۲۰۲۱ بتول نومبراللہ کی محبت اور اللہ کے لیے محبت- بتول نومبر ...

اللہ کی محبت اور اللہ کے لیے محبت- بتول نومبر ۲۰۲۱

اللہ کی محبت کیا ہے؟
احادیث سے پہلے ہم کچھ قرآنی آیات کے ذریعے یہ دیکھیں گے کہ اللہ کی محبت سے کیا مراد ہے، یہ کیسی ہوتی ہے اور اللہ کی محبت پانے کی کیا شرائط ہیں، یعنی وہ خوش نصیب کون ہیں جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ محبت فرماتا ہے ۔
اللہ کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس سے انسان دنیا و مافیہا کی ہر پریشانی اور دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت کے سرور میں انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے بے نیازہو جاتا ہے۔ اللہ کی محبت انسان کو دنیا والوں اور ان کی تلخ باتوں سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے۔ یعنی انسان کو پروا نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے بلکہ وہ صرف اللہ کے احکام کو پورا کر کے، اللہ کی محبت حاصل کرنے کی پروا کرتا ہے۔ جس کو اللہ سے محبت ہوتی ہے اس کا دل و دماغ ہمیشہ اللہ کی باتوں اور اللہ کے ذکر میں لگا رہتا ہے۔ وہ اللہ سے ملاقات کے لیے بیتاب رہتا ہے ۔ پھر ایسے شخص کے لیے نماز بوجھ کیوں کر ہوگی (نماز بھی تو اللہ سے ملاقات ہی ہوتی ہے ناں!) پھر اللہ سے محبت کرنے والے شخص کو اللہ سے منسلک ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے چاہے وہ کعبہ ہو یا اللہ کا کلام قرآن ہو یا اللہ کے رسول ﷺ ہوں۔
اللہ سے محبت کیسی ہونی چاہیے؟
اللہ سے محبت ہر چیز اور ہر ہستی کی محبت سے زیادہ ہونی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘۔ (سورہ البقرہ: 165)
یعنی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی محبت ہر دوسرے کی محبت پر مقدم ہو۔ اور کسی بھی چیز کی محبت انسان کے دل میں یہ مقام و مرتبہ نہ حاصل کر لے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے نبی ؐ ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں ، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کاتم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اس کے رسُول ؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے ، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔ (سورۃ التوبہ: 24)
اس آیت میں ’’اللہ اپنا فیصلہ ہمارے سامنے لے آئے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ ہمیں ہٹا کر دین داری کی نعمت اور پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔ اگر دنیاوی چیزوں کی محبت ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ ہو جائے، تو ہمیں اللہ کے اِس فیصلے سے ڈرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ سے اتنی زیادہ محبت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی ہی نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کے تمام لوازمات بھی عطا کیے ہیں ۔ ایمان، صحت اور تندرستی، علم اور حکمت، توانائی اور عقل، رزق اور رہائش، غرض یہ کہ اس کی عنایات کا شمار کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گِن نہیں سکتے‘‘۔(سورہ النحل: 18)
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس ان گنت نعمتوں کے عطا کرنے والے سے ہی محبت نہ کریں؟ کہیں ہم ان نعمتوں کو اپنا حق تو نہیں سمجھ بیٹھے؟ اگر ہم ان نعمتوں کو اللہ ہی کی طرف سے سمجھتے ہیں، تو ہمارے دل میں ضرور جذبہ محبت و احسان مندی کثرت سے پیدا ہوگا۔ یعنی ہم سب سے

یادہ محبت اللہ تعالیٰ سے کرنے لگیں گے۔
شرطِ محبت، اطاعتِ رسول
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا‘‘۔ (سورہ آل عمران: 31)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں رسول اس لیے بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو سیدھی راہ اور نیکی کی طرف ہدایت کریں اور جو کوئی بھی رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ہدایت پا جائے گا،تو اللہ تعالیٰ تو ہدایت یافتہ لوگوں سے محبت ہی کرتا ہے۔ اس لیے شرطِ محبت اطاعتِ رسول ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’تم اس کی (رسول کی) اطاعت کرو گے، تو خود ہی ہدایت پاؤ گے‘‘۔ (سورہ النور: 54)
اللہ تعالیٰ کس سے محبت کرتا ہے؟
وہ کون سے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے؟ مندرجہ ذیل قرآنی آیات میں اس سوال کے جوابات ہیں۔
’’احسان کا طریقہ اختیار کرو کیونکہ اللہ محسنوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔(سورہ البقرہ: 195)
احسان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے فرائض سے زیادہ کام کرے۔ جیسے کہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے۔ تو نفل، تہجد وغیرہ پڑھنا احسان کہلاتا ہے۔ رمضان کے روزے فرض ہیں اس کے علاوہ اگر ایام بیض اور پیر جمعرات کا روزہ رکھا جائے تو وہ احسان ہے۔ زکوٰۃ فرض ہے اس کے علاوہ اگر صدقہ کیا جائے تو وہ احسان ہے۔ حج فرض ہے اس کے علاوہ اگر عمرہ کیا جائے تو وہ احسان ہے۔اور بندوں کے معاملے میں احسان یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دے دیا جائے۔
’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور پاکیزگی اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ البقرہ: 222)
توبہ کرنے کا مطلب ہوتا ہے اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی طرف پلٹنا یعنی غلط راستے سے پلٹ کر سیدھی راہ کی طرف آ جانا توبہ کہلاتا ہے۔ اور یہاں پاکیزگی سے مراد جسمانی پاکیزگی بھی ہے اور روحانی پاکیزگی بھی۔
’’اور جو اپنے عہد کو پورا کرے گا اور برائی سے بچ کر رہے گا، وہ اللہ کا محبوب بنے گا کیونکہ اللہ پرہیزگار لوگوں سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 76)
پرہیزگاری کا مطلب ہمیں اس آیت کے شروع والے حصے سے ہی مل گیا ہے ۔
’’اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ آل عمران: 159)
بھروسہ کرنے کا مطلب ہے کہ انسان اپنی قوت اور صلاحیت کسی کام میں لگا دے لیکن اس کو یقین ہو کہ ہوگا وہی جو منظورِ خدا ہوگا۔ وہ اللہ پر بھروسہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جو کریں گے وہ اس کے اپنے ہی حق میں بہتر ہوگا۔
●’’اور اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ (سورہ المائدہ: 42)
انصاف پسند انسان وہ ہے جو ہر حال میں انصاف کرے چاہے انصاف کرنے سے اس کا اپنا ہی دنیاوی نقصان کیوں نہ ہو رہا ہو۔
●’’بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں‘‘۔ (سورہ الصف: 4)
یعنی اللہ تعالیٰ کو ایسی فوج سے محبت ہے جو اتحاد، تنظیم، خلوص اور اپنے مقصد کے حصول کی تڑپ رکھتی ہو، کیوں کہ یہی فوج سیسہ پلائی ہوئی دیوار کہلانے کے لائق ہے۔
●’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: 146)

صبر کرنے کے لغوی معنی ثابت قدم رہنا ہے۔ زندگی کی مشکلات کے آگے ہار نہ ماننا اور ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ کوئی نقصان پہنچنے پر مایوس ہونے کے بجائے ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔ نیکیاں کرتے ہوئے ثابت قدم رہنا اور برائیوں کے خلاف ثابت قدم رہنا بھی صبر کہلاتا ہے۔
اوپر دی گئی آیات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں۔ تو پھر یہ صفات خود میں پیدا کرنے میں دیر کیسی؟
اللہ کی محبت کے فوائد:
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
’’ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے : میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو ، تو جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں ، کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرو ، چنانچہ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بُلا کر فرماتا ہے : میں فلاں شخص سے بغض رکھتا ہوں ، تم بھی اس سے بغض رکھو ، تو جبرئیل علیہ السلام اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے بغض رکھتا ہے ، تم بھی اس سے بغض رکھو ،تو وہ ( سب ) اس سے بغض رکھتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں بھی بغض رکھ دیا جاتا ہے ‘‘۔(صحیح مسلم :6705)
اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی محبت کتنی بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے اور اللہ کی نفرت مول لینے سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور ان کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنا، ہمارے لیے قیامت کے دن حساب دینے میں بہت مدد کرے گا۔ یوں اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت ہمیں جنت میں لے جائے گی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : قیامت کب آئے گی؟ رسول اللہ ؐ نے اس سے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے ؟ اس نے کہا :’’ اللہ اور اس کے رسول ؐ کی محبت ۔ آپ نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم کو محبت ہے‘‘۔ (صحیح مسلم: 6710)
اللہ کے لیے محبت کرنا کیا ہے؟
اللہ کے لیے محبت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو زندگی کی تمام تر کڑواہٹیں دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زندگی کے لطف میں اضافہ کر دیتا ہے۔ کسی انسان سے اللہ کے لیے محبت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نہ اس کے مال و دولت کی وجہ سے اس سے محبت کی جائے، نہ اس کے ظاہری حسن کی وجہ سے، نہ شہرت کی وجہ سے، نہ اس کے رتبے کی وجہ سے، بلکہ صرف اللہ کے دین کی وجہ سے اور اس کی نیکیوں میں سبقت کی وجہ سے اس سے محبت کی جائے۔ یعنی ہم کسی انسان سے اس لیے نہ محبت کریں کہ وہ ہمارے ساتھ اچھا ہے بلکہ اس سے محبت کریں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا ہے۔ یہ ہے اللہ کے لیے محبت۔ کہ ہم کسی کو اچھے طریقے سے قرآن پڑھتا دیکھیں یا پھر غریبوں کی مدد کرتا دیکھیں یا پھر بھلائی کی طرف دعوت دیتا دیکھیں، تو ہمیں اس کی نیکیوں کی وجہ سے اس سے اللہ کے لیے محبت ہو جائے۔
بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اگر کسی سے محبت کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے لیے ہی کی جائے۔ ان سے محبت کی جائے جن سے محبت کرنا اللہ تعالیٰ کو پسند ہو جیسے رسول اللہ ؐ، صحابہ کرام، والدین، رشتے دار وغیرہ۔
اللہ کے لیے محبت کرنے کے فوائد:
اللہ کے لیے محبت کرنے کے بے شمار ثمرات ہیں۔ جیسے یہ ایمان کی مٹھاس پانے کا ایک ذریعہ ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا:
’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض

’’ تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے‘‘۔(صحیح بخاری: 16)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا(ان سات لوگوں میں یہ لوگ بھی شامل ہیں)۔’’دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی ( اللہ کے لیے محبت ) ہو‘‘۔ (صحیح بخاری: 660)
اس دن حشر کے میدان میں جب سخت گرمی ہوگی اور سورج سوا نیزے پر ہو گا، تو ہمیں ٹھنڈے سائے کے علاوہ اور کیا چاہیے ہو سکتا ہے؟ جس کو وہ ٹھنڈا سایہ مل گیا اس کو آخرت کی کامیابی اور بخشش مل گئی۔
کسی انسان سے اللہ کے لیے محبت کرنے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اللہ ہم سے محبت کرنے لگتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا کہ ایک شخص اپنے کسی بھائی سے ملاقات کرنے کسی دوسری بستی میں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتے کو چوکیدار مقرر کر دیا۔ جب وہ اس کے پاس آیا تو فرشتے نے پوچھا کہ تم کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں اس بستی میں اپنے ایک بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ فرشتے نے کہا کیا اس پر تو نے کوئی احسان کیا ہے جس کی تکمیل مقصود ہے۔ اس شخص نے جواب دیا کہ اس کے سوا کوئی بات نہیں کہ اللہ عزوجل کی خاطر اس سے محبت رکھتا ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ میں اللہ کا قاصد ہوں۔ (اور) تمہاری طرف (اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں بتا دوں) کہ جس طرح تو اللہ کی خاطر (اپنے) اس بھائی سے محبت رکھتا ہے، اسی طرح اللہ بھی تجھ سے محبت رکھتا ہے۔ (مسلم)
اللہ کے لیے کی گئی محبت کا اظہار کرنا
اللہ کے لیے اگر محبت کا اظہار کرنا سنت ہے۔ یعنی انسان دوسرے انسان کو کہے کہ میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔ حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: اے معاذ! قسم اللہ کی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، قسم اللہ کی میں تم سے محبت کرتا ہوں ، پھر فرمایا: اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا: اللهم اعنی على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك (سنن ابوداود: 1522)
ابو ادریس خولانی بیان کرتے ہیں کہ دمشق کی ایک مسجد میں میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جس کے دانت خوبصورت چمکدار تھے۔ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے۔ جب کوئی اختلاف ہوتا، تو اس کی طرف رجوع کرتے اور اس کی رائے پر عمل کرتے تھے۔ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ (حضرت) معاذ بن جبل ہیں۔(یہ وہی صحابی ہیں جن کا اوپر ذکر آیا ہے۔) جب اگلا دن ہؤا تو میں سویرے ہی (مسجد میں) جا پہنچا میں نے دیکھا وہ مجھ سے پہلے ہی آ چکے تھے اور نماز پڑھ رہے تھے، میں انتظار میں بیٹھ گیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی نماز ختم کر لی۔ پھر میں ان کے پاس آیا اور سلام کیا پھر کہا:
’’خدا کی قسم! میں اللہ کی خاطر آپ سے محبت رکھتا ہوں‘‘
انہوں نے فرمایا: ’’کیا اللہ کے لیے؟‘‘
میں نے عرض کیا: ’’ہاں اللہ کے لیے‘‘۔
انہوں نے پھر فرمایا: ’’کیا اللہ کے لیے؟‘‘
میں نے عرض کیا:’’ہاں اللہ کے لیے‘‘۔
انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا۔ پھر فرمایا: خوشخبری حاصل کرو بے شک میں نے رسول خدا ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،جو لوگ میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں اور میرے لیے مال خرچ کرتے ہیں، ان سے محبت کرنا میرے لیے واجب ہے۔ (موطا)
انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھا ہؤا تھا کہ ایک آدمی ساتھ سے گزرا۔ انس بن مالک نے کہا کہ’’اے رسول اللہ ؐ! بے شک میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں‘‘۔
تو آپؐ نے دریافت کیا:’’ کیا تم نے اس کو بتایا کہ تم اس سے محبت کرتے ہو؟‘‘

محبت کرتے ہو؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’نہیں‘‘
آپؐنے فرمایا:’’تو اٹھو اور اسے جا کر بتاؤ‘‘
وہ اٹھے اور انہوں نے اس کو بتایا کہ’’اے فلاں بن فلاں! اللہ کی قسم میں تجھ سے اللہ کی خاطر محبت رکھتا ہوں‘‘۔
اس شخص نے کہا: ’’تم سے وہ محبت کرے جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو‘‘۔
یعنی کہ رسول اللہ ؐ نے ترغیب دی کہ اگر آپ کسی شخص سے اللہ کی خاطر محبت رکھتے ہوں تو اسے دل میں چھپا کر نہ رکھیں، بلکہ اس کا اظہار بھی کریں۔ یہ ترغیب حضور ؐنے ایسے معاشرے میں دی جہاں محبت کا اظہار کرنا انوکھی چیز سمجھا جاتا تھا۔ (دھیان رہے کہ یہاں پر صرف حلال اور جائز محبت کی بات ہو رہی ہے)۔
اسی طرح ہمارے آج کے معاشرے میں اگر اللہ کے لیے کی گئی محبت کا اظہار کرنا ختم ہوگیا ہے تو یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے پاس موزوں ماحول نہیں اس لیے ہم اس سنت پر عمل نہیں کرسکتے۔ بلکہ اللہ کے لیے محبت کرنے کا اور اس محبت کا اظہار کرنے کا ماحول تو آپ بنائیں گے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے، اس لیے آپ بھی اس سنت کو زندہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالیے۔ اگر اس سنت کو عربی میں زندہ کرنا ہو، تو کہتے ہیں: اُحِبَّك في اللّٰه یعنی میں آپ سے اللہ کی خاطر محبت کرتی ہوں، اور جس کو کہا جائے وہ اس کا جواب یہ دے: اَحَبَّكَ الَّذِي اَحْبَبْتَنِي لَهُ یعنی تم سے وہ محبت کرے جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ (یہ بہترین جواب ہے لیکن لازمی نہیں ہے کہ اس کا جواب یہی دیا جائے۔ یہ یہاں اس لیے بتایا گیا ہے کیونکہ صحابہ کی زندگی سے ہمیں یہی جواب سیکھنے کو ملتا ہے)۔
حاصل کلام:
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس سے محبت کریں، اور اس کی محبت حاصل کریں۔ ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت بھی رکھیں اور اس کا اظہار بھی کریں۔ جیسا کہ ہمیں رسول اللہ ؐ نے یہ دعا سکھائی:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ
”اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں، اور میں اس شخص کی بھی تجھ سے محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے، اور ایسا عمل چاہتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے، اے اللہ! تو اپنی محبت کو مجھے میری جان اور میرے گھر والوں سے زیادہ محبوب بنا دے، اے اللہ! اپنی محبت کو ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ کر دے“ ۔(سنن الترمذی: 3490) الُّلھم آمین!
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here