انسان کے اخلاقِ رذیلہ ( بُرے اخلاق) میں سب سے بری اورقابل مذمت چیز کذب ( جھوٹ) ہے ۔جھوٹ ایسی برائی ہے جو فجور ، اِفک اوربہتان کی طرف لے جاتی ہے اور نہ صرف افراد کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خاندان اور معاشرے میں بھی فساد برپا کرتی ہے ۔ جھوٹ ہر قسم کی قولی اورعملی برائیوں کی جڑ ہے ۔ جھوٹ کی وجہ سے اور بھی کئی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ جو معاشرے کے لیے زہرقاتل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ’’ جھوٹے ‘‘ کے ساتھ کسی دوسری صفت کا بھی ذکر کیا ہے ۔ مثلاً کاَذِبّ کَفَّارِ( جھوٹ ، کفر کرنے والا) مُسْرِفٌ کَذَّابٌ حد سے بڑھ جانے والا ، بہت جھوٹا ، افاک اثیم( جھوٹا ، گنہگار)وعدہ خلافی ، بہتان ،ریاکاری ، خاندانی جھگڑے ، معاشرتی فتنہ فساد یہ سب جھوٹ ہی کے کرشمے ہوتے ہیں ۔ جھوٹ کی ان قباحتوں کو جاننے کے باوجود ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سے بہت سے لوگ جھوٹ کو معمولی شے سمجھتے ہیں اور شغل کے طور پر بھی جھوٹ بول جاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ خود بھی سچاہے اور سچ کوپسند فرماتا ہے ۔ نبیوںکے بارے میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نبی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ قیصرِروم کے دربار میں جب ابو سفیان حاضر ہوئے توقیصر نے نبی کرام کے بار ے میں بہت سے سوالات کہے۔ جن میں ایک سوال یہ بھی تھا :’’ کیا نبوت کا دعویٰ کرنے والا یہ شخص (محمدؐ) اپنے دعویٰ نبوت سے قبل کبھی جھوٹ بولا کرتا تھا ؟‘‘ ابو سفیان نے جواب دیا :’’ نہیں ۔ کبھی نہیں ‘‘۔ قیصر نے کہا :’’ جو بندوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے ‘‘۔
جھوٹ کے نقصانات
(۱) جھوٹے شخص کو ہدایت کا نور نہیں ملتا، اِنَّ اللّٰہ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَا کَذِبٌ کَفَّارہ بیشک اللہ کسی جھوٹے اور منکرِ حق کو ہدایت نہیں دیتا ( الزمر۳)۔
(۲) جھوٹے شخص پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے ۔’’ لعنت ‘‘ اسلام کی لُغت کا سخت ترین لفظ ہے ۔ اس کے معنی ہیں ۔’’ اللہ کی رحمت سے دوری‘‘۔ لعنت کا لفظ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے لیے استعمال کیا ہے یا پھر انسانوں میں سے یہودیوں ، کافروں اور منافقین کے لیے مگر مومنین میں سے کسی کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہؤا سوائے جھوٹ بولنے والوں، جھوٹ گھڑنے والوں اور جھوٹا بہتان ( الزام) لگانے والوں کے لیے۔
(۳) جھوٹ بیسیوں برائیوں کی جڑ ہے ۔ جھوٹ بولنے والا گنہگار کہلانے لگتا ہے ۔ احسان فراموش ہو جاتا ہے اور بے باکی سے برائیاں کرتے کرتے بہت سی حدود پار کر جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جھوٹ کا استعارہ بن جاتا ہے جس کے لیے قرآن مجید میں نَاصِیَۃٍ کَاذِبَۃٍ خاطِئَۃٍ (جھوٹی ، خطا کار پیشانی ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔
(۴) جھوٹ منافق کی نشانیوں میں سے ہے جس کی خود اللہ نے گواہی دی ہے ۔
وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ(المنفقون:۱)
جھوٹ کی مذمت ۔ قرآن کی روشنی میں
۔جھوٹ کے لیے قرآن مجید میں ’’کِذب‘‘ کے علاوہ ’’ اِفک‘‘ اور ’’ زور‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ سورۃ نور میں حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے کے واقع کو ’’واقعۂ اِفک‘‘ کہا جاتا ہے ( نعوذ باللہ من ذالک) سورۃ الشعراء ایت نمبر 221-222 میں ارشاد ہؤا
ھَلْ اُنَبِّئکُمْ عَلٰی مَنْ تَّنَزَّلُ الشَّطِٰیْنُ تَّنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ
۔جھوٹ بولنا مشرکین کی صفت ہے اور مومن کو ہر گز زیب نہیں دیتا ۔ مشرکین قیامت کے دن بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آئیں
گے ۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کو جمع کر کے سوال کریں گے کہ اب بتائو تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم دنیا میں یہ گمان کرتے تھے کہ وہ ( نعوذ باللہ) خدائی صفات یا اختیارات میں شریک ہیں۔ تو وہ جواب دیں گے ۔’’ وہ ( جھوٹ شریک) تو ہم سے کھو گئے ہیں ۔ بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی چیز کو پکارتے ہی نہیں تھے ‘‘۔( المومن:۷۴)
۔جھوٹ کا ذکر بُت پرستی کے ساتھ بھی کیا گیا ۔ فاجتَنِبُو الرِّجْسَ مِنَ الْاوْثَانِ و قَوْلَ الزُّورِ
’’ پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو‘‘۔(الحج:۳۰)
۔جھوٹ سے اور بھی بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں مثلاً وعدہ خلافی ، بہتان ، ریا کاری وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر جھوٹے کے ساتھ دوسری بری صفت کا ذکر کیا ہے ۔اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔ جھوٹا گنہگارمُسْرِفٌ کَذَّابٌ۔ حد سے بڑھنے والا جھوٹا۔یہ تمام برائیاں بلکہ بیماریاں نہ صرف جھوٹے فرد کے اخلاق کی تباہی کا باعث بنتی ہیں بلکہ خاندانوں اور قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں ڈالتی ہیں اور معاشرے کے لیے بھی زہر قاتل ہیں ۔
۔یہودیوں کے بارے میں ارشاد ہؤا۔’’ جھوٹی باتوں کو کان لگا کر سنتے ہیں اور حرام کھانے والے ہیں ‘‘۔( المائدۃ:۴۲)
۔افتراء پر دازی ( جھوٹ گھڑنے) کے بارے میں ارشاد ہؤا۔
’’کہہ دیجیے بے شک وہ لوگ جو اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑتے ہیں ، فلاح نہیں پائیں گے ‘‘(یونس:۶۹)۔
۔اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹے بہتان باندھے حالانکہ اُسے اسلام ( اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے ) کی دعوت دی جا رہی ہو (الصف:۷)
۔روز حشر کا منظر پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے چہرے اُس روز مر جھائے ہوئے ہوں گے ۔ ان کے دنیاوی اعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی وَلِٰکنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی
’’ پس وہ نہ تو اللہ کے پیغام تصدیق کرتا تھا اور نہ ہی نماز پڑھتا تھا بلکہ جھٹلاتا تھا اور پیٹھ پھیر لیتا تھا ‘‘۔(القیمٰۃ:۳۲،۳۱)
۔اہل ایمان کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ اِّذَا مَرُّوْ ابِاللَّغِْو مَرُّوْا کِرَاماً
’’ اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو کے پاس سے ان کا گزر ہو تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ‘‘۔( الفرقان:۷۲)
۔جو شخص جھوٹ بولتا ہے ، اللہ کی ہستی پر ایمان نہیں لاتا اور روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے وہ دنیا میں بھی کانٹوں کی سیج پر رہتا ہے اور آخرت میں بھی انگاروں پر چلنا ہی اس کا مقدر ہوگا
’’ کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا جو روزِ جزا کو جھٹلاتا ہے ۔ پس یہی شخص ہے جو یتیم کو دھتکارتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ‘‘۔( الماعون:۱تا۳)
گویا جھوٹ بولنے اور جھٹلانے والا شخص نہ صرف یہ کہ بخیل ہو جاتا ہے بلکہ اُس میں ریا کاری کی صفت بھی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اُس کی نماز ( اگر وہ پڑھے بھی ) تو دکھاوے کی نماز ہوتی ہے اور اس کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگتا ہے جن کے بارے میں سورۃ الماعون ہی کی آخری آیت میں فرمایا: ویمنعون الماعون’’چھوٹی سی چیز بھی کسی کو عاریتاً نہیں دیتے ‘‘۔ایسے لوگ بخل کی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں ۔ ان کا انجام سورۃ اللیل آیت نمبر۸ تا ۱۰ میں یوں بیان ہؤا۔ وَ اَمَّا مَنْ بَخِلَ َو اسْتَغْنٰی وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی فَسَنُیَسِّرُ ہ لِلْعُسْرٰی اور جس نے بخل کیا اور ( اپنے خدا سے ) بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا۔اُس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے ( نیکی اور بھلائی کی توفیق اس سے سَلْب کرلی جائے گی)
جھوٹ کی مذمت ۔ احادیث اور سنت نبویؐ کی روشنی میں
رسول کریم ؐ کا فرمان ہے :
۔اِنَّ الصِّدْقَ طْمَانِیْنَۃٌ وَّ اِنَّ الْکَذِبَ رِیْبَۃٌبے شک سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ شک ( اور بے چینی ) ہے
۔اِنَّ الصِّدْق یُنْجِیْ وَالِْکذِْبَ یُھْلِکَ۔ بے
شک سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ہلاک کر دیتا ہے ۔
۔آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کردے
جھوٹی گواہی بھی قابل مذمت ہے ۔
ایک مرتبہ ایک عورت نے آنحضورؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ ؐ میری ایک پڑوسن ہے جو میری سوتن ( سوکن) ہے ۔ اگر میں اس کے سامنے کوئی چیز یہ ظاہر کروں کہ میرے شوہر نے دی ہے حالانکہ یہ حقیقت نہ ہو اور اس سے صرف اسے جلانا مقصود ہو ۔ تو کیا یہ بھی گناہ ( جھوٹ ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا :’’ جوجتنا نہیں دیا گیا اتنے کا دکھاوا کرنے والا جھوٹ کے دو جامے پہننے والے کی طرح ہے ‘‘۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک تو یہ جھوٹ کہ وہ چیز اس کے پاس تھی ہی نہیں اور دوسرا یہ جھوٹ کہ اُس کے شوہر نے اسے نہیں دی تھی اور اُس نے جھوٹ بولا۔
معمولی جھوٹ سے اجتناب بھی ضروری ہے ۔ ہمارے معاشرے میں یہ ایک ایسی برائی ہے جسے برائی سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ مذاق کے طور پر یا شغلاً جھوٹ بول دیا جاتا ہے ۔ اچھے اچھے لوگ بے ضرر جھوٹ کو جھوٹ نہیں سمجھتے ۔ مثلاً بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں حالانکہ اس سے بچے کی تربیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ اسلام ایسے جھوٹ کی جازت نہیں دیتا ۔ ایک کم سن صحابیؓ عبد اللہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میری ماں نے مجھے بلایا کہ آئو میں تمہیں کچھ دوں گی ۔ آپ ؐ نے فرمایا : تم صرف کہہ رہی ہو یا واقعی اسے کچھ دو گی ؟ ماں نے کہا: میں اسے کھجور دوںگی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ ٹھیک ہے ۔اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو یہ تمہارا جھوٹ لکھا جاتا ‘‘۔
رسول کریم ؐ نے اپنے بارے میں فرمایا : میں مذاق بھی کر لیتا ہوں لیکن اس میں بھی سچ ہی بولتا ہوں۔اصحاب سیئر نے اس سلسلے میں چند واقعات لکھے ہیں جن میں یہ دو مشہور ہیں حضورؐ سے ایک شخص نے سواری کے لیے اونٹ طلب کیا ۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا ۔ وہ شخص پریشان ہو گیا کہ اونٹنی کے بچے پر تو سواری ممکن نہ ہوگی ۔ آپ ؐ نے ہنستے ہوئے فرمایا: ’’ ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے ‘‘۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے آپؐ سے کہا : میرے لیے جنت کی دعا فرمائیے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : کوئی بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہو گی ۔ بڑھیا رونے لگی ۔ آپؐ نے فرمایا : ’’ ہر بوڑھی عورت جوان ہو کر جنت میں جائے گی ‘‘۔
آپ کی زندگی کی یہ چھوٹی چھوٹی مثالیں ہمارے لیے قابل تقلید ہیں ۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا :’’ جو شخص دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اُس پر افسوس صد افسوس !‘‘
ایک مرتبہ ہمارے ایک عزیز جو ایک استاد بھی ہیں ہمارے گھر تشریف لائے ۔ میں نے ان سے کھانے کا پوچھا توکہنے لگے ’’ میں کھا کر آیا ہوں ‘‘۔ میں نے کہا :’’ آپ تکلفاً کہہ رہے ہیں ۔ کھانے کا وقت تو اب ہؤا ہے ‘‘۔ انہوں نے برجستہ جواب دیا : ’’ جھوٹ بول کر گناہ ہی کمانا ہے ۔ میں واقعی کھا کر آیا ہوں ‘‘۔ یہ بہت سال پہلے کاواقعہ ہے ۔ اُس وقت تو مجھے ان کی بات عجیب سی لگی کہ اس میں بھلا جھوٹ کی اور گناہ کی کیا بات ہے ۔ لیکن اس واقعے نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ آئندہ زندگی میں اس بات کی یاد نے مجھے چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ بولنے سے بھی باز رکھا ۔ اب میں نے کچھ عرصہ قبل سیرۃ النبیؐ میں ایک واقعہ پڑھا جس سے مجھے اندازہ ہؤا کہ موصوف نے بھی یہ واقعہ نہ صرف پڑھ رکھا ہوگا بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہوگا۔
واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :’’ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان کو کھانے کے لیے یا کسی اور چیز کے لیے کہا جاتاہے تو وہ تصنع اور بناوٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’ مجھے خواہش نہیں ‘‘ حالانکہ اُن کے دل میں اس کی خواہش موجود ہوتی ہے ۔
چنانچہ ایک دفعہ صحابیہ خاتون حضرت اسماء بنت یزید نے آپؐ سے دریافت کیا : ہم میں سے کوئی کسی چیز کی خواہش رکھے اور پھر کہہ دے کہ مجھے اس کی خواہش نہیں توکیا یہ جھوٹ شمار ہو گا ؟ آپ ؐ نے فرمایا : ’’ ہر چھوٹے سے چھوٹا جھوٹ لکھا جاتا ہے ‘‘۔قرآن و سنت کی تعلیم کا منشاء یہ ہے کہ مسلمان کو کسی بھی حال میں اپنے لبوں کو جھوٹ سے آلودہ نہیں کرنا چاہیے۔ جھوٹ بولنا ، جھوٹ گھڑنا ، جھوٹے الزام لگانا اور جھوٹی افواہیں
پھیلانا، کسی کو تنگ کرنے کے لیے مذاق سمجھ کر جھوٹ بولنا ( مثلاً اپریل فول منانا) یہ سب عادتیں مومن کی شان کے خلاف ہیں اور بسا اوقات کسی فرد یا قوم کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتی ہیں ۔ جیسا کہ سورۃ الحجرات آیت نمبر ۴ میں ارشاد ہوتا ہے :
’’ اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی خوب تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم نادانستگی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا دو اور پھر تمہیں اپنے کہے پر نادم ہونا پڑے‘‘۔
نبی کریم ؐ سے پوچھا گیا : کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے ؟ آپؐ نے فرمایا : ہاں عرض کیا : کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے ؟ فرمایا : ہاں ، ہو سکتا ہے ۔ عرض کیا : کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا : نہیں
آپؐ نے یہ بھی فرمایا : ’’ بے شک جھوٹ آدمی کو برائی کی طرف بلاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے ۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں وہ بہت جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے‘‘۔
دنیا میں انسان کے کان بہت سی فضول باتیں سنتے رہتے ہیں ۔ لیکن جنت کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہو گی جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیاہے:
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوً وَّ لَا کِذَّاباً
وہ ( اہل جنت) اس (جنت) میں نہ تو کوئی لغوبات سنیں گے اور نہ ہی کوئی جھوٹی بات۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سچ کو رواج دینے اور جھوٹ کو مٹانے کی توفیق دے ۔ جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ’’ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ‘‘ کا نعرہ جب بھی اور جہاں بھی بلند ہو اُس میں ہمارے کر دار کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ضرور شامل ہو ۔ آمین
استفادہ:
سیرت البنیؐ( جلد ششم) سید سلیمان ندوی ؒ
تفہیم القرآن : سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ
٭…٭…٭