اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر اپنی نعمت کا اتمام اور اس کے کمال کا ایک اظہار اسے روزے کی فرضیت کا عطا فرمانا ہے۔ایک مہینے کے روزے اس کے لیے تقرب الی اللہ اور رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی‘‘۔ (البقرۃ، ۱۸۳)
سورۃ البقرۃ کو سورۃ الاحکام والمسائل بھی کہا جاتا ہے، اس میں معاشرت کے احکام بھی ہیں اور معاملات کے بھی، عبادت اور معیشت کے بھی۔ یہاں عبادات میں سے روزے کی فرضیت اور اس کے احکام بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فرائض اور تکلیفات پر عمل کے لیے انسان کے نفس کو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، ان احکامات پر عمل کے لیے اس میں سپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت تھی تاکہ اس کی روح مطمئن ہو کر ان احکامات کی جانب مائل ہو جائے، اسی خاطر یا ایھا الذین آمنوا کہ کر بڑی محبت سے پکارا گیا ہے۔’’تم پر روزے فرض کر دیے گئے ہیں‘‘۔اور یہ تمام گزشتہ انبیا علیہم السلام کی امتوں پر بھی فرض تھے۔ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی امت خالی نہیں رہی اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا۔
’’لعلکم تتقون‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے روزے کی حکمت اور مقصود بھی بیان کر دیا۔اوّل و آخر کے تمام انسانوں سے مطلوب صفت ’’تقویٰ‘‘ کی صفت ہے۔ یعنی جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہوتا ہے۔ یہ تقویٰ ہی ہے جو انسانوں کے دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اسے ایسی معصیت سے بھی بچاتا ہے ، جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو۔
تقویٰ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جواب دہی سے ڈر کرانسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچے، یعنی انسان کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ میرا اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، ایک دن مجھے اس کے سامنے پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب بھی دینا ہے۔ اس بات کا احساس ہو تو انسان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتا، اسی کو تقویٰ کہتے ہیں۔ (آسان تفسیر ِ قرآن، مفتی محمد تقی عثمانی، ج۲،ص۱۲۳)
بندے کو ہر وقت یہ احساس رہنا چاہیے کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کے دائرے سے باہر نہ نکلے، لیکن انسان جلد ہی بھول جاتا ہے۔ اسی لیے اسے تقویٰ کی تربیت کے لیے ایک پورا مہینہ دیا گیا۔جس میں روز مرہ کی مشغولیات کا شیڈول تبدیل ہو جاتا ہے، بالکل ایسے جس طرح اس نے کسی تربیتی کورس میں داخلہ لے لیا ہو، جہاں اس کی روحانی اور جسمانی تربیت کا خاص نظام وضع کیا گیا ہو۔جس میں کچھ چیزوں سے روک دیا گیا ہو اور کچھ اضافی کام عائد کر دیے جائیں۔
رمضان میں بندہء مومن کی عجب کیفیت ہوتی ہے، بندے اور رب کا ایسا تعلق استوار ہوتا ہے جو کسی اور طرح نہیں ہوتا۔ یہ ایک مخفی عبادت ہے۔ روزہ ٹوٹ جانے کے احوال بندہ اور رب ہی جانتا ہے۔ پھر روزے دار کے لیے رمضان المبارک کے پورے مہینے میں ایسی رحمتیں اور برکتیں رکھ دی گئی ہیں جو اس کو قدم قدم پر سرشار رکھتی ہیں، مغفرت کی ایسی خوشخبریاں جو اس کے دل، زبان اور اعضاء و جوارح کو مستعد اور متوجہ رکھتی ہیں۔ اور ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا‘‘۔ (حدیث) اس تعلق کو دوآتشہ کر دیتا ہے، گویا بھوک پیاس اور خواہشات پر قدغن اندر سے سرشار کر دیتی ہے کہ ’’اے رب! یہ تیرے لیے ہے‘‘۔
دن کی بھوک پیاس کے بعدرات کا قیام ’’قیام اللیل‘‘ اس کے قدم مسجد اور مصلے کی جانب بڑھاتے ہیں، اور رسول اللہ ؐ کی حدیث اس کے اندر کے چوکیدار کو بیدار کر دیتی ہے۔ ’’کتنے ہی روزے دار ہیں جنھیں روزہ بھوک پیاس کے سوا ، اور رات کا قیال رت جگے کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیتا‘‘۔ (حدیث)
روزہ اخلاق و کردار کا مصلح بھی ہے، آپؐ کی حدیث سماعتوں سے ٹکراتی ہے: ’’جس نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور چھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا، اللہ کو اسے بھوکا پیاسا رکھنے کی کوئی حاجت نہیں‘‘۔
آپؐ فیاض تھے مگر رمضان میں آپؐ کی فیاضی کسی بہتے دریا کی مانند ہو جاتی تھی۔
گویا رمضان تربیت کی ایسی کٹھالی ہے جو تقویٰ کے حصول کے لیے کوشاں شخص کو کندن بنا ڈالتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے جب اپنی بندگی کا حکم دیا تو اس کا مقصد بھی تقویٰ کا حصول قرار دیا، ارشاد الٰہی ہے:
’’لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے، تاکہ تم مقی بن جاؤ‘‘۔ (البقرۃ،۲۱)
یعنی تم انسانی زندگی کا وہ نقشہ اختیار کر لو جو پسندیدہ ہے، اور جو اللہ کو پسند ہے۔یعنی اللہ کی بندگی کرنے والوں اور اور اس سے ڈرنے والوں کا نقشِ حیات، جنھوں نے اللہ کی خالقیت اور ربوبیت کا حق صحیح طرح ادا کر دیا۔یہ قرآن ’’ھدی للمتّقین‘‘ ہے۔
تقویٰ میں عمل کی نسبت کیفیت اور حال کا پہلو اگرچہ زیادہ نمایاں ہے اور اس پہلو سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں نفی اثبات پر غالب ہے، لیکن چونکہ یہ دل کی تندرستی کی دلیل ہے اور دل تندرست ہو تو سب کچھ تندرست ہے، اس وجہ سے اس سے علم اور عمل دونوں کے سوتے پھو ٹتے ہیں۔(تدبر القرآن، امین احسن اصلاحی، ج۱،ص۸۹)
قرآن کے اولین مخاطب صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین تھے۔وہ تقویٰ کے مفہوم سے بھی واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے۔ اس لیے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا۔ وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصولِ تقویٰ کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اس لیے یہ فرض کیا گیا۔دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے۔یوں لگتا ہے کہ یہاں قرآن مجید ، ایک بلند مقام پر، بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہلِ ایمان کی آنکھیں اس نشان پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اور روزے کی امداد سے وہاں تک پہنچنے کے لیے کوشان نظر آتے ہیں۔ ’’لعلکم تتقون‘‘۔تاکہ تم ڈرو۔
قرآنِ کریم میں تقویٰ کا لفظ ۲۵۸ مرتبہ فعل کے صیغے میں استعمال ہوا ہے، جیسے ’’اتقوا اللہ‘‘ (اللہ سے ڈرو‘‘ اور ۷۶ مرتبہ اسم کے طور پر، جیسے ’’فانّ خیر الزّاد التقویٰٰ‘‘۔
قرآنِ کریم کی بعض سورتوں میں تقویٰ کا ذکر ایک مرتبہ آیا ہے، بعض میںدو، تین یا اس سے زائد مرتبہ، سورۃ البقرۃ میں ۳۱ مرتبہ تقویٰ کا ذکر وارد ہؤا ہے، اور بعض ایسی سورتیں بھی ہیں جن میں تقویٰ کا ذکر موجود نہیں، جیسے؛ سورۃ سبا اور فاطر وغیرہ۔
متقی کا مفہوم
متقی کا لفظ’’ اتقاء‘‘ سے ہے، اور یہ قرآن کریم میں کئی معانی میں استعمال ہؤا ہے؛ جیسے:
(۱) جس چیز سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اس سے بچنا؛ ’’اگر تم نے ماننے سے انکار کیا تو اس دن کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘۔ (المزمل،۱۷)
(۲ )کسی آفت کے ظہور سے اندیشہ ناک رہنا؛ ’’اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر انھیں کے لیے نہ رہے گی جنھوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو‘‘۔ (الانفال،۲۵)
(۳) اس رب ِ قدوس سے برابر لرزتے اور کانپتے رہنا جو اپنے شکر گزار اور وفادار بندوں پر رحم فرماتا ہے، جو کفر و معصیت کو ناپسند فرماتا ہے: ’’جو لوگ اپنے پروردگار سے برابر ڈرتے رہے ، ان کو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا‘‘۔ (الزمر، ۷۳)
(۴) اس کا چوتھا مفہوم گزشتہ تینوں مفاہیم کا جامع ہے۔ یعنی گناہ سے، اس کے برے نتائج اور خدا کے غضب سے بچتے رہنا۔اسی چیز کو تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے: ’’اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے‘‘۔ (آلِ عمران،۱۷۹)
اس تشریح کی روشنی میں متقی وہ شخص ہو گا جس کے دل میں خدا کی عظمت اور اس کے غضب کا خوف سمایا ہوا ہو اور جس کو گناہوں کے نتائج کا پورا پورا احساس ہو۔ (تدبر القرآن، ج۱،ص۸۹)
تقویٰ ، حسنات اور اجر کے اضافے کا ذریعہ
متقین کی نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں اور ان کے اجر اور مراتب میں اضافے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو(اس کا تقویٰ اختیار کرو) اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تمھیں رحمت کا دوہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمھیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمھارے قصور معاف کر دے گا۔ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے‘‘۔ (الحدید،۲۸)
ہمارے برے اخلاق ہی ہمیں برائی ،ظلم اور تباہی کی جانب لے کر جاتے ہیں، جب بندہ اللہ سے ڈر کر زندگی گزارنے لگے، تو اللہ اسے وہ نور عطا کر دیتا ہے جس میں زندگی کی آسانیوں اور مشکلات میں زندگی کا سفر اللہ کی خاص رحمت میں گزرتا ہے، اور اس کی مغفرت شاملِ حال رہتی ہے، اور اللہ خطائیں معاف فرماتا ہے۔جب تقویٰ نہ رہے تو انسان اللہ اور گناہوں پر اس کی پکڑ اور اس کے مکر سے بے خوف ہو جاتا ہے۔اور اس کے اندر شخصی طور پر بھی اور ایسے لوگوں کے معاشرے میں اجتماعی طور پر بھی فسق پروان چڑھنے لگتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں (فسق) کرنے لگتے ہیں۔ تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر دیتے ہیں‘‘۔ (اسراء،۱۶)
جب لوگ اللہ کی نعمتوں کو پا کر شکر گزاری کے بجائے نافرمانی اور بے لگام عیش پرستی کا راستہ اپناتے ہیں، اور ان میں بے راہ روی اور فحاشی پھیل جاتی ہے۔ اور وہ اللہ کے احکامات کو سرِ عام پامال کرتے ہیں، تو اس میں امت کا اجتماعی نظام ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ اس میں زندگی، قوت اور ترقی کے عناصر ختم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یوں وہ امت آخر کار تباہ وبرباد ہو جاتی ہے۔ قرونِ اولیٰ سے حضرت نوحؑ کے بعد اللہ کی یہ سنت جاری ہے کہ جب کسی امت میں فسق و فجور عام ہوا، وہ ہلاک ہوئی۔اور اللہ اپنے بندوں کی بد اعمالیوں سے اچھی طرح خبردار ہے۔
امتِ مسلمہ کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامیاب بنانے کے لیے، اور ان کے نھوض کے لیے تقویٰ کی صفت درکار ہے۔
قرآن شھر ِ رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا،اس کا حکم ، اور اس کی آیات کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے فرمائی، اور آیات ۱۸۲ ’’لعلکم تتقون، اور ۱۸۷ ’’لعلھم یتقون‘‘، دونوں میں اس کی غایت تقویٰ کا حصول بیان فرمائی۔
قرآن اہلِ تقویٰ ہی کے لیے ہے، فرمایا: ’’درحقیقت یہ پرہیز گار (متقی) لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے‘‘۔ (الحاقہ،۴۸)
یعنی قرآن ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو غلط روی اور اس کے برے نتائج سے بچنا چاہتے ہیں۔جن کے دل میں جواب دہی کا خوف ہو، اور قرآن انہیں یاد دلا دے کہ اسے بھی یاد کرو، اور دلوں کو اس پر ابھارے۔جو دل سرے سے ڈرتے ہی نہیں، وہ غافل، اندھے اور مسخ شدہ ہیں۔ وہ نورِ معرفت اور نصیحت سے محروم ہیں۔ اور قرآن بھی ان کے لیے مفید نہیں ہے۔
تقویٰ ہی عبادات کی ادائیگی میں قلبِ مومن کو یکسوئی عطا کرتا ہے، اور تمام ارکان اور افعال کو درست طریقے سے انجام دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔روزہ نفس کشی کا نام نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو بھوکا پیاسا رکھ کر روحانیت کے بلند معیار تک پہنچ جائے بلکہ یہ ایک شعوری عمل ہے۔ بندہ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے، اور ہر عمل کرتے ہوئے دیکھے کہ اللہ اس سے خوش ہو رہا ہے یا ناراض۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں متقین ہی کا انجام بخیر ہو گا، ارشادِ الٰہی ہے:
’’وہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے‘‘۔ (القصص،۸۳)
آخرت میں نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا ملے گی، اور یہ بات اللہ نے اپنے اوپر لکھ دی ہے کہ نیکیوں کا اجر کئی گنا ملے گا، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے ایک دانے سے دی جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے۔ یعنی اللہ کی راہ میں ایک دانہ اخلاص سے خرچ کر دیا جائے تو اس میں سات سو دانے تک لگ جاتے ہیں، اور اللہ جسے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔
رمضان المبارک کی نیکیوں کو بھی اللہ تعالیٰ اس سے بڑھا چلا کر اجر دیتا ہے، اس مہینے میں کیے گئے ہر فرض کا اجر ۷۰فرضوں کے برابر ہے اور ہر نفل کا اجر فرض کے مطابق۔اور اللہ نے برائیوں کی سزا ان کے برابر ہی رکھی ہے، اس میں اضافہ نہ ہو گا، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی رحیمانہ شان!!
اہلِ تقویٰ کا ٹھکانا
’’حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے، وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمھیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی ملے گی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے‘‘۔ (آلِ عمران،۱۵)
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل التقویٰ مومنین کو خوشخبری دی جا رہی ہے۔ نعیمِ اخروی بھی عموماً انسانی خواہش ہی سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کے اور اس دنیاوی انعام و اکرام کے درمیان ایک بہت ہی بڑا فرق بھی ہے۔ یہ ایک ایسا سازو سامان ہے جس تک صرف ان لوگوں کی رسائی ہو گی، جو اس دنیا میں اہلِ تقویٰ تھے۔جن کے سینے اللہ کے خوف سے بھرے تھے، اور ان کے دل یادِ الٰہی سے معمور تھے، کیونکہ اللہ کا تقویٰ بیک وقت روحانی اور حسی دنیا کی اصلاح کرتا ہے۔وہ انسان کی حفاظت کرتا ہے کہ وہ دنیا کی مرغوبات میں مستغرق نہ ہو جائے، بلکہ آخرت کی نعمتوں کی تمنا اور تیاری کرے۔
جنت میں لازوال نعمتیں اور عیش کا ایسا سامان ہو گا جو لذت اور لطف کے کمال درجے پر ہو گا، اور وہاں پر سازوسامان سے بھی ایک عظیم نعمت ہو گی، یعنی ربِّ ذو الجلال کی رضا مندی!! اور یہ رضامندی اس قدر عظیم نعمت ہے جو اس پوری دنیا کی شھوات پور پور آخرت کی مرغوبات پر بھاری ہے۔ اور رضوان کا لفظ بھی کتنا تروتازہ ہے۔ انس و محبت کی خوشبو لیے ہوئے!!اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔خوب جانتا ہے کہ بندے میں کیا کیا میلانات ہیں اور اس فطرت کو کن کن ہدایات کی ضرورت ہے۔(فی ظلال القرآن)
’’جو بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا، اور برائی سے بچ کر رہے گا وہ اللہ کا محبوب بنے گا، متقی لوگ اللہ کو پسند ہیں‘‘۔ (آل عمران،۷۶)
یعنی اللہ کو وہی لوگ محبوب ہیں جو اپنے معاملات سچائی، اخلاص اوروفائے عہد کے ساتھ چلاتے ہیں۔ وہی اللہ کے مقرّب بندے ہوں گے، انھیں کی طرف نظرِ عنایت ہو گی۔ اور تھوڑا بہت گناہوں کا میل دنیا میں انھیں لگ گیا ہے، انہیں اللہ معاف کر کے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے مہینے میں تقویٰ کی بہترین ٹریننگ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور باقی زندگی پر اس کا گہرا نقش عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے روز باب الریان سے جنت میں داخل فرمائے، جو روزہ داروں کا خاص دروازہ ہے۔ آمین
٭٭٭