یسریٰ اور سویرا دونوں سکول کے زمانے سے گہری دوست تھیں۔ اب کالج میں آنے کے بعد ہونے والے پہلے فنکشن کے لیے ان کی بے چینی دیدنی تھی خاص طور پر سویرا بہت بےتاب تھی ۔
’’اللہ بہت مزہ آئے گا بالکل مہندی کے فنکشن جیسا انجوائے کریں گے ۔ہر لڑکی نئے رنگ کے ڈریس میں لڈی ڈالے گی کھل کے پرفارم کریں گے موجیں ہی موجیں ….‘‘
سویرا چہک کر یسریٰ کو بتا رہی تھی ۔سجنے سنورنے کے سارے ہنر آزمائے جانے تھے۔’’میں تونا اپنے ماموں کی مہندی پہ بنایا ہؤا گولڈن کلر کا کامدار شرارہ سوٹ پہنوں گی اور تم دیکھنا کیسے سٹیپ لیتی ہوں ‘‘ سویرا نے ایکشن دکھاتے ہوئے یسریٰ سے پوچھا ۔
’’چھوڑو امی پتہ نہیں اجازت بھی دیں یا نہیں کالج میں آنے کے بعد سے تو بہت نظر میں رکھتی ہیں‘‘یسری جز بز ہوئی ۔
’’اس میں حرج ہی کیا ہے ۔گھر سے چادر لے کر ا ٓجانا ،یہاں کلاس روم میں گیٹ اپ میں آئیں گے۔ ساری لڑکیاں ہی تو ہیں کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا‘‘ سویرا نےترکیب بتائی۔
’’نہیں بھئی اگلی گلی کی دو تین لڑکیاں کالج میں پڑھتی ہیں نا وہ بتا دیں گی امی کو پتہ چل گیا ناتو قیامت آ جائے گی ‘‘ یسریٰ تذبذب میں تھی۔
’’فکرناٹ یہ کوئی مسئلہ نہیں امی کو تو ذرا اعتماد میں لو ویسے اتنا بتانے کی بھی ضرورت نہیں اگر کسی حاسد لڑکی نے مخبری کر بھی دی تو نمٹ لیں گے تھوڑی بولڈ بنو ویسے بھی کون سا وہاں پہ لڑکے ہوں گے اور شادیوں میں تو مکس ماحول ہوتا ہے وہاں تو سب چلتا ہی ہے نا‘‘۔
سویرا مسلسل اس کی ہمت بندھا رہی تھی مگر سچی بات تو یہ تھی کہ وہ بھی ایسا کرتے ہوئےسہم جاتی ۔امی سے ہر بات کرتی تھی، ٹی وی ڈرامہ بھی ساتھ دیکھنا، تفریح بھی کرنا مگر ڈانس لڈی ….وہ سوچ میں پڑ گئی۔ کالج میں بہت شرائط کے ساتھ جانے کی اجازت لی تھی صرف پڑھنے کے لیے ٹیبلو وغیرہ سکول تک تو چل گئے مگر عہد جوانی تھا اور کالج کا ذرا آزاد ماحول ۔کچھ تو جوانی ویسے ہی دیوانی ہوتی ہے کالج میں اسکول کے مقابلے میں چھوٹ ملنے لگتی ہے، جہاں مستیوں کے بے نام سے رنگ برنگے جنگل ہیں جہاں بہت سےگھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، خودنمائی کے خوشنما جال جکڑ لیتے ہیں، جرائم یہیں سے پنپنے لگتے ہیں، پھر ذات سے خاندان کی عزت کے انمول ہیرے چھن جاتے ہیں۔
پھر کیا تھا،نئے انڈین گانوں کی گونج پہ ڈالی گئی لڈیوں نے داد کی بھرمار کر دی۔ سویرا توکسی اداکارہ کی طرح پرفارم کرتی رہی۔یسریٰ بھی شامل تو تھی مگر نہ جانے کیوں یہ سب یسری ٰکو بیہودہ پن لگا تھا۔ موج مستی اور ہلا گلا کی خواہش ایک طرف مگر ایسے ماحول کی بھی وہ عادی نہ تھی۔ مگر لڑکیاں یہی کہتی رہیں شادیوں کا ماحول ہے گھروں میں بھی تو ایسا ہوتا ہے خوشی میں تھوڑا سا لہرا لیں تو کیا ہو گیا ۔ برا ہو کالج کی مخبر لڑکیوں کا جو پڑوس میں ہی رہتی تھیں انہوں نے سویرا کی امی کو شکایت لگا دی۔ سن کے دادی بھی سیخ پا ہوگئیں۔
’’ارے بھئی تم لوگ علمی ادارے میں بھیج رہے ہو لڑکی کو یا فلمی ادارے میں کہ دے چھماچھم ناچے….غضب! ابھی لڈی ڈالی ہےکل کو ٹھمکے پہ آ جائے گی نظر رکھو شرافت سے پڑھ کر گھر آئے‘‘ انہوں نے وارننگ دے دی ۔
’’اماں اب اتنا بھی نہیں غلط ہؤا مگر کہاں کہاں روکوں گی، شادیوں میں کیا نہیں ہو رہا ڈھولکی ڈانس لڈیاں اور اب تو برائیڈل شاور کیا کچھ نہیں آگیا‘‘ وہ صفائی دینے لگیں ۔
’’ ارے یہ نئے نئے جھمیلے تو اب آئے ہیں شادیاں بازاری قسم کی لگنے لگی ہیں حیا شرم سب ختم غضب ہے خدا کا‘‘دادی بولے جا رہی تھیں۔
’’مگر اماں کہاں کہاں روکیں گے‘‘ امی مجبورپڑتی بولیں۔
’’ کیا مطلب جہاں جہاں روک سکو گی روکو گی ۔عزت سے پڑھائی نمٹا کر اپنے گھر کا کرو ورنہ پچھتا ؤ گی لڑکی ذات ہے یادرکھو‘‘ دادی نے امی کو بھرپور طریقے سے ٹوک لگائی ۔یہاں امی بھی سہم گئیں۔ واقعی آج کل کیسی کیسی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کیسے کیسے حادثات ہو رہے ہیں ۔
’’ بس اماں آپ ان سے ذکر نہ کیجئے گا….سویرا کے ابو کو کچھ نہیں بتائیے گا ورنہ میرے ساتھ سویرا کی بھی شام آ جائے گی‘‘ امی کا لہجہ ملتجیانہ تھا’’بس اب چھوڑدیا بیٹا مگر تم ذرا اپنی ذمہ داری محسوس کرو سویرا کو گھر کے کاموں میں بھی لگایا کرو سب کچھ آہستہ آہستہ آتا ہے اچانک کوئی کچھ نہیں سیکھتا، تاکہ اس کا دھیان ان چیزوں سے بٹے اور لڑکی کتنا بھی پڑھ لے گھرداری ہنڈیا روٹی تو ا سے کرنی ہے اداؤں سے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔
دادی نے امی کو تنبیہ کی’’ہاں اماں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں‘‘ یسریٰ کی امی جیسے بات مان گئیں۔
بس اب ذرا سی کلاس سویرا کی بھی لگی مگر اتنی نہیں جیسے یسریٰ کی امی کی تھی۔ خود کو دکھانے حسین لگنے کی بے چین آرزو کے گمنام جنگل میں وہ خوابوں کو آنکھوں میں سجا بھی لیتی تھی اور گھر کے ماحول کی کڑی فضا اس کو وہاں بھٹکنے نہیں دیتی یہ سوچ کر کہ درندے بھی تو جنگلوں میں ہوتے ہیں نا !
’’امی آپ اپنے زمانے کے لحاظ سے سوچتی ہیں اب تو سب کھل رہا ہے‘‘ یسریٰ نے نئے رجحان کے زیر اثر بات کہہ دی۔
’’ توبہ کرو بیٹا یہ تو شیطان کھل رہا ہے اور ہر زمانے میں شرم و حیا ادب لحاظ خیر ہی خیر ہے ایمان اسی سے ہے…. سمجھی‘‘ امی رسان سے بولیں ۔
یسریٰ سمجھنے نہ سمجھنے کے درمیان ڈو لے جاتی ۔ظاہری سطحیت کے اوپر مرنے مر مٹنے کی آرزو آنکھوں پہ جھلی چڑھا دیتی ہے ۔امی کہتی تھیں سنگھار ہے تو حجاب ہے ۔ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے گھر جاؤ وہاں تمہارا راج ہوگا کھل کے سجنا سنورنا جو چاہے فیشن کرنا سنگار صرف شوہر کے لیے ہوتا ہے ، کنواری لڑکیاں معصوم اور سادہ ہی اچھی لگتی ہیں۔
وقت گزرتا گیا ۔امی کی نظریں گہری رہیں اور پڑھائی اس کے ساتھ چلتی رہی۔ اس کا بی ایس سی کمپلیٹ ہؤا ،کچھ کورسز اس کو کرنے تھے کمپیوٹر کے تو امی نے اس کو کورس بھی کرایا، گھرداری بھی سکھائی ،مگر ہزار کوشش کی باوجود وہ جاب نہیں کر سکی۔ امی اس کو اپنے گھر کا کرنے کا سوچ چکی تھیں اور اس کے لیے خوب سے خوب تر چاہتی تھیں۔پھر وہ سویرا سے پہلے ڈولی چڑھ گئی۔ چلو سجنے سنورنے کے ارمان نکالنے کا وقت تو آیا۔ عامر اوراس کے گھر والے بہت اچھے تھے ۔وہ ایک فرم میں مینیجر تھا اور اس کے گھر والے بہت شرافت اور لحاظ والے نظر آئے۔چکاچوند والی تقریبات نہیں تھیں،نہ انڈین گانوں کی گونج اورنہ کوئی اور خرافات،مگر مہمان نوازی خوش کر دینے والی ،خوش لباسی خوش اخلاقی اور ہار سنگھار کے سب اپنے ہی رنگ تھے،روکھا پن تو لگا ہی نہیں۔ شاید اسی کو تہذیب کہتے ہیں۔
سسرال میں بہت آؤ بھگت ہوئی ۔ عامر بہت زیادہ کیئرنگ شوہر مگر فلمی ماحول کہیں نہیں تھا۔ انتخاب بھی تو امی ابو کا تھا، کرم نوازی مولا والی بات سب سے اوپر تھی۔بری کے زیورات اور کپڑے بہت ہائی فائی تو نہیں تھے مگر کسی سے کم بھی نہ تھے ۔سلامیاں اور گفٹ الگ خوش کر دینے کو کافی تھے مگر ان سب سے زیادہ محبت قدر اور اعتماد کی فضا تھی مگر یسریٰ کواپنے رومینٹک ادائیں دکھانے والے خوابوں کے جنگل ویران لگنے لگے جہاں ہر لڑکی اپنی شادی پہ سپرہٹ ہیروئن ہوتی ،ہیرو کے ساتھ اسٹیج پہ لہراتی، ہال میں اندھیرا کرکے لو سین فلمائے جاتے ،عجیب شور اٹھتا جس میں وحشیانہ اظہار خوشی کیا جاتا۔ یہ ان سب شوبازیوں سے پاک الگ ہی مسرت کا ماحول تھا۔ امی ابو تو شکر کرتے نہ تھکتے۔ جتنا آرام ،خیال رکھنا سسرال میں تھا وہ ان کو مطمئن کرنے کو کافی تھا ۔
مگر ممانعتیں اپنی جگہ۔ یسریٰ کہتی ’’امی آپ کہتی تھیں نا کلی ہے چھپائی جائے گی مگر اب تو کھل کے پھول ہو گئی پھر کیوں اتنا چھپاؤں‘‘ یہ سوال رہ رہ کے اندر ہی اندر کلبلاتے ہیں۔ ماں اس کی نادان آرزوؤں کو جانتی تھی، سر میں انگلیوں سے پیار سے کنگھی کرتے ہوئے بولیں ’’یسریٰ ـ بچے نصیبوں والی ہو شکر کرو اتنا خیال کرنے والے لوگ ملے ہیں،عامر اتنا نچھاور ہونے والا ہے،ہر جگہ لے کر جاتا ہے، یہ چند پابندیاں تو تمہاری قدر و قیمت کا اظہار ہیں نا! جب ضرورتیں اتنی آسانی سے پوری ہوں تو کون جنگلوں میں بھٹکتا پھرے…. عجیب پاگل لڑکی ہو اور ناشکرا پن کررہی ہو….ارے سخت تو تمہارے ابا ہؤا کرتے تھے ،مگر اتنے ہی ذمہ دار تھے۔ ہوٹل بازی کبھی جو کر جائیں، اسی لیے میں بھی شکر اور صبر سے چلتی تھی‘‘ امی سمجھاتی رہتیں۔
ادھر سویرا نے پہلے ہی گھر بدل لیا تھا وہ اس کی شادی میں بھی نہیں آ سکی تھی۔ بس اتنا سنا تھا کہ اب کسی کمپنی میں جاب کرتی ہے۔ یسریٰ نے سنا تو آہ بھر کے رہ گئی۔ یقیناً بڑے سٹائلش انداز میں رہتی ہوگی ورکنگ لیڈی، خود مختار ،پروفیشنل زندگی، یہاں تو روایتی گھرہستن ….چلو یہ بھی غنیمت کہ گھر کی ذمہ داری بھی ساس نے پوری کیا آدھی بھی نہیں ڈالی ، جب چاہو جہاں چاہو جاؤ۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ اللہ نے پیاری سی بچی کی ذمہ داری ڈال دی تھی۔ نہیں…. ذمہ داری بوجھ تو نہیں ہوتی، بڑی نعمت ہے اور بچی کی ہو تو رحمت بھی ۔وہ پھول بنی تھی اور اب گود میں ایک ننھی کلی آگئی۔ بچی کتنی نازک کتنی پیاری تھی ،پھول کی طرح اس کی حفاظت کا کام ملا تو خود کو ظاہر کرنے منوانے کے من چلے پن سے دور کر دی گئی۔ تخلیق کا مرحلہ اور پرورش کا مرحلہ تو چھپ جانے کا تقاضا کرتا ہے، یہ سب کچھ فطری ہے۔
آج امی کے گھر سے بچی کو لے کے ویکسی نیشن کے لیے قریبی کلینک پہنچی۔ امی ساتھ تھیں، ننھی کو لیے انتظار گاہ میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک سے ایک مانوس چہرہ اسے نظر آیا۔
’’ ارے سویرا ہے یہ تو ….‘‘اس کے منہ سے اچانک نکلا ۔ امی بھی ادھر متوجہ ہوئیں۔ تبدیلی تو ظاہر تھی’’ ارے یسریٰ تم کیسی ہو؟‘‘ سویرا اسے پہچان کےآگے بڑھی اور کندھے سے لگ گئی۔
’’ تو تمھاری بھی شادی ہو گئی ماشاءاللہ کتنا عرصہ ہؤا؟ کیسی ہو کہاں رہتی ہو؟‘‘ بہت سارے سوالات جو اندر ہی اندر مچل رہے تھے وہ منہ سے نکلنے لگے۔ نمبر کے انتظار میں دونوں حال چال پوچھتی بتاتی رہیں۔ دونوں یوں اچانک ملنے پہ بہت خوش تھیں۔ ایک دوسرے سے کونٹیکٹ نمبر شیئر کیے گئے اور ملنے کی تاکید ۔
’’تم مگر اکیلی آئی ہو؟ تمہارے میاں ؟‘‘
’’ہاں وہ گاڑی نبیل لے کر جاتے ہیں رکشہ کر کے آ گئی‘‘ ۔
اس نے بتایا کہ چھے ماہ پہلے اس کی شادی ہوئی اور چوتھے مہینے میں خوشخبری مل گئی۔ پھر وہ اپنی شادی کی پکس دکھاتی رہی بڑے اسٹائلش انداز بہت خوبصورت فنکشنز سارا اسٹیج سارے انداز ہر چیز بہت رومینٹک بہت سحر زدہ فلمی سٹائل….وہ سب جو یسریٰ ہمیشہ سے چاہتی تھی۔حسرت سے تصویریں دیکھتی اور دل میں اپنی شادی کی تقریبات کو یاد کرتی رہی ۔ کیسے عجیب سے موازنے تھے ۔دکھلاوے کی دوڑیں چلنے لگیں۔اتنے میں ڈاکٹر نے سویرا کا نمبر کال کیا ۔ یسریٰ پھر ملنے اور فون پہ بات کرنے کی تاکید کرتے ہوئےاپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔
مگر امی نے اس دوران سویرا کو دعاکے بعد بس ایک بات پوچھی’’بیٹا ایسی حالت میں اکیلی آئی ہو ؟پہلی بار میں تو لڑکیوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
’’بس آنٹی نبیل آفس میں بہت مصروف ہے۔ وہ کھلے دل کا ہے، آج کل عورتیں سب کر رہی ہیں پہلے کی طرح چھوئی موئی نہیں ،اور میں تو آفس میں کام کرتی رہی ہوں ۔ان کو پتہ ہے کہ جاب والی عورتیں بہت بولڈ ہوتی ہیں‘‘۔ وہ عجیب دکھ چھپاتے ہوئے بات کو لیول کررہی تھی ۔
’’تو بیٹا ساس یا امی کو لے آتیں۔ ایسے نہیں ہوتا ہے پہلی بار میں تو بہت خیال کیا جاتا ہے چندا‘‘ وہ فکرمندی سے گویا ہوئیں۔
’’ وہ ایکچیولی ساس اپنے بڑے بیٹے کے پاس گئی ہیں ۔ ویسے بھی معمول کا چیک اپ تھا ایسا ویسا کچھ نہیں‘‘ اس نے کندھے اچکائے۔
’’دیکھو بیٹا چنچی کی سواری اور ایسی حالت میں قیامت ہے اور پھر سڑکوں کا حال دیکھا ہے کھڈے بنے ہوئے ہیں ائندہ کسی کو لے کر آنا‘‘۔
وہ آیت الکرسی اور دعائیں پڑھ کے اس پہ دم کرنے لگیں۔بیٹی کے ساتھ بیٹی کی سہیلی بھی بہت اہم ہوتی ہے نا ماؤں کے لیے، وہ اپنی بات پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔انہیں اس کو ٹائٹس میں دیکھ کر بھی پریشانی ہورہی تھی۔ایک توسویرا کا ابھرا ہؤا بدن اور اوپر سے اس کا حلیہ …. کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس مرحلے پہ خود کو لپیٹ لیتی اور کوئی آرام دہ کپڑے پہنتی۔ نئے دور کےمصنوعی تقاضے تھے شاید اور اور اعتماد کے لولی پاپ…. جوالگ مزہ رکھتے ہیں۔ مگر فطرت سے کون لڑے!
گھر واپسی کے بعد وہ یسریٰ کے آگے فکرمندی کا اظہار کرتی رہیں۔ اللہ بتاؤ پہلی خوشی کے بعد بیوی سے اتنی لاپروائی…. کوئی تو ساتھ ہوتا ۔میاں کو ٹائم نہیں تھا تو کوئی پڑوسی آ جاتا، ہمارے دور میں تو پڑوس کا م آ جاتا تھا ۔یہ کیا تک ہے بھلا ! اصل قیمت سمجھے، عزت اور حفاظت مل جائے تو اور کیا چاہیے۔ چھلکے کونہ دیکھیں مغز کو دیکھیں۔یسریٰ کو اب بات سمجھ آرہی تھی۔ کمرشل دنیا کےہیرو سویرا کے شوہرکا بھید کھل رہا تھا۔ یہ ظاہر ہے کوئی بات ہے، وہ سوچ رہی تھی۔
سویرا کے کئی میسجز آتے گئے رابطے ہونے لگے پھر کئی بار فون کرنے پر بھی رابطہ نہ ہؤا تو اس نے گھر کا نمبر ملایا۔کال اس کے شوہر نے ریسیو کی اور بتایا کہ سویرا کی طبیعت بہت خراب ہے اسے توجہ کی ضرورت تھی اس لیے وہ اپنی امی کے ہاں چلی گئی ہے۔اس نے نبیل سے ہی اس کی امی کے گھر کا پتہ پوچھا اور ایک دن ملنے چلی گئی۔
’’ لگتا ہے تم خوش نہیں ہو سویرا ….ایمانداری سے بتاؤ اتنا کھوکھلا پن کیوں نظر آتا ہے تمہارے اندر….اتنا گلیمر تھا تمہاری زندگی میں….اب کیا ہؤا؟ مجھے سچی بتاؤ کیا بات ہے‘‘۔
اس کا خول چٹخنے لگا ، قلعی اترتی گئی، سویرا کھل گئی۔
’’یسریٰ تم بہت لکی ہو آنٹی صحیح کہتی ہیں، حفاظت اور خیال کرنا، محرم کا ساتھ آنا جانا، اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنا محبت کے اصل اظہار ہیں۔ ماں بننے کے مرحلہ شروع ہؤا تو مجھے ایک نیا احساس ہونے لگا ہے…. مجھے باہر کے لوگوں کی نظریں چبھنے لگی ہیں ،جیسے اندر کوئی معصوم سی روح مجھ سے کچھ شکوہ کر رہی ہے…. اندر سے کوئی کہتا ہے مجھے چھپا لو اپنے سائے میں…. میرے پاس امانت ہے ….دنیا کی داد مجھے نہیں چاہیے ، میرا اعتماد نبیل کے ساتھ ہے، شراکت دونوں کی ہے اکیلی میری نہیں….چند خواہشات کی خاطر میں اپنے اصل حقوق سے دستبردار نہیں ہو سکتی، اس عورت کو کون جانے جو اپنے اوپر اتنی تہیں چڑھا کے چلتی ہے…. ایک پردہ ہٹانے کے بعد اس کو کتنے پردے ڈھکنے پڑتے ہیں ۔ بس مجھے ایک حصار چاہیے جیسے….جیسے تم ہو حصار میں…. تمہارے شوہر اور سسرال والوں نے تمھیں ایک مقام دے کر رکھا ہے….تمہیں اس حالت میں دنیا کی نظروں سے، سردوگرم سے بچایا ہے…. یہ سارے حقوق مجھے بھی چاہئیں۔ نبیل سے کہنے لگی ہوں کہ میں فی الحال تو امی کے پاس آرام کے لیے آئی ہوں لیکن ذمہ داری آپ کی ہوں….یہاں رہوں یا وہاں میں اکیلی نہیں جا سکتی، مجھے کیئر کی ضرورت ہے۔ اس دن میں کس طرح گھر پہنچی ہوں…. مجھے ہر نظر اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہوتی رہی۔ شاید کوئی نئی روح کا شکوہ ہؤا تھا جو میرے اندر ہے میرے پاس امانت کے طور پر ہے‘‘۔
وہ سانس لینے کو ذرا رکی۔پھر گویا ہوئی۔
’’پتہ ہے یسریٰ! مجھے احساس ہؤا کہ ہر نظر کو مائل کرنے والی عورت اپنی دشمن آپ ہے….ایک نشہ کہ میں ہی میں ہوں، مگر اندر سے بہت بے بس….خود کے بے جا اظہار میں اس کا اصل جوہر کھو جاتا ہے اور اس سے یہ چیزیں بہت بڑا خراج مانگتی ہیں….گھر کا حصار،محرم کا ساتھ اسے معتبر کرتا ہے…. نبیل مجھے بولڈ عورت کہہ کر لاپروا ہوگئے ہیں….حسین چہروں کے ساتھ بے تکلف ہو کر مجھے اگنور کرتے ہیں….اس حالت میں تو عورت بہت حساس ہو جاتی ہے، ایک بڑی امانت کا بوجھ اٹھا رہی ہوتی ہے….ایک بے حدمقدس بوجھ !‘‘
یسریٰ ننھی سارا کو گود میں لیے اس کی معصوم مسکان میں ایک اشارہ دیکھ رہی تھی۔ ایسا اشارہ جو خود اس کے ذہن کی گرہ کھول رہا تھا۔ وہ خاموشی سے سوچ رہی تھی کہ خودنمائی کی تمنا عجیب سمندر ہے، جس میں سوار کو ذمہ دار ناخدا نہ ملے تو نہ ساحل کاپتہ چلے نہ سمت مل پائے، کشتی ڈانواں ڈول ہوتی رہے، تھکادینے والے بے مقصد سفر کاانجام غرقاب ہونا ہے۔ کتنا ہیبت ناک انجام ہے!شکر ہے اللہ نے برے انجام سے کافی پہلے سویرا کی آنکھیں کھول دی ہیں۔٭