ستمبر ۲۰۲۴بازی - طوبیٰ احسن

بازی – طوبیٰ احسن

”اماں میں اسکول میں جاب کرلوں؟“ نیلی نے ڈرتے ڈرتے ماں کی طرف دیکھا۔
”اماں پلیز!! “ اس نے لجاجت سے ان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھا۔
”نہیں بیٹا“۔سلائی مشین پر جھکی سلائی کرتی ہوئی رضیہ خاتون نے نفی میں سرہلایا۔”کیا ضرورت ہے گزارہ ہوتو رہا ہے“۔
”کیا خاک گزارا ہو رہا ہے“۔نیلی نے برا سا منہ بنایا۔”میں چاہتی ہوں کہ آپ کا ہاتھ بٹاؤں،آپ کی مدد کروں۔اب جبکہ میں بی ایس سی کرچکی ہوں اور گھر کے قریب اسکول میں جاب بھی مل رہی ہے تو حرج بھی کیا ہے“۔
”حرج“رضیہ خاتون نے برا سا منہ بنایا۔”حرج ہی حرج ہے۔میں اب تمھاری شادی کرنا چاہتی ہوں“۔
”شادی؟؟ میں شادی کرلوں؟“ وہ تو جیسے اچھل ہی پڑی۔”اور ابا کے سارے خواب ادھورے رہ جائیں؟ خالد کو اور مومی کو ڈاکٹر بنانا….“
”بس….کوئی بھی کام انشا ء اللہ ادھورا نہیں رہے گا۔ہمیں تمھاری کمائی کھانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ان شاءاللہ اللہ بہترین انتظام کرنے والا ہے۔خالد پڑھائی نہیں چھوڑے گا اور باقی سب بھی پڑھتے رہیں گے۔لیکن تمھاری شادی بھی ضروری ہے یہ کام وقت پر ہونا ہے سمجھیں تم؟“ انھوں نے پیار سے سمجھایا۔”اب جاؤ ڈرائنگ روم کی صفائی کرو چند لوگ آرہے ہیں دوپہر تک اور ہاں اپنا حلیہ بھی درست کرلینا“۔
نیلی کا اصل نام نائلہ تھا وہ اپنے گھر میں سب سے بڑی تھی اس نے بی ایس سی کیا ہؤا تھا۔ہفتہ بھر قبل ہی اس کا رزلٹ آیا تھا۔
اس سے چھوٹا خالد تھا وہ وہ ایف ایس سی کا اسٹوڈنٹ تھا اس کے بعد مومل تھی جو میٹرک میں تھی پھر صائم اور پھر رائم جو کہ سات سال کی تھی۔نیلی کے والد کو ایک حادثہ پیش آیا تھا جس کے باعث وہ چھ ماہ صاحب فراش رہے اور پھر ان کا انتقال ہوگیا۔نیلی ان دنوں فرسٹ ائیر میں تھی۔اچھے وقتوں میں کچھ دکانیں خرید لیں تھیں جن کا کرایہ ہر ماہ آتا تھا اور گھر کے اوپر کا پورشن بھی کرایہ پر دیا ہؤا تھا۔لہٰذا گزارہ ہورہا تھا۔اس کے علاوہ پینشن تھی اور رضیہ خاتون سلائی بھی کرتی تھیں۔جب سے انھوں نے مشین سنبھالی تھی نیلی چاہتی تھی کہ ان کا ہاتھ بٹائے لیکن رضیہ خاتون نے منع کردیا۔وہ چاہتی تھیں کہ اب اس کی شادی کردیں۔اس سلسلے میں آج ان کے ہاں کچھ لوگ آرہے تھے۔
رضیہ خاتون آج بہت خوش تھیں۔اس دن جو لوگ دیکھنے کے لیے آئے تھے نیلی کو پسند کر کے گئے تھے۔وہ لوگ سال بھر میں شادی کا ارادہ رکھتے تھے۔اس وقت وہ بیٹھیں حساب کتاب کر رہی تھیں اپنی شادی کے زیورات بھی بینک میں انہوں نے سنبھال کر رکھے تھے اب اگر میں بیسی ڈالوں تو شادی کا باقی خرچہ بھی پورا ہوجائے گا۔
٭
نیلی چپ چاپ سرجھکائے بیٹھی تھی۔ وہ اس دن کے بارے میں سوچ رہی تھی جب خالد کے ایکسیڈنٹ کی خبر آئی تھی۔وہ لوگ بھاگم بھاگ ہاسپیٹل پہنچے۔ معلوم ہؤا کہ دو گروپ لڑ پڑے۔ لڑائی دو لڑکوں کے درمیان تھی۔خالد نے دونوں لڑکوں کے درمیان بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کی۔
ایک نے چاقو نکال لیا جو خالد کے لگ گیا اور وہ گرگیا۔اسی اثنا میں لڑنے والوں کے ایک ساتھی نے گولی چلادی۔جب پولیس نے بیان لیا تو پتا چلا کہ وہ لڑکا جسے گولی لگی تھی موقع پر ہی مرگیا اور پولیس نے قتل کا الزام خالد پر عائد کردیا۔ خالد ہاسپیٹل سے جیل چلا گیا۔اس کی ابھی تک ضمانت نہیں ہوسکی۔ قتل کا کیس تھا۔ ضمانت اتنی آسان نہ تھی۔جب سے ان کے گھر میں ماتم برپا تھا۔رضیہ خاتون کی حالت سخت ناگفتہ تھی۔خالد کے جیل جانے کی خبر سن کر وہ تیورا کر گریں اور بے ہوش ہوگئیں۔ جب سے ہوش آیا تھا ان کو چپ لگی ہوئی تھی کچھ بولتی نہ تھیں بس ٹکر ٹکر دیکھتی رہتیں۔ اس بات کو ایک مہینہ ہوچکا تھا۔ جہاں نیلی کے رشتہ طے ہونے کی امید بندھ چکی تھی انھوں نے بھی انکار کردیا۔ نیلی نے اماں کو راضی کرلیا کہ وہ اسکول میں جاب کرلے۔ فائدہ یہ ہؤا کہ اسکول میں اس کو سائرہ جیسی مخلص سہیلی کا ساتھ مل گیا۔
٭
نیلی آج بہت اداس تھی۔ خالد کو جیل گئے پورے چھ ماہ ہونے کو آئے تھے۔ آج وہ اسکول کی دوست سائرہ کے ساتھ خالد سے ملنے جیل گئی تھی۔ خالد بہت نا امید اور اداس لگ رہا تھا۔ اس کو بخار بھی تھا۔
”آپ یہاں نہ آیا کریں نیلی آپا!“اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے کسی ڈوبنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔”مجھے اچھا نہیں لگتا“۔
”مجھے تم سے ملنے کا بہت دل چاہ رہا تھا خالد۔۔“۔ نیلی کی آواز بھرا گئی تھی۔ جلد ہی ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔
٭
نیلی بے حد پریشان تھی۔ نہ تو بچوں کو پڑھانے میں دل لگ رہا تھا۔اور نہ ہی کسی اور کام میں آخر کیا کرے ۔ کیسے خالد کو چھڑوائے ۔خالد کی شکل آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی۔”کاش میرے بس میں کچھ ہوتا۔ میں اپنے بھائی کے لیے کچھ کر سکتی“۔اس نے آرزدگی سے سوچا ۔
”نیلی کیا سوچ رہی ہو؟“
سائرہ نے اس کا شانہ ہلایا۔
” آں…کچھ نہیں…نیلی ہڑبڑا سی گئی۔
”کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔“
”خالد کے بارے میں سوچ رہی تھی“۔ نیلی کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
”ہاں ! “سارہ پر جوش لہجے میں بولی۔” یاد آیا میں کب سے سوچ رہی ہوں ۔ تمہیں بتاؤں ۔میرے ابو کے جاننے والے بہت اچھے وکیل ہیں۔ ان کے پاس جاکر دیکھو ۔بلکہ میں تمھارے ساتھ چلوں گی“۔
”کیا فائدہ؟“ نیلی مایوس ہورہی تھی۔
”نہیں…نہیں…تم گھبراؤ نہیں ۔میرے ابو نے بتایا تھا کہ وہ بہت اچھے وکیل ہیں۔ خالد ضرور رہا ہوجائے گا“۔
”تم سچ کہہ رہی ہو؟؟ نیلی نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا۔
”تم چل کر بات تو کرو“۔
”اچھا پھر کل چلیں گے اسکول سے واپسی پر میں اماں کو بتا دوں گی“۔
چلو ٹھیک ہے“۔
دوسرے دن دونوں مل کر وکیل کے پاس پہنچیں۔
”جی یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے “۔ وکیل نے مسکرا کر کہا۔ ”اگر آپ کا بھائی بے قصور ہے ، تو ضرور رہا ہو جائے گا۔ آب سارے ڈاکو منٹس اور معلومات مجھے دے دیں میں پورا کیس اسٹڈی کرکے آپ سے خود رابطہ کروں گا“۔
”جی ٹھیک ہے“۔
دونوں وکیل کے آفس سے نکلیں تو سائرہ بہت خوش تھی ۔
”دیکھا تم نے۔کہا تھا نا میں نے تمھارا کام بن جائے گا“۔
”اللہ کرے بس یہ مسلہ حل ہو جائے“۔ نیلی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
دوسرے دن وکیل کا فون آیا۔
”جی ٹھیک ہے ہو جائے گا آپ کا کام میں نے کیس اچھی طرح اسٹڈی کر لیا ہے آپ کل تشریف لے آئیں میرے پاس“۔
” آپکی فیس ؟ نیلی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
” وہ سب کل طے ہو جائے گا جب آپ آئیں گی“۔ وکیل سرمد ظہیر نے فون رکھ دیا تھا۔
نیلی نے فون بند کردیا۔ نہ جانے کیوں دل گھرارہا تھا۔کچھ نہ کچھ غلط تھا۔دل تھا کہ خوش ہو کر ہی نہیں دیتا۔ اس نے دل گرفتگی سے سوچا اور اماں کو جا کر ساری بات بتانے لگی۔
”یہ تو بہت خوشی کی بات ہے“۔ اماں کی آنکھیں جگمگانے لگیں۔”کتنا عرصہ ہو گیا مجھے اپنے بچے سے ملے ہوئے“۔ ان کی آواز بھرا سی گئی ۔
”اماں آپ فکر نہ کریں“۔ نیلی نے اماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور دبانے لگی۔
”سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ان شاء الله۔ “ نیلی نے صدق دل سے کہا۔
دوسرے دن نیلی جب وکیل کے آفس سے لوٹی تو اس کی عجیب حالت تھی پاؤں رکھتی کہیں تھی اور پڑتا کہیں تھا۔ یہ وکیل نے کیا کہہ دیا کیسی عجیب بات تھی۔کاش… یہ سب خواب ہوتا…کاش…
”کیا ہؤا بیٹا ؟ کیا کہا وکیل نے؟“ اماں تو کب سے محو انتظار تھیں۔
”وہ آج وکیل ملا ہی نہیں۔ میں گئی تھی لیکن وہ آج آفس آیا ہی نہیں“۔ نیلی نے جھوٹ بولا اور اماں سے نظر یں ملائے بغیر اندر آگئی۔
”کیوں نیلی ؟ وہ کیوں نہیں آیا؟“
”بس وہ…نیلی نے الماری میں سر گھسائے گھسائے جواب دیا –”یہ معلوم ہؤا کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اسی لیے وہ جلدی چلے گئے“۔ اماں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ تھی کہیں وہ نیلی کا جھوٹ نہ پکڑ لیں۔ نیلی کو کونسا جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔
”اچھا…! اماں نے سرد آہ بھری اور کمر ے سے چلی گئیں۔ نیلی نے اماں کے جاتے ہی سکھ کا سانس لیا ۔
شکر ہے اماں کو کچھ پتہ نہیں چلا“۔ نہ جانے کیا ہؤا گرم گرم آنسو اس کی گردن سے ہوتے ہوئے گربیان میں جذب ہونے لگے۔
”یا خدا میں کیا کروں… کیا کروں میں…“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
دوسرے دن نیلی کے چہرے پر سکوت تھا۔جامد خاموشی۔
نیلی کیا ہؤا ہے بیٹے کچھ پریشان ہو؟”
نہیں اماں“۔ اس نے نظر ملائے بغیر جواب دیا۔” بس طبیعت ٹھیک نہیں ہے“۔
کیا ہؤا طبیعت کو؟“ اماں بےچین ہوگئیں۔
بس تھکن محسوس ہورہی ہے“۔
آج جاؤگی وکیل کے پاس؟“
جی اماں“۔نیلی نے نظریں نیچے کرکے کہا۔
”کاش! کاش اماں مجھے روک دیں۔مجھے جانے نہ دیں“۔ نیلی کا دل دہائیاں دے رہا تھا۔
”اچھا اماں میںچلتی ہوں۔
”فی امان اللّٰہ!“ اماں چولھے کی طرف متوجہ تھیں۔ نیلی نے وکیل کو اوکے کا سگنل دے دیا تھا۔
”میری قربانی سے اگر میرے بھائی کو آزادی مل جائے تو اس میں کیا حرج!“ نیلی نے سوچا۔
آج مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ خالد کو باعزت طور پر عدالت نے بری کر دیا نہ جانے وکیل نہ کیا چکر چلایا تھا ۔ سب ہی حیرت زدہ تھے ۔ اماں تو بے حد خوش تھیں بار بار خالد کی بلائیں لے رہی تھیں۔
کبھی اس کے ہاتھ چومتیں تو کبھی ماتھا ۔ کبھی نیلی کو گلے لگاتیں۔
” نیلی تو نے تو کمال کردیا۔بیٹی ہو کر بیٹا بن کر دکھا دیا!“ اماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور نیلی اس کا دل بند ہؤا جا رہا تھا۔ آنے والے وقت کا سوچ کر اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے ۔ جب اماں اور خالد کو اصل بات پتہ چلے گی۔ تو نہ جانے کیا ہو۔ یقیناً طوفان کھڑا ہوجائے گا، اماں کتنا غصہ کریں گی۔
نیلی بےبسی سے سوچ رہی تھی۔ لیکن وہ بھی کیا کرتی اس کے پاس کوئی حل بھی نہیں تھا۔ نیلی کے دل کی ویرانی بڑھتی جارہی تھی۔
دوسرے دن نیلی اماں کے رو برو بیٹھی تھی۔
”اماں وہ آج آئیں گے…سرمد ظہیر…!“اس کا سر جھکا ہؤا تھا۔
”کیوں خیریت؟“اماں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”وہ میرا رشتہ مانگنے آئیں گے“۔نیلی کا سر بدستور جھکا ہؤا تھا۔
”کیا…؟“ اماں کی چیخ نکل گئی۔”تمھارا دماغ تو خراب نہیں؟ وہ کیوں آرہا ہے ہمارے گھر؟“
اماں وہ بہت اچھے ہیں۔میں انہیں بہت پسند کرتی ہوں‘‘۔نیلی کا لہجہ سپاٹ تھا۔
”کیا…!“ اماں غصہ سے بے قابو ہوگئیں۔”نیلی تمھارا دماغ ٹھیک ہے۔کچھ شرم ہے تمھارے اندر…!“
”اماں میں نے کہہ دیا ہے نا آپ سے“۔ اب وہ بےخوفی سے اماں کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
اماں کا ہاتھ گھوما اور ایک زوردار تھپڑ نیلی کے چہرے پر پڑا۔
”آپ کچھ بھی کرلیں لیکن آپ کو یہ رشتہ کرنا ہی ہوگا۔“
”نیلی آپا یہ آپ نے کیا کردیا۔“خالد کی آنکھیں لہو رنگ تھیں۔”آپ نے کیوں کیا ایسا؟؟“
”کیا کیا ہے میں نے؟“ نیلی نے خالد کی طرف دیکھا۔”کیا محبت کرنا جرم ہے؟“
”نیلی آپا اس سے اچھا آپ مجھے جیل میں ہی رہنے دیتیں۔ آپ کو یہ قربانی دینے کی کیا ضرورت تھی؟“ خالدنے چیخ کر کہا۔
”قربانی؟؟کیسی قربانی؟“ نیلی نے حیرت زدہ ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے خالد کی طرف دیکھا۔
اس کا دل ڈوب رہا تھا لیکن وہ اپنے آپ کو سنبھالے بڑی بہادری سے خالد کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
”میں کوئی بچہ نہیں ہوں“۔خالد کی آواز بھرا گئی۔”آپ مجھے بےوقوف نہیں بناسکتیں“۔
اماں کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہورہا تھا وہ دیوار پر کسی نادیدہ شے کو گھور رہی تھیں۔
نیلی یہ تو نے کیا کردیا…؟“جیسے ہی وہ کسی نتیجے پر پہنچیں ان کا دل لرز اٹھا۔”ہائے یہ نیلی کیا کر بیٹھی؟ اپنے بھائی کی آزادی کے لیے خود کو گروی رکھ دیا!“ اماں کسی بھربھری دیوار کی مانند ڈھے گئیں۔
٭
خوب صورت اور نفیس فرنیچر سے آراستہ سادہ سے کمرے میں نیلی دلہن بنی بیٹھی تھی۔وہ اپنے گھر والوں کے متعلق سوچنے لگی۔ گھر میں جیسے ماتم برپا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے آج نیلی کی شادی نہیں بلکہ موت کا دن ہو۔وہ دلہن نہ بنی ہو بلکہ اس کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔
پتہ نہیں سب کیا کررہے ہوں گے“۔اس نے تھک کر دیوار سے ٹیک لگالی۔
خالد نے اس کی کتنی منتیں کی تھیں کہ وہ اس رشتہ سے انکار کردے۔
”جو ہوگا میں دیکھ لوں گا“۔وہ اس کے آگے گڑگڑایا تھا۔”میں اپنی پوری زندگی جیل میں گزار لوں گا۔لیکن آپ یہ فیصلہ نہ کریں“۔
مگر نیلی ٹس سے مس نہ ہوئی۔
”میں وعدہ کر چکی ہوں۔اور اپنا وعدہ ضرور پورا کروں گی“۔ نیلی کا لہجہ مستحکم اور مضبوط تھا۔
اکیلے میں اس نے بار بار سوچا۔اس کو وہ وقت یاد آیا جب وہ پہلی بار وکیل سے ملنے گئی تھی۔ سفید بالوں والا وکیل سرمد ظہیر دور سے کافی بوڑھا دکھائی دیتا تھا۔قریب سے دیکھو تو اندازہ ہوتا کہ وہ بوڑھا نہیں تھا لیکن اس کے سفید بال اس کی ساری پرسنالٹی پر پانی پھیر دیتے تھے۔ سارا مقدمہ سن کر اس نے نیلی کی طرف دیکھا۔
”میں یہ کیس لڑنے کے لیے تیار ہوں۔میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ ہم یہ کیس جیت جائیں۔لیکن میری ایک شرط ہے“۔
کیسی شرط؟“ نیلی نے غور سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
”اگر ہم یہ کیس جیت جاتے ہیں…“ وہ ٹھہر ٹھہر کر مضبوط لہجے میں گفتگو کررہا تھا۔”تو آپ مجھ سے شادی کرلیں گی“۔
”کیا۔!“ نیلی کے قدموں سے جیسے زمین نکل گئی۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وکیل سرمد ظہیر یہ بات بھی کہہ سکتا ہے۔”آپ پاگل تو نہیں ؟ آپ کا دماغ تو خراب نہیں؟“وہ سخت طیش کے عالم میں بپھر کر بولی۔
”سامنے دروازہ کھلا ہے“۔وہ اطمینان سے دروازے کی طرف انگلی اٹھا کر بولا۔”آپ جاسکتی ہیں“۔
نیلی تھکے تھکے قدموں سے گھر لوٹ آئی پھر اگلے دن ہی سوچ کر اس نے یہ جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا۔
” بازی ہارے بھی تو مات نہیں“۔اس نے دل میں سوچا۔
خالد کے بغیر زندگی کتنی ادھوری اور ویران تھی، خوشیاں جیسے روٹھ گئی تھیں۔وہ لوگ جیسے بنا کسی سائبان کے ہوگئے تھے۔لوگ عجیب باتیں کرتے تھے۔ وہ لوگ جو نیلی کے رشتے کے لیے پسند کرگئے تھے انھوں نے بھی انکار کہلا بھیجا تھا۔اماں الگ گم صم پڑی رہتیں۔ گندا گھر، بچے اداس اور وہ خود ساری دنیا سے لڑ لڑ کر تھک گئی تھی۔
”خالد گھر آجاتا تو سمجھو زندگی پہلے کی طرح ہوجاتی۔ اس نے دل میں سوچا تھا اور فیصلہ کرلیا۔ دوسرے دن ہی اس نے سرمد ظہیر کو مثبت جواب دے دیا اور آج وہ اس کے کمرے میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔
اوکھلی میں سر دیا تو مو سلوں کا کیا ڈر۔ اچانک اس کے دل میں جو خوف تھا وہ دور ہوگیا۔دل ایک عجیب اطمینان سے بھر گیا۔جس اللہ نے سب کچھ اچھا کیا وہ آئندہ بھی اچھا کرے گا۔دل میں اطمینان ہؤا تو اتنے دنوں کی نیند جو کہ پوری نہیں ہوئی تھی پلکوں پر آٹھہری، آنکھیں بوجھل ہونے لگیں۔اس نے تکیے پر سر ٹکایا اور آنکھیں موند لیں۔ جلد ہی وہ گہری نیند سو چکی تھی۔
سرمد ظہیر کمرے میں داخل ہوا تو نیلی کو تکیے میں سر رکھ کر سوتا دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔
’’چلو اچھا ہے“۔ وہ اس کے قریب آبیٹھا۔اور غور سے نیلی کو دیکھنے لگا۔
کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ وہ تو ویسے ہی بےحد خوب صورت تھی۔جب اس کو پہلی بار دیکھا تھا تو دل اس کو دیکھتے ہی اس پر فدا ہوگیا تھا۔ لیکن دماغ نے سمجھایا کہ سرمد ظہیر اپنی اوقات کو دیکھ اپنے آپ کو پہچان، کہاں وہ خوب صورت سی لڑکی اور کہاں تم۔ وہ اٹھ کر خود کو شیشے میں دیکھنے لگا۔نہ جانے کس بیماری کی وجہ سے اس کے سر کے بال سفید ہونے شروع ہوگئے تھے۔ہر طرح کا علاج کرکے دیکھ لیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہؤا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ بالوں کو رنگنے سے اس کو الرجی ہوگئی تھی۔بالوں کو رنگنے کی صورت میں خارش اور دانوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق اس کا سر مکمل سفید ہوگیا۔اب تک دو منگنیاں ٹوٹ چکی تھیں۔درجنوں رشتوں نے انکار کردیا۔ آخرکار اس کا دل بالکل ٹوٹ گیا۔ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں۔ دوستوں،رشتہ داروں کی ترحم آمیز نظروں سے بچنے کے لیے اس نے سوچا تھا اور جیسے ہی موقع ملا اس نے فائدہ اٹھا لیا۔
وہ دوبارہ نیلی کے قریب آبیٹھا اور غور سے دیکھنے لگا۔
”میں اس کو دنیا کی ساری خوشیاں دوں گا“۔ اس نے خود سے عہد کیا۔”میں اس کو اتنا خوش رکھوں گا کہ اس کو اپنے فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوگا“۔
سرمد ظہیر نے آہستہ سے نیلی کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا ۔ وہ اپنا وعدہ وفا کرنا خوب جانتا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here