ٹھٹھرتا ہؤا موسم سرما آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا تھا جس کی وجہ سے سورج کی شرماہٹ میں کمی آ رہی تھی اور اس کا اعتماد بحال ہو رہا تھا ۔ لہذا اب وہ کہر میں آنکھ مچولی کھیلنے کی بجائے اپنی تمازت کے ساتھ ہنستا مسکراتا سر عام نظر آتا تھا۔نرم دھوپ نے ہر چیز کو جلا بخش کر ماحول کو خوب صورت بنا دیا۔ درختوں میں جان پڑنے لگی ڈالیاں لہرانے لگیں۔ ان پر لگے رنگ رنگ کے پھول مسکرانے لگے۔ پرندوں کے گیتوں نے فضا میں ترنم گھول دیا۔
مکین جو دو ماہ سے گھروں میں سخت سردی کی وجہ سے دبکے بیٹھے تھے، وہ اس طلسماتی ماحول سے لطف اندوز ہونے کے لیے گھروں سے نکلنے لگے۔
تنویلہ اور سمیر، دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچوں کو لے کر پارک آئے تھے۔ تنویلہ کے میاں کی کاروباری مصروفیت، اس لیے وہ ان کے ساتھ نہ آسکا اور سمیر کی بیوی کو اپنی کسی سہیلی کے ہاں جانا پڑ گیا۔
ماموں پھوپھو کے بچے ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھیلنا شروع کر دیا۔
پارک دونوں کے گھروں کے درمیانی فاصلے پر واقع تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر قریب قریب تھے بلکہ ان کے درمیان 40 کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔لہٰذا دونوں تقریباً بیس بیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اس پارک تک آئے تھے۔ وہ دونوں بہن بھائی بچوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کیا۔ حقیقی خوشی دونوں کے چہروں پر عیاں تھی۔ سمیر محبت و شفقت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔
’’تنویلہ….. بہن ایک سال بھی چھوٹی ہو تو وہ بیٹی کی طرح ہوتی ہے۔ اس طرح تم بھی میری چھوٹی بہن ہی نہیں بیٹی بھی ہو ۔ کبھی ہماری طرف بھی آ جایا کرو ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی مہینوں سے ہوتے ہوتے اب سالوں پر آ گئی ہو۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ آخری بار میرے گھر میں تقریباً سوا سال پہلے آئی تھی‘‘ ۔
’’ بھائی کیا کروں؟ بچوں میں وقت ہی نہیں ملتا آنے کا….. ان کے منتھلی ختم نہیں ہوتے کہ گرینڈ ٹیسٹ شروع ہو جاتے ہیں اور پھر فوراً فائنل امتحان…..بس ایسے ہی ….. کوشش بھی کروں تو گھر سے نکلا نہیں جاتا۔ لیکن بھائی آپ بچوں کے ساتھ جلدی چکر لگا لیا کریں میں آپ سے بہت اداس ہو جاتی ہوں‘‘۔
تنویلہ نے بڑی مہارت سے حلق میں اٹکے آنسو نگل لیے لیکن آواز کی گلو گیری بھائی سے چھپانے میں ناکام ہو گئی۔
سمیر متفکر نظروں سے بہن کو دیکھنے لگا اور بڑی محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’تنویلہ….. ہمارے گھر نہ آنے کی وجہ تمہاری مصروفیات نہیں۔ چل شاباش گڑیا….. سچ سچ بتا کیوں نہیں آتی اپنے میکہ گھر میں‘‘۔
’’بھائی کوئی وجہ نہیں….. بس ادھر جانے سے امی کی یاد زیادہ آتی ہے، صرف یہی وجہ ہے‘‘۔
تنویلہ نے بھائی کو ٹال کر اپنے چہرے پر زبردستی والی مسکراہٹ سجا لی۔
٭ ٭ ٭
تنویلہ کا مختصر سا کنبہ والدین، دو بھائیوں اور ایک بہن پر مشتمل تھا۔ تنویلہ دونوں بھائیوں سے چھوٹی تھی لیکن والدین نے بڑے بیٹے کی شادی کے ساتھ ہی تنویلہ کی شادی بھی کر دی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ نند بھابھی کا نازک رشتہ ہوتا ہے، ایک جگہ پر رہتے ہوئے کھٹ پٹ کا اندیشہ رہتا ہے۔
شادی کے بعد تنویلہ کا میکہ گھر میں ماہ ڈیڑھ ماہ بعد ہی چکر لگتا اور وہ بھی صرف ایک رات دن رہنے کے لیے آتی۔امی، ابو سے ملے ابھی بیس پچیس دن ہی گزرتے کہ ان کی طرف سے فون آنے شروع ہو جاتےکہ ہمیں ملنے کب آنا ہے؟ جلدی آ جاؤ ہمارا بچوں سے دل اداس ہو گیا ہے۔
زیادہ دن رہنے کے لیے تنویلہ کبھی نہ گئی ۔ صرف ایک بار بچوں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں امی ابو کے اصرار کی وجہ سے چند روز میکہ گھر میں رہنے کا ارادہ کیا۔
جس شام وہ گئی ،اگلی صبح ناشتے سے پہلے ہی بھابھی اپنے میکے جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ تنویلہ کا تو خیال تھا کہ وہ امی، ابو اور بھائیوں کے ساتھ ساتھ چند دن بھابھی کے ساتھ بھی گذارے گی کیونکہ شادی کے بعد کبھی زیادہ اکٹھے رہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔
تنویلہ کو بھابھی کا یہ رویہ عجیب سا لگا وہ دل مسوس کر رہ گئی لیکن پھر یہ سوچ کر اپنے منفی خیال کو جھٹکا کہ ہو سکتا ہے ، بھابھی کا پہلے سے ہی جانے کا پروگرام ہو۔
اسی اثنا میں دوسرے بھائی کی بھی شادی ہو گئی۔ تنویلہ بھابھیوں کی طرف سے سرد مہری محسوس کر لیتی لیکن ان سے کبھی نہ بگاڑی۔ آنا پہلے کی نسبت بھی کم کر دیا۔
جب تک والدین موجود رہے اپنا فرض سمجھ کر ان کی زیارت کے لیے آتی رہی۔ سارا دن ان کے ساتھ گزارتی اور شام کو گھر واپس آ جاتی۔ جب صرف دو ماہ کے وقفے سے ماں اور باپ، دونوں دنیا سے رخصت ہوگئےتو اس کی دنیا ہی اجاڑ ہو گئی۔ویسے بھی بیٹیوں کو والدین کے بغیر میکہ گھر سونا سونا اور اجنبی لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ والدین کے بعد بھائیوں کے کہنے پر وہ دو چار مرتبہ میکے ضرور گئی لیکن جلد ہی وہ نہ جانے کے لیے بہانے ڈھونڈنے لگی۔ ہر بار کوئی نیا بہانہ۔
٭ ٭ ٭
سمیر کی بیوی ریحانہ بچوں کو پہنانے کے لیے بہتر سے بہترین کپڑوں کا انتخاب کر رہی تھی۔ خوشی خوشی اپنی اور بچوں کی تیاری مکمل کی۔ بچے خوشی میں تتلیوں کی مانند اڑتے اور چڑیوں کی طرح پھدکتے پھر رہے تھے کیونکہ وہ اپنی نانو کے گھر جا رہے تھے۔ راستے میں ریحانہ نے اپنی امی کے لیے پھل اور بھائی کے بچوں کے لیے پیزا اور کوکیز خریدے۔
میکہ گھر جانے کی کتنی خوشی ہوتی ہے؟ اس وقت ریحانہ سے زیادہ کسے معلوم تھا۔ اس کے منہ سے بات بات پہ قہقہے برس رہے تھے۔ گاڑی کے رکتے ہی بچےجلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکل کھڑے ہوئے اور لگے نانو گھر کی بیل بجانے۔
’’ کیوں سمیر صاحب آپ اندر نہیں آ رہے؟ ‘‘
ریحانہ نے سمیر سے پوچھا جب دیکھا کہ اس کے گاڑی سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
’’ نہیں ریحانہ مجھے ضروری کام ہے اور جلد وہاں پہنچنا ہے‘‘۔
’’امی سے تو ملتے جائیں‘‘۔
’’میں شام کو آپ لوگوں کو لے جاؤں گا اور امی سے بھی تب ہی مل لوں گا‘‘۔
’’ نہیں نہیں سمیر صاحب میں اتنے دنوں بعد ادھر آئی ہوں آج کیسے واپس چلی جاؤں؟ کل شام کو آئیے گا‘‘۔
’’جی جناب جیسے آپ کی مرضی‘‘۔
سمیر نے مسکراتے ہوئے کہا اور گاڑی آگے کی طرف بڑھا دی۔
ریحانہ کو معلوم ہؤا کہ امی باورچی خانہ میں ہیں تو انہیں ملنے کے لیے وہیں چلی گئی۔ دونوں ماں بیٹی فرطِ محبت سے ایک دوسرے کے گلے لگیں۔
’’ امی آپ کا جسم تو گرم ہے۔ آپ بخار کی کیفیت میں کیوں کام کر رہی ہیں؟ بھابھی کہاں ہیں؟‘‘
’’ تمہاری بھابھی کے سر میں تو شدید درد ہے اور وہ اوپر آرام کر رہی ہے‘‘۔
’’ ویسے میں نے محسوس کیا ہےکہ جب میری کسی بیٹی نے آنا ہو بہو رانی کی کوئی نہ کوئی بیماری بھی ساتھ ہی آتی ہے۔ پروین کو میں نے صفائیاں کرنے پر لگا دیا اور خود باورچی خانے میں آ گئی۔ میں نے سوچا کہ آپ لوگوں کےلیے کچھ بنا لوں‘‘۔
والدہ بیچاری بیماری، غصے ارو دکھ کی کیفیت میں تپ رہی تھی۔
’’آئیں امی آپ آرام کریں۔ بچوں نے جو کھانا ہو گا میں خود بنا لوں گی‘‘۔
ریحانہ نے والدہ کو دو پیناڈول کی گولیاں کھلا کر اسے اس کے بستر میں لٹا دیا۔ بچوں کو نانو کے کمرے میں ہی کارٹون لگا دیے اور وہ خود بھابھی سے ملنے اوپر والے پورشن میں چلی گئی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر ابھی تھوڑا سا آگے کی طرف بڑھی کہ بھابھی کی آواز اس کے کانوں میں پڑھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے قدم وہیں رک گئے ۔ بھابھی ملازمہ سکینہ سے کہہ رہی تھی ۔
’’ ویسے اس مائی سے کچھ ہو نہ ہو لیکن بیٹی کے آنے پر کیسے چاق وچوبند ہو گئی ہے۔ کرے….. اپنی بیٹی کے لیے کر رہی ہے میرے پر کوئی احسان نہیں کر رہی….. میرے سے نہیں ہوتیں یہ روز روز کی مہمان نوازیاں‘‘ ۔
مزید سننے کی شاید ریحانہ کے اندر سکت نہ تھی ۔وہ بھابھی سے ملے بغیر الٹے پاؤں نیچے واپس آ گئی اور آتے ہی سمیر کوفون کر دیا۔
’’سمیر….. آج مجھے شام سے پہلے ہی لے جانا۔ میں پھر کبھی آ کر رہ لوں گی‘‘۔
ماں کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دیکھا۔ دوائی کھانے کی وجہ سے ان کا بخار کچھ کم ہؤا تھا اور اسی سکون میں وہ نیند کی کیفیت میں چلی گئی تھی ۔ ریحانہ کھانا تیار کرنے باورچی خانے کی طرف چلی گئی کہ اگر کھانا کھائے بغیر چلی گئی تو ماں غمگین ہو گی۔
واپسی پر سمیر، ریحانہ کی خاموش اداسی سمجھنے سے قاصر تھا۔ جھٹکا اسے اس وقت لگا جب ریحانہ نے کہا۔
’’سمیر صاحب…..تنویلہ کو اپنے میکہ گھر آئے کتنی دیر ہو چکی ہے۔ ان لوگوں کی دعوت کرتے ہیں اور ساتھ تاکید کرنی ہے کہ اس بار کم از کم دو چار دن ہمارے پاس رہ کر جائے۔ چلیں مارکیٹ کی طرف گاڑی موڑیں تنویلہ اور بچوں کے لیے تحائف بھی لے کر جاتے ہیں‘‘۔
وجہ جو بھی تھی لیکن خوش آئند تھی۔ سمیر نے خوشیوں اور تشکر میں شرابور دل کے ساتھ گاڑی مارکیٹ کی طرف موڑ دی۔
٭ ٭ ٭