۲۰۲۳ بتول دسمبرآخری قسط - اک ستارہ تھی میں - اسما اشرف منہاس

آخری قسط – اک ستارہ تھی میں – اسما اشرف منہاس

پون رہا ہو چکی ہے۔اسے ہر الزام سے بری قرار دیا گیا ہے۔زرک کے کام سے اس کے افسران خوش ہیں۔رہائی کے بعد زرک اعتراف کرتا ہے کہ اس نے پون پر بہت سختی کی مگر یہ اس کی نوکری اور اس کا فرض تھاکہ وہ درست رپورٹ تیار کرتا ،لیکن اب وہ نادم ہے اور اپنے کیے کی تلافی کرنا چاہتا ہے۔

وہ دروازہ جو صبح و شام لوگوں کوپکارتا ہے، آئومیری طرف آئو میں تمہیں باغوں نہروں اورچشموں کی سر زمین پر لے جائوں ….تمہیں کامیاب کردوں۔
وہ بھلا اسے یہاں کیوں لایا تھا ؟ اُس نے بہت راز داری کے ساتھ خود سے سر گوشی کی تھی ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی …. اتنی کہ اسے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا ۔ ہاتھ پائوں ٹھنڈے اوربے جان ہو رہے تھے ۔ لگتا تھا وہ اپنی ایک انگلی بھی نہیں ہلا پائے گی ۔ اب بھلا زندگی کون سا رنگ دکھاتی ہے ! وہ سامنے موجود دروازے کودیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
’’ پون !‘‘ بہت دیر بعد گاڑی میں اس کی آواز گونجی تھی ۔ اُس نے اپنا سارا رخ اس کی طرف پھیر لیا تھا ۔ اور زرک اس کے چہرے کوبہت غور سے دیکھ رہا تھا جیسے اس کے دل کا حال جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’ تمہیں اپنائیت اورتحفظ کا احساس دینے کی مجھے اتنی جلدی تھی کہ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہی نہیں اور یہاں تک پہنچ گیا ‘‘ ۔
اُس نے کیا نہیں پوچھا تھا ؟ اور وہ کیا پوچھنے والا تھا ؟ وہ کیا کہنے والا تھا ؟ اس کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہؤا جا رہا تھا ۔
’’ لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟‘‘
پون کا دل ڈوبا تھا یا اُبھرا تھا، اس کی سانس رُکی تھی یا چلی تھی اسے کچھ یا د نہیں تھا سوائے اس کے کہ قوس قزح کے سارے رنگ اس کے آس پاس بکھر چکے تھے ۔ باہر بارش پھر سے تیز ہوگئی تھی اور اندراس کے آنسوئوں کی برسات ۔باہربرستی بارش کا منظر زیادہ خوبصورت تھا یا اندر برستی آنکھوں کا ، زرک فیصلہ نہیں کر پایا تھا ۔وہ اس کے جواب کا منتظر تھا ، مگر اس کے آنسوئوں سے بھیگےچہرے پر موجود رنگوں اور لبوں میں دبی مسکراہٹ نے اسے وہ جواب دے دیا تھا جوبہت سارے الفاظ بھی نہ دے پاتے۔
ؕ٭
نکاح ہوتے ہی اس کے تو سارے انداز ہی بدل گئے تھے ۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑے گاڑی کے دروازے تک لایا تھا پھر نہایت احترام کے ساتھ دروازہ کھول کر اسے اندر بٹھایا تھا ۔
’’ ہمیں یہاں سے جلدی نکلنا چاہیے کچھ بہت ضروری کام نمٹانے ہیں ‘‘۔
وہ کوئی لمبا چوڑا منصوبہ بنا رہا تھا جبکہ ابھی کچھ دیر پہلے کا منظر پون کی آنکھوں کے سامنے روشن تھا جب وہ زرک کے ساتھ مسجد کی طرف جا رہی تھی ۔ اسے یاد آیا بہت سال پہلے اس کی ٹیچر نے اسے مسجد میں جانے سے روک دیا تھا مگر آج دنیا کی کوئی طاقت اسے اللہ کے گھر میں قدم رکھنے سے روک نہیں سکتی تھی ۔ کیونکہ اس نے اس گھر کے مالک کو اپنا رب مان لیا تھا ۔ اس کے ایک ہونے کی گواہی دے ڈالی تھی ۔ اس نے دایاں پائوں دروازے کی طرف بڑھا کرمسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھی تھی آج اسے ویسے بھی پیغمبر ؐ کی دعائوں کی سخت ضرورت تھی ۔ اُس کا ہررشتہ ٹوٹ چکا تھا ۔ اب ان ؐ کے سوا کون تھا جو اُسے دعائیں دیتا ! اسے لگ رہا تھا وہ یہیں کہیں آس پاس اس کے ساتھ ہیں ۔
کچھ ہی دیربعد وہ مسجد کے اندر بیٹھے تھے ۔مولوی صاحب نکاح نامہ پُر کررہےتھے ۔ اس کی طرف کی تمام معلومات بھی زرک ہی فراہم کررہا تھا ۔ حیرت انگیز طورپر وہ اس کے متعلق ایک ایک تفصیل جانتا تھا ۔
’’دلہن کا نام پون مہر‘‘ وہ لکھوا رہا تھا ’’ دلہن کے والد کا نام مہر رمیش ٹھاکر‘‘ ۔
مولوی صاحب لکھتے لکھتے جیسے چونکے تھے ۔ اورپھر انہوںنے سراٹھا کرسوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا تھا ۔
’’ آپ ٹھیک سمجھے‘‘‘ زرک ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی بولا تھا ’’ یہ صاحب ہندو ہیں ۔‘‘
’’ اور دلہن کا مذہب ؟‘‘ مولوی صاحب کا دوسرا سوال فطری تھا ۔
’’ اسلام !‘‘ اس نے زرک کوبڑے فخر کے ساتھ کہتے سنا ۔
’’ پھر تو آپ کوبہت مبارک ہو ‘‘ مولوی صاحب پون سے مخاطب تھے ’’ اللہ نے آپ پر اپنی نعمت تمام کردی اورآپ کے لیے اسلام کوبطور دین پسند کیا اوربے شک دین تو صرف اسلام ہی ہے ‘‘ وہ یقیناً آیت کا ترجمہ سنا رہے تھے جواس کے حال کے عین مطابق تھا ۔
’’ تم تھکی ہوئی تو نہیں ہو ؟‘‘ زرک کی آواز اسے اپنی زندگی کے حسین ترین منظر سے باہر لے آئی تھی ۔
’’’ نہیں ‘‘ اس نے مختصر جواب دیا ۔
’’ شکر ہے تمہاری آواز توسنائی دی ورنہ میں توسمجھ رہا تھا میرےساتھ شادی ہونے کی خوشی میں تم گونگی ہو گئی ہو ‘‘وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ تمہارا شکریہ کے تم نے میری وضاحت کایقین کیا ‘‘ وہ واقعی شکر گزار لگ رہا تھا ’’ اور میری زندگی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ‘‘۔
مجھے تمہارا یقین کرنا ہی تھا ! وہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوئی تھی ۔ کیونکہ میں اپنے دل کے خلاف نہیں جا سکی۔ چاہنے کے باوجود تم سے نفرت نہیں کرسکی ۔تمہیں برانہیں سمجھ سکی ۔ وہ مسلسل کھڑکی سے باہردیکھ رہی تھی زرک کی طرف دیکھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی اسے اچانک اس سے بہت شرم محسوس ہو رہی تھی ۔
’’ سب سے پہلے ہم کسی بوتیک جائیں گے ۔وہاں سے نکاح کا جوڑا خرید یں گے ۔پھرابھی زیور بھی خریدنا ہے‘‘۔
’’ اس کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ وہ اس کی بات سن کرتیزی سے بولی تھی ۔
’’ یا اللہ مجھے بے ہوش ہونے سے بچا لے ‘‘ اُس نے سٹیئرنگ چھوڑ کردعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ‘‘ یہ میں کیا سن رہا ہوں …ایک لڑکی عین اپنی شادی کے دن کہہ رہی ہے کہ اسے شادی کے جوڑے اورزیور کی کیا ضرورت ہے ‘‘۔
پون نے ہونٹ بھینچ کر بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ روکی تھی گاڑی کہیں ٹریفک میں پھنس گئی تھی اور وہ اب اسے وہاں سے نکالنے کی کوشش میں مصروف تھا ۔ اُس کا سارا دھیان اسی طرف تھا پون موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی ۔ اس نے دیکھا وہ آستین لپیٹے دونوں ہاتھوں سے سٹیئرنگ پکڑے بے ہنگم ٹریفک کے ساتھ اُلجھ رہا تھا۔ اس کے بال چھوٹےچھوٹے کٹے ہوئے تھے ۔غالباً یہ اہتمام گرمی کی وجہ سے کیا گیا تھا ۔ کانوں کی لویں بہت سُرخ ہو رہی تھیں ۔ شاید شادی کی خوشی میں اور سن گلاسز بھی اب کی دفعہ ماتھے کی بجائے آنکھوں پرتھے ۔بلیک گلاسز کے مقابلے میں اُس کی رنگت مزید صاف لگ رہی تھی ۔
یہ شخص میرا ہے ! اس کے دل نے سر گوشی کی تھی۔ میرے نام کے ساتھ اس کا نام لگا ہؤااور یہ میرے لیے اتنی بڑی بات ہے کہ میں اس کے لیے دنیا لٹا سکتی ہوں ۔ اسے مجھ سے محبت ہے یانہیں مجھے نہیں معلوم کیونکہ اس نے ابھی تک ذمہ داری احساس اورہمدردی کی بات کی تھی … مگر محبت کی نہیں ۔شاید وہ ذمہ داری احساس اورہمدردی کومحبت سے زیادہ اہم سمجھتا تھا لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میرے لیے یہ شخص زندگی کی علامت ہے ۔
تھوڑی دیربعد وہ ایک بوتیک کے سامنے کھڑے تھے ۔ زرک نے خود ا س کے لیے سرخ رنگ کا ایک بہت نفیس اورخوبصورت جوڑا پسند کیا تھا ۔ پھر فٹنگ وغیرہ کے مسائل حل کراتے وہ تقریباً آدھے گھنٹے بعد قریب ہی موجود جیولری کی دکان پر پہنچے تھے ۔ وہ اس کے لیے بھاری جڑائو سیٹ لینا چاہتا تھا مگریہاں پون نے اس کی ایک نہیں سنی تھی ۔ اُسے معلوم تھا اتنا بھاری سیٹ وہ چند منٹ سے زیادہ پہن ہی نہیں سکے گی ۔ لہٰذا اس نے ایک چھوٹا سا سیٹ جس میں سفید رنگ اورسرخ موتی لگے ہوئے تھے اپنے لیے پسند کیا تھا ۔
’’ ولیمہ ہم کچھ دن کے بعد کریںگے ‘‘ وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ‘‘ ویسے تو کل بھی ہو سکتا ہے لیکن عالیہ، میری بہن دبئی ہوتی ہے اُسے وہاں سے آنے میں کچھ دن لگیں گے ۔ اگر جلدی میں بلایا تو وہ بہت ناراض ہو گی ۔ ابھی تو اس اچانک نکاح پر بھی اس کا غصہ برداشت کرنا پڑے گا ۔ تم اُس سے مل کربہت خوش ہو گی ‘‘۔
’’ کیا تم ڈرتے ہو اس سے ؟‘‘ پون نے اس کی باتوں سے یہی اندازہ لگایا تھا ۔
’’ نہیں ،محبت کرتا ہوں بہت اس سے … میرا واحد خون کا رشتہ ہےمیری جڑواں بہن …اُسے تم میرا ہی عکس سمجھو ۔ہم بہن بھائی میں بہت پیار ہے ‘‘ وہ نہ بھی کہتا تب بھی اس کے چہرے سے چھلکتی محبت دیکھ کراندازہ لگانا مشکل نہیں تھا ۔
’’ اورتمہارے والدین ؟‘‘ پون کی اس کی ذات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی ۔
’’ میں میٹرک میں تھا جب ابو فوت ہوگئے ۔دوسال پہلے امی بھی چلی گئیں ‘‘۔
وہ اس کے لہجے میں موجود دُکھ محسوس کر سکتی تھی کیونکہ وہ خود بھی ماں باپ سے جدائی کی تکلیف سے گزر چکی تھی ۔
’’ تم اپنی بہن اور دوسرے لوگوں کو اس اچانک شادی کی کیا وجہ بتائوگے ؟‘‘ اُس نے آخروہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جو بہت دیر سے اس کے دل میں کھٹک رہا تھا ۔
’’عالیہ سے تومیںکہہ دوں گا کہ تمہارے والدین باہر جا رہےتھے اس لیے ہمیںجلدی شادی کرنا پڑی ۔باقی گھر پہ صرف ایک ملازم ہی ہے اور ہمارے درمیان خاموش معاہدہ ہے ۔ وہ کوئی سوال نہیں کرتا نہ کرے گا ۔لہٰذا تم بالکل فکر نہ کرو ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ میں کسی کوبھی چاہے وہ میرا کتنا ہی قریبی رشتہ دار یا دوست کیوں نہ ہو تم سے ایسا کوئی سوال نہیں کرنے دوں گا جس سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے۔ تم پہلے ہی بہت تکلیفیں اٹھا چکی ہو لہٰذا آج کے بعد تکلیف کی تم سے ملاقات پر پابندی ہے۔ اور رہ گیا میں تو مجھ سے کوئی سوال کرنے کی ہمت کم ہی کرتا ہے ‘‘۔
اوریہ بات پون جانتی تھی وہ درست کہہ رہا تھا ۔اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جولوگوں کو اس سے زیادہ بے تکلف ہونے سے روکتا تھا۔
’’ تمہیں معلوم ہے تمہارے والدین یہاں سے جا چکے ہیں ؟‘‘ وہ سامنے دیکھتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا ۔
’’ نہیں ‘‘ وہ آہستہ سے بولی تھی ’’ لیکن میرا اندازہ تھا وہ کچھ ایسا ہی کریں گے ‘‘ پرانے زخم اسے پھر سے تکلیف دینے لگے تھے ۔
اگر تم ان سے ملنا چاہو تومجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ بلکہ میں ان سے تمہاری ملاقات کا بندو بست کروا سکتا ہوں‘‘ وہ اس کی دلجوئی کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا ۔
’’ ابھی نہیں ‘‘ کہیں دور دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی ’’ شاید یہ پھر کسی وقت … ابھی تو میں صرف بی بی سے ملنا چاہوں گی ‘‘۔
’’لگتا ہے تمہیں ان سے بہت محبت ہے ‘‘زرک نے دیکھا بی بی کے ذکر پر اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی ۔
’’ ہاں بہت … وہ میرے لیے ایک پاورہائوس کی طرح ہیں ۔ جب میری اداسی اورمایوسی بڑھنے لگتی تھی تو میں ان سے بات کرتی تھی یا سیل میں ان کی باتیں یاد کرتی تھی تو میری ہمت بڑھ جاتی تھی میں نے اسلام کا عملی تعارف انہی کو دیکھ کے حاصل کیا ۔ وہ بالکل نبیؐ کے زمانے کی عورت لگتی ہیں … بھولی بھالی معصوم … اور زندگی کے ہر معاملے میں قرآن وسنت کی پیرو کار … اس زمانے میں تو وہ شاید ہم جیسوں کو راہ دکھانے اور یہ بتانے کے لیےپیدا ہوئیں کہ اسلام آج بھی اتنا ہی قابلِ عمل ہے جتنا کہ چودہ سو سال پہلے تھا ‘‘۔
گاڑی اب ایک سیلون کے سامنے رک چکی تھی اوراسے نہ چاہتے ہوئے بھی اندر جانا پڑا تھا کیونکہ یہ زرک کا فیصلہ تھا۔بقول اس کے وہ اس کی شادی کے دن کو ہرطرح سے یاد گار بنانا چاہتا تھا ۔ جب وہ باہرآئی توشام کب کی ڈھل چکی تھی دن کوہونے والی بارش کی وجہ سےفضا خوشگوار تھی ۔ اس کی شادی کا دن موسم اور واقعات کے حساب سے حسین ترین دن بن گیا تھا۔ زرک اس کے لیے یہ دن یاد گار بنانا چاہا تھا ۔ اس کی اس خواہش میں قدرت اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی۔
’’ چلیں ؟‘‘ وہ اس کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد بولا تھا ۔’’ ہوں‘‘ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولی ۔ سیل میں وہ کتنی آسانی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لیا کرتی تھی مگر اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی طرف دیکھنا اوراس کی گہری آنکھوں کا سامنا کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا ۔
٭
تھوڑی دیر بعد ہی وہ گھر پہنچ چکے تھے ، وہ اسے صوفے پربٹھا کرکچن سے جوس کے دو گلاس لے آیا تھا جبکہ وہ اس دوران گردن گھما گھما کراس کا گھردیکھ رہی تھی ۔ کافی کشادہ آرام دہ اورصاف ستھرا لگ رہا تھا۔
’’ تمہیں یقیناً بھوک بھی لگ رہی ہو گی ‘‘ وہ اسے جوس کا گلاس پکڑاتے ہوئے بولا تھا ‘‘ ٹھہرو میں کچن میں جا کردیکھتا ہوں شاہدصاحب آج ڈنر کے لیے کیا بنا کر گئے ہیں ‘‘ وہ ایک دفعہ پھر کچن میں غائب ہوچکا تھا ۔
’’ نہیں بھئی ‘‘ وہ مایوسی سے سرہلاتا واپس آیا تھا ’’ نہایت ہی غیر شاعرانہ قسم کا کھانا بنا ہؤ ا ہے اور میں ساری زندگی یہ طعنہ نہیں سن سکتا کہ عین تمہاری شادی کے دن تمھیں ایسا کھانا کھلا یا تھا ۔ یہاں قریب ہی ایک اٹالین ریستوران ہے اُن کا لزانیہ اور مارغریتا پزا بہت مزے کا ہوتا ہے ، وہی منگوا لیتے ہیں ‘‘ اس نے فیصلہ کیا اور پھر فون کر کے آرڈر بھی دے دیا ۔
کھانے پینے کے مسائل سے نمٹ کر وہ اس کے پاس آ بیٹھا تھا ۔ پون دیکھ رہی تھی وہ جوس پیتے ہوئے بالکل خاموش تھا جیسے اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ ہو ۔ یا جوکہنا چاہتا ہووہ کہہ نہ پا رہا ہو ۔
’’ میں نے پچھلے کچھ عرصے میںبہت سارے گھاگ مجرموں کی زبانیں کھلوائی ہیں ۔ اُن سے اپنی مرضی کی باتیں اُگلوا ئی ہیں ‘‘ وہ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد بولا تھا ’’ لیکن آج تمہارے سامنے اپنی مرضی کی کوئی بات نہیں کہہ پا رہا ۔ تم میرے متعلق یہ توجان ہی گئی ہو کہ میرا کام کیا ہے … ایک مشکل اورخطر ناک کام ! ‘‘ وہ کہیں دوردیکھتے ہوئے بول رہا تھا ’’ لیکن اپنی ذاتی زندگی میں میں ایک بہت آسان اور سادہ طبیعت کا انسان ہوں ‘‘۔
’’ اچھا ؟ لگتا تونہیں ‘‘ پون دل ہی دل میں بولی تھی۔
’’ لگتا نہیں ہوں ناں !‘‘ اُس نے جیسے اس کا ذہن پڑھ لیا تھا ’’مجھے معلوم ہے میرے پیچھے لوگ مجھے طرح طرح کے القابات دیتے ہیں ، اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ بڑا مسئلہ ہے کہ جو اپنے کام سے کام رکھے کسی کے معاملات میں مداخلت نہ کرے نہ اپنے میں کرنے دے ، لوگ اسے پتا نہیں کیا کیا مشہور کردیتے ہیں ۔ میرا قصور بھی بس یہی ہے ‘‘۔
پون نے دیکھا وہ اپنے آپ کواس کے سامنے معصوم ثابت کرنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور اس کی اس معصومانہ کوشش پردل ہی دل میں مسکرا رہی تھی ۔
’’ جب تک تم سیل میں تھیں ، میرا یہ پر آسائش گھر بھی مجھے سکون نہیں دے پا رہا تھا ۔ میں راتوں کو سو نہیں پاتا تھا ۔ تم میری کلاس فیلو تھیں ، اس راز کی میں نے جان سے بڑھ کر حفاظت کی صرف اس لیے کہ تمہارا کیس مجھ سے لے کرکسی بے رحم شخص کے حوالے نہ کردیا جائے ‘‘۔
اور وہ سمجھتی رہی تھی اس سے زیادہ بے رحم بھلا کون ہو سکتا ہے ، یہ سمجھے بغیر کہ وہ کس کس محاذ پر اس کے لیے لڑ رہا تھا ۔
’’ اور جب لیڈی گارڈ نے تمہیں ٹھوکر ماری تھی تو مجھے لگا وہ ٹھوکرتمہیں نہیں مجھے لگی ہے ‘‘اس کی یادوں کا سلسلہ بہت طویل تھا ’’ سیل میں تمہیں دیکھ کر جو تعلق محسوس کیا وہ کب میری ذمہ داری بنا اوریہ ذمہ داری کب میرے دل کی بیماری بن گئی مجھے خبر ہی نہ ہو سکی ‘‘۔
پون نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ کیا کہنے کی کوشش کر رہا تھا ؟ اب تک جو کچھ وہ سمجھتی آ رہی تھی کیا کچھ اس کے برعکس بھی تھا ؟
’’ ایسے مت دیکھو ‘‘ وہ اس کی حیران آنکھوں میں دیکھ کر بولا ’’ کیونکہ یہی سچ ہے ۔ ہمارے دلوں نےبہت پہلے ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا ۔ میں نے اس حقیقت سے بھاگنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن میں جتنا تم سے دوربھاگا اتنا ہی خود کو تمہارے قریب پایا ۔ تم نے سیل میں اگر اپنی زندگی کا مشکل ترین وقت گزارا تو زندگی میری بھی آسان نہیں رہی تھی ۔ میں ہر وقت خود اپنے ہی ساتھ حالتِ جنگ میں تھا ۔ لیکن میں اتنا سا اعتراف نہیں کر پایا نہ خود سے نہ تم سے کہ مجھے تم سے محبت ہے ‘‘۔
پون کا سارا وجود جیسے خوشبو میں ڈھل چکا تھا۔ اسے اپنا آپ کسی حسین خواب کا حصہ لگ رہا تھا ۔ وہ اس کے لیے محض ایک ذمہ داری نہیں تھی بلکہ وہ اس کی محبت تھی۔
’’ تم بہت خوش قسمت ہو پون !‘‘ وہ کہہ رہا تھا ’’ اللہ نے جیسے خود تمہارا ہاتھ پکڑ کر اندھیرے سے نکالا اورتمہیں روشنی میں لے آیا ۔ تمہیں اس دنیا کی سب سے بڑی دولت یعنی ایمان کی دولت دی اورپھر تم نے اس راستے میں آنے والی ہر آزمائش کا بہت بہادری سے مقابلہ کیا ۔ تم اللہ کی نظر میں بہت قیمتی ہو اور میری نظر میں بھی ‘‘۔
’’ میں نے اسلام قبول کر کے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا سوائے اپنے آپ کے ‘‘ وہ جیسے خود سے بات کر رہی تھی ۔ ’’ مجھے آگ سے بہت خوف آتا تھا ۔ تب دنیا کے سب سے سچے انسان حضرت محمد ؐ نے آگ سے بچنے کا یہی طریقہ بتایا کہ اللہ کو ایک مان لو تومیں نے مان لیا ‘‘ وہ بہت سادگی سے کہہ رہی تھی اور زرک کو اس کا انکسا ر اچھا لگا تھا ۔
’’ پون میں تمہیں یقین دلاتا ہوں میں تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑوں گا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں میں ساری زندگی تم سے محبت کروں گا … میں ساری زندگی تمہاری عزت کروں گا … میں لمحہ لمحہ تمہاری حفاظت کروں گا‘‘۔
وہ اپنی جادو بھری آواز میں اس کے کانوں میں رس گھول رہا تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات جاری تھی ۔ آج اس کی خوش قسمتی کی کوئی حد تھی بھلا … اس کے رب نے اس کےلیےسب کچھ مکمل کردیا تھا … اپنا دین بھی اور زرک کی محبت بھی ۔
اچانک روتے روتے اس کے چہرے پرمسکراہٹ آگئی تھی۔
’’کیا ہؤا؟‘‘ زرک حیران تھا ۔ ابھی تو وہ رو رہی تھی اور اب یہ ہنسی ۔
’’ کچھ نہیں ‘‘ وہ اسی طرح ہنستے ہوئے بولی ’’ بس ایک لڑکا یاد آگیا تھا ‘‘۔
’’لڑکا ؟ کون لڑکا ؟ ‘‘
’’ میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ‘‘۔
’’ آںہاں… ‘‘ زرک نے پیچھے ہو کر صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی ۔ صاف لگ رہا تھا وہ کسی شرارت کے موڈ میں ہے۔
’’ لوگ اس لڑکے کو مغرور خود پسند لا تعلق اورنہ جانے کیا کیا کہتے تھے مگرمیں ایسا نہیں سمجھتی تھی ‘‘۔
’’ اچھا بڑی مہربانی آپ کی ‘‘ وہ شکر گزارنظر آیا ۔
’’ اب دیکھو ناں ! جسے یہ تک پتا نہ ہو کہ سن گلاسز ماتھے پر نہیں آنکھوں پر لگائے جاتے ہیں اس کی عقل میں فتور تو ہو سکتا ہے مگروہ خود پسند اورمغرور نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔
’’ اچھا تو عقل بی بی ! آپ نے جا کر اسے سن گلاسز کا صحیح مقام کیوں نہ بتا دیا ؟‘‘
’’ میرے پاس اتنی فرصت نہیں تھی ‘‘ وہ بے نیازی سے بولی ۔
’’ اگر آپ تھوڑی سی فرصت نکال کراسی وقت اس کے پاس چلی گئی ہوتیں توبیچ کے یہ مسئلے پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے ، یا پھراسی وقت حل ہو جاتے … اُف یہ پزے والا ابھی تک کیوں نہیں آیا ؟‘‘ بات کرتے اسے اچانک دھیان آیا تھا ۔ ’’ یہ لوگ ذرا بھی دور اندیش نہیں ۔ اتنا بھی نہیں جانتے آج میری شادی کا دن ہے آج توکھانا وقت پر پہنچا دیں ۔ میرا خیال ہے میں خود ہی چلا جاتا ہوں ‘‘ وہ بات کرتے کرتے دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا ۔
’’ اورہاں ‘‘‘ اسے جیسے کچھ یاد آیا ’’ کیا میں نے تمہیں بتایا ہے کہ تم دنیا کی خوبصورت ترین دلہن ہو ؟‘‘ پون کے چہرے پر اچانک ایک رنگ آیا تھا اوراس نے میکانکی انداز میں گردن دوسری طرف موڑ لی تھی۔کافی دیر تک اسے یہی محسوس ہوتا رہا تھا کہ وہ یہیں کہیں کھڑا اسے دیکھ رہا ہے حالانکہ وہ جا چکا تھا ۔ اورپھرتھوڑی دیربعد وہ اس کے گھر میں گھوم رہی تھی ، پورے حق اوراپنائیت کے ساتھ ۔ ہرچیز پر اپنا ہاتھ پھیر رہی تھی جیسے ان چیزوں کے مالک کا لمس ان پر تلاش کر رہی ہو ۔ سب کچھ بہت صاف ستھرا اوراپنی اپنی جگہ پر موجود تھا … زرک کی نفاست اور صفائی پسند طبیعت کا آئینہ دار۔
وہ سارا گھردیکھنے کے بعد ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئی تھی اورداخل ہوتے ہی اسے احساس ہوگیا تھا وہ زرک کا کمرہ تھا ۔سامنے لگے بڑے سے آئینے میں اسے اپنا عکس نظر آ رہا تھا ۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آئینے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ۔ آج وہ واقعی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ زرک کے پسند کردہ جوڑے ، اس کے اپنے پسند کردہ زیور اورمہارت سے کیے گئے میک اپ نے اسے انوکھا ہی رنگ دیا تھا ۔ اور ان رنگوں میں سب سے نمایاں زرک کی محبت کا رنگ تھا … خوبصورت پائیدار ۔
صبح وہ جیل سے نکلنے والی پژمردہ اداس خالی ہاتھ لڑکی تھی ۔ مگراب اس سے زیادہ امیراورکوئی نہیں تھا ۔ اس کا دامن مالا مال تھا ۔ برسوں پہلے جنت میں جانے کی ایک معصوم سی خواہش جنت کے مالک کوبہت پسند آئی تھی ، پھر وہی تھا جس نے اس کے دل میں اپنے پیغمبر ؐ کی محبت ڈالی ،اپنے ایک ہونے کا یقین دیا ، اس کے اندرجہنم کی آگ کا خوف پیدا کیااور جنت کی ابدی نعمتوں اورسکون کا شوق دلایا۔ اورجب اس نے رب کے تمام وعدوں کو برحق مان لیا ان پر ایمان لائی تو پھر اُسے جنت کی خوش خبری سنائی ، یہی نہیں اس ایمان کے بدلے میں اُس کی دنیا کی زندگی بھی جنت بنا دی ، جس میں یقین تھا ، سکون تھا اورزرک کی محبت تھی۔ وہ کیا تھی ؟ اس اتنی بڑی کائنات میں ایمان سے خالی ایک بے قیمت ذرہ !پھر اس کی قسمت بدلی، کیوں کہ اُس نے اس کفرکے اندھیرے کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اوراس ایک فیصلے کی بدولت وہ ایک بے قیمت ذرے سے چمکتا ستارہ بن گئی اورپھر اس ستارے کو کہکشائوں کاک راستہ مل گیا۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کوجھٹلائو گے ! اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ دل ہی دل میں اپنے اللہ سے مخاطب تھی۔
’’ اے میرے مالک ! میں تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتی میں تیری کسی نعمت کاانکار نہیں کرتی۔ اورتیری شکر گزار ہوں اورہمیشہ رہوں گی ‘‘۔
ختم شد

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here