میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سر فرازی میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی آج میں اپنی امی جان کی ڈائری لیے ہوئی بیٹھی ہوں ۔ یہ وہ شعر ہے جو میری پیاری امی جان کی ڈائری کے پہلے صفحے پر خود ان کے ہاتھوں سے تحریر ہے ۔ میری پیاری امی جان جمیلہ خاتون جماعت اسلامی کی رُکن تھیں انہیں آج ہم سے بچھڑے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ پچھلے رمضان المبارک کی اٹھارہویں شب عشا کے ٹائم جبکہ گھر میں نماز تراویح ادا کی جا رہی تھی وہ اس دار فانی سے رخصت ہوئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس شعر کو صرف اپنی ڈائری کی زینت بنا کر چھوڑ ہی نہیں دیا بلکہ اپنی پوری زندگی اس شعر کو معنی پہنانے میں لگا دی اور بات بھی یہ ہے کہ اجتماعیت سے وابستگی نے ہی یہ تڑپ بھی پیدا کی جس کا اظہار اس شعرکی صورت میں ہوتا ہے ۔ ہماری امی جان محترمہ جمیلہ خاتون نے اپنی تحریکی زندگی کا آغاز ضلع لیہ سے کیا جہاں ان کی پچھلی رہائش تھی ۔ تحریک سے تعارف کا ذریعہ آپا فیروزہ قریشی بنیں جو لیہ میں اسلامیہ ہائی سکول کی ہیڈ مسٹرس تھیں ۔ اُن سے سگی بہنوں جیسا تعلق رہا ۔ انہی سے امی جان نے قرآن پاک کا لفظی ترجمہ بھی پڑھا بلکہ امی ہی کی خواہش پر ہم بیٹیوں نے بھی قرآن پاک کا لفظی ترجمہ محترمہ مس فیروزہ قریشی صاحبہ ہی سے پڑھا ۔ اسی حوالے سے وہ نہ صرف ہماری استاد ہیں بلکہ اُن سے تعلق خالہ بھانجی والا بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم محترمہ فیروزہ قریشی کو خالہ باجی کہہ کر پکارتے ہیں ۔ امی جان نے لیہ کی نظامت سنبھالی ہوئی تھی جو ملتان زون کے زیر نگرانی تھا ۔ ملتان کی تنظیمی ٹیم کے دورے ،ملاقاتیں تربیت گاہیں، دعوتی کاموں کی سر گرمیاں وغیرہ یہ سب ان کے اپنے قلم سے نوٹ ہے جو آج امی مرحومہ کی میراث بن کر میرے پاس محفوظ ہے ، یہ سب در اصل اس کام کی گواہیاں ہیں جو انہوں نے حق بندگی سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کی ۔انہوں نے شعور اً اپنی زندگی کا مقصد طے کرلیا تھا اسی لیے انہوں نے ایسی اجتماعیت کو اپنایا تھا ، پوری زندگی وہ اسی کو ساتھ لے کر چلیں ۔ غالباً انیس سو نوے کی دہائی میں وہ کنبے سمیت کراچی آگئیں ، یہاں پر وہ پہلے ناظم آباد نمبر 2عزیز یہ مسجد والا حلقہ چلاتی رہیں اور اس کے بعد وہ شمسی سوسائٹی ملیر ہالٹ شفٹ ہوگئیں اور اپنے انتقال تک وہیں رہیں ۔ شمسی میں بھی گھر گھر دعوتِ دین پہنچانے کا کام کرتی رہیں ۔ علاقے والے جمیلہ خالہ کے نام سے اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں ۔ درس دینا ، درس رکھوانا ، تنظیمی کلاسز ، حلقے ، زون اور کراچی کی سطح غرض جہاں جہاں جیسے جیسے ضرورت پڑی وہ اللہ کے دین کے کام میں لگی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر والوںاور خاندان کی تربیت میں بھی بھرپور کردار ادا کیا ۔ الحمد للہ اپنے شاگردوں میں ہی نہیں اپنی اولاد میں سے بھی بہت سا صدقہ جاریہ اپنے لیے چھوڑا ۔ اللہ ربی قبول فرمائے۔ ہم لوگوں کو جب بھی کبھی لٹریچر کے لیے ضرورت پڑتی ہم اپنی امی جان کی دارالمطالعہ والی الماری کھو ل لیتے اور اپنے لیے منتخب شدہ کتاب نکال لینے ۔ محترمہ امی جان کے انتقال کے بعد بھی ان کی کتابیں ہم بہن بھائیوں نے نہ صرف آپس میں تقسیم کیں بلکہ جس کو ضرورت پڑی اس کو بھی دیں ۔ امی جان رشتے نبھانے کا فن بھی خوب جانتی تھیں ۔ کثیر الاولاد ہونے کے باوجود ہمیشہ ہر رشتے کو خوبی سے نبھایا ۔ کشادہ دلی اور مہمان نوازی میں بہت آگے تھیں ۔ ان کا یقین تھا کہ مہمان اللہ کی رحمت ہوتے ہیں اور اپنا رزق اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تواضع کی حتیٰ المقدور کوشش ہوتی ۔ ہم نے شروع ہی سے ضرورت مند خواتین کو ان کے پاس آتے جاتے دیکھا ۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ اللہ کے دیے ہوئے میں سے ان کا خیال ضرور رکھا جائے۔ میری بھابھی جو امی جان کے ساتھ رہتی تھیں بتاتی ہیںکہ کتنی ہی خواتین ان کے انتقال کے بعد عرصے تک آتی رہیں اور ان سے بچھڑنے پر اپنی سو گواری کا اظہار کرتی رہیں ۔ اپنی اولاد ،نواسے ، نواسیاں ، پوتے ، پوتیاں سب کو محبت اورحکمت کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نصیحت کرتیں ۔ وہ سب کے لیے ایک گھنے سایہ داردرخت کے مانند تھیں جس کی ٹھنڈی اور گھنی چھائوں سے سب ہی نے فیض اٹھایا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی بشری کمزوریوں سے در گزر اور رحم والا معاملہ فرمائے ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے ۔ ہم سب کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ہم سے بھی وہ کام لے جس سے وہ راضی ہو جائے اور ہم بھی اپنے لیے بے شمار گواہیاں جمع کرنے والے بن جائیں ۔ آمین ٭