بڑے سے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے شازمہ نے مطمئن انداز میں اطراف میں نگاہ دوڑائی۔ پیکنگ تقریباً مکمل تھی۔ اب صرف راستہ کے لیے کھانے پینے کی اشیاء کا انتظام کرنا تھا۔ ان کو آج شام کو نکلنا تھا۔ بھائی جان کے بڑے بیٹے یعنی منال کے بھائی کی شادی میں شرکت کرنے وہ لوگ ایک ہفتے کے لیے کراچی جارہے تھے۔اس نے سوچا پہلے بچیوں کی تیاری دیکھ لے کہاں تک پہنچی۔ وہ کچن میں جاتے جاتے حماد کے کمرے میں آگئی۔
کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر دل کو دھچکا لگا۔ دونوں الماریاں خالی ہوئی پڑی تھیں اور چاروں طرف کپڑے ہی کپڑے پھیلے تھے۔ سنگھار میز کے آگے دو اٹیچی کیس رکھے تھے اور مسہری پر دو جہازی سائز پوٹلیاں جن سے ہانیہ نبرد آزما تھی۔
’’یہ کیا کررہی ہو بیٹا؟‘‘ شازمہ نے حیرت سے پھیلاوے کو دیکھا۔
’’پیکنگ کر رہی ہوں چاچی‘‘۔ مصروف انداز میں جواب آیا۔
’’یہ پوٹلیاں کیوں باندھ رہی ہو اور الماریاں کیوں خالی کی ہیں‘‘اس نے راستے میں پڑے کپڑے جھک کے اٹھائے۔
’’اچھے اچھے کپڑے ڈھونڈ رہی تھی اس لیے سارے کپڑے نکالنے پڑے۔ بیگ اور سوٹ کیس دونوں بھر گئے مزید جگہ ہی نہیں اس لیے باقی سامان کی پوٹلی باندھ رہی ہوں‘‘۔
’’میرے خیال سے ہانیہ ہم صرف ایک ہفتے کے لیے کراچی جارہے ہیں۔ وہاں مستقل شفٹ نہیں ہورہے جو تم اتنا سازو سامان لے جانے پر تلی ہو ‘‘شازمہ نے ادھر ادھر پڑے ہوئے ہینگر سمیٹے۔
’’کیا کروں چاچی! میں تو خود پریشان ہوں، کیا رکھوں، کیا نہ رکھوں کچھ سمجھ نہیں آرہا‘‘۔ پوٹلی سے دھینگا مشتی چھوڑ کے ہانیہ، شازمہ کو دیکھنے لگی۔
’’آخر ایسا کیا رکھا ہے جو اتنا سامان ہوگیا سب آلتو فالتو سامان بھرلیا ہوگا‘‘۔
’’پتہ نہیں چاچی! مجھے تو سب ہی کام کا لگ رہا ہے. بیگ میں میرے شادی کی تقریبات کے کپڑے اور میک اپ ہے۔ سوٹ کیس میں گھر میں پہننے کے کپڑے ہیں۔ اور ان پوٹلیوں میں زیور، جوتیاں اور سینڈل وغیرہ‘‘ ’’حماد کے کپڑے کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ تو ابھی پیک کرنے سے رہتے ہیں اس کی بھی پوٹلی باندھ لوں؟‘‘
’’بالکل باندھ لو، دو چار پوٹلیاں ہی کیا یہ الماری اور ڈریسنگ ٹیبل بھی باندھ لو کہیں کچھ رہ نہ جائے ہم ویسے بھی گاڑی سے نہیں مال گاڑی سے جا رہے ہیں کراچیٔ‘‘۔
شازمہ کے اطمینان سے کہنے پر ہانیہ کھسیانی ہنسی ہنس دی۔
’’آپ خود ہی دیکھ لیں چاچی جو اضافی لگ رہا ہے بتادیں‘‘ ۔ ہانیہ نے بیگ اٹھا کے کھولا تو اس میں بمشکل ٹھونسے ہوئے کپڑے باہر ابل پڑے۔
’’شادی کی صرف تین تقریبات ہیں، بری بارات اور ولیمہ۔یہ تم نے کتنے جوڑے رکھ لیے‘‘۔
’’آٹھ جوڑے رکھے ہیں‘‘۔
’’ہائیں وہ کس لیے‘‘ شازمہ نے الجھ کے دیکھا ۔
’’میں نے سوچا کہ بارات کے دوسرے دن ناشتہ پہ نئی دلہن ہو گی تو بھاری کام والا سوٹ پہن لوں گی۔ بری کی رات سب رت جگا کریں گے تو ایک سوٹ اس رات پہن لوں گی، اس کے علاوہ مہمانوں کی آر جار ہوگی تو‘‘۔
’’افف میری بچی جب تم نے ہفتے کے سات دن چوبیس گھنٹے یہ زرق برق جوڑے ہی پہننے ہیں تو یہ گھر کے کپڑوں کا سوٹ کیس کیوں بھرا ہے‘‘۔
شازمہ نے اپنے سر پہ ہاتھ مار کے اس کی بات کاٹ دی اور آگے بڑھ کے سب پوٹلیاں سوٹ کیس کھول دیے۔ بڑی ہی مغز ماری کے بعد اس کی مناسب پیکنگ کروائی۔ اب جانے منال نے کیا کارنامہ کیا ہوگا۔ وہ یہ ہی سوچتی ہوئی عماد کے کمرے کی طرف چل دی۔
منال موبائل چلا رہی تھی اور پیکنگ کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
’’منال بیٹا شام تک نکلنا ہے اور تم نےابھی تک پیکنگ ہی نہیں کی؟‘‘شازمہ نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا۔
’’پیکنگ تو پھپھو میں نے رات کو ہی کرلی تھی میرا بیگ الماری میں رکھا ہے‘‘۔
منال نے اٹھ کے الماری سے چنا منا سا بیگ نکالا۔
’’اتنا سا بیگ! کیا رکھا ہے اس میں؟‘‘ شازمہ کو اب کے بالکل حیرت نہیں ہوئی بچیاں عموماً ہی اس کی سوچ سے الٹ کام کرتی تھیں۔
’’چار جوڑے عماد کےرکھے ہیں، دو بارات ولیمہ کے، دو گھر میں پہننے کےاور اپنا ایک بارات کا سوٹ جو آپ نے دلایا تھا‘‘۔
’’بس ! باقی دن کیا پہنوگی؟‘‘
’’شادی سے پہلے کے کتنے سارے جوڑے امی کے ہاں رکھے ہیں ان ہی میں سے پہن لوں گی ورنہ آئمہ کے پہن لوں گی‘‘۔
منال نے اپنی چھوٹی بہن کا نام لیا۔
’’تو عماد کے بھی چار جوڑے رکھنے کی کیا ضرورت تھی وہ بھی بھائی جان کے کپڑے پہن لیتا‘‘۔
شازمہ نے سنجیدگی سے کہا تو منال سوچ میں پڑ گئی۔
’’پہن تو لیں گے پر بابا کے کپڑے ان کو تھوڑے بڑے نہیں ہوں گے‘‘۔
’’نالائق لڑکی‘‘ شازمہ نے کشن اٹھا کے اس پہ اچھالا۔
’’شادی کے بعد پہلی دفعہ میکے میں کسی شادی پہ جارہی ہو سب خاندان جمع ہوگا۔ سب دن ڈھنگ سے تیار ہونا۔ آئمہ کے کپڑے پہن کے، بھابھی جان سے مجھے ڈانٹ پڑوانی ہے۔ اٹھو اور ڈھنگ سے پیکنگ کرو میں تمھاری مدد کراتی ہوں‘‘۔شازمہ نے جھنجھلا کے کہا تو منال سر کھجاتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
بھائی جان کے گھر پورا خاندان جمع تھا۔ بری سے ایک دن پہلے مہندی لگانے والی آئی ہوئی تھی۔سب لڑکیاں باری باری مہندی لگوارہی تھیں۔چہچہا رہی تھیں،شوخیاں کر رہی تھیں۔ آئمہ سلائی مشین کے ڈھکنے کو کو بے ڈھنگے انداز میں پیٹ رہی تھی اور لڑکیاں اسے سہانی ڈھولک کی تھاپ سمجھ کے اپنی بے سری آوازوں کے سر بکھیر رہی تھیں۔ پورا گیت کسی کو نہ آتا تھا۔بمشکل گیت کا پہلا شعر ہی مکمل ہوتا کہ کوئی لڑکی خود کو تان سین سمجھتے ہوئے نئی تان اٹھا دیتی۔ کان پڑے آواز سنائی نہ دیتی تھی کہ پھوپھی جان کی ایک للکار نے پورے ماحول کو ساکت کردیا۔
’’چپ کرجاؤ بد تہذیب لڑکیو کیا ہاہا کار مچا رکھی ہے۔ ایک گیت جو ڈھنگ سے گایا ہو عجیب بے تکےگیت ہیں نہ سر نہ پیر فقط شور شرابہ، گیت تو ہمارے زمانے کے ہوتے تھے۔ تمیز تہذیب والے ادھر لاؤ ڈھول، میں سناتی ہوںگیت‘‘۔پھوپھی جان نے مشین کے ڈھکنے کو ڈھول کا نام دے کر بڑی عزت بخشی۔ لڑکیاں منہ نیچے کیے کھی کھی کرنے لگیں۔
پھوپھی جان بڑی دلچسپ خاتون تھیں۔ دادا کی اکلوتی بہن۔ تقریباً پاکستان کے ساتھ کی پیدائش اور موجودہ تین نسلوں کی پھوپھی جان۔ گویا جگت پھوپھی تھیں۔ چالیس کےپیٹے میں داخل ہوتے ہی بڑھاپا خود پر طاری کرکے ہائے ہائے کرنے والی خواتین کے لیے ایک زندہ مثال۔ ہمیشہ نک سک سے تیار رہتیں۔ آنکھوں میں سرمہ اور چہرے پر اپنی جوانی والی کریم آج تک لگاتیں۔ کوئی اور میک اپ کبھی استعمال نہیں کیا پھر بھی جلد ایسے لشکارے مارتی کہ لڑکیاں بھی حسرت کریں۔ ایسا نہ تھا کہ بڑھاپے نے ان کو چھوا نہ تھا، چھوا تو تھا مگر بڑے پیار سے۔ انگلیوں کی پوریں ہمہ وقت لال کھلتے ہوئے رنگ سے سجی رہتیں۔ بڑے ہی اہتمام سے ہر ہفتہ مہندی لگاتیں، کہتیں قبر میں فرشتے عورت کے ناخن کی مہندی سے پہچانیں گے کہ مرد ہے یا عورت۔ پرانے زمانے کی سیدھی خاتون تھیں اب کیا ہر بات میں فتوے لگانا۔ نہ صرف چہرے کی خوبصورت تھیں مزاج کی بھی حسین تھیں۔ کسی سے ناراض ہونا تو انھوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ خاندان میں لاکھ کسی کے درمیان کوئی رنجش چپقلش چل رہی ہوتی وہ کسی بھی خاص موقع پر پورے خاندان کو یک جٹھ کردیتیں۔ اب وہ اس صلح کے لیے کتنی جان مارتیں وہ الگ کہانی ہے۔
پھوپھی جان نے ڈھول کیا سنبھالا لڑکیوں کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ ان کو معلوم تھا کہ پھوپھی جان اب’’بابل کی دعائیں لیتی جا‘‘ بڑے جذب سے گنگنائیں گی اور تمام بڑی عمر کی خواتین باجماعت آنسو بہائیں گی۔ رونا نہ بھی آرہاہوتب بھی ناک سے شوں شوں کی آواز نکال کے نادیدہ آنسو پلو سے صاف کرتی رہیں گی۔ یہ ان کے خاندان کی ایجاد کردہ رسم تھی جو ہر شادی میں بڑے اہتمام سے دہرائی جاتی مگر ان کی اس تیسری نسل کی لڑکیوں کو اس پچھلی صدی کے گانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے سب چپکے چپکے کھسک لیں۔ منال مہندی لگوانے کے انتظار میں بیٹھی تھی کہ شازمہ نے سرگوشی میں اس سے کہا۔
’’بیٹا بھابھی کب سے باورچی خانے میں ہیں جا کر ذرا پوچھ لو کوئی کام تو نہیں ہے‘‘۔
’’جی پھپھو!‘‘ منال سعادت مندی سے کہہ کرچلی گئی پر دو منٹ میں ہی واپس لوٹ آئی۔
’’کیا ہؤا؟‘‘ شازمہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’پھپھو مما کہہ رہی ہیں سلاد کے لیے پیاز کاٹنی ہے اور تھوڑے سے برتن جھوٹے پڑے ہیں وہ دھونے ہیں‘‘۔
’’تو بیٹا واپس کیوں آگئیں کام نہیں کروایا‘‘۔
شازمہ نے حیرت سے پوچھا.
’’ہائیں کام بھی کروانا تھا کیا؟ آپ نے تو صرف پوچھنے کا کہا تھا‘‘۔
شازمہ نے بغور منال کو دیکھا کیا سچ میں وہ اتنی بےوقوف تھی یا ڈرامہ کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شرارت دیکھ کے شازمہ مصنوعی غصہ سے گھورتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’تم مہندی لگواؤ میں خود ہی بھابھی کو دیکھ لیتی ہوں‘‘۔
منال شکر کرتے ہوئے مہندی لگوانے لگی۔
ہانیہ کتنی دیر سے حماد کو تلاش کر رہی تھی۔ تمام حضرات شاید بالائی منزل پہ تھے۔ اسے اوپر اکیلے جانا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ وہ صحن میں دیکھ کے واپس اندر جا رہی تھی کہ حماد سیڑھیوں سے اتر کے بیرونی دروازے کی طرف جاتا دکھائی دیا۔
’’سنیں‘‘وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی۔ حماد رک کےاپنی طرف آتی ہانیہ کو دیکھنے لگا.
’’اندر سب لڑکیاں مہندی لگوارہی ہیں مجھے بھی لگوانی ہے‘‘۔
’’ہاں تو لگواؤ کس نے منع کیا ہے ۔ دونوں ہاتھوں پہ چاروں طرف لگوانا پاؤں میں بھی لگوانا‘‘۔ حماد نے خوشدلی سے کہا۔
’’مفت میں تھوڑی لگوارہی ہیں ہاتھ کے ایک طرف کے پانچ سو لے رہی ہے۔ آپ مجھے پیسے دیں‘‘۔
’’ارے یار تمھارے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں ۔بالکل صاف شفاف ، خواہ مخواہ ان کو مہندی سے خراب کرنے کا کیا فائدہ ، چوڑیاں وغیرہ پہنوگی تو اچھے لگیں گے ان کو ایسے ہی رہنے دو‘‘۔
ہانیہ کا مطالبہ سن کے حماد نے پینترا بدل لیا۔ ہانیہ پیر پٹخ کے اندر جانے لگی تو حماد نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔
’’رکو تو سہی میں مذاق کر رہا تھا‘‘۔
اس نے جیب سے والٹ نکال کے اس کے ہاتھ پہ رکھا۔
منال، ہانیہ کو ڈھونڈتی باہر آئی تو ہانیہ کا ہاتھ ابھی تک حماد کے ہاتھ میں تھا۔
’’ہائے میں تو ڈوب گئی شرم سے‘‘۔منال نے ہانک لگائی تو ہانیہ جھینپ کے ہاتھ چھڑاتی ہوئی اندر کی طرف بڑھ گئی۔
بری والے دن پورے گھر میں ہڑبونگ مچی تھی ۔سب کو اپنی اپنی تیاری کی فکر تھی ۔ منال، ہانیہ کو اوپر دولہا کے کمرے میں لے آئی تھی جہاں دونوں سکون سے تیار ہو رہی تھیں۔
’’یار میں کیسی لگ رہی ہوں‘‘
ہانیہ نے آئینہ پہ ناقدانہ نظر ڈال کے پوچھا۔
’’بہت پیاری لگ رہی ہو‘‘ منال نے سینڈل کے سٹریپ باندھتے ہوئے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا۔
’’کیا ہے صحیح سے بتاؤ نا دیکھا ہے نہیں بس بول دیا‘‘۔
ہانیہ جھنجھلا گئی۔
’’اتنی دیر سے دیکھ تو رہی ہوں اور دل ہی دل میں جل بھی رہی ہوں تم سے۔ تمہارا جوڑا کتنا اسٹائلش ہے۔ مجھے کتنا بھاری جوڑا پہنادیا پھپھو نے کہ تم دولہا کی بہن ہو ‘‘منال کھڑے ہو کے دوپٹہ سیٹ کرنے لگی۔
’’کتنی ناشکری ہو اتنا پیارا لگ رہا ہے تمہارا جوڑا اگر ہمارا سائز ایک ہوتا تو ہم بدل لیتے‘‘۔
’’تم مجھے موٹی کہنا چاہ رہی ہو نا؟‘‘ منال نے مشکوک نظروں سے دیکھا ۔
’’توبہ میں نے کب کہا ، تم کوئی موٹی نہیں ہو،بالکل فٹ اور اسمارٹ ہو،کہیں پھر سے ڈائیٹنگ کا بھوت سوار نہ کرلینا‘‘۔
’’خیر ڈائیٹنگ تو ابھی نہیں کروں گی۔ میرے اکلوتے بھائی کی شادی ہے خوب رج کے کھاؤں گی‘‘۔منال نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اچھا یار صحیح سے بتادو میں کیسی لگ رہی ہوں‘‘ہانیہ ابھی بھی غیر مطمئن تھی۔
’’جب تک حماد بھائی نہیں کہیں گے نا چڑیل لگ رہی ہو تب تک تمہیں تسلی نہیں ہوگی اس لیے ان سے ہی پوچھ لینا۔ میں جارہی ہوں میں نے سب کپڑے بیگ میں ڈال دیے۔ تم یہ میک اپ سمیٹ کے آجاؤ‘‘ ۔ منال اس کے سر کام ڈال کے نکل گئی وہ دروازے کو گھور کے رہ گئی۔
منال سیڑھیاں اتر رہی تھی کہ عماد اوپر آتا دکھائی دیا۔
’’یہ تمہارے کزن نے نہ جانے کیا پٹہ ڈال دیا میرے گلے میں ایسا لگ رہا ہے عورتوں کی طرح دوپٹہ اوڑھ لیا، سنبھل ہی نہیں رہا بار بار نیچے گرے جا رہا ہے تم اسے بیگ میں رکھ لو‘‘۔ عماد ،منال کو دیکھتے ہی گلے سے پیلاپٹکا اتارنے لگا۔
’’ارے رہنے دیں نا سب نے ڈالا ہؤا ہے میں سیفٹی پن سے اٹکا دیتی ہوں‘‘۔ منال بیگ سے سیفٹی پن نکالنے لگی۔
ہانیہ باہر آئی تو ایک لمحہ کو ٹھٹھک کے رک گئی۔ منال عماد سے ایک سیڑھی اوپر کھڑی تھی اور قدرے جھک کے اس کے کندھے پہ پن لگا رہی تھی اور عماد کی نظریں منال کے چہرے پہ ٹکی تھیں۔
’’یہ وہ ہی لوگ ہیں جو کل شرم سے ڈوب کے مر رہے تھے، ہمارا تو جیسے آنکھوں کا پانی ہی مر گیا نا‘‘۔ ہانیہ جملہ کستی ہوئی برابر سے اتر کے چلی گئی۔عماد نے ناسمجھی سے منال کی طرف دیکھا۔ منال کوئی بھی جواب دئے بغیر ڈھٹائی سے ہنستی چلی گئی۔
ہانیہ نیچے آئی تو تقریباً سب تیار ہی تھے۔ ایک کونے میں سجی سجائی بری بھی رکھی تھی۔ بس گاڑی کا انتظار تھا۔ شازمہ کو ڈھونڈ کے اس نے پیار اور پسندیدگی کی سند لی اور ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئی ۔ شازمہ نے بتایا تھا کہ نگہت بھابھی بھی سمدھیانہ کر کے مدعو ہیں ۔ اس کو مما کے آنے کی بہت خوشی تھی۔ دو دن ہوگئے تھے کراچی آئے ہوئے پر ابھی تک وہ مما سے ملنے نہیں گئی تھی ۔ موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ولیمہ کے بعد ہی ایک دن کے لیےسب کا دادی کے گھر جانے کا ارادہ تھا۔
’’یہ پہن لو پھپھو نے بھیجے ہیں‘‘۔ منال دونوں ہاتھ کے پھولوں کے کنگن اس کو پکڑا کے چلی گئی۔ بھاری جوڑے کی وجہ سے وہ سہج سہج کے چل رہی تھی۔ اس کو ایسے کپڑے پہننے کا نہ شوق تھا نہ تجربہ۔ اس کی چال دیکھ کے برابر بیٹھی پھوپھی جان کو کچھ شک ہؤا وہ ہانیہ کی طرف جھک کے سرگوشی میں بولیں۔ ’’سنو تمہاری جٹھانی کے ہاں خوشی ہے؟‘‘
’’ہاں اس کے بھائی کی شادی ہے خوشی تو ہوگی‘‘۔ہانیہ نے کنگن پہنتے ہوئے مصروف انداز میں جواب دیا ۔
’’میرا مطلب ہے اس کا پاؤں بھاری ہے‘‘ انھوں نے کچھ جھنجھلا کے پوچھا۔
’’نہیں اس کا تو بھاری نہیں ہے میرا بھاری ہے‘‘ ہانیہ نے لاپروائی سے کہا۔ وہ ہنوز کنگن میں الجھی ہوئی تھی۔ پھوپھی جان نے اچنبھے سے ہانیہ کو گھورا ،کس قدر بےشرم لڑکی تھی کیسے منہ پھاڑ کے کہہ دیا۔ گاڑی آنے کا شور اٹھا تو ہلچل مچ گئی پھوپھی جان کو ہانیہ سے مزید تفصیل پوچھنے کا موقع ہی نہ ملا۔
بس میں جانے خواتین کے بیچ کیا سرگوشیاں ہوئیں کہ سب خواتین ہانیہ کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ ہال میں مما، ہانیہ سے بہت گرم جوشی سے ملیں مگر ساتھ ہی کچھ ناراض ناراض بھی لگیں۔ ہانیہ نے سوچاشاید ملنےنہیں گئی اس لیے خفا ہوں۔ واپسی میں شازمہ اپنی دونوں جٹھانیوں کو اپنے بھائی کے گھر لے آئی۔اس کو بھی وہ کچھ خفا خفا لگ رہی تھیں اور شازمہ سے تو کسی کی نارضگی برداشت ہی نہ ہوتی تھی ۔ تمام بڑی خواتین کمرہ بند کئے بیٹھی تھیں۔ نگہت بھابھی ناراض تھیں کہ ان کی بیٹی کے گھر اتنی بڑی خوشخبری تھی تو شازمہ نے ایک فون کرکے ان کو مطلع کیوں نہ کیا،ان کو غیروں سے یہ بات پتہ چلی۔ جبکہ شازمہ خود سر پکڑے بیٹھی تھی کہ اگر ایسی کوئی بات ہے بھی تو وہ بھی بے خبر ہے۔ اب بتانے والی پھوپھی جان تھیں جن کی بات پہ تو رتی برابر شک نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ان کے اخلاص اور راست گوئی سے سب واقف تھے۔ شازمہ نےذرا سا دروازہ کھول کے ایک بچے سے ہانیہ کو بلوایا۔ ہانیہ تو پریشان ہی ہوگئی۔ جانے خواتین کی کمرہ بند کیے کیا میٹنگ چل رہی ہے۔ وہ منال کا ہاتھ پکڑ کے اس کو بھی ساتھ گھسیٹ لائی۔
’’ہانیہ تم نے پھوپھی جان کو اپنے بارے میں کیا بتایا ہے؟‘‘ شازمہ نے اس کی گھبرائی ہوئی شکل دیکھ کے رسان سے پوچھا۔
’’میں نے؟ میں نے تو کچھ نہیں بتایا‘‘۔ ہانیہ کی ہونق شکل دیکھ کے نگہت کواندازہ ہوگیا ضرور ان کی بیٹی نے کوئی بھنڈ مارا ہے۔ شازمہ تو ویسے ہی بچیوں کو اچھی طرح جاننے لگی تھی۔
’’کیا تم نے پھوپھی سے کہا تھا تمہارا پاؤں بھاری ہے‘‘۔
’’جی وہ تو پھوپھی نے پوچھا تھا کہ منال کا پاؤں بھاری ہے تو میں نے کہہ دیا نہیں میرا بھاری ہے۔ جب ہم آپ کے ساتھ بارات کےسوٹ لینے گئے تھے تو میری ناپ کی ہیل والی سینڈل ہی نہیں مل رہی تھی تو آپ نے ہی تو کہا تھا کہ تمہارا پاؤں بھاری ہے تم بغیر ہیل کی لے لو‘‘۔
ہانیہ ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی، اتنی سی بات کے لیے پوری جماعت لگا کے کیوں تفتیش ہورہی تھی۔ سمجھ منال کو بھی کچھ نہ آرہا تھا۔ کمرے میں ایک لمحے کے لیےسناٹا ہؤا تھا اور دوسرے ہی لمحے سب خواتین منہ میں دوپٹے ٹھونسے اپنے قہقہے دبارہی تھیں۔
’’دیکھیںذرا باتیں سن رہی ہیں آپ اپنی بیٹی کی؟ اور ناراض آپ مجھ سے ہورہی تھیں‘‘۔شازمہ نے نگہت بھابھی کو مسکراتی نظروں سے دیکھا تو ان کے بھی خفا چہرے پر ہنسی بکھرتی چلی گئی۔ اور ہنستے ہنستے جب انھوں نے اپنی بیٹی کو پاؤں بھاری کا مطلب بتایا تو ہانیہ کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔منال کا چہرہ بھی شرم سے سرخ ہوگیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ بھینچے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ سب کی مشترکہ ہنسی نے ان کا دور تک پیچھا کیا۔ سارے کزنز نے مل کے رت جگا رکھا تھا۔جس میں سب نے اصولاً علی کو چھیڑنا تھا کیونکہ وہ دولہا تھا پر منال کی مہربانی کی وجہ سے سب ہانیہ کی عقلمندی سے واقف ہوچکے تھے اور گاہے بگاہے ہانیہ اور حماد پہ جملے کس رہے تھے۔ منال اور عماد پیش پیش تھے۔ وہ دونوں بےچارے ہلکا گلابی چہرہ لیے جھینپتے رہے۔
(باقی آئندہ)