آہ ڈاکٹر عبد القدیر خان
(ڈاکٹر ممتاز عمر ، کراچی)
وائے قسمت دید کو ترسیں گی آنکھیں عمر بھر
بن کے ابرِ خوں فشاں برسیں گی آنکھ عمر بھر
آپ کے طوفانِ غم میں ہر سفینہ بہہ گیا
اب میری تقدیر میں رونا ہی رونا رہ گیا
ڈاکٹر عبد القدیر خان اس عظیم ہستی کا نام ہے جسے محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ۔ ایسے بلند پایہ لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔ وہ انتہائی خوش مزاج ، ملنسار اور بے لوث انسا ن تھے ۔ میں چونکہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہوںاس لیے درس و تدریس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ خدمت کے کاموں میں بھی مصروف رہا کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا علم تھا اس لیے گزشتہ رمضان المبارک کے دوران انہوں نے مجھے فون پر مشورہ دیا تھا کہ میں ایک این جی او قائم کر کے رجسٹر کروالوں تاکہ تاجروں اور صنعتکاروں سے مالی تعاون کے حصول میں آسانی ہو سکے ۔ مگر میں نے جب انہیں بتایا کہ محترم تنظیم کو رجسٹر کروانے اور پھر اس کا آڈٹ کروانے کے لیے جو رشوت دینی ہو گی وہ میرے لیے ممکن نہیں تو وہ اک آہ بھر کے رہ گئے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ رمضان المبارک کے اس دن نماز عصر سے کچھ قبل نصف گھنٹے سے زائد ان سے موبائل پر گفتگو ہوتی رہی۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ کراچی آئے یا میں اسلام آباد آیا تو ان سے بالمشافہ ملاقات ضرور ہو گی مگر اب شاید یہ ملاقات جنت الفردوس میں ہی ممکن ہو سکے گی ان شاء اللہ (آمین )۔
ان کی عظمت کا اعتراف ہماری قوم نے ان کی زندگی میں جس طرح کرنا چاہیے تھا نہیں کیا مگر تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں جگمگاتا رہے گا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک چھوٹا سا ادا کار بیمار ہوجائے تو پورا الیکٹرانک میڈیا اس کی تشہیر میں مصروف نظر آتا ہے مگر محافظ پاکستان اورمملکت خداداد پاکستان کو نا قابل تسخیر بنانے والی شخصیت کے حوالے سے الیکٹرانک میڈیا کا رویہ قابل مذمت رہا ۔یہی نہیں انہیں علاج معالجے کی وہ سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں جو ان کا حق تھا ۔ ادا کار، سیاستدان اور بیورو کریٹ وغیرہ ذرا سی چھینک آنے پر بھی علاج کے لیے سرکاری خرچ پر بیرون ملک جاتے ہیں ۔ مگر پاکستان کو دنیا کی پہلی ایٹمی ریاست کا درجہ دلانے والا ان سہولیات سے محروم کر دیا گیا ۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ارباب اختیارو اقتدار اسلام آباد میں موجود تھے مگر چند نچلے درجے کے افسران کے علاوہ کسی اعلیٰ شخصیت کو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی توفیق نہ ہوئی ۔
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پرد ے میں بیداری کا اک پیغام ہے
٭…٭…٭
آہ! صالحہ صدیقی
(شاہدہ اکرام )
صالحہ صدیقی اپنے سچے گھر پہنچ گئیں۔ ایک با وقار، خود دار ، پرُاعتماد ، خوش ذوق ، خوش شکل ، متقی خاتون ۔ میرا ان سے تعلق 1987ء سے اب تک رہا ۔ چونتیس سالہ مثالی رفاقت رہی ۔ بچوں کے بچپن سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک بہترین تعلق رہا ۔
وہ ہمہ صفت خاتون تھیں۔ وہ ہر کسی کی غم خوار تھیں جہا ں جہاں رہیں محلے اور کالونیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ ان کا مقصد مدعا عوام و خواص کو
اللہ کے دین سے جوڑنا تھا ۔ ہر جگہ قرآن پڑھانے کا سلسلہ بچوں ، نوجوانوںاور بوڑھوں میں جاری رکھا ۔ ہر عمر کے لوگ ان کے دوست تھے ۔ وہ نہ صرف اپنے بچوں کی تربیت کی فکر کرتیں بلکہ تمام بچوں کے لیے فکر مند ہوتیں اور عملی اقدامات کرتیں ۔
ان کو تحریک اور اس کے اکابرین سے قلبی محبت تھی۔ ملتان کے بنیادی اراکین میں سے تھیں ۔ پورا جنوبی پنجاب ان کی قولی، عملی کوششوں کا گواہ ہے ۔ ہر پروگرام میں حاضر باش ہوتیں ۔ آگے بڑھ کر تمام ذمہ داریاں ادا کرتیں۔
انہوں نے میکہ ہو یا سسرال ، خاندانوں کو جوڑنے کے لیے ہمیشہ پل کاکام کیا اور مردانہ وار اپنی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ حکمت ، تحمل ، برداشت، ایثار اور قربانی کا مجسمہ تھیں ۔ حقوق کو بھلا کر انہوں نے ہمیشہ فرائض یاد رکھے ۔
بہت خوش لباس ، با ذوق اور چاک و چوبند شاید حق تھیں ۔ ہر مشکل کو انگیز کرنے کا ان کے اندر داعیہ تھا ۔کڑی مشکلات میں بھی انہوں نے حالات کے آگے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ ہمیشہ موجوں سے لڑتی رہیں اور بھنور سے نائو نکال کر لاتی رہیں ۔ انہوں نے معاشرہ کے ہر طبقہ میں بہت اعتماد اور دوستی کے ماحول میں دین کا پیغام پہنچایا۔ حکمت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔سفر ہو یا حضر وہ ہمیشہ پہلو کے ساتھی اور ان کے بچوں کو ترجیح دیتیں۔ اجتماعات میں ہمیشہ چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں بچوں اور بڑوں کے لیے وافر مقدار میں کھانے کا سامان اپنے پاس رکھتیں اور ان کو کھلاتیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ بدرجہ اتم ان میں موجود تھا ۔ رشتہ دار ، محلہ دار ، سب کے لیے سویٹر ، کپڑے بنا کر دیتیں ۔ اچار ، مربے بھی تقسیم کرتیں ۔
دعوتی تربیتی اور تنظیمی تینوں پہلوئوں سے کام کرنے کی ماہر تھیں ۔ انہوں نے اقامت دین کے مقصد اور نصب العین کو دل کی گہرائیوں سے سمجھا تھا ، بہن بھائیوں اور خاص طور پر اپنے بچوں کو جماعت سے جوڑنے کی بہترین عملی کوششیں کیں اور اس میں الحمدللہ کامیاب بھی رہیں ۔ تربیت گاہوں میں دوسری بہنوں کے بچوں کو بھی تیار کرتیں اور بروقت نشست میں پہنچ جاتیں ۔ مختلف مسائل ، مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود آخر تک دعوتِ دین کا کام کرتی رہیں ۔
ان کا رابطہ افراد کے ساتھ بہت مضبوط تھا ، اپنی خرابی صحت کے باوجود ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ۔ خاندان کے چھوٹے بچوں کو ساتھ رکھتیں ۔ بہت باہمت خاتون تھیں ۔ شوہر کا ساتھ کافی سال پہلے چھوٹ گیا تھا وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ۔ دو بیٹے اور تین بیٹیوں کا ساتھ تھا ۔ حالات زیادہ ساز گار نہ تھے ۔ اس کے باوجود بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین طریقہ سے انتظام کیا ۔ ان کو نیک صحبت سے جوڑا اپنا ہم مقصد بنایا حتمی المقدور بچوں کی شادیاں اسی بنیاد پر کیں ، ان کی اپنی شادی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی ۔ماشاء اللہ سارے بچے سلجھے ہوئے تہذیب یافتہ ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اپنی والدہ کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرکے صدقہ جاریہ بنیں گے ۔ انشا ء اللہ۔
اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں ، کہ تیری یہ بندی ، تیرے حکم کے مطابق ، تیرے دین کی اقامت کے لیے جہاد کرتی ہوئی تیرے حضور حاضر ہوئی ہے اللہ اس کو اپنی رحمتوں سے نوازتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمااور ہمیں بھی آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرما، آمین ثم آمین۔
٭…٭…٭