۲۰۲۴ بتول فروریچھوٹی آپا - فریدہ عظیم

چھوٹی آپا – فریدہ عظیم

چھوٹی آپا میری خالہ زاد بہن ہیں۔ اتنی پیاری ، اتنی خوبصورت، خوب سیرت، ہنر مند کہ مثال نہیں ملتی۔ وہ جب چھوٹی سی تھیں تو خالہ کا انتقال ہو گیا اورننھی سی جان کو ننھیال والوں نے سنبھال لیا۔ مگر چونکہ ننھیال میں نانی اور خالائیں تو تھیں نہیں جو انھیں بہت توجہ ملتی۔ ماموں تھے اور نانا ۔ نانا اس یتیم بچی کو کندھے سے لگائے رکھتے۔ کھانے پینے کا خیال رکھتے۔ اسکول لاتے لے جاتے، یونہی وہ بارہ برس کی ہو گئیں۔
گھر میں ان کی حیثیت فالتو فرد کی سی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں یہ احساس ننھے سے دل کو چھلنی کیے دیتا تھا کہ انھیں پیار کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ آگے بڑھ بڑھ کر اپنے ماموں زاد بہن بھائیوں کے کام کرتیں۔ ممانیوںکی چاکری کرتیں ہر ایک کو خوش کر نے کی کوشش کرتیں مگر کوئی ان سے خوش نہ ہوتا تھا۔ البتہ شکایتیں ہی رہتی تھیں۔ چھوٹی یہ ایسے کیوں کیا … ویسے کیوں کیا البتہ بچے ان سے محبت کرتے تھے۔ سب انھیں چھوٹی آپا کہتے تھے۔
اسکول میں ان کا دل نہ لگتا تھا کیونکہ گھر کے کاموں کی وجہ سے اتنی فرصت نہ ملتی تھی کہ وہ ڈھنگ سے سبق یاد کرتیں۔ وہ اپنے ننھے ہاتھوں سے سارا دن مشقت کرتیں جو ملتا کھا لیتیں، جو دیا جاتا وہ پہن لیتیں۔ وہ جو بھی پہنتیں ان پر خوب جچتا تھا مگر ایک احساسِ کمتری انھیں مارے ڈالتا تھا۔ ان کے گال پر داہنے جانب ایک بڑا گہرا نیلے رنگ کا داغ تھا۔ کچھ چاند گہن کہتے تھے، کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ کسی چوٹ کا نشان ہے۔
غرضیکہ وہ اس کے باوجود بہت سندر تھیں۔ مجھے سندروہ اس لیے بھی لگتی تھیں کہ وہ سب بچوں سے پیار کرتی تھیں، سب کے لیے چیزیں رکھتی تھیں، سب کا کام کر دیتی تھیں۔ میری وہ خالہ زاد بہن تھیں اس لیے مجھے ان سے خاص لگائو تھا۔
جب وہ بارہ سال کی تھی تو چھوٹی آپا ۲۴ سال کی ہو چکی تھیں۔ گھر والے ان کی شادی کی فکر میں تھے مگر جو بھی آتا ان کے چہرے کے داغ کو دیکھ کر دوبارہ نہ آتا۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا۔ ان کے ساتھ کی لڑکیوں کی شادیاں ہوئیں اور پھر وہ مائیں بھی بن گئیں مگر چھوٹی آپا اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ گھر ہی بیٹھی رہیں ۔ ان کے اس نقص کے علاوہ اور جو چیز انھیں بہو بنانے میں مانع ہوتی تھی وہ ان کا یتیم ہونا بھی تھا۔ مال دولت انھیں ملتا نہ کوئی جائیداد۔
ان کے دل کو دکھی کرنے کے لیے یہ بہت بڑی اذیت تھی جو آہستہ آہستہ ان کے مزاج پر اثر انداز ہو رہی تھی۔ ان کی گفتگو میں روکھا پن اور کاٹ پیدا ہونا شروع ہوگئی ۔ کام وہ اب بھی سب کے کرتی تھیں اور ادن رات کرنے کے باوجود کبھی نہ تھکتی تھیں مگر محبت کی وہ کمی جو ازل سے ان کی زندگی میں رہی ان کی خوبیوں پر اثرانداز ہونے لگی۔اب ان کی تعریف کے ساتھ ساتھ شکایات بھی سامنے آنے لگیں۔ چھوٹی آپا نے ایسے کیا اور ویسے کیا …
میں سوچا کرتی کوئی ان کے درد کو سمجھتا نہیں، محسوس نہیں کرتا کہ وہ کن اذیتوں سے گزری ہیں۔ یہ سب تو ہونا تھا وہ تلخ ہو گئی ہیں تو حیرانگی کی کیا بات ہے۔
پھر زندگی میں وہ دور بھی آیا جب وہ اپنی نمائش پر چڑنے لگیں۔ انھیں علم تھا کہ آنے والے دوبارہ نہیں آئیں گے۔ انہوں نے شروع میں دبے دبے لفظوں میں پھر کھل کر کہنا شروع کر دیا۔ مجھے نہیں کرنی شادی وادی … اب کوئی آیا توبہت برا ہو گا۔ اور گھر والے کون سا ان کے اپنے تھے … ماں باپ یا بہن بھائی، سب کے سر سے جیسے بوجھ اتر گیا۔ اب کبھی کوئی توجہ بھی دلاتا کہ چھوٹی کے لیے کوئی رشتہ ڈھونڈو تو ہر ایک کے پاس آسان جواب تھا وہ نہیں کرے گی اس نے خود منع کیا ہے۔ وہ بچے جنہیں انہوں نے اپنی گودوں میں کھلایا تھا وہ بھی بچوں والے ہو گئے اور چھوٹی آپا اس گھر سے اس گھر اور اُس گھر سے اس گھر سب کی خدمت میں پیش پیش ۔ کسی کے ہاں شادی کا کام، کسی کے ہاں چلہ، کسی کا آپریشن، کسی کی سالگرہ … بھاگ بھاگ کر سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیتیں اور خوش اسلوبی سے ہر کام کو بھگتاتیں۔ کچھ کپڑے، آنے جانے کا کرایہ، ان کو مل جاتا اور بس جیسے ہر حق ادا ہو گیا۔
میرا دل خون کے آنسو روتا۔ کبھی میں اماں سے جھگڑتی کہ کیا آپ کی اپنی بیٹی ایسی زندگی گزار رہی ہوتی تو آپ برداشت کرسکتی تھیں؟ آپ کا کلیجہ پھٹ جاتا آپ نڈھال ہو جاتیں۔
اماں اپنا عذر رکھتیں کہ میں پرائے بس میں ہوں میں کیسے اُسے اپنے گھر میں رکھتی۔ اس کی شادی بیاہ کے اخراجات کہاں سے لاتی۔
اماں اگر انسان دوسروں سے محبت کرے اپنے دل کو وسیع کرے تو اللہ تعالیٰ خود سبب پیدا کر دیتے ہیں، میں کہتی مگر اماں اپنی کمزوری اور بے بسی پرآنسو تو بہاتی تھیں مگر اپنی بھانجی کے لیے ان کے پاس دعائوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کے دل کا خود ان کو یا خدا کو معلوم تھا۔
میں ہر ایک کے آگے یہ بات رکھتی قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ منع کرتی ہیں تو کیا ہؤا انھیں سمجھایا بجھایا بھی تو جا سکتا ہے وہ دکھی ہو کر ایسا کہتی ہیں۔ مگر سب اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے کسی کو پروا نہ تھی کہ ان کا بھی گھر بس جائے۔ ہاں اپنے کاموں کے لیے وہ اب بھی چھوٹی آپا کے منتظر رہتے تھے۔
اس بار جب وہ گھر گئی تو چھوٹی آپا بھی آئی ہوئی تھیں۔ وہ ایک دم بوڑھی لگ رہی تھیں۔
آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نا؟
ہاں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو خوش ہو نا؟ انہوں نے اپنی ازلی محبت کا اظہار کیا۔
ہم دیر تک بیتے دنوں کی باتیں کرتے رہے۔ انھیں شکوہ تھا کہ میں اپنے دُکھ سکھ میں انھیں یاد نہیں رکھتی۔ کبھی انھیں خدمت کا موقع نہیں دیتی۔
آپا آپ نے سب لوگوں کو لنگڑا لولا بنا دیا ہے جہاں کہیں آپ نہیں ہوتیں وہاں بھی تو سارے کام ہو رہے ہوتے ہیں یا آپ نہیں ہوں گی تو بھی یہ سب تو نہیں چلتا رہے گا۔ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچا؟ دوسروں کی فکر میں جان گنوا دی۔
اپنے لیے کیا سوچتی؟ ماں باپ ہوتے ، بہن بھائی ہوتے، وہی دکھ سکھ کے ساتھ ہوتے ہیں، وہی ایک دوسرے کا اچھا برا سوچتے ہیں۔ میرا کون تھا! تنہا بے یارومددگار۔ لوگوں کی خدمتیں نہ کرتی تو اتنی بھی جگہ نہیں لتی۔
ان کے لہجے کا دُکھ میری روح تک کو زخمی کر گیا۔ آپا آپ خود بھی ذمہ دار ہیں نہ آپ شادی نہ کرنے کا کہتیں نہ لوگ بے فکر ہوتے۔
تمہیں پتا ہے بہنا کتنے عذاب سہے تھے میں نے اس چہرے کے داغ کی وجہ سے … بس دکھی ہو گئی تھی میںلوگوں کی باتیں سن سن کر۔ اس لیے قصہ ہی ختم کر دیا۔
مگر آپا یہ کوئی رکاوٹ کی بات نہ تھی۔ لوگوں کی تو لولے لنگڑوں اندھے کانے بونے ہر طرح کے انسانوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ آپ کا داغ ایسا بدنما تو نہیں ہے کہ اس کو جواز بنایا جائے۔ آپ ہاتھ پیر سے سلامت ہیں۔ اتنا خوبصورت رنگ، گھنگریالے بال۔ میرا تو جی چاہتا آپ کو دیکھتی رہوں۔ سچ آپا بہت برا ہؤا ہے میں آپ کے لیے بہت پریشان رہتی ہوں۔ میرے پاس چل کر رہیں اب کام کی عمر نہیں ہے آپ کی بہت خدمت کروں گی۔
بہنا تیری محبت کا شکریہ۔ جن لوگوں میں ساری عمرپڑی رہی بس انہی میں رہنے دے ورنہ لوگ کہیں گے کہ آنکھوں کی سوئیاں نکالنے تم مجھے لے گئی ہو۔
آپا مجھے لوگوں کی ذرا پروا نہیں جو مرضی کہتے رہیں۔ آپ ارادہ کریں۔ کیا آپ کا جی نہیں چاہتا کہ جسم و جان کو کچھ سکون ملے؟ آپ کو خوش ہونے کے لیے لمحے میسر آئیں؟
کیوںنہیں چاہتا بہنا… کیا میں گوشت پوست کی انسان نہیں تھی؟ کیا میرے جذبات اور احساسات نہیں تھے؟ کیا میرے دل میں کوئی امنگ یا خواہش جنم نہیں لے سکتی تھی؟ سب کچھ تھا مگر کون ان سب کا خیال رکھتا! کون تھا میرا؟ ماںباپ یا بہن بھائی … کوئی بھی نہیں۔
ان کی آنکھوں سے سوتے پھوٹ پڑے۔ کون تھا بتا۔ کیا تو تھی میری اپنی؟ انہوں نے ایک دم مجھے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔
اور میں جو اپنے آپ کو ان کا اتنا خیرخواہ سمجھ رہی تھی ایک دم بے جان ہو گئی۔ واقعی کیا میں تھی ان کی اپنی؟
اب میں چاہے اپنی ماں کی طرح کتنے ہی عذر پیش کروں کہ میں پرائے گھر اور پرائے بس میں ہوں مگر سچ یہی ہے کہ میں بھی ان کی اپنی نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو بہت پہلے ان کے لیے کچھ کرتی۔ انھیں خوشیاں دلاتی … سکھ پہنچاتی۔
مگر شاید اس جرم پر تو معافی بھی نہ ملے۔ جو ہم سب نے ان پر ڈھایا۔ ایک انسانی جان کا ہم سب نے مل کر خون کا ڈالا۔ نہ اس کا خون بہا ادا کر سکیں اور نہ ازالہ … اس کی تو سزا بھگتنا پڑے گی … بہت بڑی سزا۔
وہ سزا جو چھوٹی آپا نے جھیلی پل پل مرنے والی سزا … جس میں کوئی اپنا نہ تھا جو ان کی مدد کرتا۔
اس سے بھی بڑی سزا جہاں کوئی اپنا نہ ہو گا۔ نہ سفارش، نہ رعایت، نہ مدد، نہ فدیہ… اے خدا کیا تو ہمیں معاف کر سکے گا کہ ہم نے تیری بہت پیاری بندی پر جو ظلم ڈھائے … کیا تو اپنی پناہ دے گا ہمیں؟اے رب ہمیں معاف کر دینا اس ظلم پر جو ہم نے دانستہ یا نادانستہ کیا ہے۔ یا ربی معاف کر دینا!
میرا دل دھڑک دھڑک کر باہر آنے کو ہے۔ کسی نے بھی نہیں … کسی ایک نے بھی نہیں سوچا کہ تیرے حضور کیسے کھڑے ہوں گے؟ کیا کھڑے ہو سکیں گے؟ ساری عمر کی ریاضتیں، عبادتیں، نیکیاں، وہ سب بھی ناکافی ہیں اس جرم کی تلافی کے لیے …
مالک رحم کرنا، رسوا نہ کرنا ۔ نجانے کتنی چھوٹی آپائیں اس ظلم سے گزر رہی ہیں۔ کتنے خوابوں کو انسانوں نے نوچ پھینکا ہے۔ تو کتنا بردبار ہے ، کتنا قوی ہے جو یہ برداشت کر رہا ہے۔ کہیں تجھے جلال نہ آجائے کہ ہم تہہ و بالاہوجائیں۔ اے اللہ اپنی پناہ میں رکھنا (آمین)۔
٭٭٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here