بچے بہت کیوٹ ،ہوتے ہیں بہت شرارتیں کرتے ہیں بہت بھولے بھالے ہوتے ہیں لیکن اپنے نہیں اوروں کے ……اپنے بچوں کی تو پیدائش کا یاد رہتا ہے ، باقی کب بڑے ہوئے،کب کیا ہؤا سب کچھ اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے۔ان کی تعمیری ،تفریحی اور تخریبی سرگرمیاں سب دوسروں کو یاد رہتی ہیں خود ماں باپ کو نہیں……اور اگر جوائنٹ فیملی ہو تو سبحان اللہ،، اللہ بچے تو دیتا ہے مگر بچوں کے بچپن سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کا سوچتے سوچتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب بچپن کی حدود سے نکل کر لڑکپن اور پھر نئی زندگی کے میدان میں بھی داخل ہوجاتے ہیں!
یہ تو قدرت نے ہی ایسے مٹھاس بھرے رشتے دے دیے کہ جب بچوں کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو پھر ان کے بچپن سے صرف لطف اندوز ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کی بھولی معصوم اداؤں پر صدقے واری جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر ہمارے نواسے نواسیاں!
مومنہ محسنہ کی تائی ساس کا انتقال ہوگیا تو افسوس بلکہ تعزیت کے لیے جانا ہوا۔ افسوس تو جدائی کاہوتا ہے لیکن جدا ہونے والے کی زندگی اللہ کی بندگی میں گزری ہو تو یہ جدائی تعزیت اور ایصال ثواب کی محتاج ہوتی ہے
دو گھنٹے بھی پہنچے ہوئے نہ گزرے تھے کہ واپسی کا الارم بج گیا۔بچوں کو جونہی یہ علم ہوا کہ ان کے اکلوتے ماموں ،خالہ اور نانی نانا واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں تو ان کی حقیقت میں چیخیں نکل گئیں۔’’نانا ہمارے بغیر ہی جا رہے ہیں ‘‘ کی دہائی اتنے درد بھرے انداز سے دی کہ بچپن میں پڑھا لطیفہ یاد آگیا۔ایک بچہ میلے میں ماں سے بچھڑ گیا پولیس اہلکار کے پاس پہنچااور کہا ،کیا آپ نے میری ماما کو میرے بغیر جاتے دیکھاہے؟
جب ان کا رونا پیٹنا درجہ کمال کو پہنچ گیا تو مومنہ نے پھرتی سے دونوں بیٹوں کے کپڑے بیگ میں ڈال دیے اور ہم چار لوگ تعزیت کے لیے گئےتو واپسی میں دو انسانی جانوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔عائشہ کی خدا خدا کر کے سکول کلاسز شروع ہوئی تھیں تو وہ بیچاری صدمے سے نڈھال وہیں رہ گئی ۔
گھر پہنچے ،بچوں کی معصوم حرکتیں،چھوٹی چھوٹی فرمائشیں،کانوں کو بھلے لگنے والے فقرے اندر تک خوشی بھر دیتے۔خصوصا ًسلمان میاں کا ہر آدھ گھنٹے بعد یہ جملہ:
’’نانی آپ مجھے اچھی لگتی ہیں،،
گھنٹے کے بعد اس جملے میں ایک لفظ کا اضافہ ہوجاتا ۔
’’نانی آپ مجھے زیادہ اچھی لگتی ہیں ،،
اس کی دیکھا دیکھی موسیٰ کو بھی یہ فقرے کہنا پڑتے۔ چھ دنوں میں نانی کو جی بھر کے ادائیں دکھا کے ان کے جانے کا وقت آیا تو سلمان نے کہا۔
’’نانی میں بڑا ہوجائوں گا ناں تو میں دو شادیاں کروں گا ۔ایک آپ سے کروں گا اور آپ کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ساتھ لے جاؤں گا،،
وقتی طور پر اس فقرے کو ہنسنے مسکرانے میں ہی سنا لیکن ان کے جانے کے بعد اس فقرے کے محرک پر غور کیا تو وجہ محبت ہی برآمد ہوئی۔ اس کے معصوم دماغ میں شادی کا مطلب ساتھ رہنا ہوتا ہے تو نانی کی سنگت میں رہنے کے لیے بیچارے کو اکلوتا حل شادی ہی ملا ۔
خیر یہ تو پھر بولنے کے قسبل ہیں بول کر اظہار کردیا،حیرت تو سات آٹھ ماہ کے مصعب بن خبیب پر ہوئی……محسنہ کا بیٹا ۔ابھی تین ساڑھے تین ماہ کا تھا جب سے نانی روزانہ ویڈیو کال پر محسنہ سے پہلے مصعب پر کیمرہ فوکس کرواتی اور جب کیمرے کا رخ اس کی طرف ہوتا تو تین فقرے بولنامخصوص کر لیے۔
السلام علیکم میرے مصعب ہادی کیسے ہو ؟
پھر اسے اللہ کہنا سکھاتی ،مصعب کہو اللہ ہو ،حق اللہ ،محبوب اللہ ،
آخر میں دعائیہ کلمہ ،اللہ جی مصعب کو نیک بنا،کہہ کر ہاتھ منہ پر پھیر کر کیمرہ محسنہ کی طرف ہوجاتا ۔
نانی نواسے کی یہ روٹین الحمد للّٰہ آٹھ ساڑھے آٹھ ماہ کا ہونے تک جاری ہے۔ لیکن پچھلے ماہ عجیب واقعہ ہؤا، محسنہ اور خبیب آئے تو نانی نےسلام دعا کے بعد مصعب کو تینوں وڈیو کال والے فقرے دہرائے ۔ جونہی میں نے کہا ،اللہ جی مصعب کو نیک بنا،اس نے بے اختیار بایاں ہاتھ منہ پر پھیر کر آمین کہا۔
مجھے خوشی تو بہت ہوئی کہ وڈیو کال پر میں ہی آمین کہتی رہی اس نے کبھی اس کا عملی مظاہرہ نہیں کیا تھا۔میں نے یقین دلانے کے لیے دوبارہ یہ فقرہ کہا تو اس نے فوری ویسے ہی بایاں ہاتھ منہ پر پھیر کر آمین کہا۔
مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔صرف بایاں ہاتھ کیوں ؟تھوڑی سی سوچ بچار پر سمجھ میں آگیا کہ میرے دائیں ہاتھ میں تو ہمیشہ موبائل فون ہوتا تھا اور بائیں سے ہی آمین کرتی تھی تو اس نے جو دیکھا وہ پیش کردیا ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول بھی بروقت یاد آیا کہ ابتدائی تین سال تک بچے کا ذہن صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے جو سکھائو گے وہ فوری سیکھ جائے گا۔
تین سال کے بعد تو اج کے ڈیجیٹل دور میں بچہ خود سکھانے کی عمر میں پہنچ جاتا ہے۔اس کی بھی کئی مثالیں ہیں اور کئی یادیں لیکن آج بہت ہی پر لطف واقعہ پیش آیا۔
مومنہ یعنی کہ موسٰی ،سلمان اور عائشہ مہدیہ کی امی جان سپیشلا ئز یشن کر رہی ہیں اور اسی ماہ کے آخری عشرے میں وائیوا شریف ہے ۔ ملازمت بچے اور گھربار میں پڑھنا بہت مشکل ہے ۔بیچاری بہت پریشان تھی تو پرسوں بچوں کو گوجرہ نانی کے سپرد کرگئی کہ آخری ہفتہ ہے تھوڑی بہت تیاری کرلوں ۔وائیوا تو صحیح معنوں میں ہاتھی کی دم ثابت ہوتا ہے اور اس دم سے لٹکنے کا دم خم تو بالکل بھی نہیں۔نانی سے گرین سگنل ملاتو وہ رات گئے بچوں کو چھوڑ کر علی الصبح نکل گئی، ہاسپٹل بھی آٹھ بجے پہنچنا ضروری تھا۔ اب کے بچوں کو نفسیاتی طور پر یہ معلوم تھا کہ پچھلی مرتبہ خود فرمائش کرکےآئے تھے تو تنگ نہیں کرنا اور اب والدین چھوڑ کر گئےہیں تو لگاؤ رگڑا……صبح اٹھتے ہی بچوں کا رونا دھونا شروع ہو گیا تو میں ان کو کھلا پلا کے،ادھر ادھر کے قصے سنانے لگ گئی ۔پھر پیار سے سمجھایا کہ ٓاپ کی ماما کے امتحان ہیں اس لیے وہ چھوڑ کر گئی ہیں، لگے ہاتھوں انہیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا سکھائی۔
’’اللہ جی ماما کو پاس کردیں،،
دو تین باردعا کروانے سے بچے بھی بہل گئے ۔تھوڑی دیر کے بعد بچے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے میں انہیں گند نہ مچانے کی تاکید کے لیے گئی تو کیا دلچسپ منظر دیکھا۔موسیٰ اور سلمان نے صوفہ پر بیٹھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں اور سلمان بڑا بھائی ہونے کے ناطے بآواز بلند دعا کروا رہا ہے۔
’’اللہ جی ہماری ماما کو دور کردیں‘‘
کچھ لمحوں کے لیے تو دماغ چکراگیا پھر سوچنے پر سمجھ میں آیا کہ ان معصوموں نے تو ابھی سکول کی شکل ہی نہیں دیکھی انہیں فیل یا پاس کا کیا پتہ ،ان کی لغت میں پاس کا مطلب قریب یا نزدیک ہے، وہ یاد نہ آیا تو قریب کی ضد ’دور‘کہہ دیا۔
بے ساختہ مسکراہٹ کے ساتھ بہت پرانی یاد بھی آئی۔ جب میری خالہ زاد بہن عمارہ نثار سکول جانا شروع ہوئی تو ٹیچر نے فرشتوں کا تعارف دیتے ہوے بتایا کہ فرشتے نور سے بنے ہیں ۔اگلے دن ٹیچر نے عمارہ سے پوچھا۔
’’عمارہ آپ بتائیے فرشتے کس سے بنے ہیں ؟‘‘
عمارہ نے بہت اعتماد سے جواب دیا ’’بتول سے ،،
جی جی قارئین! ماہنامہ بتول سے!
کان ادھر کیجیے تو چپکے سے بتاؤں ۔جماعتی گھرانوں میں تو نور اور بتول دو رسالے لازماًآیا کرتے تھے ،ہیں اور رہیں گے ۔کیا ہؤا جو بھولی بھالی بچی کو نور نہیں یاد آیا، بتول تو تھا ناں یاداشت میں……بس اسی کا نام لے دیا۔چونکہ سکول اور ٹیچر دونوں کی وابستگی تھی اس لیے محظوظ ہونے کے لیے یہی فقرہ کافی تھا۔