زرَک کئی دنوں سے پوَن سے تفتیش کرنے نہیں آیا۔وہ کسی انسان کی شکل کو ترس جاتی ہے۔اسے یاد آتا ہے بی بی کے گھر آخری دن کا سبق تھا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یہ سوچ کر ہی اسے نئے سرے سے امید ملتی ہے۔زرَک پون کے شہر جا کر اس کے والدین اور سہیلی سے ملتا ہے۔اس پر کچھ ایسے انکشافات ہوتے ہیں جو ناقابلِ یقین ہیں۔مگر اصل بات تو پون ہی بتا سکتی ہے ۔
اور آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا وہ نہیں آیا تھا۔ وہ چاہتی تھی وہ اسے سزا دے رہا ہے۔ ایسی سزا جو اسے پاگل بنا دے اور واقعی وہ آہستہ آہستہ پاگل ہوتی جا رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا اس کا دماغ اس کے اختیار میں نہیں ، ایسی ایسی عجیب و غریب سوچیں آتیں کہ اسے یقین ہو جاتا اس نے اپنے ہوش و حواس گم کر دیے ہیں۔
کبھی اسے لگتا وہ مرنے والی ہے اس کی موت بالکل قریب ہے۔ پھر اسے قبر کا خیال آتا وہ کہاں ہوگی۔ شاید وہیں کسی تہہ خانے میں… اگر وہ مرنے سے بچ بھی گئی، رہا بھی ہو گئی تب بھی اپنے ہوش و حواس گم کر چکی ہو گی۔
اسے رونا آگیا … سخت رونا! جی چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر روئے اور شاید اس تک اس کی آواز پہنچ جائے اور وہ آجائے۔
وہ دن میں کئی کئی بار اس کی چاپ سنتی مگر وہ نہیں آتا تھا۔ جانتی تھی یہ اس کا وہم ہے مگر اس کا یہ وہم کبھی کبھی اتنا طاقت ور ہو جاتا لگتا وہ واقعی دروازے پر کھڑا ہے آخر اسے ہو کیا گیا تھا؟ وہ کیوں ایسے سوچ رہی تھی؟ کیوں وہ اس کی ہر سوچ کا محور و مرکز بن کر رہ گیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو یاد دلاتی۔ وہ اسے اذیت اور تکلیف پہنچانے میں ہر حد سے گزر گیا تھا۔ اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے تھا۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے دل کو سمجھانے سے قاصر تھی اور اس بات پر تو وہ اپنے آپ کو مار ہی ڈالنا چاہتی تھی کہ وہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی، اس کے کان اس کی آواز ، اس کی آہٹ کے منتظر تھے۔ اسے لگتا تھا وہ کوئی امید افزا خبر لے… وہ دوطرفہ لڑائی میں مصروف تھی۔ اسے اپنے دل کی بغاوت بھی کچلنا تھی جو خود اس کے خلاف ڈٹ گیا تھا۔
یہ سب کچھ اس کے لیے بالکل نیا تھا۔ اس طرح تو اس نے کبھی اظفر کے لیے بھی محسوس نہیں کیا تھا۔وہ اپنے آپ کو سخت تکلیف میں محسوس کر رہی تھی۔ یہ تو جیل میں ڈالے جانے کی مصیبت سے بھی بڑی مصیبت تھی۔ مگر شاید یہ اسی کا خیال تھا اور اسی کا انتظار تھا جو اس کے ذہن سے محو نہیں ہوتا تھا۔ حالانکہ وہ زندہ رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس تھوڑے سے وقت میں اس نے اتنا کچھ دیکھ اور سہہ لیا تھا کہ اس کے اندر سے زندگی کی خواہش ہی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ اس کے لیے تو اب کسی بھی چیز میں کشش نہیں رہی تھی۔ یہاں سیل کی تنہائی اس کی جان نکال رہی تھی اور سیل سے باہر کی دنیا تو اس سے بھی زیادہ خونخوار تھی۔ بے رحم! اس کے لیے نہ کوئی جائے قرار تھی نہ ہی کوئی جائے پناہ۔
٭
وہ بی بی سے مل کر واپس آچکا تھا۔ اور فوراً اس کے پاس جانا چاہتا تھا مگر مصروفیات کا لامتناہی سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اس کا ڈیپارٹمنٹ بڑے عرصے سے کچھ غیر ملکیوں کی نگرانی کر رہا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ ان کی سرگرمیاں مشکوک ہونے کے باوجود بھی ان پر براہ راست ہاتھ ڈالنا آسان نہ تھا کیونکہ وہ بظاہر ایک سفارت خانے کے اہلکار تھے۔ لیکن اب کافی ثبوت اکٹھے ہونے پر انہوں نے ریڈ کیا تھا اور پھر ان کی گرفتاری پر تفتیش اور تحقیق کا ایک لمبا ہی سلسلہ تھا جو سارے کا سارا اس کی ذمہ داری تھا۔ ان کی نشاندہی پر مزید چھاپے بھی مارے گئے تھے اور یہ معاملات ابھی تک چل رہے تھے۔
وہ ان چار پانچ دنوں میں نہ ٹھیک طرح سے سویا تھا نہ کچھ کھایا تھا۔ پھر بھی صرف ایک دفعہ کپڑے بدلنے کے لیے جا سکا تھا۔ مگر ان تمام مصروفیات میں اس کا خیال ہمہ وقت اس کے ساتھ رہا تھا۔ اور جب بھی اس کا خیال آتا اسے بے بسی کا احساس دلاتا تھا۔ قطرہ قطرہ بارش کی طرح دل پر ٹپکنے والا ایک بے نام احساس۔ ایک دن جلتی بھڑکتی آگ کی صورت اختیار کر جائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا ۔ اس آگ کو بجھانے کی کوشش میں وہ ہلکان ہو رہا تھا اور ناکام ہو رہا تھا۔ یہ سب کچھ وہ محسوس کر رہا تھا۔ اس کی تکمیل جتنی پہلے ناممکن تھی اتنی ہی اب بھی تھی۔ مگر اس کے باوجود وہ اپنے دل پر ہر طرح کا اختیار کھو چکا تھا۔ اس کے دل نے اسے ہرا دیا تھا۔
اور آج جب وہ اس کے سیل میں موجود تھا تو اس کی حالت دیکھ کر اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکی ہے۔ وہ اسے دیکھ کر بھی نہیں دیکھ رہی تھی، اسے سن کر بھی نہیں سن رہی تھی۔ کبھی کبھی اسے لگتا وہ بھی اسی آگ میں جل رہی ہے جس کا وہ شکار تھا۔ مگر پھر اسے یہ سب وہم لگتا۔ وہ اس سے نفرت کرتی تھی۔ شاید نفرت۔ جو کچھ اس نے پون کے ساتھ کیا تھا وہ اسی کا مستحق تھا۔ کچھ دنوں سے وہ مسلسل یہی سوچ رہا تھا کہ اس نے جو کچھ بھی اس کے ساتھ کیا تھا اگر اس کی تلافی کرنا پڑی تو کیسے کرے گا۔ وہ اتنی نازک سی تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا اور پھر بھی اس نے اس ہر ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ نجانے اس نے یہ کیسے برداشت کیا تھا۔ کیا وہ کبھی اسے معاف کر پائے گی؟ کبھی نہیں، یہ وہ اچھی طرح سے جانتا تھا۔
وہ کافی دیر سے اس کے سیل میں موجود تھا مگر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تک نہیں تھا۔ شاید اب اس میں سر اٹھانے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔ اسے ایک دفعہ پھر پچھتاوے گھیرنے لگے۔احساس شرمندگی بڑھنے لگا۔
’’پون!‘‘ اس نے آنے کے بعد پہلی دفعہ اسے پکارا تھا۔
’’میں بی بی اور عائشہ سے ملنے گیا تھا۔‘‘
ان دو ناموں نے حیرت انگیز طور پر کام دکھایا تھا۔ اس نے فوراً سر اٹھایا تھا۔
’’کیا؟ کیسی ہیں وہ؟ کیا تم ان سے ملے؟‘‘ اس نے ایک ساتھ کئی سوال کیے تھے۔
’’ہاں میں ملا تھا ان سے۔‘‘
وہ جواب دیتے ہوئے اس کا چہرہ بغور دیکھ رہا تھا جو بالکل زرد تھا۔ آنکھوں کے نیچے حلقے تھے۔ اس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ کاش وہ کسی اچھی جگہ اچھے حالات میں ملے ہوتے، یہاں اس سیل میں نہیں جہاں سب کچھ شک کی دبیز تہہ کے نیچے چھپا ہؤا تھا، سب کچھ غیر واضح اور نامکمل تھا۔ کاش وہ اس کے متعلق ہر بات کا یقین کر سکتا بغیر سوچے، بغیر پرکھے … تو وہ اتنی تکلیف سے نہ گزرتی۔
’’مجھے وہ سب کچھ معلوم ہوچکا ہے جو تم نے آج تک نہیں بتایا۔‘‘ وہ بہت آہستہ آواز میں بول رہا تھا۔
’’لیکن وہ سب درست اور قابل یقین ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے اور اس کے لیے تمہیں مجھ پر اعتبار کرنا ہو گا ، میرے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔مجھے وہ سب کچھ بتانا ہو گا جو خود تمہارے حق میں ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔‘‘
وہ اسے قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا وہ آج بھی اسے کچھ نہیں بتائے گی، اس پر اعتبار نہیں کرے گی۔
’’مجھے تمہارے متعلق فائنل رپورٹ تیار کرکے ٹھوس ثبوت کے ساتھ اپنے سینئرز تک پہنچانی ہے اور اس کے لیے تمہارا بیان بہت اہم ہے۔ آخری فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہو گا۔ اور جو فیصلہ میں نے کرناہے وہ بھی۔ اب تمہیں سب کچھ بتانا ہی ہو گا۔‘‘ وہ قطعیت سے بولا تھا۔
’’میں سن رہا ہوں۔ سب کچھ تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں … بولو!‘‘
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گیا تھا اور وہ جسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا کہ وہ آج اتنے دنوں بعد اس کے سیل میں موجود ہے، اسے حیرت سے پوری آنکھیں کھولے بس دیکھے جا رہی تھی۔ وہ کوئی اور ہی شخص لگ رہا تھا۔ آج اس کے لبوں پر تکلیف دہ سوال اور آنکھوں میں طنز اور بے یقینی نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ اس کے چہرے اور آنکھوں میں سرخی تھی۔ وہ اسے اپنی مرضی سے بولنے کا موقع دے رہا تھا۔ آج اسے کوئی جلدی نہیں تھی بلکہ وہ بڑے اطمینان سے سامنے فرش پر بیٹھا اسے منتظر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ اس پر یقین کرنا چاہتی تھی مگر ذہن مسلسل بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔ وہ اپنے اوپر لادے سارے بوجھ اتار پھینکنا چاہتی تھی۔ اس کی موت اس اس سیل میں ہی لکھی تھی تب بھی وہ اس احساس کے ساتھ مرنا نہیں چاہتی تھی کہ اس نے دل کی بات سامنے بیٹھے اس شخص کو نہیں بتائی تھی جس کے لیے اس کا دل خود اسی کے سامنے آ کھڑا ہؤ اتھا۔ اسے لگتا اس کے سینے میں دو دل ہیں … ایک وہ جس میں زرک کے لیے صرف نفرت تھی اور دوسرا وہ تھا جو اس کی آواز پر ابھرتا تھا اور اس کی خاموشی پر ڈوب جاتا تھا۔
اب اس سے کچھ بھی چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اگر وہ بی بی اور عائشہ سے مل چکا تھا تو اس کا مطلب ہے اسے سب کچھ نہیں تو کچھ نہ کچھ ضرور پتہ چل چکا تھا۔ ویسے بھی یہ اس کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کو مجرم کی حیثیت سے یاد نہ رکھے بلکہ اسے جب بھی اس کا خیال آئے اچھا خیال آئے۔ اس کے ذہن میں اس کے متعلق جتنی بھی غلط فہمیاں ہیں وہ سب ختم ہو جائیں اور کچھ نہیں تو وہ اس کے دل میں کبھی کبھی آنے والی اچھی یادبن کر تو رہ سکتی تھی ناں… اس تک رسائی اس کے مقدر میں نہیں تھی یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ اسے پالینا اس کے خیال سے بہت دور کی بات تھی۔ جس دلدل میں وہ دھنسی ہوئی تھی اگر اس میں سے نکل بھی آتی تو بھی خود کو کیسے اس کے قابل ثابت کرتی۔ ہاں مگر اس کے سوالوں کا جواب اسے ضرور دینا تھا۔
٭
بس تیزی سے فراٹے بھرتی لاہور کی جانب رواں دواں تھی۔ آج گرلز ہائی سکول کی دسویں جماعت کا ٹرپ لاہور کی سیر کے لیے جا رہا تھا۔ لڑکیوں کی خوشی دیدنی تھی۔ سب بہت پرجوش اور خوش تھیں اور کیوں نہ ہوتیں، وہ سب پہلی مرتبہ تو اپنی مرضی سے کہیں گھومنے پھرنے جا رہی تھیں۔ آج کا سارا دن ان کا اپنا تھا جتنا جی چاہے گھومیں جتنا جی چاہے بولیں اور جو جی چاہے کھائیں اگرچہ مس فرحت ساتھ تھیں مگر آج وہ بھی سختی کرنے کے موڈ میں نہیں تھیں۔
وہ لوگ صبح سات بجے روانہ ہوئی تھیں اور اب آدھا راستہ طے ہو چکا تھا۔ لطیفے سنائے جا رہے تھے۔ ملی نغمے پڑھے جارہے تھے۔ اونچی آواز میں باتیں بھی جاری تھیں۔ بس میں ہنسی کا قہقہوں کا آوازوں کا ایک طوفان آیا ہؤا تھا۔
وہ اور عائشہ ایک ہی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور راستے میں موجود ہر چیز انسان اورجگہ پر من پسند تبصرے کر رہی تھیں۔ ساتھ چپس اور بسکٹس کے پیکٹ بھی دھڑا دھڑ کھل رہے تھے اور معدے میں منتقل ہو رہے تھے۔ سب سے پہلے بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام تھا اور پھر اس کے بعد مختلف جگہوں پر جانا تھا۔ شکر ہے دن لمبا تھا وہ کئی جگہوں پر جا سکتی تھیں۔
باتیں کرتے قہقہے لگاتے سفر کیسے کٹا پتہ ہی نہ چلا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بادشاہی مسجد پہنچ گئیں۔ ساری لڑکیاں باتیں بھول کر نیچے اترنے کی تیاری کرنے لگیں۔
’’لڑکیو! نیچے اترنے سے پہلے میری کچھ باتیں دھیان سے سن لو۔‘‘ مس فرحت اپنی سیٹ پر کھڑی کہہ رہی تھیں۔ ساری لڑکیاں ان کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں۔
’’ایک تو یہ کہ تم سب لوگ پڑھی لکھی سمجھدار لڑکیاں ہو یہ یاد رکھنا۔ یہ سکول کا ٹرپ ہے، لہٰذا بس سے اترتے ہی سب قطار بنائیں گی اور ایک ایک کرکے اندر داخل ہونا ہے۔ دوئم یہ ہرگز نہ بھولنا کہ ہم مسجد میں جو اللہ کا گھر ہے جا رہے ہیں۔ سب لوگ مسجد میں داخلے کی دعا پڑھ کر دایاں پائوں اندر رکھیں گے۔ اگر دعا نہیں آتی تو میں پڑھا دوں گی۔ سوم، مسجد عبادت کی جگہ ہے سیر و تفریح کی ہرگز نہیں۔ آپ لوگ اندر جا کر دو نفل ضرور پڑھیں۔ یہ مسجد کا حق ہے۔ اونچی آواز میں بات نہیں کرنی، بھاگنا نہیں، ہنسنا نہیں۔ چلو اب نیچے اترو اور قطار بنا لو۔‘‘ وہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے بولیں۔
لڑکیاں ایک ایک کرکے نیچے جانے لگیں۔ آخر میں مس فرحت خود اتری تھیں۔
’’سنو پون‘‘ وہ بس سے اتر کر اس کے پاس آ کھڑی ہوئی تھیں۔
’’وہ جو مسجد کے دروازے پر قدم رکھنے ہی والی تھی ان کی آواز پر رک گئی تھی۔
’’میرا خیال ہے تم اندر نہ جائو۔‘‘ وہ اتنی آہستہ آواز میں بولی تھیں کہ وہ بمشکل سن پائی تھی۔ عائشہ کو انہوں نے پہلے ہی اندر جانے کا اشارہ کر دیاتھا۔
’’کیوں مس؟‘‘ اس نے بڑی حیرت سے پوچھا تھا۔
’’مجھے صحیح طرح سے معلوم تو نہیں کہ تمہیں اندر جانا چاہیے یا نہیں۔‘‘ وہ خود بھی الجھی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ’’مگر یہ نازک مسئلہ ہے۔ تم باہر ہی رہو تو بہتر ہے۔‘‘
انہوں نے اسے اندر جانے سے روک دیا تھا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا وہ اسے روک کر خوش نہیں تھیں۔انہوں نے واضح انداز میں کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ شاید وہ اس کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ ان کی سب سے لائق اور پیاری شاگرد تھیں۔ سکول میں اس نے ان کی کئی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔ اس کی وجہ سے بڑا آرام تھا انہیں۔ جب کبھی وہ موجود نہ ہوتیں یا ان کی طبیعت خراب ہوتی وہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ان کی کلاس سنبھال لیتی بلکہ اگلا سبق بھی پڑھا دیتی۔ اس کی قابلیت پر بڑا اعتبار تھا انہیں۔ مگر آج مسئلہ ایسا تھا جس کی وجہ سے وہ صحیح اور غلط کے بیچ الجھ کر رہ گئی تھیں۔ اسے روکتے ہوئے انہیں دکھ ہو رہا تھا مگر مجبوری تھی۔ اس میں بس ایک ہی کمی تھی۔ وہ اکثر اس کے لیے دعا کرتی تھیں اللہ اس کی یہ کمی دور کر دے مگر دعا کرتے ہوئے وہ سخت بے یقینی کے شکار ہوتیں کیونکہ وہ جو کچھ اس کے لیے مانگ رہی تھیں وہ بالکل ناممکن سا لگتا تھا۔
مس اندر جا چکی تھیں۔ پون واپس آ کر بس میں بیٹھ چکی تھی۔ اسے سخت افسوس تھا۔اس نے اور عائشہ نے کیا کیا پروگرام نہ بنائے تھے، ساری مسجد دیکھیں گے، علامہ اقبال کے مزار پر جائیں گے۔ دونوں کو ہی اقبال کی شاعری بہت پسند تھی۔ لہٰذا وہ ان کی قبر پر حاضری دینا ضروری سمجھتی تھیں۔ مگر اب جب سب اندر تھیں تو وہ باہر بیٹھی اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھی کہ آخر مس نے اسے کیوں روکا۔ ایک اسی کو کیوں روکا؟ کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب لڑکیاں ایک ایک کرکے باہر آنے لگیں۔ سب مسجد کی ہی باتیں کر رہی تھیں۔
’’اتنی بڑی ہے … اتنی خوبصورت ہے اندر سے … اور نبیؐ کی چیزیں بھی تو دیکھیں‘‘ ایک لڑکی بولی تھی۔ ’’مجھے تو سخت رونا آ رہا تھا۔‘‘
’’چلو بھئی سب لوگ بس میں بیٹھو۔‘‘ مس نے آ کر کہا تو وہ اور عائشہ بھی اپنی سیٹ پر جا بیٹھیں۔
’’تمہیں کیوں روکا مس نے؟‘‘ عائشہ جاننے کے لیے بے تاب تھی۔
’’کچھ بتایا نہیں انہوں نے ۔‘‘ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ عائشہ حیران تھی۔ ’’کچھ تو کہا ہو گا۔‘‘
’’چلو چھوڑو ان باتوں کو۔‘‘ اس نے اس کا دھیان ہٹایا۔ ’’تم یہ بتائو اندر کیا کچھ دیکھا!‘‘
’’بہت کچھ دیکھا بھئی‘‘وہ مسجد کے ذکر پر پرجوش ہو گئی اور تفصیل بتانے لگی۔
’’وہاں ایک جاہل آدمی بھی دیکھا ، کھا کھا کر مسجد کے بیچوں بیچ ریپر پھینک رہا تھا۔ ‘‘ عائشہ حیرت اور غصے سے کہہ رہی تھی ۔’’میں نے تو خوب کلاس لی اس کی۔‘‘’’پورے ملک کو کوڑے دان بنا رکھا ہے ان جاہلوں نے … اور جیسے یہ کافی نہیں تھا کہ اللہ کے گھر کو بھی نہیں چھوڑا ۔ مگر ڈھیٹ ایسا کہ ریپر اٹھایا پھر بھی نہیں ، مجھے ہی اٹھانا پڑا۔‘‘ اس نے منہ بنایا اور پون کو ہنسی آگئی۔ وہ تصور میں دیکھ سکتی تھی کہ اس آدمی کے ساتھ عائشہ کی کیسے منہ ماری ہوئی ہو گی۔ سکول میں بھی اگر وہ کسی لڑکی کو کچھ پھینکتے دیکھ لیتی تو فوراً لڑنے، پہنچ جاتی تھی۔
’’تم بھی اندر جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا ناں!‘‘وہ ابھی تک اس کے اندر نہ جانے پر غمزدہ تھی۔ ’’ہم دونوں مزار پر جائیں اور پھر کوئی فرشتہ چپکے سے آکر علامہ صاحب کے کان میں کہتا کہ یہ جو دو لڑکیاں آپ کے پاس کھڑی ہیں یہ آپ سے اور آپ کی شاعری سے بہت محبت کرتی ہیں، بڑی دور سے ملنے آئی ہیں … ہے ناں!‘‘
’’ہاں بالکل‘‘ پون نے اس کی تائید کی تھی۔
اور پھر سارا دن یونہی ہنستے گھومتے کھاتے گزر گیا۔ کھا کھا کر وہ سب گلے تک بھری ہوئی تھیں اور ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہو چکا تھا اور اس دوران لڑکیوں کے تو حلیے ہی بدل چکے تھے۔ چادریں بیگز میں منتقل ہو چکی تھیں اور ان کی جگہ چھوٹے دوپٹوں نے لے لی تھی۔ اور وہ بھی کسی شرابی کی طرح کندھے پر ایک طرف پڑے جھول رہے تھے۔ اترنے سے پہلے بس میں میک اپ کا پورا ایک سیشن ہؤا تھا۔ کوئی پہچان ہی نہیں سکتا تھا کہ یہی لڑکیاں تھوڑی دیر پہلے بڑی بڑی چادریں اوڑھے مسجد میں موجود تھیں ۔ صرف وہ اور عائشہ تھیں جنہوں نے چادریں اوڑھ رکھی تھیں باقی سب اس جھنجٹ سے آزاد ہو چکی تھیں۔
ان سب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ یونیفارم بھی بدل ڈالیں اور اس کی جگہ رنگین چمکتے دمکتے کپڑوں میں باقاعدہ کیٹ واک کریں۔ ریس کورس میں گھومتے ہوئے آوارہ لڑکوں کا پورا ایک گروہ تالیاں پیٹتا، سیٹیاں بجاتا آوازے کستا لڑکیوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ یہاں تک کہ مس کو مداخلت کرنی پڑی۔ انہوں نے لڑکیوں کو ڈانٹا اور سب کو چادریں اوڑھنے کو کہا تب کہیں ان آوارہ لڑکوں سے جان چھوٹی اور اب وہ بس پہ بیٹھی واپسی کے سفر کے لیے رواں دواں تھیں۔
لاہور سے نکلتے ہوئے مس کو اپنی ایک رشتہ دار کا خیال آگیا جو یہیں کہیں رہتی تھیں۔ پھر نہ جانے وہ کب ادھر آئیں اور کب ان سے مل پائیں۔ یہی سوچ کر انہوں نے ڈرائیور کو ان کے گھر کی طرف چلنے کو کہا۔
’’تم لوگ ذرا فریش ہو جائو گھر پہنچنے میں تو ابھی کافی دیر ہے‘‘ بس رکنے پر وہ نیچے اترتے ہوئے بولی تھیں۔
مس اپنی رشتہ دار خاتون سے مل رہی تھیں اور ان کا گھر لڑکیوں سے بھر چکا تھا۔ کوئی واش روم میں تھی، کوئی آئینے کے سامنے کھڑی اپنا حلیہ درست کر رہی تھی۔ کوئی لیٹی ہوئی تھی ، کچھ ادھر ادھر گھوم پھر رہی تھیں۔
پون واش روم سے واپس آ رہی تھی جب اسے صحن کے دوسری طرف موجود ایک کمرہ نظر آیا تھا دروازہ کھلا ہؤا تھا اندر ایک خاتون اور ان کے ساتھ ایک چھوٹی بچی بیٹھی نظر آ رہی تھی۔ دونوں نے اچھی طرح سر ڈھانپے ہوئے تھے۔ خاتون نے ہاتھ میں کوئی چھوٹی سی کتاب بھی پکڑی ہوئی تھی۔
اس نے واپسی کے لیے قدم اٹھایا ہی تھا۔ جب خاتون کی آواز نے اس کے اٹھتے قدم جکڑ لیے۔
’’میں گواہی دیتی ہوں‘‘ وہ آگے آگے بول رہی تھیں۔ ’’میں گواہی دیتی ہوں ان کے پیچھے بچی کی بھی آواز ابھری تھی۔
وہ ہمہ تن گوش ہو گئی۔ یہ الفاظ نجانے کیوں اسے تجسس میں مبتلا کر گئے تھے۔ وہ سارے ماحول سے بے نیاز ہو کر خاتون کے اگلے جملے کا نہایت شدت سے انتظار کرنے لگی۔ وہ اس بچی سے کسی چیز کی گواہی لے رہی تھیں ۔ اب آگے وہ بھلا کیا کہنے والی تھیں، وہ ہر قیمت پر جاننا چاہتی تھی۔ مگر اس سے پہلے کہ خاتون کچھ بولتیں اسے مس سلمیٰ کی آواز سنائی دی۔
’’چلوبھئی لڑکیو بہت دیر ہو گئی۔ چلو چل کر بس میں بیٹھو۔‘‘ اور پھر اچانک بہت ساری لڑکیوں کی آوازیں ابھریں اور پھر اس کے بعد خاتون نے جو کچھ بھی کہا وہ لڑکیوں کے شور میں دب کر رہ گیا تھا۔ وہ سخت تشنگی لیے بس میں آبیٹھی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے کانوں میں پڑنے والا جملہ اسے بہت سناسنا لگ رہا تھا۔ یا پھر اس نے خود کبھی یہ جملہ بولا تھا، لیکن کب، کہاں، اسے یاد نہیں تھا اور وہ شدید الجھن محسوس کر رہی تھی۔ اس چھوٹے سے جملے میں کچھ تو تھا جو مسلسل اس کے دماغ میں چبھ رہا تھا۔
(جاری ہے )
٭ ٭ ٭