا۔ (دیکھیے الاعراف،۱۳۴)
کفر تکذیب، زبان سے جھوٹ بولنا ہے جب کہ دل حق کے قائل ہو چکے ہوں۔
۲ ۔کفر انکار واستکبار؛ یہ ہے ابلیس جیسا انکار وتکبر۔ابلیس اللہ کے حکم کا ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر انکار کیا۔ایسا ہی انکار اور استکبار کا رویہ فرعون اور اس کی قوم نے اختیار کیا تھا۔اور اس نے کہا: ’’کیا ہم اپنے ہی جیسے دو لوگوں کی اطاعت قبول کر لیں اور ان کی قوم ہماری غلامی میں ہے‘‘۔ (المؤمنون،۴۷)
اور کتنی ہی قوموں نے اس بنا پر رسولوں کو جھٹلایا کہ: ’’تم تو ہم جیسے بشر ہو‘‘۔(ابراہیم،۱۰۱)
یہود کا استکبار یہ تھا کہ انہوں نے حق کو پہچان لینے کے بعد اس کا انکار کیا:
’’جب وہ ان کے پاس آیا انہوں نے اسے پہچان لیا، اور اس کا انکار کر دیا‘‘۔ (البقرۃ،۸۹)
فرمایا: ’’وہ اسے اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو‘‘۔ (البقرۃ،۱۴۶)
۳۔ کفر اعراض؛ اس کے معنی ہیں کہ جب رسول کی جانب سے حق اس کے سامنے اور اس کے دل پرتک پہنچے تو وہ اس سے اعراض کرے۔ نہ اس کی تکذیب کرے نہ تصدیق، نہ اس کی جانب متوجہ ہو اور نہ اس سے عداوت ظاہر کرے،اور اس کی جانب اس کا جھکاؤ بھی نہ ہو۔
یہی رویہ آج بہت سے ایسے لوگوں کا ہے جو یہود و نصاریٰ کے دوست ہیں۔اور حق کو جاننے کے باوجود حق کے لیے ان کی زبان سے ایک کلمہ تک نہیں نکلتا۔اہلِ حق کی مظلومیت، حتیٰ کہ نسل کشی پر بھی ان سے کوئی لفظ زبان سے نہیں نکلتا۔
۴ ۔کفر شرک؛ یعنی اسے سچائی اور جھوٹ کسی کا بھی یقین نہیں ہوتا، بلکہ وہ شک کا شکار ہوتا ہے۔اور شک کی یہ کیفیت اس پر ہمیشہ طاری نہیں رہتی بلکہ جب وہ اس کی حقیقت پر غور کرتا ہے تو شک زائل ہو جاتا ہے اور وہ حقیقت کو پا لیتا ہے، لیکن اگر وہ اس سے اعراض کرتاہے تو وہ گمرہی ہی میں پڑا رہتا ہے۔
۵۔ کفر نفاق؛ یہ سب سے بڑی گمراہی ہے کہ آدمی زبان سے ایمان کا اقرار کرے اور دل اس کا منکر ہو۔ یہ سب سے بڑا نفاق ہے اور ایسے منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہوں گے۔
انسان جھوٹ بول کر ساری دنیا کو دھوکہ دے سکتا ہے مگر اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ منافق اپنی منافقت کو خوب جانتا ہے، ارشادِ الٰہی ہے:
’’بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے‘‘۔ (القیامۃ،۱۴۔۱۵)
انبیاء علیھم السلام کی صفت
انبیاء علیھم السلام دنیا کے سب سے سچے انسان ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کذب اور دوروغ گوئی سے بالکل پاک ہوتی ہے اور یہ ان کی دلیلِ نبوت بھی ہے۔چناچہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے حضرت ادریسؑ کے لیے فرمایا:
’’اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو، وہ ایک راست باز (سچے) انسان اور نبی تھے‘‘۔ (مریم،۵۶)
اسی لیے جو کاذب ہے وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پھر اس کے دعویٰ اور پیام پر کسی کو بھروسہ کیوںکر ہو گا۔
حضرت موسیٰ ؑ نے جب فرعون کے سامنے اپنی دعوت کو پیش کیا اور اس نے اس کو ماننے سے انکار کیا تو اس کے ایک درباری نے جو دل سے مسلمان تھا، فرعونیوں کے سامنے حضرت موسیٰ ؑؑ کے صدقِ نبوت پر ان کی عام سچائی ہی سے دلیل پیش کی اور کہا کہ جھوٹا خدا کا نبی نہیں ہو سکتا۔
’’اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اسی پر پلٹ پڑے گا۔ لیکن اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج کا خوف وہ تم کو دلاتا ہے ان میں سے کچھ تو تم پر ضرور ہی آ جائیں گے‘‘۔ (غافر،۲۸)
روم کے قیصر نے بھی اپنے دربار میں ابو سفیان سے جو باتیں پوچھی تھیں، ان میں ایک یہ بھی تھی کہ مکہ کا مدعی اپنے دعوائے نبوت سے پہلے کیا جھوٹ بولا کرتا تھا۔ ابوسفیان نے جواب دیا: نہیں۔ قیصر نے کہا: جو بندہ پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا پر جھوٹ باندھے گا؟ یہ نہیں ہو سکتا۔(صحیح بخاری، بدء الوحی)
قرآن کریم میں نبی کی صداقت کی دلیل میں یہ آیت بھی ہے:
’’کیا میں تمھیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں؟ وہ ہر جعل ساز بدکار پر اترا کرتے ہیں۔ سنی سنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں‘‘۔ (الشعراء،۲۲۱۔۳۲۳)
اس سے بھی معلوم ہوا کہ جھوٹ انبیاء علیھم السلام کی سنت اور روش کے سراسر خلاف ہے۔ اسی لیے جو جھوٹا ہوتا ہے اس کے دل سے خدا کی روشنی (ہدایت) بجھ جاتی ہے۔
’’اللہ کسی جھوٹے منکرِ حق انسان کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ (الزمر،۳)
اللہ کی ہدایت انھیں کو ملتی ہے جو مخلص ہوں، متوجہ ہوں،برائی سے بچنا چاہتے ہوں، ان کو نیکی کے کاموں میں دلچسپی بھی ہو اور وہ غور وفکر کر کے صحیح راستے کا انتخاب کرتے ہوں۔
حضرت ابو امامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مومن کی طبیعت اور فطرت میں ہرخصلت کی گنجائش ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے‘‘۔ (رواہ احمد،۱۷۴۸)
یعنی مومن کی فطرت ہی میں خیانت اور جھوٹ کی گنجائش نہیں،تو جس میں یہ خصلتیں ہوں اسے فکرمند ہوجانا چاہیے کہ اسے ابھی ایمان کی حقیقت نصیب نہیں ہوئی۔
جھوٹوں پر لعنت
اسلام میں لعنت کا لفظ سخت ترین ہے، جس کے معنی اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی کے ہیں۔ قرآنِ کریم اس کا مستحق ابلیس کو قرار دیتا ہے، اور اس کے بعد یہودیوں، کافروں اور منافقوں کو اس کی وعید سنائی گئی ہے، لیکن کسی مومن کو کذب کے سوا اس کے کسی فعل پر لعنت سے یاد نہیں کیا۔جب نجران کے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی تو اس موقع پر یہ فرمایا گیا کہ دونوں فریق اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگیں:
’’پھراللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت‘‘۔ (آل عمران،۶۱)
میاں بیوی کے لعان کی صورت میںجب شوہر بیوی پر بدکاری کا الزام لگائے اور شوہر کے پاس اس کا کوئی گواہ نہ ہو تو اس کو چار دفعہ اپنی سچائی کی قسم کھانے کے بعد پانچویں دفعہ یہ کہنا ہو گا:
’’اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو‘‘۔ (النور،۷)
اس سے معلوم ہؤا کہ جھوٹ ایسی بری چیزہے کہ جو اس کا مرتکب ہوتا ہے وہ کافروں اور منافقوں کی طرح بددعا کا بھی مستحق ہوتا ہے۔(سیرت النبیؐ، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی،ج۶،ص۲۹۰)
جھوٹی گواہی
خریم بن فاتک سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ایک دن صبح کی نماز پڑھی، جب آپؐ اس سے فارغ ہوئے تو ایک دم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’جھوٹی گواہی اشراک باللہ کے برابر کر دی گئی، یہ بات آپؐ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی ، اور قرآن مجید کہ یہ آیت تلاوت فرمائی: (بتوں کی، یعنی بت پرستی کی گندی سے بچو اور جھوٹی بات کہنے سے بچتے رہو، صرف ایک اللہ کے ہو کر کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کرتے ہوئے)‘‘۔ (رواہ الترمذی،۲۳۰۰)
اشعث بن قیسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی کا مال جھوٹی قسم کھا کر مار لے گا وہ اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہو گا‘‘۔(سنن ابی داؤد،۳۲۴۴)
یہ قیامت کے دن جھوٹی قسم کھانے والوں کا انجام ہے۔
سچائی کا اجر
حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ ’’سچا اور امانت دار تاجر انبیاء علیھم السلام ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا‘‘۔ (رواہ الترمذی،۱۲۰۹)
حضرت عبید بن رفاعہؓ اپنے والد رفاعہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تاجر لوگ قیامت کے دن بدکار اٹھائے جائیں گے سوائے ان تاجروں کے جنھوں نے اپنی تجارت میں تقوی، حسنِ سلوک اور سچائی کو برتا ہوگا‘‘۔ (رواہ الترمذی،۱۲۱۰)
ہلکا سمجھے جانے والے جھوٹ
روز مرہ زندگی کے معاملات میں انسان بعض چیزوں کو ہلکا جانتا ہے اور وہاں سچائی کا اہتمام نہیں کرتا، بلکہ بعض اوقات انہیں جھوٹ ہی نہیں سمجھتا، کہ یہ تو میں نے ’’یونہی ‘‘ کہ دیا ہے، حالانکہ وہ بھی جھوٹ میں داخل ہیں۔اور رسول اللہؐ نے ان سے بھی پرہیز کرنیکی تاکید فرمائی ہے۔
عبد اللہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ؐہمارے گھر تشریف فرما تھے، میری والدہ نے مجھے پکارا : آ، میں تجھے کچھ دوں گی، رسول اللہؐ نے میری ماں سے فرمایا: تم نے اس بچے کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟ میری ماں نے کہا: میں نے اسے ایک کھجور دینے کا ارادہ کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ یاد رکھو، اگر اس کہنے کے بعد اس بچے کو کوئی چیز بھی نہ دیتیں، تو تمھارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا‘‘۔(سنن ابی داؤد،۴۹۹۱)
بہز بن حکیم اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے اپنے بیان میں جھوٹ بولے اس پر افسوس! اس پر افسوس!‘‘۔ (رواہ ابو داؤد،۴۹۹۰)
جس بات کے بارے میں سننے والوں کو معلوم ہو کہ یہ فرضی ہے ،وہ جھوٹ کے ذیل میں نہیں آتی۔البتہ ایسے جھوٹ جن سے کسی کو نقصان تونہیں پہنچتا ، اور محض لطف حاصل ہوتا ہے، یا لوگ ہنستے ہنساتے ہیں وہ بھی بری عادت ہے، کیوں کہ بولنے والے کی زبان جھوٹ سے آلودہ ہوتی ہے، اور جھوٹ جیسی سنگین برائی سے نفرت میں کمی آتی ہے، اور لوگوں میں جھوٹ بولنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ جھوٹ کی عادت کو رواج دینے والوں کے لیے بھی رسول اللہؐ نے افسوس کا اظہار کیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’آدمی کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے بیان کرتا پھرے‘‘۔ (رواہ مسلم،۵)
ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان کرنا بھی ایک درجے کا جھوٹ ہے۔
جھوٹ امّ الجرائم ہے
جھوٹ بہت سے گناہوں کی جڑ ہے، کبھی اس کا صدور زبان سے ہوتا ہے اور کبھی عمل سے۔ کبھی انسان دوسروں کو دھوکا دے لیتا ہے مگر دل کے جھوٹ اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے، یہی منافقت ہے۔ منافق ہو سکتا ہے کہ قولی اور عملی طور پر جھوٹ کا اظہار نہ کرے مگر اپنے قلب میں اس کی پرورش کرے۔ قرآن کریم میں فرمایا:
’’اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں‘‘۔ (المنافقون،۱)
اسی لیے رسول اللہؐ نے جھوٹ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے۔ وعدہ خلافی بھی جھوٹ ہی ہے اور امانت میں خیانت بھی!
جھوٹ ایسی برائی ہے جو بیسیوں برائیوں کو جنم دیتی ہے۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کذب کے ساتھ دوسری بری صفات کا تذکرہ کیا ہے، جیسے:
ث ’’جھوٹ بولنے والا گناہ گار‘‘۔ (شعراء،۲۲۲)
ث ’’جھوٹا اور منکرِ حق‘‘۔ (الزمر،۳)
ث ’’حد سے گزر جانے والا جھوٹا‘‘۔ (غافر،۲۸)
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جھوٹا گناہوں میں لت پت ہوتا ہے، کیوں کہ جھوٹ کی عادت کے سبب وہ کسی برائی کے کرنے سے جھجکتا نہیں۔ وہ سمجھتا ہے کہ موقع پر جھوٹ بول کر میں اسے چھپا لوں گا، اس لیے وہ ہر برائی کا ارتکاب کر لیتا ہے۔ جو جھوٹا ہو گا وہ اپنے کسی محسن کا احسان نہیں مانے گا، کیوں کہ وہ خود جھوٹا ہے اس لیے وہ دوسرے کو اس کے عمل اور نیت میں جھوٹا ہی سمجھے گا۔
جھوٹ کی کچھ صورتیں
ریاکاری کرنا بھی جھوٹ ہی کی قسم ہے، کیونکہ وہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو عملاً نہیں ہے۔
ایک دفعہ ایک عورت نے رسول اللہؐ کی خدمت میں آ کر پوچھا کہ : یا رسول اللہ! میری ایک پڑوسن (سوتن) ہے، کیا اگر میں یہ ظاہر کروں کہ میرے شوہر نے مجھے یہ دیا ہے اور واقعہ یہ نہ ہو، صرف اس کو جلانا مقصود ہو تو کیا یہ بھی گناہ ہے، فرمایا: جو جتنا نہیں دیا گیا اتنے کا دکھاوا کرنے والا جھوٹ کے دو پاجامے پہننے والے کی طرح ہے‘‘۔ ((ابو داؤد،کتاب الادب) اسی طرح جو عالم نہیں وہ اپنے آپ کو عالم باور کروائے، جو دولت مند نہیں وہ دولت مندی کا دکھاوا کرے (خاص طور پر رشتہ اور شادی کے موقع پر) درحقیقت فریب دینے کی کوشش ہے۔ غالباً اسی لیے جس عورت کے بال چھوٹے ہوں اس کی ممانعت کی گئی ہے کہ وہ مصنوعی بال لگا کر اپنے بالوں کو لمبا بنائے۔آپؐ نے بھی اسے ’’زور‘‘ یعنی جھوٹ فرمایا ہے۔(صحیح بخاری، الوصل فی الشعر)
بہت سے لوگ بچوں سے بات کرتے ہوئے اور مجلس میں بے ضررجھوٹ کو برا نہیں جانتے، مگر رسول اللہؐ کی تربیت یہی ہے کہ کسی حال میں بھی اپنے لب جھوٹ سے آلودہ نہ کیے جائیں۔ مہمان کو بھی منع فرمایا کہ تکلف میں اپنی بھوک پیاس نہ چھپائے۔
جھوٹ کا علاج
جھوٹ ایسی برائی اور مذموم عادت ہے کہ بہت سے عادی جھوٹے بھی اس سے نجات چاہتے ہیں۔ اس کے گھناؤنے پن کا اندازہ کرنا ہو تو کسی جھوٹے کے بارے میں سوچیں کہ اس کا جھوٹ بولنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟ اور آپ اس کے جھوٹ کو کتنا برا جانتے ہیں؟
۔ جھوٹ سے نجات کی ابتدا ندامت سے ہوتی ہے۔ بندہ اپنے اس فعلِ قبیح پر نادم ہو اور اللہ کے حضور خالص توبہ کرے اور اس سے سچائی پر قائم رہنے میں مدد کی دعا کرے۔
ث بندہ ان چیزوں کو اختیار کرے جو سچ بولنے میں مدد گار ہوتی ہیں، جن میں سے ایک صالحین کی صحبت اختیار کرنا اور سچوں سے معاملہ کرنے کو ترجیح دینا ہے۔
ث جھوٹ بولنے والا جھوٹ کی حرمت اور اس کی سزا کے بارے میں علم حاصل کرے اور اسے گاہے گاہے دوسروں کے سامنے بھی بیان کرتا رہے۔
ث اپنے اوپر حساب کے دن اور جواب دہی کے احساس کو غالب رکھے، کیونکہ قیامت کے دن کوئی جھوٹ باقی نہ رہ سکے گا، اور اس روز سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی، اور جھوٹ بولنے والے کے لیے اس کے اعمال، زمین، اور خود اس کے جسم سے شہادت لی جائے گی اور یہ سب اس کے جھوٹ کی گواہی دے گے۔
ث جھوٹ نہ بولنے سے زبان کی حفاظت ہوتی ہے۔ جو لوگ سچائی کو اختیار کر لیتے ہیں ان کے لیے سچ بولنا آسان اور جھوٹ بولنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ث فضول گوئی اور جھوٹ کی مجلسوں میں بیٹھنے سے احتراز، اور ان کی جگہ قرآن، ذکر، اور علم کی مجالس کو اختیار کرنا۔
ث یہ جان لینا کہ جھوٹ منافق کی صفات میں سے ہے۔
ثاس بات کا احساس کہ جھوٹ برائی اور بدی کا راستہ اور اس کا انجام جہنم ہے، جب کہ سچائی جنت کا راستہ ہے۔
ث بچوں کی تربیت کرتے ہوئے جھوٹ سے اجتناب کرنا بہت اہم ہے، یہ وہ تربیت ہے جو نئی نسل کو بچپن سے ملے تو سچوں کی نسل تیار ہوتی ہے۔بچوں کو کسی خیالی طاقت سے ڈرانا، یا انہیں جھوٹی امید دلانا یا انہیں بہلانے اور وقتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولنا جلد یا بدیر جھوٹ کی حقیقت کھول دیتا ہے اور بچوں میں بڑوں کے جھوٹا ہونے کا تاثر ہی گہرا کرتا ہے، اس سے بچنا چاہییے۔
ث جھوٹے شخص کی حیثیت دوکوڑی کی نہیں رہتی، اس طرح وہ وقتی فائدے کے لیے دنیا وآخرت کا نقصان کر لیتا ہے۔تھوڑے نقصان کو برداشت کر کے بڑے فائدے کو حاصل کرنا سچوں کا شیوہ ہے۔
جھوٹ سے اجتناب کیجیے، کیونکہ یہ بظاہر خوبصورت دکھائی دینے والا سراب ہے۔اور اس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔اگر آپ اپنی زبان کو اور عمل کو سچائی کا عادی بنا لیں گے تو آپ کو اس کی لذت محسوس ہونے لگے گی۔اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل کر لیجیے جن کے بارے میں آپ نے فرمایا:
’’یہ وہ دن ہے جب سچوں کو ان کی سچائی نفع دے گی‘‘۔ (المائدۃ،۱۱۸)٭
٭٭٭