اتنا تو شہناز بیگم نے دو بیٹوں کے آنے ہر بھی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا جتنا بیٹی کے آنے پر ،بیٹی کیا پیدا ہوئی جیسے سترہ سال کی کم سن بچی بن گئی ہو۔ لوگ باگ روتے ہیں کہ مائیں ساری توجہ بیٹوں کو دیتی ہیں ان کے نخرے اٹھاتی ہیں ان کو گھی کی چوری بنا بنا کے کھلاتی ہیں پر شہناز بیگم کے ہاں الٹ معاملہ ہؤا ۔جو پیار اور توجہ انہوں نے بڑی بیٹی سیماب کو دی اتنی تو ساری اولاد کو نہیں دی ۔
پیدا ہوئی تو ہر آئے گئے کے آگے مٹھائی کی پلیٹ رکھی، تاکید کر کر کے سب کو کھلاتیں۔ آپانویدہ کو شوگر کا موذی مرض لا حق تھا ان کو بصد اصرار گلاب جامن کھلائی ۔
اور آپا نویدہ کیا سارے منہ اٹھائے انہیں دیکھ رہے تھے ۔بیٹوں کی مرتبہ تو اتنا اصرار نہیں کیا تھا !
روز نئے کپڑے پہناتیں، آنکھوں میں بطور خاص بنوایا ہؤا کاجل ڈالتیں جو بادام کے چھلکے جلا کر کوری مٹی کے ڈھکن پر مکھن لگا کر بادام کے چھلکوں کے دھوئیں پر رکھ دیا جاتا دس بیس منٹ کے بعد ڈھکن اٹھایا جاتا تو چھلکے راکھ میں بدل چکے ہوتے تھے اور دھواں مکھن میں شامل ہوکر کاجل کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ۔
بچی کی موٹی موٹی آنکھوں میں کاجل لگتا تو شہناز بیگم کو سارا کمرہ روشن دکھائی دیتا ۔
بچی یعنی سیماب کے ماتھے پر پیدائشی رواں تھا ،صندل آٹے میں ملاکر گوندھتیں اور خوب مل مل کر رواں اتارتیں، اس کا منہ چومتیں کندھے سے لگاتیں ۔
کبھی کبھار تو سارے ہی حیران ہوئے پھرتے ….کمال بات ہے بیٹوں کی مرتبہ تو دس دن تک بستر کی جان نہیں چھوڑی تھی ،یخنی،گرم دودھ میں پکی سویاں، بادام پستہ کی چھوانی سب بستر پر ہی نوش جاں فرماتیں۔ اب دیکھو بیٹی کی آمد نے کیسے بجلی بھری ہے پاؤں ہی زمین پر نہیں ٹکتے مہارانی کے ،جٹھانی جی منہ میں بد بدائیں ۔
سیماب بڑی ہوتی گئی اور اس کی کرامات سامنے آتی گئیں، اہستہ اہستہ سیماب سب کی ضرورت بن گئی ۔
کوئی کام درپیش ہوتا سب ہی شہناز بیگم کو فوری فون کال کرتے
’’بھئی مشکل آن پڑی ہے ،ذرا سیماب بچی سے کہو نام لے کر دعا کرے‘‘۔
’’بڑی خالہ ہمارے امتحان شروع ہیں سیماب سے کہیے ہمارے لیے ضرور دعا کرے‘‘۔
شہناز کے بھانجے بھانجیاں تاکید کرتے ۔اور کیوں نہ کرتے شہناز خالہ ہر آئے گئے کو بہت جذب کے عالم میں بتاتی تھیں کہ جس دن سیماب پیدا ہوئی تھی اس سے ایک رات پہلے پورا کمرہ خوشبو سے بھر گیا تھا اور اس نرس سے پوچھو جو اس کی پیدائش کے وقت موجود تھی وہ تو بس اسے دیکھتے ہی بولی تھی….یہ بچی بڑی بھاگوان ثابت ہو گی ۔
’’ڈاکٹر قدسیہ محبوب نے تو پیسے ہی نہیں لیے تھے ،بولیں ایسا کیس تو زندگی میں کبھی نہیں آیا مانو بچی آرام سے ان کے ہاتھوں میں ایسے آ گئی جیسے آسمانی تحفہ ہو ۔پھر یہ بھی کہ بچی نام سے بالکل الٹ تھی جہاں بٹھاؤ بیٹھ جائے جب کھلائو تو کھائے دو دن بھوکا رکھو مجال ہے منہ سے کھانے کو مانگ لے ‘‘۔
شہناز خالہ اس کی ایسی باتیں بتاتیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے۔ بڑے انداز سے وہ سیماب کے روزے کا قصہ سناتیں ۔
’’ائے ایسے نیک بخت تو ولی ہوتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں
بھی عبادت کریں اور باہر اکر بھی ….ابھی یہ تین ماہ کی تھی میں نے اسے روزہ رکھ کر دودھ پلانا چاہا تو منہ بند کیے رکھا، مجال ہے جو دودھ پیا ہو…. فیڈر دیا مگر منہ ہی نہ کھولا ،جب افطاری کا وقت ہوا ،میں نے شربت کا گھونٹ بھر کے اسے سینے سے لگایا چسر چسر دودھ پینے لگی ….سچ کہا تھا نرس نے بڑی بھاگوان ہوگی یہ بچی ،،
سیماب بڑی ہوتی گئی اور اس کے مستجاب الدعوات ہونے کی خبر بھی پھیلتی چلی گئی ۔
ماں کا کہنا تھاجس دن سیماب کہتی ،مینہہ آئے گا ،سب ہی ہک دھک رہ جاتےکہ کڑی چلچلاتی دھوپ میں ایک بادل آتااور چھم چھم برس کے سیماب کی بات کی لاج رکھ لیتا ۔
ذرا اور بڑی ہوگئی تو لوگ باگ دور دور سے اس سے دعا کروانے آتے۔ سیماب سے بڑے دونوں بھائی عبدالقدوس اور عبدالوہاب کر کٹ کھیلنے گلی میں جاتے تو محبت سے بہن کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ،شہناز بیگم چیل کی طرح جھپٹ کر اسے بازو سے پکڑتیں۔
’’نہ بھئی عورت ذات کا باہر کے لونڈوں سے کیا کام،،
بس چھوٹی سی کو عورت ذات ہی سمجھا، پورے بازو کی فراک ، پائوں تک کا پاجامہ سر پر باندھا سکارف جو آدھا ماتھا بھی ڈھانپ لیتا ،
بیٹے چار سال کی عمر میں نورانی قاعدے کی پہلی تختی پڑھ پائے تھے اس کو دو سال کی عمر میں پڑھنا سکھا دیا ۔دنوں میں اس نے نورانی قاعدہ پڑھا پھر بغدادی قاعدہ بھی فرفر پڑھ لیا ۔شہناز کیا،وہ سب کی آنکھوں کا تارا تھی۔ عید بقر عید پر سب اسے دوگنا عیدی دیتے،چھے سال کی ہو گئی تھی معصومیت جیسے دو اڑھائی سال کی بچی ہو ،روکا ٹوکی کرنے والی ہستی صرف ساس کی تھی جو دھی ذات کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنے کے سخت خلاف تھیں۔ جب بھی سیماب کو ماں کا دم چھلا بنا دیکھتیں ہنکارا بھرتیں ۔
’’ہونہہ خود بیس سال کی عمر تک دیواروں پر کدکڑے مارتی رہیں بیٹی کو ایسے جیسے گرم ہوا بھی لگی تو پگھل جائے گی،،
ساس کی جدائی کے بعد اب وہ اپنی مرضی کی مالک تھیں بھلے سوتے سے جگا کر کھڑا کردیں یا کھیل کود میں مگن کو کمبل اوڑھا کر سلا دیں ۔
شہناز بیگم نے چار سال کی عمر میں اسے سوئی میں دھاگہ ڈالنا ، پھر سبزی کاٹناسکھا دیا ۔ان کے بس میں ہوتا تو دنیا کے سارے ہنر اسے منٹوں میں گھول کر پلا دیتیں بس قسمت نے اب کے کچھ مصیبت شہناز بیگم کی تقدیر میں لکھ دی تھی جو اکر رہی ۔
ضروری کام سے گھر سے نکلیں۔ آج کل کے لڑکے موٹر سائیکل کو بھی ایف سکسٹین سمجھتے ہیں ،سمجھتے کیا ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔جونہی انہوں نے قدم باہر نکالا اندھوں کی طرح پچھلے محلے کا ایک تیرہ سالہ لڑکا موٹر سائیکل اڑاتا ہؤا لے کر آیا اور ٹھاہ کر کے شہناز بیگم کے گھٹنوں پر دے مارا ۔
شہناز بیگم اوندھے منہ گریں نیچے نوکیلا پتھر تھا جو ماتھے میں اندر تک چلا گیا ،خون کے فوارے ابل پڑے سارا فرش لالو لال ہوگیا۔ خون بھل بھل کر کے ایسے بہہ رہا تھا جیسے نلکا کھل گیا ہو۔بھاگم بھاگ گھر کے لوگ ہسپتال لے کر گئے ۔خون حد سے زیادہ بہہ چکا تھا،زندگی موت کی کشمکش میں بھی انہوں نے دیورانی کا نام لیا جو خود بھی بڑی بھلی مانس تھی ، ہر ایک کی خیر خواہ ملنسار اور محبتی،جونہی وہ ان کے قریب آئی اس کا ہاتھ پکڑ کر نقاہت سے بولیں ۔
’’میری زندگی تو ٹمٹماتا چراغ ہے…. ایک امانت سونپ کر جارہی ہوں، اللہ کے بعد تمہارا اسرا ہے…. میری سیمو کو کبھی باہر نہ جانے دینا ….کبھی ہیجڑےے ائیں تو اسے اندر ہی رکھنا وہ کم بخت اپنی جنس کو خوب پہچانتے ہیں ،اور اسے کبھی کسی گرو تک نہ جانے دینا ‘‘۔
دونوں ہاتھ جوڑے وہ سراپا امیدوار بن چکی تھی،اس کا رنگ پیلا اور چہرہ صدیوں کی عورت جیسا بوڑھا ہوچکا تھا۔ نمکین پانی میں گھلی آواز میں وہ مزید بتانے لگی۔
’’ بچی پیدا ہونے سے چند ہفتے قبل مجھے ڈاکٹر نے الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دیکھ کر اس کے بارے میں بتادیا تھا ….یہ قیامت کے دن اور راتیں تھیں جو مجھ پر بیت کر مجھے تہس نہس کر گئیں ۔پھر میں نے بڑی التجا کی رب سے تو مجھے یہی سمجھ میں آیا، راستے تو دو ہی ہیں یا تو اسے اس کی
وہی شناخت دوں جو ہے لیکن اس میں قباحت تھی ،ہم سب کی ہم سب کے پرکھوں آنے والی نسلوں ذات صفات معاملات پر اسی کی شناخت غالب رہنا تھی اور وہ تھی خسریاں دے گھر ،خسرے دی ماں ،خسرے دی بھابھی،خسرے والی گلی ،کیا کیا بتائوں…. ہمارے لیے اس کی جنس گالی بن جاتی ‘‘۔شہناز دم لینے کو رکی۔
’’مجھے میری ڈاکٹر نے مشورہ دیا ہم اس کے دو علاج کریں گے، ایک شروع کے دو مہینوں میں دوسرا اس کی بلوغت کے موقع پر ،مکمل نہیں تو یہ اسی فیصد ٹھیک ہو جائے گی،آپ کسی کو نہ بتائیں اگر سب کو معلوم ہوگیا تو یہ کہیں کی نہیں رہے گی…. اس کی جنس کی طرف سے اسے گھر میں رہنے ہی نہیں دیا جائے گا۔تو دوسری صورت یہی تھی کہ میں اس کا بھید رکھوں امین بن جاوں اس کی اچھی پرورش کروں اس کی اچھائیاں ایسے اور اس انداز میں بیان کروں کہ لوگوں کی توجہ اصل چیز سے ہٹ جائے ۔ گن کر دن گزار رہی ہوں کب اس کی عمر کے چودہ سال مکمل ہوں اور یہ چیر پھاڑ کروائے ….مکمل ہوجائے‘‘۔
شہناز نے دیورانی کے ہاتھ اپنی کمزور گرفت میں لے لیے۔
’’مجھ سے وعدہ کرو اگر میں نہ رہی تواس کابھید بھی رکھو گی اور اس کی تکمیل بھی کروگی‘‘۔
بولتے بولتےوہ تھک گئی تھی تو اس نےآنکھیں موند لی تھیں۔ آنسو دونوں کے ہی منہ پر بہہ بہہ کر نشان ثبت کر رہے تھے ۔دنیا اور دنیابھر سے بے خبر چھے سالہ سیماب قریب کھڑی سب سن رہی تھی اور سمجھنے ، نہ سمجھنے کے درمیان ڈانواڈول ہو رہی تھی۔
٭ ٭ ٭