۲۰۲۴ بتول فروریاسلامی تاریخ کے دو حکمران - میر بابر مشتاق

اسلامی تاریخ کے دو حکمران – میر بابر مشتاق

حضرت عمر بن عبد العزیزؒ
اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ جن کا دور خلافت اس قدر تابناک اور روشن ہے کہ لوگ آپ ؓ کو پانچویں خلیفہ راشد کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ آپ کا دورِخلافت گرچہ بہت مختصر تھا ، تاہم اس نے حضرت عمر بن خطابؒ کے دور کی یاد تازہ کردی ۔ چنانچہ آپ کو عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ۔
آپ کانام عمر اور کنیت ابو حفص ہے ۔ آپ کی والدہ محترمہ ام عاصم خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب کی پوتی ہیں ۔ آپ نے ہجرت کی اکسٹھویں سال مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی ۔ یہ بنو امیہ کی خلافت کا دور تھا ۔ اسلامی مملکت دور دور تک پھل چکی تھی ۔ افریقہ اور مغرب کے تمام شہر ، سندھ، کابل اور فرغانہ روم ، قسطنطنیہ، قبرص اس مملکت میں شامل تھے ۔ گویا اندلس کے آخری گوشوں سے سندھ تک اور بلاد روم سے چین کی دیواروں تک اسلامی مملکت کا سکہ رواں تھا۔
آپؒ نے بچپن ہی میں قرآن حفظ کرلیا ۔ عربی زبان اور شعر گوئی کی تعلیم حاصل کی ۔ علم حدیث مختلف شیوخ سے سیکھا ، تاہم زیادہ تر حضرت عبد اللہ عتبہؒ سے استفادہ کیا ۔ بڑے اور اہم محدثین نے حضرت عمر بن عبد العزیز کے علم و فضل کو سراہا ۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیںکہ وہ بڑے امام، بڑے فقیہ، بڑے مجتہد ، حدیث کے بڑے ماہر اور معتبر حافظ تھے ۔ مشہور تابعی حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں ’’ ہم لوگ انہیں تعلیم دینے گئے تھے لیکن کچھ دنوں بعد ہم خود ان سے تعلیم حاصل کرنے لگے‘‘۔
آپؒ کے والد کے انتقال کے بعد آپ کے چچا عبد الملک بن مروان نے اپنی لڑکی فاطمہ سے آپ کی شادی کردی ۔۶۸ھ۶۸۷ء میں ولید بن عبد المک خلیفہ بنے تو انہوں نے ربیع الاول ۷۸ھ مئی ۶۹۰ء میں حضرت عمر بن عبد العزیز کو مدینہ کا گورنر مقرر کر دیا ۔
خلیفہ سلیمان بن عبد الملک ۹۹ھ۷۱۷ء میں بیمار پڑے ۔ انہوں نے وصیت کی کہ میرے بعد عمر بن عبد العزیز ؒ اور ان کے بعد یزید بن عبد الملک خلیفہ ہوں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بخدا اب میں ایسی نامزدگی کروں گا جس میں شیطان کا کوئی حصہ نہ ہوگا ۔ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کے انتقال کے بعد ان کی وصیت پر بنو امیہ کے تمام لوگوں سے بیعت لی گئی ۔ پھر وصیت کا اعلان کیا گیا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کو خلیفہ بنائے جانے پر کچھ لوگ جزبز تو ہوئے لیکن کچھ نہ کر سکے ۔ ادھر حضرت عمر بن عبد العزیز کا حال یہ تھا کہ آپ بار خلافت کے احساس ذمہ داری سے نڈھال تھے ۔
خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کی تجہیز ، تکفین اور خلافت کے ابتدائی مرحلے مکمل کرکے حضرت عمر بن عبد العزیز اپنے گھر لوٹے تو تھوڑی دیر آرام کرنا چاہا ۔ اسی وقت آپ ؒ کے صاحبزادے عبد الملک نے آکر پوچھا۔ آپ ؒ ان اموال کی واپسی سے پہلے سونا چاہتے ہیں جن پر خلفائے بنو امیو نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے ۔ آپ نے کہا میں رات کا جاگا ہوں ، نماز ظہر کے بعد یہ کام کر لوں گا ، صاحبزادے نے کہا ، ظہرکے وقت تک آپ کی زندگی کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے ؟ حضرت عمر بن عبد العزیزؒپر اس فقرے کا اس قدر اثر ہؤا کہ صاحبزادے کو پاس بلا کر گلے سے لگا لیا، پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا ’’ اللہ کا شکر ہے اس نے مجھ کو ایسی اولا د دی ہے جو مجھ کو دین کے کاموں میں مدد دیتی ہے ۔ اسی وقت منا دی کروا دی کہ لوگ اپنے مال و جائیداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کردیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیا لیا گیا ہے ۔
یہ کام بڑا خطر ناک اور نازک تھا ۔ خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی ۔ بعض افراد نے آکر آپ ؒ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کردی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے ؟ آپ نے فرمایا ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے تمام اہل خاندان کو بلوایا اور ان سے کہا بنی مروان! میرا خیال ہے امت کا نصف یا دوتہائی مال تمہارے قبضہ میں ہے ‘‘۔
تمام اہلِ خاندان نے حضرت عمر بن عبد العزیز کی بات کو بھانپ کر کہا ’’ خدا کی قسم جب تک ہمارے سر تن سے جدا نہ ہو جائیں گے اس وقت تک جائیدادیں واپس نہیں ہو سکتیں ۔ خدا کی قسم نہ تو ہم اپنے آبائو اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں نہ اپنی اولادوں کو مفلس بنائیں گے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے نہایت سختی سے فرمایا ۔ خدا کی قسم اگر اس حق میں تم میری مدد نہ کرو گے تو میں تم کو ذلیل و رسوا کر کے چھوڑوں گا‘‘۔
اس کے بعد آپؒ نے تمام مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا اور اعلان کیا کہ اموی خلیفہ نے جو مال جاگیر یا جائیداد پر ناجائز قبضہ جما لیا ہے وہ ان کے حقداروں کو واپس کی جا رہی ہیں ۔ اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں ، آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو نکال کرپڑھتے جاتے تھے اورحضرت عمر بن عبد العزیز قینچی سے کاٹ کاٹ کر پھینکتے جاتے تھے ۔ صبح سے لے کر نماز ظہر تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ آپؒ نے اپنی اور اہلِ خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کردی اوراس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا ۔ نہ آپ کو دوستیاں متاثر کر سکیں۔ نہ قرابت داریوں نے مرعوب کیا۔
دستور تھا کہ خلیفہ کے انتقال کے بعد اس کے استعمال شدہ ملبوسات اور عطر اس کے اہل و عیال کا حق سمجھے جاتے تھے ۔ اور غیر استعمال شدہ اشیا آنے والے خلیفہ کے حوالے کردی جاتی تھیں ۔ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کا انتقال ہؤا تو ان کے اہل و عیال رات بھر تیل اور خوشبو ایک شیشی سے دوسری میں انڈیلتے رہے اور جو ملبوسات استعمال نہ ہوئے تھے انہیں پہن پہن کر مستعمل کرتے رہے ۔ صبح ہوئی تو تمام چیزیں حضرت عمر بن عبد العزیز کے سامنے حاضر کردیں اور کہنے لگے ۔ یہ چیزیں آپ کی ہیں اور یہ ہماری ہیں ۔ آپ نے پوچھا یہ اور وہ کا کیا مطلب ہے ؟ اس کی وضاحت کی گئی تو دو ٹوک لہجے میں فرمایا یہ ساری چیزیں نہ میری ہیں نہ سلیمان کی نہ تمہاری، خادم سے کہا ’’ سب چیزیں بیت المال میں پہنچا دو ۔
خلیفہ بننے سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز کی نفاست پسندی کا حال یہ تھا کہ نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کرتے تھے اور تھوڑی دیر میں اسے اتار کر دوسرا قیمتی لباس پہن لیتے تھے ۔ وہ اپنے زمانے کے سب سے زیادہ خوش لباس اور جامہ زیب شخص مانے جاتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے عیش و عشرت کے دلدادہ اس شخص پر جب بار خلافت ڈالا تو فلک نیلگوں پر طلوع ہونے والے سورج نے ، رات کی تاریکی میں چمکنے والے چاند ستاروں نے اور ڈالی ڈالی کھلنے والے خوش رنگ پھولوں نے دیکھا کہ اس شخص کی زندگی میں کتنا بڑا تغیر آگیا ہے ۔
عمر ثانی نے خلیفہ بنتے ہی گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروا دیا ، خاندان کے تمام وظائف بند کردیے ۔ شاہی سواری پیش کی گئی تو فرمایا ’’میرے لیے میرا خچر کافی ہے ‘‘۔ اپنی تمام سواریوں کو فروخت کر کے رقم بیت المال میں داخل کروا دی ، خلفا کے ساتھ نقیبوں اور علمبرداروں کے چلنے کا سلسلہ بند کروا دیا۔
غصب شدہ اموال اورجاگیریں ان کے اصل مالکان کو واپس دلوانا آپ کا سب سے اہم کارنامہ ہے ۔ آپ کے اس جرأت مندانہ فیصلے کے اثرات مختلف ہوئے ۔ خارجیوں نے جو ہمیشہ خلفا کے خلاف بغاوت کرتے رہتے تھے کہہ دیا کہ اب اس شخص سے جنگ ہمارے لیے مناسب نہیں ، بنو امیہ کے لوگ سخت ناراض ہوئے انہوں نے آپ کے فیصلے کو بد لوانے کی بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کا دور خلافت صرف دو سال پانچ مہینے کی قلیل مدت پر محیط ہے لیکن اس مختصر مدت میں آپ نے حکمت اور جرأت سے بھرپور جو فیصلے کیے ان کی بدولت پوری مملکت کی کایا پلٹ گئی۔ آپ ؒخلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب ؓ سے بہت متاثر تھے ۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے حضرت عمر بن خطابؓ کے پوتے حضرت سالم ؓ کو خط لکھا کہ میں چاہتا ہوں اگر اللہ مجھے اس کی استطاعت دے تو میں رعایا کے معاملات میں حضرت عمر بن خطاب کی روش اختیار کروں ۔ اس لیے آپ میرے پاس ان کی وہ تمام تحریریں اور فیصلے بھیج دیجیے جو انہوں نے مسلمانوں اور ذمیوں کے بارے میں کیے ہیں ۔ اللہ کو منظور ہؤا تو میں ان کے نقش قدم پر چلوں گا ۔
آپ نے اپنے مختصر سے دور خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کیے ۔ آپؒ کے خلیفہ بننے سے پہلے نو مسلموں سے بھی جزیہ ( ٹیکس) وصول کیا جاتا تھا آپ نے مسلمانوں سے جزیہ وصول کیے جانے کی ممانعت کردی ۔ اس پر صرف مصر ہی میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی اور وہاں کے حاکم نے آپؒ سے شکایت کی کہ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے مجھے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑ رہے ہیں ۔ آپ نے جواب میں لکھا ‘‘ جزیہ بہرحال ختم کردو ، حضورؐ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے ، محصل بنا کر نہیں ۔
آپ نے بیت المال کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا ۔ دفتری اخراجات میں تخفیف کردی ۔ مدینہ منورہ کے والی ( گورنر) ابو بکر بن حزم نے خلیفہ سلیمان کے زمانے میں کاغذ قلم دوات اور روشنی کے مصارف میں اضافے کی درخواست کی تھی ۔ دفتر ی کارروائی سے پہلے ہی خلیفہ سلیمان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس درخواست کے جواب میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے لکھا ’’ قلم باریک کر لو اور سطریں قریب قریب لکھا کرو ، ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لیا کرو میں مسلمانوں کے خزانے سے کوئی ایسی رقم صرف نہیں کروانا چاہتا جس سے ان کو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔
ملک میں جتنے معذور و مجبور تھے ان کی فہرست تیار کرو ا کے ان کا وظیفہ مقرر کیا ۔ شیر خوار بچوں کے وظیفے مقرر کیے ۔ اگرچہ آپ نے نو مسلموں پر جزیہ معاف کر دیا جس سے آمدنی گھٹ گئی تھی پھر بھی سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کے وظائف مقرر کیے ۔ لیکن ناجائز آمدنیوں کی روک تھام ، ظلم کے سد باب اور مال کی دیانت دار انہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ نوبت آگئی تھی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے ، بیت المال کی آمدنی کم ہونے کی بجائے کئی گنابڑھ گئی تھی۔
آپ نے ذمیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ذمی ان غیر مسلم افراد کو کہتے ہیں جو اسلامی مملکت میں رہتے ہیں ۔ اسلامی حکومت کو جزیہ ادا کرتے ہیں اور حکومت ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے دار ہوتی ہے ۔ آپ نے ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر قرار دی۔
تمام حکام کے نام آپ نے فرمان جاری کیا کہ ’’ نماز کے وقت ہر کام اور کاروبار چھوڑ دیا کرو ۔ جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے وہ دوسرے فرائض کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا ‘‘۔
آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں ان میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا ۔ شراب کی دکانوں کو بند کروا دیا اورحکم دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے۔ اعلان کردیا گیا کہ جو شخص کھلے عام شراب پیتا پایا گیا اسے سخت سزا دی جائے گی اور جو چھپ کر پیے گا اس کو اللہ کا عذاب دینے والا ہے ۔
آپؒ نے اپنے دور میں علم کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی ۔ آپ ؒ نے حکام کو ہدایت کی کہ مساجد میں علم کو عام کیا جائے ۔ جو علما کرام علم کی تدریس و اشاعت میں مشغول تھے انہیں فکرمعاش سے بے نیاز کر دیا ، ان کے لیے بیت المال سے بھاری وظیفے مقرر کر دیے ۔ مختلف ملکوں میں دین کا علم پھیلانے کے لیے علما بھیجے ۔ اسلامی مملکت کے زیر نگیں آنے والے تمام علاقوں میں واعظ اور مفتی مقرر کیے ۔
آپ کا سب سے بڑا تعلیمی کارنامہ احادیث نبوی ؐ کی حفاظت اور اشاعت ہے ۔ آپ نے جب یہ دیکھا کہ حدیثوں کے حافظ دنیا سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں تو آپ نے مدینہ کے والی قاضی ابو بکر بن حزام کو ہدایات کی کہ احادیث نبوی ؐ تلاش کرو اور تحقیق سے ان کے مستند ہونے کے بارے میں اطمینان کر کے انہیں لکھ لو ۔ احتیاط رہے کہ صرف مستند احادیث قبول کی جائیں ۔ اسی قسم کا حکمنامہ تمام صوبوں کے گورنروں کے نام بھیجا نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح احادیث کا بڑا ذخیرہ اکٹھا ہو گیا۔
رجب ۱۰۱ھ جنوری ۷۲۰ ء میں بیمار پڑے ۔ اس سلسلے میں دو روایتیں ہیں ایک یہ کہ آپ کی علالت طبعی تھی ۔ دوسری یہ کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوا دیا تھا ۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاںاس سے لے کر بیت المال داخل کروا دیں اورغلام کو آزاد کردیا۔
طبیعت بہت خراب ہو گئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی ، ۲۵ رجب ۱۰۱ ھ۱۰ فروری ۷۲۰ کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا ۔ اس وقت آپ کی عمر ۴۰ سال تھی ، آپؒ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا ۔
خلیفہ ہارون الرشید
ہارون الرشید765ھ میں رے کے مقام پر پیدا ہوئے ۔ ان کا 23 سالہ عہد خلافت اسلامی تاریخ کا روشن اور فروزاں باب ہے ان کے دورِ حکومت میں علم و ادب کو جو فروغ حاصل ہؤا وہ انہی کا حصہ ہے ۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ ہارون الرشید منکر سے اجتناب کرتے حرام سے دور رہتے اور حلال سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ۔
خلیفہ ہارون الرشیدکی پیدائش سے پہلے ہارون کا بڑا بھائی موسیٰ اپنے والدمہدی اور والدہ خیزران کی والہانہ محبت کا مرکز تھا ۔ ہارون کی والدہ کو اپنے بڑے بیٹے موسیٰ سے اتنی محبت تھی کہ اس کے لیے رات بھر جاگتی اور اس کی راحت و آسائش کے لیے اپنی ہر تکلیف کو کم سمجھتی تھی ۔ ہارون کی پیدائش پر مہدی اور خیزران کو وہی خوشی نصیب ہوئی جو پہلے بیٹے کی ولادت پر ہوئی تھی ۔ ہارون کی ولادت کی خبر اس وقت کے خلیفۃ المسلمینمنصور کے کان میں اس وقت پڑی جب وہ اپنے نو تعمیر دارالخلافہ بغداد میں منتقل ہو رہا تھا ۔ خلیفہ پوتے کی ولادت کا سن کر بہت خوش ہؤا۔ اس نے اس خبر کو نیک شگون قرار دیا کیونکہ پوتے کی پیدائش اور بغداد کی تعمیر کی تکمیل ایک دن ہوئی۔
کچھ عرصے بعد ہارون الرشید کو اپنے خاندان کے ہمراہ رے سے بغداد کی طرف جانا پڑا۔ یہ سفر بڑا ہی تھکا دینے والا تھا ، رستے میں اونچے اونچے پہاڑ اور لمبے لمبے صحرا پڑتے تھے سفر ایسا تھا کہ سواری سے اتر بھی نہیں سکتے تھے ۔ یہ پہلی جسمانی تکلیف تھی جس کا ہارون الرشید کو سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے بعد جب قافلہ بغداد میں داخل ہؤا تو یہ دریائے دجلہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے کیونکہ ہارون الرشید نے آج تک دریا نہیں دیکھا تھا۔
سفر کی تھکان دور کرنے کے بعد محمد بن منصور اپنے والد ابو جعفر کی خدمت میں اپنے تینوں بچوں سمیت حاضر ہوئے ۔ دادا نے تینوں پوتوں ، موسیٰ ، علی اور ہارون کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور انہیں بوسہ دیا ۔ تینوں میں انہیںہارون کی خوبصورتی نے بہت متاثر کیا اور پھر اس ننھے پوتے کی آنکھوں کی چمک۔ انہوں نے ہارون کو پھر سے گود میں بٹھا لیا اور اسے غور سے دیکھنے لگے ۔ انہوں نے اپنے بیٹے محمد بن منصور سے کہا میرا یہ بیٹا انشاء اللہ سیرت صالحہ کا مالک اور صاحب اقتدار و اختیار بنے گا ۔ محمد بن منصور نے پوچھا کیا آپ نے اس کی کسی ادا سے اندازہ کیا ہے ؟ منصور نے جواب دیا ۔’’ میں ابھی سے اس طرح کے آثار دیکھ رہا ہوں ‘‘۔ اپنے باپ اور دادا کی گفتگو سے بے نیاز ہارون بڑے مزے سے دادا کی گود میں بیٹھے دادا کو تکے جا رہے تھے۔
سولہ سال کی عمر میں ہارون کو پہلی بار ایک بڑی جنگ میں حصہ لینے کا موقع ملا اور وہ بھی اس شان سے کہ رومیوں کے خلاف ہونے والی اس جنگ میں اسلامی فوج کی قیادت ان ہی کو کرنی تھی ۔ اس جنگ میں ہارون کی مدد کے لیے بڑے منجھے ہوئے ماہرین جنگ موجود تھے ۔ ہارون فوج لے کر روانہ ہوئے اور حدود روم میں ایک بڑے قلعہ سمالو کا محاصرہ کرلیا ۔ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ محاصرہ ۳۸ دن تک جاری رہا ۔قلعہ والوں نے بھوک پیاس سے تنگ آکر ہتھیار ڈال دیے ۔ ہارون جزیہ اور مال غنیمت لے کر فاتحانہ شان سے لوٹ آئے۔
کچھ عرصہ بعد ہارون الرشید کی شادی چچا کی بیٹی زبیدہ سے کردی گئی ۔ زبیدہ انتہائی نیک خاتون تھی، قرآن پاک کا بڑا حصہ حفظ کر رکھا تھا ، نماز روزے کی پابند اللہ سے ڈرنے والی اور نیکی کی طرف مائل تھیں۔
۱۵ ربیع الاوّل۱۷۰ھ۱۴ ستمبر۷۸۶ء کی وہ رات اس اعتبار سے نہایت منفرد ہے کہ اس رات ایک خلیفہ یعنی ہادی کا انتقال ہؤا، اسی رات دوسرے خلیفہ یعنی ہارون نے امور مملکت سنبھال لیے اور یہی وہ رات ہے جب ایک تیسرے خلیفہ یعنی مامون الرشیدکی پیدائش عمل میں آئی۔
بار خلافت سنبھالنے کے بعد ہارون بغداد پہنچے جہاں ان کا زبردست خیر مقدم ہؤا۔ نماز کا وقت آیا تو ہارون نے جامع مسجد میں نماز کی امامت کی۔ شوال۱۷۰ ھ اپریل۷۸۷ء میں زبیدہ بھی ایک لڑکے کی ماں بن گئیں جس کا نام محمد رکھا گیا ۔ یہی محمد بعد میں امین کے نام سے خلیفہ بنے ۔ ہارون نے اپنی خلافت کے پہلے ہی برس حج بیت اللہ کا ارادہ کیا ۔ حج سے واپس ہوئے تو انہوں نے امور مملکت کی طرف باقاعدہ توجہ دی اور پوری مملکت کا جائزہ لے کر مکہ مدینہ، طائف، کوفہ خراسان ، آرمینیا، جزیرہ اور شمالی افریقہ کے انتظامی عہدوں پر دور رس تبدیلیاں کیں۔
اس زمانے میں بغداد دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ممتدن شہر سمجھا جاتا تھا ۔ہارون نے بحرابیض متوسط( اب بحیرۂ روم) کے ساحل پر شہر طرطوس کو آباد کیا۔ روم کی سرحد پر کئی شہر اور قلعے تعمیر ہوئے ۔ بہت سے پل تعمیر کروائے گئے نہریں بنوائی گئیں ۔ ان تمام اصلاحات کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا گیا۔
ہارون الرشید کا دور اس لحاظ سے دیگر اودارسے ممتاز ہے کہ اس دور میں بے پناہ علمی اور تحقیقی کام ہؤا ۔ ہارون الرشید نے بیت الحکمت کے نام سے بغداد کےقصر خلافت میں تالیف اور ترجمہ کا بے مثال ادارہ قائم کیا ۔ اچھی تنخواہوں پر علما اور مترجمین مقرر کیے۔ اس ادارے میں یونانی ، فارسی اور دیگر متعداد زبانوں کی اہم اور بیش قیمت کتابوں کے عربی تراجم ہوئے ۔ توریت اور انجیل کا عربی زبان میں ترجمہ اسی عہد میں ہؤا۔ ہارون کے دور میں طب، فلکیات ، فلسفہ ، حکمت ، ادب اور افسانے کی کتب کو عربی زبان کے قالب میں ڈھالا گیا ۔ ہارون الرشید ہی کے دور میں امام مالک بن انس ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن نے فقہ پر بڑا کام کیا ۔ تصوف کے موضوع پر کئی کتب تصنیف کی گئیں ، احادیث کو جمع کر کے مرتب کرنے کا کام شروع ہؤا۔ اس طرح علم حدیث وجود میں آیا ۔ علم تاریخ پر کام شروع ہؤا۔ فلسفہ ، حکمت ، حساب ، ہندسہ ، طب اور نجوم کو بھی فروغ حاصل ہؤا۔
روم پر حکمران ملکہ آئرین ، ہارون الرشید کو خراج دیا کرتی تھیں ۔ ۱۸۹ھ۸۰۵ء میں ملکہ کے خلاف فوج کے سپہ سالار نفقور کی قیادت میں بغاوت ہوئی ۔ نفقور بادشاہ بن بیٹھا تو اس نے ہارون الرشید کو خراج دینے سے انکار کر دیا ۔ یہی نہیں بلکہ پچھلا جتنا خراج ادا کیا گیا تھا وہ بھی واپس مانگا۔ ہارون الرشید کو یہ پیغام ملا تو شدید برہم ہوئے۔ اب اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ عہد کر کے پھر جانے والوں کو طاقت کے زور سے مزہ چکھایا جائے ۔ انہوں نے جنگ کی تیاریوں کا حکم دے دیا ۔ تیاریاں جاری تھیں کہ خبر ملی کہ رومی فوج سرحد پار کر کے اسلامی حدود میں آگئی ہے اور مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے۔ ہارون الرشید نے فوری طور پر ایک لاکھ تیس ہزار کی فوج اکٹھی کر کے پیش قدمی شروع کردی ۔ مسلمان لشکر رومی فوج کو دھکیلتے ہوئے روم کی سرحد کے اندر بڑھتا چلا گیا ۔ ہر قلعہ فتح کیا اور اپنے دستوں کو مختلف سمتوں میں روانہ کیا گیا جنہوں نے زبردست فتوحات حاصل کیں ۔ پے در پے یلغار سے گھبرا کر نفقور نے امان طلب کی اور جزیہ دینے کا وعدہ کیا۔
ہارون رقہ لوٹ گئے ، ابھی رقہ پہنچ بھی نہ پائے تھے کہ اطلاع ملی نفقور نے مسلمانوں کی آبادیوں پر پھر حملے کروا دیے ہیں ۔ یہ شدید سردی کا موسم تھا برف باری ہو رہی تھی ۔ نفقور کا خیال تھا کہ اتنے خراب موسم میں مسلمان لوٹنے کی ہمت نہیں کریں گے ۔ ہارون الرشید نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فوج کو واپس روم کی سمت بڑھنے کا حکم دے دیا ۔نفقور کی فوج سے خونریز جنگ ہوئی ۔ آخر نفقور مجبور ہو گیا اور اس نے مملکت روم کے ایک ایک باشندے کا جزیہ ادا کر دیا اور تاوان کے طور پر تین لاکھ دینارادا کرنے کا وعدہ کیا۔
مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے اور خراب موسم میں دشوار گزار سفر کرنے کی بدولت ہارون کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ جمادی الآخر۱۹۳ھ مارچ ۸۰۹ء میں انہوں نے ایک مہم میں خراسان کا سفر کیا ۔ جرجان پہنچے تو طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔ ارادہ کیا کہ بغداد لوٹ آئیں لیکن واپسی میں طوس پہنچ کر علالت نے شدت اختیار کرلی اور اسی شہر میں یہ عظیم شخصیت اپنی حیات مستعار کے آخری لمحات گزار کر ۳ جمادی الآخر ۱۹۳ھ کو آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئی ۔ انہیں طوس ہی میں سپرد خاک کیا گیا۔
ہارون الرشید کا ۲۳ سالہ دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن اور فروزاں باب ہے جس کی خیرہ کن چمک دمک اور آب و تاب صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی اسی طرح باقی ہے ۔ اسلامی حکومت کو استحکام بخشنے اور مملکت اسلامیہ کو خوشخالی اور مسرت و شاد مانی کا مرقع بنانے کے لیے ہارون الرشید نے جس خدا خوفی اور احساس ذمہ داری سے کام کیا ، اس کا اعتراف اسی عہد کے معروف زاہد بزرگ حضرت فضیل بن عیاض ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’ مجھے ہارون کی موت سے زیادہ صدمہ کسی امر کا نہیں ہؤا۔ مجھے یہ گوارا تھا کہ اللہ میری عمر کا حصہ ہارون کی عمر میں زیادہ کر دیتا‘‘۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here