۲۰۲۴ بتول فروریبہاروں سے پہلے جو آنکھوں پہ بیتی - حمیرا عمر

بہاروں سے پہلے جو آنکھوں پہ بیتی – حمیرا عمر

وہ میری زندگی کا سبق آموز دن تھاجب میں نے بہت کچھ سیکھا۔
جامعہ وہ گہوارہ ہے جہاں لمحہ لمحہ شفقت ہے، محبت ہے، تربیت ہے۔ زندگی کو جنت بنانے کا ادارہ ہے۔ جب ہم جامعہ میں ہوتے ہیں تو ان لمحوں کی قدر و قیمت سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے لیے ہے۔ لوگوں کی انتھک محنت، سرمایہ، وقت سب کچھ ہم پر صرف ہو رہا ہے پھر بھی غفلت کبھی کبھی ہمیں بہت بے فکر بنا دیتی ہے۔
اصول و قواعد کسی بھی ادارے کی ترقی کی ضمانت ہوتے ہیں، اور جامعہ کے اصول ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان ہی اصولوں پر عمل کروانے کے لیے کبھی انتظامیہ کی طرف سے نرمی اور کبھی سختی سے کام لیا جاتا ہے۔ نرمی ہمیشہ سختی پر غالب رہتی ہے۔ تنبیہہ میں بھی ایک محبت پنہاں ہوتی ہے۔ ہم جب اسکول کی زندگی سے نکل کر جامعہ آتے ہیں تو ہر چیز باہر کی دنیا سے الگ ہوتی ہے۔ انھیں کرنے میں خاصی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے یہ طے ہے کہ پندرہ دن کے بعد تعطیل ہو گی اور تعطیل ختم ہوتے ہی واپس آنا ہے۔ بغیر کسی وجہ کے گھر رکنے پر فائن ہو گا۔ ہم بھی عجیب بے حس تھے کہ جرمانہ دے دیتے تھے مگر ایک آدھ چھٹی اور کر لیتے۔ اس بات پر بھی کئی بار توجہ دلائی گئی کہ جرمانہ جامعہ کی ضرورت نہیں ہے وہ طالبات کے اندر اطاعت دیکھنا چاہتا ہے جو کہ نظر نہیں آرہی۔
میں ایک بار حسبِ عادت چھٹیوں کے بعد مزید دو دن اور گھر رک کر آئی جبکہ میرے علم میں تھا کہ ماہانہ ٹیسٹ ہونے ہیں۔ جب میں آئی تو ٹیسٹ ہو چکے تھے۔ میری دیدہ دلیری کہ میں آنے کے بعد آفس بھی گئی پرنسپل سے ملنے۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا، خیریت پوچھی۔ دیر سے آنے کی وجہ چاہی۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا کیونکہ واقعتاً کوئی عذر تھا بھی نہیں۔
انہوں نے مجھے جانے کے لیے کہا۔ میں آفس سے نکلی۔ نوٹس بورڈ پر میری نظر پڑی تو بڑا بڑا لکھا تھا ۔
’’دیر سے آنے والی طالبات سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھا جائے گا۔ از طرف انتظامیہ۔‘‘
اب تو میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ دیر سے آنے والی طالبات میں میں سب سے پہلے نمبر پر تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ کلاس فیلوز ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ وہ بھی تو میری طرح وقتاً فوقتاً گھر رکتی رہی ہیں۔ مگر یہ کیا کوئی میری طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔ کلاسز کے بعد کھانا ور نماز ، اس کے بعد آرام تھا۔ مگر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ کوئی بھی میرا اپنا نہیں ہے۔ جامعہ کے در ودیوار اجنبی ہوگئے تھے۔ اسٹڈی ٹائم میں تمام کلاس فیلوز ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں مگر اس طرح جیسے میرا وجود ہی نہ ہو۔
میرا رو رو کر برا حال تھا مگر جیسے کسی کو بھی میری ذرا بھی پروا نہ تھی۔ میں باہر لان میں جا کر بیٹھ گئی۔ سخت سردی کے باوجود مجھے کسی بھی قسم کا احساس نہ تھا۔ ہمارا کھانا پکانے والی ماسی بار بار مجھے کہہ رہی تھی۔ حمیرا اندر بیٹھو باہر بہت سردی ہے۔ سب کمبل میں دبکے ہوئے ہیں اورتم باہر بیٹھی ہو۔ رو کیوں رہی ہو … کیا ڈانٹ پڑی ہے؟
نہ میرے کان کچھ سن رہے تھے اور نہ دل میں کچھ احساسات تھے بس آنکھیں تھیں کہ جل تھل ہوئی جا رہی تھیں۔
اساتذہ نے تمام پیریڈ مجھ سے کچھ نہ پوچھا۔ میڈم نے تو جیسے مجھے دیکھا ہی نہیں۔ ان کو دیکھ کر میری ہچکیاں بندھ گئیں مگر انھیں جیسے پروا تک نہ تھی۔ انھوں نے صرف اتنا کہا، آپ اگر کلاس میں نہیں بیٹھ سکتیں تو بیڈ روم میں چلی جائیے۔ میرا جی چاہ رہا تھا معافی مانگوں مگر الفاظ نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں نے مشکل سے خود پر قابو پایا۔
طالبات کے دل کو کچھ کچھ ہو رہا تھا (جو انہوں نے مجھے بعد میں بتایا) مگر وہ اطاعت کی پابند تھیں۔ کالج ٹائم ختم ہونے کے بعد میں آفس گئی اور بہت ندامت کے ساتھ میں نے معافی مانگی۔
بہت تکلیف ہوتی ہے نا حمیرا … جب کوئی دکھ دیتا ہے۔ احساس ہے کب کب آپ ہمیں دکھی کرتے ہیں؟ کتنی اذیتیں پہنچاتے ہیں؟
میرے آنسو تواتر کے ساتھ بہہ رہے تھے۔
بیٹھواب آئندہ ایسا مت کرنا۔ اور ان کے پاس جو چائے کا کپ تھا انہوں نے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔
لو پیو۔
اور مجھے یوں لگا ہر طرف روشنی ہو گئی ہے، فضا میں خوشبو پھیل گئی ہے۔ مجھے سورئہ توبہ کی آیت کا مفہوم یاد آگیا کہ تم تو زمین کے نمک ہو تم سے نافرمانی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ ندامت کے بعد رب اپنے بندوں کے لیے اپنے ہاتھ وا کر دیتا ہے۔اللہ کی یہی صفت بندوں کے اندر بھی ہے اور ایک ماں کے اندر یہ صفت بہت زیادہ ہوتی ہے۔
میری وہ علمی ماں … وہ بالکل بھول گئی کہ اس نے کوئی سزا بھی دی تھی۔ اب سراپا شفقت ہی شفقت تھی۔
بہت دعا ہے ان کے لیے کہ میرے نفس کا تزکیہ کیا۔ مجھے سمت ِمنزل عطا کی۔٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here