بتول فروری ۲۰۲۵تبصرہ کتب ۔ ثمن عباس

تبصرہ کتب ۔ ثمن عباس

نام کتاب:نقش گر(افسانے)
مصنف:محمد حامد سراج
پبلشرز : بک کارنر جہلم
صفحات : 208
قیمت: 600 روپے
سر اٹھاتی ہے وہ تجدید کی خواہش مجھ میں
نقش گر سوچنے لگتا ہے دوبارہ مجھ کو
ہر تحریر کے پس منظر میں ایک اور کہانی ضرور چھپی ہوتی ہے۔یہ مصنف پرمنحصر ہے کہ وہ اپنی لکھاوٹ کی بنت میں سچائی کی گہرائی اور گیرائی کو شامل کرتا ہے یا مبالغہ آرائی کا سہارا لیتے ہوئے خود کو بازی گر دکھانے کی کوشش میں منہمک نظر آتا ہے ۔ ایک افسانہ نگار کی شخصیت اور سوانح سے واقفیت حاصل کرنا از حد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر اس کی تخلیقات اور عہد تک مکمل رسائی ناممکن امر ہے ۔
محمد حامد سراج کا تعلق میانوالی کے معروف قصبہ کندیاں کے قریب بستی خانقاہ سراجیہ سےتھا۔مصنف کا حسب نسب صوفیا اور اولیاء کے خاندان سے تھا ان کے پڑدادا ابوالسعد احمد خان خانقاہ سراجیہ کے بانی تھے ۔ ان کے والد محمد عارف عالم دین تھے اور والدہ رضیہ بی بی متقی خاتون تھیں ۔علامہ محمد اقبال نے اپنی والدہ کی وفات پر دکھ کے اظہار کے لیے والدہ مرحومہ کے عنوان سے نظم موزوں کی اور محمد حامد سراج نے اپنی والدہ سے انسیت ظاہر کرنے کے لیے اردو ادب کا طویل خاکہ ’’میا‘‘ کے عنوان سے مرقوم کیا اس خاکے کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی ۔
محمد حامد سراج کو شاعری سے رغبت تھی لیکن نثری میلان کو تقویت بخشی ۔ ان کے چار افسانوی مجموعے،وقت کی فصیل، چوب دار ، برادہ ، برائے فروخت اور بخیہ گری کے نام سے شائع ہوئے۔ ایک ناولٹ آشوب گاہ ،نامور ادیبوں کی آپ بیتیاں ، مشاہیر علم و ادب کی آپ بیتیاں اور بادشاہوں کی آپ بیتیاں ایسی شان دار کتب اردو ادب کو دان کیں ۔
کتاب نقش گر کی نقش گری بک کارنر جہلم سے امر شاہد کی ایما پر ہوئی ۔ پچیس افسانوں کو حامد سراج کی پسندیدگی پر منتخب کر کے شامل کیا گیا۔ اس کتاب کا دیباچہ رانچی ہندوستان سے ڈاکٹر غالب نشترنے’’ اور پھر بیان اپنا ‘‘کے عنوان سے لکھا . کتاب کا پیش لفظ حامد سراج نے ’’ چند سکے اور رسیدیں ‘‘ کے عنوان سے لکھا ۔
نقش گر میں شامل پہلا افسانہ گلوبل ویلج کے عنوان سے ہے۔ گلوبل ویلج یعنی عالمی گاؤں۔ اس افسانے میں سیاسی صورتحال اور ٹیکنالوجی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عالمی طاقتوں کا اثر و رسوخ ایٹمی دھماکوں تک پہنچ چکا ہے جس کی زد میں پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ہیں۔ سپر پاورز اپنی طاقت کے بل بوتے پر نسل انسانی کو ختم کرنے کے درپے ہے خواہ ایٹمی طاقت کا استعمال ہو ، IMF یا ورلڈ بینک کے ذریعے معاشی کنگالی کی صورت بھی ہو سکتی ہے اس تمام صورتحال سے اس مردہ قوم کی طرف اشارہ ملتا ہے جس کا ذکر علامہ محمد اقبال نے نظم ’’غلاموں کی نماز‘‘ میں کیا ہے ۔ترقی یافتہ ممالک پسماندہ ممالک کو ایک ڈوری والا کھلونا بنا کر استعمال کر رہےہیں۔ وہ جیسے کھینچیں گی، ویسا ہی کھنچتا چلا جائے گا۔ یہ افسانہ ایسی پسماندہ قوم پر طنز ہےجو جذبہ عمل کی بجائے کسی معجزے کے انتظار میں دن ، سال اور صدیاں گزارتی ہے ۔ بستی کا آخری بینا شخص اپنی آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھیر لیتا ہے۔
اس کتاب میں شامل دوسرا افسانہ ’’نقش گر‘‘ مصوری کے فن کی مدح اور مصنف کی سوچ کے محور کو آشکار کرتا ہے۔ وہ فکشن میں بڑھتی ہوئی جنس نگاری کے فیشن کا حصہ نہیں بنتے۔محبت کی پاکیزہ روح تک رسائی صرف جسم کے راستے ہی ممکن نہیں ۔کہانی میں دو کردار جو پیشے کے لحاظ سے مصور ہیں اور ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہیں۔ صنف اناث کی بے پایاں خواہش ہے کہ اس کا محبوب اس کے نازک تن کو کاغذ تصور کر کے پینٹ کرے۔ مصور اس پیشکش کو ٹھکرا دیتا ہے۔لڑکی اس کے پیار میں پاگل بحر بیکراں کی طرح مچلتی رہتی ہے ۔ بے چینی ، شدید انتظار، اندیشے، نامکمل خواہش، حسرت ،ذات کی بے ترتیبی ، ڈھلتی رات اس کے وجود کو زہریلا کر دیتی ہے ۔ اس کے محبوب کا ایک جملہ اس کی بے ترتیب ذات کو مکمل کر دیتا ہے’’بدن پر ایک نگاہ تو ڈالو تمھارے بدن پر پوری رات کے انتظار کی کیفیات پینٹ ہیں ‘‘۔
افسانہ ’’ ہے کوئی ‘‘ میں ایک درزی کی بپتا ہے ۔ کردار کا نام مروت ہے وہ اپنے نام کی طرح سیدھا سادہ اپنے گھر کے رزق کا بوجھ اٹھائے غربت کی گمنام چکی میں پستا رہتا ہے اس افسانے میں افسانہ نگار نے معاشرے کی بے حسی کو بدرجہ اتم دکھایا ہے ۔یہ کہانی انسان کے سفاک کردار ، حکومتی دباؤ اور معاشرے کی بے حسی کا پردہ فاش کرتی ہے ۔
افسانہ’’ ڈنگ ‘‘ اُجڑتی بستی کا نوحہ ہے ، مہاجرت کا نوحہ ہے۔ دریائے سندھ کے مغربی علاقے میں واقع ایک بستی کا نام جسے حکومت اپنے نئے منصوبے کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے ختم کرنا چاہتی ہے اور بستی کے مکین دربدری کے خیال سے اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہیں۔
’’ وہ سوچنے لگا جیسے انسان مرنے کے بعد اس دنیا میں لوٹ کر نہیں آتا، اسی طرح میری بستی بھی ہمیشہ کے لیے محکمہ مال کے کاغذات میں دفن ہو جائے گی ‘‘۔
محبت اور جذبات میں گندھا افسانہ’’ رومنی ‘‘ جو دل کے بوسیدہ تاروں کو چھیڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ایسی کہانی جس میں کردار خاموش محبت کی بھینٹ چڑھ کر روگی ہو جاتا ہے۔ اس افسانے میں تمثیل نگاری ملتی ہے۔’’ سامنے کے مکان کا میک اپ قابل دید تھا۔مکان ہر وقت بنا ٹھنا رہتا تھا۔ اس کے ماتھے پر گہرے لال رنگ کا جھومر تھا ۔ کانوں میں سرو کے آویزے اور لباس سنوارنے کے لیے کتنے ہی ملازم تھے ‘‘۔
افسانہ’’ زمین زاد‘‘ سائنس فکشن کی عمدہ مثال ہے ۔ جس کا موضوع سائنس دانوں اور مذہبی علماء کا نقطہ نظر ہے ۔ایسے جوڑے کی کہانی جو مریخ پر زندگی کے وجود کو ڈھونڈنے سفر پر نکلتے ہیں ۔ وہاں اپنا خاندان تشکیل کرتے ہیں۔افسانہ نگار مذہبی نقطہ نظر کے فروغ اور سائنس دانوں کے خیالات کی تردید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حامد سراج آدم و حوّا والے صدیوں پرانے خیالات کو نئی بنت میں سوچتے اور پیش کرتے ہیں۔ انسانیت کو رہنمائی مذہب نے عطا کی ہے ورنہ انسان کے سفلی جذبات اسے حیوانوں سے بدتر بنا دیتے ہیں ۔
یہ نقش گر کے لیے سہل بھی نہ ہو شاید
کہ ہم سے اور بھی اس خاک پر رقم کیے جائیں
افسانہ’’ اوریگان‘‘ میں بے وطنوں کا وطن سے محبت کاجو بھرپور جذبہ ملتا ہے ، وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ کہانی علی احمد اور عتیقہ کی ہے۔عتیقہ کویت کے پوش علاقے کے خوبصورت پنجرے میں مقید رنگین چڑیا کی طرح ’’ جو حکم میرے آقا‘‘ کے مصداق زندگی گزاررہی ہے۔ اس کے آنگن کے چار گلاب اس کی خوشبو میں معطر ہیں لیکن چمن کا مالی دھن ، دولت کا پجاری ہے جو اس کی اداسی اور تنہائی کو بے وجہ جانتا ہے اور اسے آزادی کا پروانہ نہیں تھماتا ۔ بالآخر اپنوں کی گزشتہ یادوں کو دل کے گوشے میں سجائے عتیقہ کی روح پرواز کر جاتی ہے اور علی احمد کے لیے پچھتاوے چھوڑ جاتی ہے ۔
افسانہ’’ایک اور داؤ‘‘پاکستانی معاشرے کا المیہ ہے ۔ شہروں میں بڑھتے ہوئے خود کش دھماکے ہیں جن میں ہزاروں بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں ۔ شکیل اور شمائلہ کی محبت کا آشیاں جو بننے سے پہلے ہی بکھر جاتا ہے ۔
افسانہ’’ ٹھنڈی چائے ‘‘بڑھتے ہوئے ازدواجی مسائل اور مرد حضرات کی بے جا تنقیدی نظر کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ ارینہ صدق دل سے شوہر کی محبت میں گرفتار ہے اور بنا کسی توجیہہ،مشرقی عورت کی محبت کے محل کو مسمار کردیا جاتا ہے ۔ شک کو بنیاد بنا کر ارینہ کی روح کو تڑور مڑوڑ کے رکھ دینے والا اس کا شوہر اسے دور کسی صحرا میں بھٹکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ٹھنڈی چائے ابنارمل کی نفسیات کی واضح مثال ہے۔
افسانہ’’آخری آئس کیوب ‘‘میں بھی نفسیاتی گرہ قابل ذکر ہے۔اس میں عورت کی بے وفائی کا مضمون باندھا گیا ہے ۔ کہانی ’’کلوننگ کی پیداوار‘‘ بد عنوانی اور بے روزگاری کے ساتھ پس پشت درپیش بہت سارے مسائل کا اعادہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ ملکی حالات خراب ہیں اور غربت ہر گھر کے دروازے کی چوکھٹ پر پاؤں پسارے بیٹھی بے اور بے روزگاری بال بکھرائے گلی گلی گھوم رہی ہے ۔ بے حیائی اور فحاشی کا چلن عام ہے جس میں ماں کی دعاؤں نے بھی اپنا اثر کھو دیا ہے ۔ ملک مکاری اور دھوکا دہی کرنے والے چند افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔
افسانہ ’’ڈرائنگ روم ‘‘ایک گزرگاہ ہے ، تصویری البم ہے جس میں یادوں کی دیواروں سے کھرچن اتارنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ محبت اور جدائی کا خوبصورت تاثر سموئے یہ افسانہ اپنی مثال آپ ہے ۔
اس مجموعے میں چند اورافسانے ایسے ہیں جو بحث کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اردو لکھاریوں میں حامد سراج کی الگ پہچان ہے اور یہی ان کی شناخت ہے ۔
کتابوں کی یہ آخری صدی نہیں ہے ۔کتاب زندہ ہےاور آنے والے زمانوں میں کتاب دھڑکتی رہے گی۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here