سامیہ تیز تیز چلتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی۔ دروازہ کھلا مل گیا تھا۔ ورنہ… اس نے اندر آکر خوف سے سوچا اور تھوڑا سا سر نکال کر باہر جھانکا ۔وہ دور کھڑا وہیں دیکھ رہا تھا۔ سامیہ کو جھانکتا دیکھ کر وہ مسکرایا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔
یا اللہ! سامیہ کے منہ سے نکلا اس نے کنڈی لگائی اور اندر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
یہ چھوٹا سا کچی آبادی کا گھر تھاجہاں کے ذرے ذرے سے دو چیزیں صاف ظاہر ہوتی تھیں۔ ایک غربت اور دوسری سلیقہ مندی۔ حمیدہ اپنے میاں کے ساتھ رخصت ہو کر اسی گھر میں آئی تھی۔ نور خان اور حمیدہ دونوں نوشہرہ کے قریب ایک گاؤں سے آئے تھے۔ نور خان ٹیکسی چلاتا تھا اور ساتھ ہی ایک بلڈنگ میں چوکیداری بھی کرتا تھا۔ صبح سات سے شام چھ بجے تک ٹیکسی چلاتا پھر گھر آتا اور گیارہ بجے چوکیداری کے لیے چلا جاتا جہاں سے پانچ بجے واپس آتا۔ دو گھنٹے آرام کرتا اور پھر ٹیکسی چلانے نکل جاتا۔
حمیدہ اس قدر محنت پر اُسے منع کرتی ناراض ہوتی لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ یہ سب بیوی بچوں کے لیے کررہا ہے۔ اس نے یہ دو کمرے کا گھر محنت کر کرکے بنالیا تھا۔ چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ، جن میں ایک بیٹا دو بیٹیوں کے بعد ہؤا اور دوسرا چار بیٹیوں کے بعد۔ نور خان نے کبھی حمیدہ کو بیٹیوں کے طعنے نہیں دیے۔ وہ اپنی بیٹیوں سے محبت کرتا تھا۔ بڑی دو بیٹیوں اور بیٹے کو اس نے اسکول میں داخل کردیا تھا۔ اسکول این جی او کا تھا لہٰذا فیس نہیں تھی۔ نور خان حمیدہ سے کہتا تھا میں تو نہیں پڑھ سکا لیکن اپنے بچوں کو ضرور پڑھاؤں گا۔
لیکن وہ اس خواب کو لے کر جلد دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ٹیکسی لے کر نکلا کسی اندھی گولی کا نشانہ بن گیا ۔ اس وقت چھوٹا بیٹا صرف چار سال کا تھا اور اس سے بڑی چار بیٹیاں چودہ سال سے چھوٹی تھیں۔ حمیدہ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اپنے لوگوں سے دورپردیس میں چھوٹے چھوٹے بچے، کوئی کمانے والا نہیں۔
حمیدہ نے عدت تو جیسے تیسے گزاری۔پھر اس نے خوب سوچ سمجھ کر شہر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سوچا واپس گاؤں جاؤں گی تو کسی نہ کسی کے آسرے پر رہنا پڑے گا ۔پھر بچوں کی تعلیم کا خواب جو نور خان نے دیکھا تھا اُس کی تعبیر کیسے نکلے گی۔ یہاں شہر میں تو بچوں کی تعلیم کا سلسلہ چل رہا ہے باقی بچے بھی پڑھ جائیں گے۔
سب سے پہلے گلی کی طرف کمرے کو آدھا کرکے ایک دکان نکال لی اور اُسے کرائے پر چڑھا دیا۔ دو بڑی بچیوں نے گھر پر چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک بچے کی فیس صرف سو روپے تھی۔ علاقہ غریب تھا۔ اتنی فیس بھی لوگ دے دیں تو غنیمت ہے، حمیدہ نے یہ کہہ کر بچیوں کا حوصلہ بڑھایا۔ یوں پندرہ سولہ سال کی دونوں بچیاں صبح اسکول جاتیں دوپہر میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتیں۔ خود حمیدہ نے گھر وںمیں کام شروع کردیا ۔دو تین گھروں میں ہی کرپاتی لیکن بہرحال وہ بھی اُس کے لیے اہم تھا۔ گھر کی روزی روٹی چلنے لگی۔ بڑا بیٹا سمیر خان جو تیرہ سال کا تھا اس پر باپ کی موت نے بڑا اثر ڈالا۔ بہت خاموش ہوگیا تھا۔ بہنوں کے لیے فکر مند رہنے لگا۔ پڑھائی پر توجہ نہ دے پارہا تھا۔ حمیدہ نے اس کو اسکول سے اُٹھا کر گاڑیوں کے مکینک کے پاس بٹھادیا۔
کچھ عرصہ وہاں بیٹھا لیکن کام سیکھنے پر توجہ نہیں تھی ۔گھر کے حالات میں دھیان رہتا۔ لوگ بھی سوال کرتے۔ شکوک و شبہات اس کے ذہن کو یکسو نہ ہونے دیتے۔ چودہ سال کی عمر میں اپنے سر پر بھاری ذمہ داری محسوس کرکے ہر وقت فکر مند رہتا۔ پھر ڈپریشن کا شکار ہوگیا لیکن ماں اس کی پریشانی نہ سمجھ سکی ۔جو سمجھی تو یہ کہ شاید موٹر ورکشاپ پر اس کا دل نہیں لگتا۔ لہٰذا اس کو وہاں سے اُٹھا کر الیکٹرک کا کام سیکھنے پر لگا دیا۔ گھر پر بڑی بہنیں تھوڑا بہت پڑھاتیں ۔بہت مشکل سے پرائیویٹ میٹرک کا امتحان دیا ۔پہلی دفعہ میں تو نہیں تیسری چوتھی دفعہ میں جا کر پاس ہو ہی گیا۔
حمیدہ کو بیٹے کو ہنر سکھانے کی بڑی خواہش تھی لیکن وہ تھوڑا کام سیکھ کر چھوڑ دیتا، الیکٹرک کے کام کے بعد اس نے رنگ سازی اور سفیدی کرنا سیکھا۔ بس اب یہ تھا کہ کچھ نہ کچھ مزدوری کرکے کمالیتا۔
بہنوں نے پڑھائی پر توجہ رکھی ۔حمیدہ بیٹیوں کی تعلیم پر بڑی محنت کرتی۔ بڑی دونوں نے انٹر کرلیا تھا۔ بس اب حمیدہ چاہتی تھی کہ اُن کا رشتہ طے کردے۔ آخر بڑی بیٹی کا گاؤں میں نصیب جڑ گیا، رشتے کی بہن کا بیٹا سعودیہ میں ڈرائیور تھا۔
ابھی رخصتی میں دیر تھی کہ جب اسے چھٹی ملے گی تب ہی پاکستان آئے گا اوررخصتی ہوگی۔ لیکن حمیدہ بہت خوش تھی کہ ایک بیٹی کا فرض ادا ہوجائے گا۔
دوسری بیٹی سامیہ تھی۔ اس نے ضد کرکے انٹر کے بعد بی اے کے لیے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ پہلے سال کے امتحان ہوگئے تھے، چھٹیوں کے بعد دوبارہ کالج کھلے تو سامیہ نے جانا شروع کیا۔ دوسرے ہفتے اسے محسوس ہؤا کہ کوئی اُس کا پیچھا کرتا ہے۔ اب تو اُسے پکا یقین ہوگیا تھا جب وہ اُس کے پیچھے پیچھے گلی تک آگیا، اندر آکر سامیہ نے جلدی سے دروازہ بند کردیا تھا اور اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔ دل ہی دل میں ڈر رہی تھی کہ ماں اس کی گھبراہٹ اور پریشانی کو بھانپ نہ جائے۔ اگر بھائی نے دیکھ لیا تو پھر تو وہ کالج جانا ہی بند کرادے گا ۔پٹھان خون تھا،بہنوں کے معاملے میں پہلے ہی پریشان رہتا تھا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔سامیہ گھبرا گئی کیا کروں؟
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ حمیدہ نے باورچی خانے سے نکل کر دروازہ کھولا۔
سامیہ کمرے سے دیکھ رہی تھی حمیدہ غصے سے کسی سے بات کررہی تھی اور پھر اس نے دروازہ بند کردیا اور سیدھی کمرے میں آگئی۔ اس نے سوالیہ نظروں سے سامیہ کو دیکھا۔
یہ لڑکا کون تھا؟
امی… مجھے نہیں معلوم مجھے تو بس یہ شک تھا کہ کچھ دنوں سے یہ میرا پیچھا کرتا ہے اور میں سوچ رہی تھی کہ آپ کو کیسے بتاؤں۔
سامیہ نے دھیرے سے کہا۔
حمیدہ نے غور سے سامیہ کو دیکھا۔ دل میں سوچا میں اپنی بیٹی کو جانتی ہوں کم از کم اتنا تو جانتی ہوں کہ وہ اس قسم کی حرکت نہیں کرسکتی۔
سامیہ ماں کے اس طرح دیکھنے سے گھبرا سی گئی۔ آنکھوں کی نمی باہر آنے کے لیے بے چین تھی۔ سامیہ نے زور سے آنکھیں بند کیں۔ یااللہ بُرا ہو ان ڈراموں کا کہ اس نے ہر رشتے میں شک کی پنیری بو دینے کا کام خوب محنت سے کیا ہے۔یہ سوچ کردو قطرے گالوں پر گرے اور سامیہ نے جھٹ انہیں رگڑا۔ حمیدہ نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگالیا۔ اس نےاب تک ضبط کا جو بند باندھا تھا ماں کے گلے لگ کر بہہ نکلا۔
بیٹا کوئی بھی بات ہو ماں سے کہنا ۔حمیدہ اس کی پشت تھپک رہی تھی۔ سامیہ کو ان شفقت بھرے ہاتھوں میں اعتماد کی ایک قوت محسوس ہوئی جو ماں تھپک تھپک کر اس کے اندر انڈیل رہی تھی۔ سامیہ نے ماں کے سینے سے سر اٹھایا اس کی آنکھوں میں جھانکا اور اُسی اعتماد کے بل پر بولی۔
امی! آپ کے علاوہ کس سے کہوں گی؟
حمیدہ مسکرائی اور باورچی خانے سے آئی کچھ جلنے کی بو پر توجہ دی۔
جاؤ دیکھو کیا جل رہا ہے؟
سامیہ کو باورچی خانے بھیج کرحمیدہ بیٹھ گئی، ذہن میں اُسی لڑکے کی آواز گونجی۔
آنٹی آپ کی اُس بیٹی سے جو ابھی کالج سے آئی ہے،سفید چادر میں ہے ،میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ اس کا نام بھی نہیں جانتا بس مجھے تو ایک اچھے اور شریف گھر کی لڑکی چاہیے تھی اور مجھے لگتا ہے وہ آپ کا ہی ہے۔
حمیدہ نے غصے سے اُسے جواب دیا تھا۔ میں تمہیں نہیں جانتی….. اور اس طرح کوئی دروازے پر رشتہ دیتا ہے؟
ٹھیک ہے کل میں چاچا کو لے کر آؤں گا۔ وہ بولا۔حمیدہ نے غصے سے دروازہ بند کردیا تھا۔
لیکن غصے میں دروازہ بند کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ و ہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگلے دن وہ لڑکا ایک بزرگ کے ساتھ آگیا۔حمیدہ کا بڑا بیٹا اُس وقت گھر پر تھا۔ حمیدہ ہی نے اُسے چھٹی کرنے کا کہا تھا۔
بزرگ نے ساری بات سلیقے سے بتائی کہ یہ سن 71ء میں بنگلادیش سے آیا تھا۔ سارے خاندان میں سے کوئی نہیں بچا تھا۔ مکتی باہنی نے سارے گھر میں خون کا دریا بہایا لوٹ مار کی اور آخر میں آگ لگادی، وجہ بہاری ہونا تھی۔ تعصب کی کیسی آگ تھی۔ ایک مسلمان ہی دوسرے کے خون کا پیاسا ہوگیا تھا۔ واقعی تعصب چیز ہی ایسی ہے۔ تعصب کی آنکھ سے اپنوں کا ظلم ظلم نہیں لگتا اور غیر کا بہتا خون بھی پانی لگتا ہے۔وہ بزرگ الٰہ آباد کے مہاجر تھےلیکن اُن کی مہاجرت قیام پاکستان کے وقت کی تھی۔انہوں نےمہاجرت کا دکھ سہاتھا، اس کو انہوں نے سہارا دیا۔
وہ بولے۔
طاہر گریجویٹ ہےاچھا شریف لڑکا ہے، محنتی ہے، پہلے میرے پاس کام کرتا تھا۔ اب اس نے خود اپنی ہارڈویئر کی دکان کھول لی ہے۔ مناسب کماتا ہے، دیکھ لیں بہن جی آج کل کے دور میں شریف لڑکے ملنے مشکل ہوگئے ہیں۔
اتنی ساری باتیں ہوئیں لیکن طاہر خاموش رہا۔
حمیدہ نے اُسے ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور بولی۔
’’بائی! ہم لوگ پٹھان ہیں اور پٹھانوں میں شادی کرتے ہیں‘ ‘ ۔
امی ایسا نہ کہیں… یہ تو ہمارے نبیؐ کی سنت ہے… ہر قوم میں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔
سمیر خان بولا جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا۔ حمیدہ بیٹے کی بات پر دل میں حیران ہوئی۔ کیسی سمجھداری کی بات کررہا ہے۔ دماغ نے کہا… تم بھی ذرا سمجھداری کی بات کرو۔
اتنی دیر میں چھوٹا بیٹا آہستہ آہستہ سنبھلتا ہؤا دو گلاس ہاتھ میں لے کر آیا جن میں شربت تھا۔ سمیر خان نے جلدی سے اُٹھ کر دونوں گلاس اس سے لیے اور مہمانوں کے قریب تپائی پر رکھ دیے۔
بائی! تم لوگ پانی پیو… ہم لوگ اس بارے میں سوچ کر بتائیں گے۔ حمیدہ نے دماغ کے مشورے کے مطابق سوچ سمجھ کر بات کی۔
طاہر کا رشتہ کئی مہینوں سوچنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتا رہا۔ وجہ وہی مہاجر ہونا تھی۔ سامیہ کالج جاتی رہی۔ اس معاملے میں اب تک اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ حتمی فیصلے کا اختیار حمیدہ کا تھا۔ دو چار دفعہ حمیدہ نے اس کو اس سلسلے میں مشورے میں شامل کرنا چاہا، لیکن سامیہ کا ایک ہی جملہ تھا ’’امی جیسا آپ چاہیں ویسا کریں‘‘۔
آخر بیٹی کی فرمانبرداری نے حمیدہ کے دل کو موم کردیا۔ وہ طاہر کے نام کے ساتھ اس کی آنکھوں کا جھکنا اور پلکوں کا دھیرے دھیرے لرزنا دیکھ ہی رہی تھی۔ کہے بغیر بیٹی کی مرضی جان گئی تھی۔ پھر بھی رشتے کو اتنے مہینوں لٹکایا تھا کہ یہ پٹھان نہیں ہے،قبیلے اور برادری کے لوگ کیا کہیں گے۔یہ بھی سمجھتی تھی کہ سامیہ نے اتنے دن میں زبان نہیں کھولی ہے۔
بس آخر بات طے ہوگئی۔ سمیر خان کا ووٹ تو پہلے دن سے طاہر کے حق میں تھا۔ اُس نے اس کی دکان دیکھی تھی اور بازار کے دوسرے لوگوں سے معلومات لی تھیں۔
یوں سامیہ دلہن بن کر رخصت ہوئی تو ساتھ رافعہ بڑی بہن بھی رخصت ہو کر گاؤں چلی گئی۔حمیدہ خوش تھی۔ زندگی کا ایک سنگ میل طے ہوگیا تھا۔
حمیدہ کو چند ماہ میں اندازہ ہوگیا کہ طاہر کی صورت میں اُسے ایک سمجھدار اور ہوشیار بیٹے جیسا داماد مل گیا ہے۔ بڑے بیٹے سمیر پر بھی اس کا اثر تھا۔ طاہر نے اُسے اپنی ہی دکان میں ایک کونہ دے دیا جہاں وہ ایک کرسی لگا کر بیٹھتا تھا۔ بورڈ پر الیکٹرک موٹر بائیک لکھ کر لگادیا تھا کہ دونوں طرح کے چھوٹے موٹے کام کرلیتا تھا۔
کبھی بڑے کام کے لیے لوگ آتے اور وہ ان کا کام نہیں کرپاتا تو اُس کو افسوس ہوتا کہ آخر کیوں نہ دھیان سے کام سیکھا۔ طاہر نے اُسے کہا ۔کوئی بات نہیں، صبح کا کچھ وقت ورکشاپ میں لگاؤ اور کام سیکھو۔
دو بہنوں کی شادی کے فرض سے سبکدوشی نے جیسے سمیر خان کو ہلکا کردیا تھا۔اب اس نے زیادہ دلجمعی سے آدھا دن کام سیکھنا شروع کردیا تھا۔ حمیدہ کی دوسری دو بڑی بیٹیوں نے ٹیوشن پڑھانا اپنے ذمے لے لیا تھا۔ پڑھائی بھی ساتھ ہی ساتھ جاری تھی۔چند ماہ میں محلے کے ہی دو گھروں سے حمیدہ کی دو بیٹیوں کے رشتے ساتھ ساتھ ہی آگئے۔ طاہر نے سمیر کے ساتھ مل کر چھان بین کی اور مناسب قرار دیا۔ حمیدہ کی سارے محلے میں بہت اچھی بات چیت تھی۔ وہ ہمسایوں کے کام آنے والی تھی۔ اُسے نور خان کی بات یاد تھی کہ ہمسایوں کا حق بڑا ہوتا ہے۔ اس بات کو اُس نے گرہ میں باندھ رکھا تھا۔
دونوں بیٹیوں کے رشتے تو طے کردیے تھے لیکن شادی کے لیے اُس نے وقت مانگ لیا تھا۔
اس رات جب سب کاموں سے فارغ ہو کر وہ بستر پر لیٹی تو اُسے نور خان کی بہت یاد آئی۔ چند گز کا کھلا صحن جو اُسے میسر تھا یہ اُسی کی دور اندیشی تھی۔ آسمان کو دیکھتے ہوئے وہ خوش تھی لیکن آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔ تاروں بھرے اپنے حصے کے آسمان پر روشنی تھی لیکن چاند نظر سے دور تھا۔ میرا آسمان تاروں سے روشن کرنے والے میرے رب! میرے باقی ستاروں کی روشنی بھی مجھے عطا کیجیے ۔ اس نے دل سے رب کو پکارا۔
غزالہ عزیز
٭ ٭ ٭