قارئین کرام!
کورونا کی دوسری لہر دم توڑ رہی ہے اور امید ہے کہ آئندہ کچھ ہفتوں میں زندگی خاصی حد تک معمول پر آ جائے گی۔مارچ میں اس آسمانی آفت کوپاکستان میں آئے پورا ایک سال مکمل ہو رہا ہے۔ اللہ ہمیں اور دنیا بھر کو اس کے چنگل سے جلد اور مکمل نکال لے، آمین۔
یہ قرارداد پاکستان کا مہینہ بھی ہے جب اسلامیانِ ہند نے اپنی ایک الگ منزل متعین کر کے اس جانب سفر کا آغاز کردیا تھا۔اللہ اس مملکت خداداد کو تا قیامت سلامت رکھے آمین۔
تابش میں اپنی مہرو مہ و نجم سے سِوا
جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے
پاکستان اور بھارت کی فوجی قیادت کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پہ امن و امان قائم رکھنے کا اعلان سامنے آیا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان مخاصمت کی فضا کم کرنے میں مدد ملے گی اور خطے کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں ہؤا ہے جبکہ گزشتہ ایک سال سے بھارت کو ایک ہی وقت میں پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا ہے۔دراصل اگست۲۰۱۹ میں جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ ناجائز الحاق کیا، اس کے بعد سے مقبوضہ وادی کا مسئلہ سنگین تر ہوگیا ہے کیونکہ اب اس میں چین بھی شامل ہو گیا ہے جس کا مقبوضہ وادی اور لداخ کے کچھ حصے پر دعویٰ ہے۔مقبوضہ وادی کے ناجائز الحاق کے بعد ہمت پا کربھارت نے چین کے ساتھ مزید چھیڑ چھاڑ کرنی چاہی اورمئی ۲۰۲۰میں لداخ کے متنازعہ علاقے میں سڑکیں تعمیرکرنی شروع کردیں۔مگرچین نے جو پہلے ہی جموں و کشمیر کے ناجائز الحاق پر ناخوش تھا،بھرپور جوابی کارروائی کی اور بھارت کو اس ناجائز عمل سے باز رکھنے میں کامیاب رہا۔دونوں ممالک کے تعلقات ابھی تک معمول پر نہیں آئے ہیں۔ خطے کی حالیہ صورتحال کے تناظر میں اس وقت پاکستان کی پوزیشن مضبوط محسوس ہوتی ہے۔ بھارت کے ناجائز اقدامات کے باعث پاکستان اورچین دونوں بھارت کے ساتھ اپنی سرحدوں پر کسی بھی جارحیت کے مقابلے کو تیار کھڑے ہیں۔جبکہ پاکستان اور چین سی پیک کے ذریعے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔دوسری طرف بائیڈن حکومت افغانستان سے امریکہ کو نکالنے کے لیے پاکستان سے بگاڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ صورتحال بھارت پر دباؤ کا باعث اور پاکستان کے حق میں ہے۔ پاکستان کو بہت محتاط انداز میں اپنے کارڈ کھیلنے ہوں گے تاکہ مقبوضہ وادی کی آزادی کے لیے پیش رفت ہوسکے اور اہلِ کشمیر کو بھارت کے ظلم سے نجات ملے۔بھارت کا جارحانہ رویہ ، اس کے توسیع پسندانہ عزائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہمیشہ ہی پورے خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ رہی ہے۔یہ پاکستان ہی ہے جو سوچی سمجھی حکمت عملی کے ذریعے بھارت کو نکیل ڈال سکتا ہے کیونکہ مقبوضہ وادی کو اپنی شہ رگ قرار دینے کے باعث پاکستان کو اس معاملے میں سب سے زیادہ حساس ہونا پڑے گا۔
گزشتہ دو سالوں سے مارچ کے مہینے میں عورت مارچ کے عنوان سے جو سرگرمی شروع ہوئی ہے، اس پر مختلف حلقوں سے بہت ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔ ردعمل دینے والوں میں ہر طبقہ فکر اور ہر پس منظر کے لوگ شامل ہیں۔ اس سرگرمی پر چند نمایاں اعتراضات یہ ہیں کہ یہ عورتیں پاکستانی عورت کی تہذیبی شناخت، اس کے اصل مسائل سے قطع نظر عورت کے لیے وہ ایجنڈا لا رہی ہیں جو مغرب کا ہے۔ ان کے نعرے اور پوسٹر تک بالکل وہی ہیں جو مغربی معاشروں میں فیمنزم کی تحریک میں سامنے آئے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں ان کو وسائل کی فراہمی بھی مغرب ہی کے ایسے ادارے کررہے ہیں جن کے پاکستان میں تہذیبی تبدیلی کے اعتبار سے اپنے سوچے سمجھے مقاصد ہیں۔دوسرا اعتراض یہ کہ ان کے نعرے اور پوسٹر نہ صرف یہ کہ پاکستانی عورت کو بغاوت اور گھر بیزاری کا سبق دے رہے ہیں بلکہ انتہائی عریاں، ولگر اور اخلاق باختہ ہیں جن کو مسلم معاشرے میں ہرگز مناسب نہیں کہا جا سکتا۔تیسری بات یہ کہ پاکستانی عورت کے اصل مسائل مثلاً صحت، تعلیم اور معاش کے برابر مواقع کا ان کے نعروں میںکہیں بھی تذکرہ نہیں ہے۔چوتھی بات یہ کہ جس دیہاتی اور پسماندہ عورت کے نام پر یہ حقوق کا نعرہ لگاتی ہیں وہ عورت ان کے احتجاجوں میں کہیں نظر نہیں آتی بلکہ شہروں کی اپر مڈل اور مڈل کلاس کی عورتیں نظر آتی ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ اگر ان کے بقول یہ اسلام کو عورت کے ساتھ ظلم کا ذمہ دار نہیں سمجھتیں، جیسا کہ ان کی نمائندوں نے بعد ازاں وضاحتیں کی ہیں، تو پھر یہ پاکستان کے مسلم معاشرے میں عورت کو اسلام کے دیے ہوئے حقوق کی فراہمی کا مطالبہ اپنے احتجاج میں کیوں نہیں کرتیں۔اگر یہ واقعی سمجھتی ہیں کہ عورت کی زندگی جاگیر دارانہ، قبائلی یا پسماندہ سوچ کی وجہ سے مشکل میں ہے تو بڑے شہروں کے یہ فیشن ایبل احتجاج اس ذہنیت کا کیا بگاڑ لیں گے؟ الٹا ایسے لوگ اپنی عورت کو ہی ردعمل کا نشانہ بنائیں گے۔
اگر یہ عورتیں پاکستانی عورت کی زندگی بہتر کرنے میں مخلص ہیں اور چاہتی ہیں کہ ان کی جدوجہد کو پاکستانی عوام میں قبولیت بھی حاصل ہو تو پہلے توان کو ہماری عام عورت کے حقیقی مسائل کا درست علم ہونا چاہیے۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کریں کہ ان میں سے کن مسائل پر اور کیسے عوامی آگاہی پیدا کرنے سے فائدہ ہوگا، کیونکہ ہر مسئلہ سڑکوں پرآجانے اور الٹے سیدھے نعرے لگانے سے حل نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ زیادہ خراب ہو جاتا ہے۔پاکستانی عورت کا سب سے بڑا مسئلہ صحت کی سہولیات کی فراہمی ہے، اس کو ری پروڈکٹو حقوق دلوانے سے زیادہ حمل اور زچگی میں طبی سہولیات، دواؤں ،تیمارداری، اچھی خوراک اور اچھے رویے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد تعلیم تک رسائی اس کا مسئلہ ہے جس میں ابھی تک وہ مردوں کی آبادی سے بہت پیچھے ہے مگر گاؤں دیہاتوں میں اس کے لیے سکول نہیں ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ غربت اور بے روزگاری ایسی چیز ہے جو گھریلو تشدد،ظلم اور قتل کے جرائم تک لے جاتی ہے جس کا زیادہ تر نشانہ عورتیں بنتی ہیں کیونکہ وہ جسمانی طور پہ کمزور ہیں۔ گھریلو ناچاقیاں اور ان کے نتیجے میں تشدد کی ایک بڑی وجہ ہمارے عوام میں غربت و افلاس ہے۔ SDPI کی ایک ریسرچ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ معاشی مسائل کی سنگینی کم ہونے سے ہمارے معاشرے میں عورت کے ان مسائل کی شرح بہت حد تک کم ہو سکتی ہے کیونکہ غربت بہت سی معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ غربت کا تعلق عورتوں پر گھریلو تشدد، جنسی تشدد اور ٹریفکنگ سے جڑتا ہے۔ لہٰذا ہمارا مشورہ ہے کہ عورت کے مسائل کو خلا میں نہیں بلکہ پورے معاشرے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تعلیم، تربیت، قانون کا نفاذ، فوری انصاف، قوانین کی آگاہی ایسے اقدامات ہیں جن سے یقینی طور پر صورتحال میں بہت بہتری کا امکان پیدا ہوگا۔ہمارے ہاں غیرت کے قتل،زیادتی، ہراسیت، تیزاب گردی، گھریلو تشدد ، جبری شادی، کم عمری کی شادی، جائے ملازمت پر ہراسیت، علاقائی رسوم ان سب منفی رجحانات کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے ،مزید بھی ہونی چاہیے اورموجود قوانین کا اطلاق بھی۔
خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں یہ بات بھی شامل ہونی چاہیے کہ آج کی عورت کوسرمایہ دارانہ نظام کے استحصال سے بچایا جائے۔میڈیا اور کاروباری ادارے جس طرح عورت کی خوبصورتی کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، پاکستانی خواتین کی اکثریت اس کی مذمت اور مخالفت کرتی ہے اور اس استعمال کو اپنی نسوانیت کی توہین سمجھتی ہے۔ عورت پراڈکٹ نہیں ہے جس کو اشتہارات میں نامناسب طور پر استعمال کیا جائے یا اس کے حسن سے اشیا کی قیمتیں متعین کی جائیں۔ نہ میڈیا کو عورت کے غلط استعمال کی کھلی آزادی ہونی چاہیے۔ یہ عورت کا کھلا استحصال ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی عطا ہے۔ ہمارے لیے امہات المومنین اور تاریخ اسلام کی عظیم خواتین نمونہِ عمل ہیں نہ کہ دورِ جدید میں آزادی اور برابری کے سراب کے پیچھے بھاگتی ہوئی مغربی عورت۔
محشر خیال میں آپ کی آرا کی بہت کمی محسوس ہوتی ہے۔ مطالعہ کے بعد چند الفاظ کے ذریعے سہی، اپنا فیڈ بیک ضرور دیں۔
اگلے ماہ تک اجازت بشرطِ زندگی
صائمہ اسما
بہت اچھی تحریر. اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے اور جہاد بلقلم کے لیے مزید توانائیاں دے. آمین
اداریہ کا مرکزی موصوع عورت مارچ کے مضمرات پر مبنی ہے۔ مدیرہ صاحبہ نے عورت کے حقیقی مسائل کے حل کے لئے
راست جانب پیش قدمی کی جانب متوجہ کیا ہے۔ عورت مارچ خود خواتین کے لئے کیسے ضرر رساں ہے۔ مسائل کا شکار عورت نہ این جی اور کا موضوع ہی نہیں اور اس کے حصے میں تو فقط کانٹے ہی آتے ہیں۔
ماشاءاللہ اداریہ ہمہ پہلو ہے…
بہترین راہنمائ