آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے غلام بھی تمہارے بھائی ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری ماتحتی میں دے رکھا ہے۔ اس لیے جس کا بھی کوئی بھائی اس کے قبضہ میں ہو اسے وہی کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ لیکن اگر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے تو پھر ان کی خود مدد بھی کر دیا کرے۔(بخاری )
مندرجہ بالا حدیث ایک انقلابی پیغام لیے ہوئے ہے ۔ جس پر عمل سے معاشرے، ملک و ملت کے حالات سدھارے جا سکتے ہیں ۔
بنیادی طور پرفساد کی شروعات اہلِ طاقت کی اس ذہنیت سے ہوتی ہیں کہ وہ بڑا ہے اس کے لیے کمزور پرہر رویہ یا حربہ جائز ہے۔
اسلام نے ہر مقام پر کمزوروں کے حقوق کو نمایاں کر کے ان کے دفاع کا باقاعدہ نظام بنایا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں غلام کے لفظ سے غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ احکام غلام کے لیے ہے جبکہ اس وقت غلامی کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ علمائےکرام نے اس کا اطلاق ہر ماتحت پر کیا ہے۔ اس وقت ماتحتی کی سب سے بڑی اور نمایاں شکل غلامی ہی تھی۔یہ حدیث بنیادی طور پر غلام ،ماتحت ، زیر کفالت افراد سے ڈیلنگ کے بنیادی اصول سکھاتی ہے۔ یہی اصول ماڈرن مینجمنٹ سسٹم میں باقاعدہ سکھائے جاتے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیز اس پر عمل کر کے اپنی کمپنیوں کو ترقی کی طرف گامزن کیے ہوئے ہیں۔ ایک مسلم معاشرہ ہو یا غیر مسلم ان اصولوں پر عمل درآمد سے فوائد سمیٹ سکتا ہے جبکہ حقیقی اوراخروی فوائد کا حصول مسلم معاشرے میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے بنیادی نکات اور اصول الگ سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
پہلا اصول
پہلی بنیادی بات اس حدیث مبارکہ میں یہ بتائی گئی کہ وہ تمھارے بھائی ہیں۔ جیسے بہن بھائی عمر ،تجربے، استعداد کار،صلاحیتوں ، رجحانات ، مہارتوںمیں مختلف مگر مقام ومرتبہ میں برابر ہو تے ہیں ۔بالکل ویسے ہی یہ بھی مختلف ہیں لہٰذا یہ سب بھی یکساں طور پر قابل عزت اور انسان ہونے کے رتبے میں برابر ہیں ۔ان کی عزت نفس کی حرمت بھی ہے۔ غلطیوں کا صدور بھی ان سے عام بہن بھائیوں کی طرح ہو سکتا ہے۔ممکن ہے کسی صورت ان کی توہین اور بے عزتی نہیں کی جا سکتی ۔
دوسرا اصول
دوسرا اصول یہ بتایا کہ ان کو آپ کی ماتحتی میں اللہ نے دیا ہے۔ آپ اگر مالک ،آجر ، سر پرست یا طاقتور بنائے گئے تواس میں آپ کا کوئی کمال نہیں ۔یہ خالصتاً اللہ کا فیصلہ ہے کہ اس نے ان کو آپ کے ماتحت رکھا ۔ وہ چاہتا تو تمھیں ان کے ماتحت کر دیتا ،یہ بھی عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اسٹیٹس بدل جائےوہ آپ کے آقا اور آپ ان کے ماتحت کر دیےجائیں ۔ لہٰذا ان کی ماتحتی کی بنیاد پر کسی بھی درجے میں کمتر سمجھنا مناسب رویہ نہیں ۔ جیسے وہ آپ کے ماتحت ہیں ویسے ہی آپ کسی اور کے ماتحت ہیں۔ کاموں میں کوئی کام بڑا چھوٹا ،قابل عار نہیں ،عزت اور برتری کا رب کریم کا پیمانہ صرف ایک ہے اور وہ تقوی ہے۔تقویٰ کی حقیقت رب کریم کے احکامات ،پسند ،ناپسند کو اس قدر اہمیت دینا ہے کہ جس کا وہ مستحق ہے ۔
تیسرا اصول
جیسا خود کھاتے ہو ویسا کھلاؤ، کہ مسلمان اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے کرتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں وہ جو خود کھاتے وہی کھلاتے،سواری پر ساتھ بٹھاتے، اپنے جیسا پہناتے ۔
چوتھا اصول
ویسا پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو۔ پہناوے میں صرف لباس ہی نہیں گھر اور اس کی سہولیات بھی آتی ہیں۔ کچھ ایسا نہ ہو جس سے انھیں احساس ہو کہ وہ ماتحت ہیں۔کوئی بھی امتیازی سوچ ، رویہ بدظن کر سکتا ہے جس کے برے نتائج ادارے اور مالک کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ برابری کا سلوک،عزت نفس کا خیال وہ انقلابی اعمال ہیں جس کے نتائج اخلاص اور ترقی کے سوا کچھ نہیں۔ آپ جن کی عزت اور ان کے معاشی تحفظ کی زمہ داری بحسن وخوبی نباہتے ہیں وہ آپ کونہ خود نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان پہنچا نے دے سکتے ہیں۔ ایسے لوگ مستقل مزاجی اور اخلاص سے اپنے مقام پر ٹکے رہتے ہیں ۔
اگر یہ اعلیٰ اصول حکومتی اداروں میں بھی نافذ العمل ہو جائیں تو ملکی ترقی کی سمت بدلی جا سکتی ہے۔ملک و قوم کے وہ حکمران اورعہدہ داران جو اپنے ماتحت عوام کو یکساں عزت و مرتبہ دیں معاشی ،معاشرتی تحفظ کے ضامن ہوں تو قوم انھیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔
پانچواں اصول
ماتحت ایک زاویہ سے ہماری کمزوری ہوتے ہیں کہ زندگی کے ذاتی گوشوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ دلوں میں خلوص نہ ہو تو یہی لوگ انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ان کا احساس کرنا، ان کے دکھ کو اپنا دکھ ، بوجھ کو اپنا بوجھ سمجھنا ان کے دل میں جگہ بناتا ہے ۔ موٹیویشن ،ستائش ، بونس ، عزت ، قدردانی، کام کی ٹریننگ ان کو مزید مفید بنا سکتی ہے ۔
چھٹا اصول
ان کے کاموں میں معاونت کرو۔معاونت ٹریننگ ،مناسب وقت ،قوت اور صلاحیتوں میں رہنمائی سے بھی ہو سکتی ہے۔
اس کی مزید صورتیں بھی ممکن ہیں ۔
ملازمت کا بنیادی نظریہ
دنیا کو چلانا نظم و ضبط کا متقاضی ہے اور تنظیم میں اوپر ،نیچے کے درجات لازم ہیں۔ایک درجے کے افراد کی تنظیم نہیں کی جاسکتی۔تنظیم میں کوئی فرد اوپر تو کوئی کسی کا ماتحت ہوتا ہے ۔طاقت ورمقام کا اپنا نشہ ہے جو سب نشوں سے خطرناک اکثر بے قابو کر دیتا ہے ۔ لہٰذا نبیؐنے ماتحتوں سے متعلق ایسی بہترین ہدایات دیں کہ ان پر عمل سے متوازن نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔
دین پر مکمل عمل کے لیے ذہنی و معاشی آزادی لازمی ہے اسی لیے اول کاروبار کوترجیح دی گئی ۔ اگر کاروباری صلاحیت نہ ہو تو ملازمت کی جاسکتی ہےمگرسسٹم ایسا ہو کہ مالک کی محتاجی اور خوف کا غلبہ نہ ہو۔اس خوف کو مالک اور ملازم کی باہمی افہام وتفہیم سے دور کیا جا سکتا ہے۔ملازمت رزق کاایک سبب ہے۔مالک رازق نہیں ہے۔ ماتحت اور مالک دونوں کا طے کردہ معاہدہ پورا کرنا لازمی ہے۔
ملازم سے معاملہ
ملازم سے معاملہ اس کی عقل کے حساب سے کرنا ضروری ہے ۔ اس کا بھلا چاہنا،دین پر چلنے میں آسانی کرنا اہم ہے ۔مگر جب وعدہ پورا نہ کرے،کام چور ہو تو ایک دو موقع کے بعد مناسب انداز سے معذرت کرلینا بہتر ہے۔ملازمت کا معاہدہ وقت ،کام، ذمہ داری کے حوالے سے بہت واضح ہونا بھی اہم امر ہے۔ملازم یا ماتحت کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانا ظلم ہے ۔انسان کسی دوسرے انسان سے جب بھی معاملہ کرے گا اس میں غلطی،کوتاہی کا احتمال ہے۔ معمولی غلطیوں سے درگزر ہی بہتر ہے ۔
منقول ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ پاک علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:ہر روز 70 بار۔(ابو داؤد)
حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے:تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد)
ملین ،بلین میں کھیلنے والوں کی فیکٹریوں اور گھروں کے ملازم جس دردناک صورتحال ،تشدد ،ظلم و ذیادتی کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ انھیں سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو سے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے ۔نظم وضبط کی بھی کچھ حدود وقیود ہوتی ہیں ۔بعض جگہ ملازمین اپنی حدود سے نکلنے لگتے ہیں ان کے ساتھ ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق معاملہ مناسب انداز میں کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن ہر مقام پر مدنظر رہے کہ درجات و مقامات کی اونچ نیچ کے باوجودماتحتوں ،محکوموں کے معاملات میں کمزوروں کا تحفظ کیا گیا، اورانہیں برابری کے سلوک کا مستحق گرداناگیا ہے۔
اﷲ کے رسول ؐ جب رحمت اللعالمینؐ بن کر تشریف لائے تب اہل عرب غلامی کے بدتر تصور کے زیر اثر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے اصول دیےکہ بتدریج غلامانہ معاشرے کا خاتمہ ہو گیا ۔دوسروں کی خدمت کرکے روزی کمانے والوں کے حقوق و فرائض کا تعین کر کے معاشرے کو عمل کا پابند بنانا اسلام ہی کا اعجاز ہے۔حُسنِ سلوک ایک مومن کے لیے لازم ہےاس سے انسان میں نہ صرف تواضع پیدا ہوتی ہے بلکہ کئی طرح کے فوائد حصے میں آتے ہیں۔ ملازم کی جان و مال کی طرح عزت کی بھی حرمت ہے ۔
ملازمین کو اجرت کی بروقت ادائیگی کرنے میں یہ قرآن کااصول سامنے رہے:
’’اﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کو امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو، تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو۔ اﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے۔ بے شک! اﷲ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (سور النساء)
جو شخص انسانوں پر رحم نہیں کرتا، اﷲ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔
حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا: تین صفات ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی، اﷲ تعالیٰ اس کی موت آسان کردے گا اور اسے جنّت میں داخل کرے گا۔ پہلی: کمزور کے ساتھ نرمی کرنا۔ دوسری: والدین کے ساتھ شفقت کا سلوک اور تیسری اپنے غلاموں اور کنیزوں سے حسنِ سلوک۔ (مشکوۃ شریف)
مزدور اور محنت کش کو اﷲ نے اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ملازم اور خادم بھی محنت کش ہی ہوتے ہیں، لہٰذا یہ بھی اﷲ کے دوست ہیں۔ اکثر اوقات کسی چیز کے گم ہوجانے پر بلا ثبوت گھریلو ملازمین پر الزام لگا دیا جاتا ہے، بعد میں کسی گھر والے کی حرکت سامنے آتی ہے۔ اس بہتان کی اﷲ کے یہاں سخت پکڑ ہے۔
تعلیم کی اسلام میں انتہا ئی اہمیت ہے۔ پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقراء یعنی پڑھ ہے۔ دینی فریضہ ہے کہ اپنے ملازمین اور ان کے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔
ملازم کے فرائض اور ذمہ داریاں
ملازم کے حقوق کے ساتھ اہم ترین پہلو ان کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ملازم گھر کااتنا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں جنھیں ہر اونچ نیچ ، برے بھلے کی خبر ہوتی ہے ۔ یہ سب باتیں اور حالات ان کے پاس اس گھر کی امانتیں ہیں جنھیں اس گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے اکثر ملازمین اپنے فرائض اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کے ساتھ مالک سے بے وفائی کا معاملہ کرتے ہیں ۔ اسلام میں امانت کا تصور بے حد وسیع ہے جس میں گھر میں ہونے والی بات چیت اور معاملات بھی شامل ہیں جس پر سخت جوابدہی ہے۔
ایک اچھا ملازم وہ ہے جو اپنے فرائض سے خوب واقف ہو ، ترتیب کا ر اور انتظام میں ماہر ہو۔ کاموں کی اہمیت اور اوقات کار،امانت کے تصور سے بخوبی آگاہ ہو۔ مالکان سے خیر خواہی کا تعلق رکھتا ہو۔
نبی کریم ؐنے امانت داری کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس شخص میں ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں‘‘۔ (کنزالعمال)
آپؐ نے فرمایا:’’جس میں امانت نہیں ، اس میں ایمان نہیں، جس کو اپنے عہد کا پاس نہیں اس میں دین نہیں۔ اس ہستی کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! کسی بندے کا اس وقت تک دین درست نہ ہو گا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو، اور اس کی زبان درست نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا دل درست نہ ہو۔ جو کوئی ناجائز ذرائع سے مال کمائے گا اور اس میں سے خرچ کرے گا تو اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ اگر اس میں سے خیرات کرے تو وہ قبول نہیں ہوگی۔ جو اس میں سے بچ جائے گا وہ اس کے جہنم کی طرف سفر کا توشہ ہو گا‘‘۔(کنزالعمال)
آپؐ نے فرمایا:’’قیامت کی نشانیوں میں ہے کہ سب سے پہلے اس امت سے امانت کا جوہر جاتا رہے گا‘‘۔(کنز العمال)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت اس وقت تک فطری صلاحیت پر قائم رہے گی جب تک وہ امانت کو غنیمت کا مال اور زکوٰۃ کو جرمانہ نہیں سمجھے گی‘‘۔ (ایضاً)
نبی کریمؐ نے امانت میں خیانت کو نفاق کی علامت قرار دیا ہے۔ (بخاری، ۳۳)
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کی راہ میں شہید کیا جانا تمام گناہوں کا کفارہ ہے لیکن امانت کا کفارہ نہیں۔ ایک بندے کو قیامت کے روز لایا جائے گا جو شہید ہؤا ہو گا اور کہا جائے گا کہ تم امانت (جس میں اس نے خیانت کی ہو گی) ادا کرو۔ وہ کہے گا کہ اے اللہ ! اب میں اسے کس طرح لائوں ، اب تو دنیا ختم ہو چکی ہے۔ کہا جائے گا کہ اسے جہنم کے طبقہ ’ہاویہ‘ میں لے جاؤ۔ وہاں امانت والی چیز مثال بن کر اصل حالت میں اس کے سامنے آئے گی تو وہ اسے دیکھ کر پہچان لے گا اور اس کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگے گا یہاں تک کہ اسے پکڑ لے گا۔ وہ اسے اپنے کندھوں پر لاد کر چلے گا۔ لیکن جب وہ جہنم سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو وہ بوجھ اس کے کندھے سے گر پڑے گا۔ پھر وہ اس کے پیچھے ہمیشہ بھاگتا چلا جائے گا۔ اس کے بعد آپؐ نے وضو، نماز ، ناپ تول اور دیگر بہت سی چیزیں گن کر فرمایا: ان سب سے زیادہ سخت معاملہ امانت کی چیزوں کا ہے‘‘۔ (بیہقی ، شعب الایمان)
ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسولؐ اللہ نے امانت کی اہمیت کو بیان فرمایا: ’’اللہ جب کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس سے حیا کو نکال لیتا ہے۔ جب حیا اس سے نکل جاتی ہے تو ہمیشہ اس پر اللہ کا غصہ ہوتا ہے۔ جب اس پر اللہ کا غصہ رہتا ہے تو اس کے دل سے امانت نکل جاتی ہے، تُو پھر اُسے ہمیشہ چور اور خائن پاتا ہے۔ جب اسے تُو چور اور خائن پاتا ہے تو اس میں سے رحمت نکل جاتی ہے۔ جب اس میں سے رحمت نکل جاتی ہے تو اسے ہمیشہ مردود و ملعون پائے گا۔ جب وہ ہروقت مردود و ملعون ہو جاتاہے تو اس کی گردن سے اسلام کی رسی نکل گئی‘‘۔ (ابن ماجہ)
نبی کریمؐ نے امانت اور خیانت کے بارے میں آیات کا صحیح مفہوم اپنے اسوۂ حسنہ کے ساتھ پیش فرمایا۔ آپؐ جن باتوں سے پناہ مانگا کرتے تھے، ان میں سے ایک خیانت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ِ گرامی ہے:
’’اے اللہ مجھے خیانت سے بچائے رکھنا کہ یہ بہت بُرا اندرونی ساتھی ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
آپ ؐ نے فرمایا: ’’سب سے اچھا میرا زمانہ ہے، پھر وہ زمانہ جو اس کے بعد آئے گا، پھر اس کے بعد آنے والا زمانہ۔ اس کے بعد ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ بن بلائے گواہی دیں گے، خیانت کریں گے ، امانت داری نہیں کریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے‘‘۔ (بخاری) ۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ بد دیانتی قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ آپؐ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جب امانت ضائع کر دی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری)
کوئی بھی فرد جسے کسی بھی درجے کی ذمہ داری دی جائے ہر خیروخوبی کی طرف مسلسل قدم اٹھانے کی قوت دینے والا تقویٰ ہے۔ درحقیقت تقویٰ ہر اس کام سے بچنے کا نام ہے جس سے خدا کی ناراضی کا خوف ہو۔ ملازمین کے لیے ہزاروں قوانین ، نگرانی کے سیکڑوں طریقے بےکار ہوں گے جب تک دل تقویٰ کی نعمت سے مالا مال نہیں ہو جاتا اصل ایمان داری ممکن نہیں ۔صاحب تقویٰ ملازم ہی فرائض کی انجام دہی بہتر طور پر کر سکتاہے ۔تقویٰ ،امانت داری کی صفات ایک ملازم کے لیے گھر کے فرد کی سی جگہ بنا لیتی ہیں۔
اسلام معاشرے کے تمام اجزا کو ایسی مادی اور روحانی ترقی کی طرف دھکیلتا ہے جس میں دوسروں کے احساسات و جذبات تک کو قابل احترام سمجھا جائے۔ روحانی اور اخلاقی بنیادوں سے ہٹ کر معاملات پانی کا بلبلہ ثابت ہوتے ہیں۔نبی کریمؐ کے ارشادات نے احترام آدمیت کا جو پیغام دیا ہے اس سے نفسیاتی الجھنیں ختم ہوکر ،نفرت و حقارت کے دھارے تھم جاتے ہیں۔ فساد کے جراثیم اور افتراق کی قوتیں دم توڑ دیتی ہیں۔مالک ہو یا مزدور ہر ایک کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی ، معاہدے کی پاسداری ،ایک دوسرے کا خیال بے حد اہم ہے۔ یہی اسلامی معاشرے کا توازن اور حسن ہے۔
٭٭٭