This Content Is Only For Subscribers
چررررر……
ارے یہ کیا ہؤا؟
ایمبولینس کو بلاؤ……
خون بہت بہہ گیا ہے……
کیا یہ زندہ ہے؟
٭٭٭
جھلستی جولائی کی دوپہر میں ایک عمارت کا نا مکمل ڈھانچہ بڑی رعونت سے کھڑا ہے۔سورج کی شدید تپش سے بارہماسی اور کنیر کی جھاڑیاں سوکھ کر کانٹا ہو رہی ہیں،جبکہ روزحساب جیسی گرمی نے پرندوں کو نڈھال کر رکھا ہے۔ایسے میں پسینے سے شرابور ، تپتے چہرے لیے کئی مزدور اینٹیں ڈھوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھوک پیاس سے بے نیاز،قہر برساتی دھوپ سے بے پرواہ،ستائیس اٹھائیس سالہ گندمی رنگت اور مضبوط قد کاٹھ کا ایک لڑکا ریڑھی میں اینٹیں ڈھو رہا ہے۔
’’ اوئے بابو! ٹھیکیدار سے پوچھ کر روٹی ٹکر کا بندوبست کر یار‘‘بوڑھے مجیدے مزدور نے اعظم عرف بابو کو ہانک لگائی۔
’’چاچا مجید! کام پورا ہوگا تو ہی روٹی حلال ہوگی ہم پر۔ اینٹیں ڈھونے کے بعد ہی کھانا کھائیں گے‘‘۔
اعظم نے مجیدے کی آسوں پر پانی انڈیلا جو ریڑھی گھسیٹتے ہوئے ہر تھوڑی دیر بعد کھانے کے لیے دہائی دینے لگتا تھا۔
جب سورج کا قہر ماند پڑنے لگا اور شفق کی سرخی نے پرندوں کو گھروں کی جانب واپسی کا عندیہ دیا تو اعظم عرف بابو بھی اپنے گاؤں کی بڑی نہر والی پگڈنڈی پر چل پڑا۔ اس کے گھر میں دو ہی نفوس تھے۔ایک بوڑھی ماں اور دوسرا معذور بھائی ۔ اعظم میٹرک پاس تھا۔نوکری نہ ملی تو دیہاڑی لگانے لگا کہ آگے پڑھتا تو ماں اور بھائی نے بھوکے مر جانا تھا۔
وہ ہر روز کام سے واپس آ کر گتے کے ایک ڈبے میں دس روپے ڈال دیتا۔اس کی ننھی سی خواہش تھی کہ اس کے پاس پارکر کا ویکٹر اسٹینڈرڈ فاؤنٹین قلم ہو۔ اس غریب کی اس امیرانہ خواہش پر اکثرصحن کے عین وسط میں واقع بیری کے درخت پر موجود بیر ہنس ہنس کر لال پیلے ہو جاتے اور مٹی سے لپی زمین پر آ گرتے۔ آج وہ ڈائری لکھنے بیٹھا تو دیکھا کہ اس کی ڈائری کے صفحات ختم ہو چکے ہیں ۔ بیروں کی ہنسی یک دم تھم سی گئی۔
’’یا اللّٰہ! میں نے تو پیسے صرف قلم خریدنے کے لیے جمع کیے ہیں اب ڈائری کیسے خریدوں گا؟ اور تُو تو جانتا ہے ناں کہ لکھے بغیر میرا گزارا نہیں‘‘اپنے رب سے پریشانی بانٹتے بانٹتے وہ آنسوؤں سے رو دیا۔
’’ ابا کی موت کے بعد سے آج تک کوئی دن آزمائش سے خالی نہیں گیا میرا۔ ایک ذرا سی خواہش بھی پال لوں تو درودیوار ہنستے ہیں مجھ پہ اور تو اور ماں بیمار،بھائی معذور……‘‘ اس کی ہچکیوں نے اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔
پوپھٹتے ہی گانڈھوں کی چھت میں مسکن بنا کر رہنے والی چڑیوں کی حمد و ثنا سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ قہوہ پی کر کام پر روانہ ہو گیا۔
’’چچا مجیدے! بڑا پریشان لگ رہا ہے تو، خیر ہے نا؟‘‘
اعظم نے مجیدے کے جھریوں زدہ چہرے سے بھانپ لیا کہ کوئی بات تو ہے جو مجیدے کو تکلیف دے رہی ہے۔
’’میرے سب سے نکے پوتے کو جانتا ہے ناں تو ۔ یارا اس کے اسکول والے اسے روز مارتے ہیں کہ کاپیاں کتابیں خریدو ورنہ سکول ہی نہ آؤ۔ اب ان بوڑھی ہڈیوں کے ساتھ جتنا کام کرسکتا ہوں،وہ تو کرتا ہوں،پر اس سے گھر کی دال روٹی بھی اوکھی چلتی ہے۔ کاپیاں کتابیں کیسے لے کر دوں اسے؟‘‘
روڑوں اور اینٹوں پر جمی مجیدے کی بے بس آنکھوں میں معصوم
روڑوں اور اینٹوں پر جمی مجیدے کی بے بس آنکھوں میں معصوم پوتے کی صورت جھلملا رہی تھی۔
’’چاچا تیرا بیٹا کام نہیں کرتا؟ اسے کہہ ناں کہ کوئی مزدوری کر لے تاکہ اس کے گھر کا خرچہ تو پورا ہو‘‘ اعظم نے تو اپنی دانست میں مسئلہ ہی حل کر دیا۔
’’وہ ہوتا تو کیا ہی بات تھی پتر۔ ہق ہا! دو سال پہلے پنڈ کی شاملاتوں والی طرف کا بند ٹوٹا اور وہ وہیں دب کر مر گیا‘‘۔ مجیدے کی آواز بھرا گئی۔
’’ اوہ! معاف کرنا چاچا، مجھے پتا ہی نہیں تھا‘‘ اعظم انجانے میں ہی سہی پر مجید ے کے زخم کریدنے پر بہت شرمندہ ہؤا۔
’’بس پتر ، جو اللہ کی مرضی!‘‘ مجیدے نے اپنے مٹیالے رومال سے آنکھیں رگڑیں اور اٹھ کھڑا ہؤا۔
اگلے ہی روز اعظم نے گتے کے ڈبے سے جمع شدہ نوٹ اور ریزگاری نکال کر گنی، جو آٹھ سو اناسی روپے تھی۔
’’ یااللہ! یہ پیسے تو میں نے پارکر قلم کے لیے جمع کیے تھے، جو اکیس سو کا ملنا تھا۔ پر چاچا مجید کی ضرورت زیادہ بڑی ہے۔ تو میری مدد کرنا کہ میں پیسے پھر سے جوڑلوں اور اگلے سال قلم لے لوں‘‘۔
مجیدے کے ہاتھ میں اس کے پوتے کی کاپیوں کتابوں کےلیے رقم پکڑا کر اعظم ایک نئے عزم کے ساتھ کام میں جت گیا تا کہ پھر سے پیسے جمع کر کے اپنی خواہش پوری کر سکے۔
گھنٹے دنوں، دن ہفتوں، اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے۔ بالآخر آج آٹھ ماہ بعد اعظم صدر کی جانب رواں تھا جہاں سے اس نے قلم خرید کر اپنی سالوں پہلے کی خواہش پوری کرنی تھی۔
وہ صدر کی ایک مشہور اسٹیشنری کی دکان میں داخل ہؤا۔ اپنی پسند کا پارکر ویکٹر اسٹینڈرڈ فاؤنٹین پین خریدا ، رسید لی اور تیزی سے باہر نکلا کیونکہ وہ اڑ کر گھر پہنچنا چاہتا تھا تا کہ کچھ لکھ سکے۔ اس کے چہرے پہ ایک الوہی چمک تھی۔ کچھ پا لینے کا مان۔ اپنے آپ میں مگن ایک مشہور شاہراہ کو عبور کرتے ہوئے الحمدللہ کہتے ہوئے اس نے آسمان کی اور تشکر بھری نگاہ اٹھائی۔
چررررر……
ارے یہ کیا ہؤا؟
ایمبولینس کو بلاؤ……
خون بہت بہہ گیا ہے……
کیا یہ زندہ ہے؟
نہیں……
صدر کی مصروف ترین شاہراہ پر لوگوں کا ہجوم ایک خون میں لت پت وجود کا تماشا دیکھ رہا ہے ، جس کے داہنے ہاتھ میں پارکر قلم تھاما ہؤا تھا اور روح مالک حقیقی کی جانب محو پرواز ……
کچھ خواہشیں ہمیشہ ادھوری رہ جاتی ہیں ، شاید نصیب میں ہی نہیں ہوتیں۔ کچھ لوگوں کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی نہ جانے کبھی راس کیوں نہیں آتیں۔
چاچا مجید اس کی قبر کے سرہانے کھڑا آج بھی کہہ رہا تھا۔
’’ بس، جو اللہ کی مرضی‘‘۔
٭٭٭
Worth reading
اور ایسا انداز کہ کوئی سچ ہی گمان کر لے