قارئینِ کرام سلام مسنون
ہم سب کی پیاری آپا، خالہ ، دوست، استاد،محترمہ زہرہ عبدالوحیدداغِ مفارقت دے گئیں۔ ایک طویل عہد کا اختتام ہؤا ان کے ساتھ۔ دین کے تحریکی تصور کو اپنانے کے لیے مولانا مودودیؒ کی دعوت پربالکل ابتدائی دور میں لبیک کہا اور حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی اولین ارکان میں شامل ہوئیں۔ حمیدہ بیگمؒ نے ادارہ بتول قائم کیا تو اس کے ساتھ وابستہ ہوئیں، بورڈ آف گورنرز کی ممبر رہیں،محترمہ بنتِ مجتبیٰ مینا کے بعد ۲۰۲۲ تک ادارے کی چیئر پرسن بھی رہیں۔ تمام زندگی قرآن ِمجید کی تعلیم دی اوربے شمار لوگوں کے لیے دین کےعلم اور ہدایت کا وسیلہ بنیں۔ ان گنت فلاحی پراجیکٹس ان کے دم سے چلتے تھے۔ گاؤں دیہاتوں، کچی بستیوں میں، یاقدرتی آفات کے مواقع پرہر جگہ بذاتِ خود پہنچتیں اور خلقِ خدا کی مدد کرتیں۔ ایک بے حد شفیق، محبتوں سے بھرپور،نیکیوں کے راستے کی مسافر،مگر غلط بات کے آگے ڈٹ جانے والی، خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والی قیمتی ہستی ہم سے جدا ہوگئی۔ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی۔ اللہ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائےاور ان کی مساعی جمیلہ کو نہایت قدردانی کے ساتھ مقبول و منظور فرمائے آمین۔
۸ فروری کو قومی انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے۔ دعا ہے کہ امن و امان کے ساتھ یہ عمل مکمل ہو اور عوام کی حقیقی رائے سامنے آنے کے مواقع میسر ہوں۔ مانا کہ اس وقت ملک میں ایک مایوسی کی فضا ہے، انتخابات کی روایتی گہماگہمی مفقود ہے، پکڑ دھکڑ اورگرفتاریاں بھی جاری ہیں۔مگر انہی مایوس کن حالات میں ہمیں امید تلاش کرنی ہے۔ ہر ووٹ اہم ہے اور اس کا اثر ہے۔ووٹ اس احساس کے ساتھ دینا چاہیے کہ زندگی میں جتنی بار بھی ووٹ دیا،مجھے روز محشراپنی لگائی ہوئی اس مہر کا جواب دینا ہوگا،تو جوجواز میں نے ووٹ دینے کے لیے اپنے سامنے رکھا کیا یہی جوازمیں اللہ کے آگے پیش کرسکوں گی؟ یہ ہماری قومی قیادت کا چناؤ ہے، فیصلے کا لمحہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ کیسے افراد کوہماری لیڈرشپ کے مناصب پر ہونا چاہیے۔یہ ایک ووٹ پاکستانی قوم کے دکھوں کا ازالہ ہے، زوال سے عروج کا سفر ہے، مایوسیوں سے امید کا رستہ ہے، پسماندگی سے ترقی کا زینہ ہے،میرا ایک ووٹ ہمارے روشن مستقبل کی نوید بن سکتا ہے۔ کبھی یہ سوچ کر نہ بیٹھیں کہ میری ایک رائے سے کیا ہوگا۔ہم خداخوفی رکھنے والے امانت دار اور بے غرض افراد کے حق میں ووٹ دیں گے تو اپنا ہی بھلا ہے،ایسے افراد کامیاب ہوگئے تو دنیا کا بھی فائدہ دے جائیں گے، ناکام ہوگئے تو ہم خدا کے آگے تو سرخرو ہوسکیں گے کہ جو غلط لوگ ہم پر حکمران بن جاتے ہیں ہم ان کو منتخب کرنے کا وسیلہ نہیں بنے۔ اب تو عام لوگوں کی آگاہی کے لیے بہت ذرائع میسر ہیں۔ایک عام شہری بے حد آگاہ ہےاور ملکی مسائل پر اپنا تجزیہ رکھتا ہے۔ شفاف انتخابات کا عمل جاری رہے تو قومی مجرموں کا خودبخود احتساب ہوتا رہتا ہے اور بہتر قیادت کو اوپر آنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی لیے پاکستان میں اس عمل کو ہر چند سال کے بعد تعطل کا شکار کردیا جاتا ہے یاانتخابی عمل کو اور اس کے نتائج کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔یہ صورتحال سیاسی قوتوں کے لیے بھی عبرت کا مقام ہے جو اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کرنے اور حکومت ملنے پر ڈیلیور کرنے کی بجائے خوشامد اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے طاقت میں آنے پر انحصار کرنے لگتی ہیں۔جب تک ہمارے ہاں سیاسی قوتیں عوام سے مخلص ہوکر اصولی سیاست کرنے کا فیصلہ نہیں کرلیتیں، آئین کی بالادستی کو خود نقصان پہچانا نہیں چھوڑ تیں، انتخابات کا عمل ہمارے ہاں ایک جمہوری تماشا ہی رہے گا، جمہوریت نہیں۔ بہر طورعوام کے پاس ایسی سیاسی قوتوں کو مسترد کرنے کا واحد ذریعہ بھی ووٹ ہی ہے،اس کو حقیر نہ جانیں۔
اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے کیس پرعالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ ویسا ہی سنایا جیسی کہ توقع کی جارہی تھی۔ جنوبی افریقہ کا نسل کشی کا دعویٰ رد نہ کرنے کے باوجود ،اور اسے منطق اور اصولوں کے مطابق تسلیم کرنے کے باوجودعدالت نے جنگ بندی کا فیصلہ نہیں سنایا۔ اگرچہ جنوبی افریقہ نے اس فیصلے کو مایوس کن نہیں کہا، اس کاکہنا ہے کہ عدالت نے جو احکامات اسرائیل کو دیے ہیں ان پر عمل کرنا جنگ بندی کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اسی بنا پر حماس نے بھی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ مگر فیصلے کے بعد سے ہر روز اسی طرح غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں سینکڑوں مسلمان قتل ہورہے ہیں، ہسپتالوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے اور زمینی امداد روکی گئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عدالت بھی اگر زمین کے اس شیطان کے آگے بے بس ہے تو شاید اب خدا کی عدالت سے ہی فیصلے کا انتظار ہے۔ اور یہ فیصلہ صرف ظالم کے لیے نہیں،ظالم کا ساتھ دینے یا تماشا دیکھنے والی ہر قوت کے لیے ہوگا ان شاءاللہ۔
بلوچستان کے ساتھ ایران کی سرحد پر کشیدہ صورتحال ہے۔ بلوچ شر پسندوں کی ایران کے اندر شر انگیزی کا جواب ایران نے بلوچستان کی سرحد کے اندرحملے سے دیاجس پر پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔بیرونی طاقتوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی پالنا کسی طرح بھی دانش مندی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے اردگرد ہر طرف اپنے لیے دوستانہ فضا کو اپنی پالیسیوں کے باعث نقصان پہنچایا ہے۔اگر پاکستان سےکوئی جاکر ایران میں شر انگیزی کرتا ہے تو اسے کنٹرول کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کا معاملہ نہ صرف گھمبیر ترہوتا جا رہا ہےبلکہ سرحد سے باہرپھیلنے لگا ہے جو بے حدافسوس ناک امرہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی انتقال کرگئے۔ پاکستان کے نامور ماہرِ اقبالیات، محقق اور سفرنامہ نگار تھے۔اوریئنٹل کالج لاہور کے شعبہ اردو کے چیئرمین اور جامعہ پنجاب کے شعبہ اقبالیات میں پروفیسر رہے۔کئی ادبی، علمی و تحقیقی رسائل کے مدیر و معاون مدیر بھی رہے۔ بابائے اردو ایوارڈ اور قومی صدارتی اقبال ایوارڈ حاصل کیے،اقبالیات اور اردو زبان و ادب پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ماہنامہ بتول کے لیے اپنا سفرنامہ جاپان ’’سورج کو ذرا دیکھ‘‘لکھا جو قسط وار شائع ہوتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت فرمائے آمین۔
اس بار آپ کے لیے نیا ناولٹ شروع کیا جارہا ہے۔ عینی عرفان آپ کی جانی پہچانی افسانہ نگار ہیں ،افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ ’’نٹ کھٹ زندگی‘‘کے عنوان سے ان کا یہ نیا ناولٹ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔اگلے ماہ تک اجازت دیجیے بشرطِ زندگی۔
دعاگو،طالبہ دعا
صائمہ اسما
اپریل کا شمارہ ان شاء اللہ زہرہ آپا نمبر ہوگا جس کا مقصد ان کی شخصیت اور کام کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔اس نمبر میں شمولیت کے لیے غیر مطبوعہ تحریریں فوری بھجوا دیں ،آخری تاریخ 5 مارچ ہے۔ مدیرہ