This Content Is Only For Subscribers
شادی سے پہلے جان پہچان تو دور کی بات نام کا بھی علم نہ تھا ۔ روائتی کہانیوں اور فلموں ڈراموں والا سین ہؤا ۔ابا کو ہارٹ اٹیک ہؤا، کارڈیالوجی سنٹر لے جاتے ہوے اماں کو شوہر کی زندگی ختم ہونے کی کم اور اکلوتے بیٹے کی شادی نہ ہونے کی ٹینشن زیادہ تھی۔
اور ہوتی بھی کیوں نہ…..اٹھارویں گریڈ کا سرکاری افسر،بنگلہ، گاڑی بمع ڈرائیور، نوکر چاکروں کی فوج ۔نہیں تھی تو بیوی …..جس کی تلاش میں دونوں بہنوں اور ماں نے جوتے گھسالیے۔ اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونے والے ضرورت رشتہ کے اشتہار کے نیچے دیے گئے نمبروں پر رابطے کے بعد دیکھنے جاتیں۔رشتہ کروانے والیوں کی مٹھی بھی گرم رکھتیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات،کسی بھی رشتے پر فریقین میں اتفاق نہ ہوسکا۔
بالآخر ابا کو پڑنے والا دل کا دورہ ہی کام آیا۔ حسن اتفاق سے ایک دن قبل ان کی چھوٹی بیٹی نے اپنی نند کی دیورانی کی چھوٹی بہن کا ذکر کیا تھا جو فلموں کی ہیروئن والا حسن بھی رکھتی تھی، زمانے کے ساتھ چلتے ہوے میڈیکل یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور اس کے ساتھ فارغ وقت میں بیکنگ ہی سے نہیں کڑھائی سلائی کے علاوہ اون سلائیوں سے بھی شغف رکھتی تھی۔باپ فوج میں بریگیڈیر اور ماں مقامی کالج میں پروفیسر تھیں۔یعنی رشتہ ہر لحاظ سے قابل قبول نہیں قابل رشک بھی تھا۔
خیر معظم بیگ کو دل کی تکلیف سے شفا نصیب ہوئی اور فرزند ارجمند عظیم بیگ کے لیے رشتہ کی بات بھی فائنل ہو گئی ۔باپ کے جڑے ہوئے ہاتھ اماں کی آنکھوں سے بہتے جھرنے اور بہنوں کی حسرت بھری نگاہوں نے جادو دکھایا اور عظیم بیگ نے لڑکی کو دیکھے بنا ہی اقرار کردیا۔منگنی ہوئی نہ بر دکھوّا۔بس سیدھے سبھاؤ لڑکے والے گئے نکاح کے لیے،قاضی کا بھی بندوبست ہوگیا اور گواہ بھی موجود ۔ابا یعنی معظم بیگ ہسپتال سے گھر آئے تو دلہن نور آفتاب پچاس تولے زیور حق مہر کے عوض قدم رنجہ فرما چکی تھیں۔اور قدم بھی مبارک ثابت ہوئے ۔عظیم بیگ کو پروموشن ملی، نور آفتاب کا اپنا فائنل رزلٹ تین گولڈ میڈل کے شاندار اعلان کے ساتھ موصول ہؤا ۔فطرت کی وہ اچھی تھی تو عظیم بیگ بہت ہی اچھا …..ان دو اچھے لوگوں کی جوڑی نے سالوں یا مہینوں میں نہیں دنوں میں ثابت کردیا کہ وہ دونوں بنے ہی ایک دوسرے کے لیے تھے۔
اماں انہیں ہنستا دیکھ کے نہال ہوتیں۔نور آفتاب بہت جلد عظیم بیگ کی پسند میں ڈھل گئی۔عظیم بیگ کو مرچ مصالحہ والے کھانے پسند تھے اور نور آفتاب کو پھیکے سیٹھے۔کچھ ہی عرصے میں وہ بھول بھی گئی کہ وہ پھیکے کھانے کھایا کرتی تھی۔ناک رگڑتی ،سوں سوں کرتی،آنکھوں سے پانی بہتا مگر وہ تیز مصالحے والے کھانے ہی کھاتی۔شادی سے پہلے اس نے دوپٹے کو بس گلے کی حد تک رکھا تھا کہیں سر پر رکھنے کی نوبت آتی تو بہت جلد دوپٹہ ڈھلک کر گردن تک پہنچ جاتا۔ عظیم بیگ کو دوپٹے کے ہالے میں چھپے چہروں سے عشق تھا اور اس معاملے میں وہ اس حد تک دقیانوسی خیالات کا مالک تھا کہ اس کی بیوی پر اپنے نہ پرائے کسی کی بھی نظر نہیں پڑنی چاہیے ۔سونور آفتاب نے گھر میں بڑے دوپٹے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا کرنا شروع کر دیا اور گھر سے باہر جاتے ہوئے وہ پاؤں تک گھسٹتا عبایا پہننے لگی ۔بازار میں دم گھٹتا،پسینہ بہتا وہ لمبے لمبے سانس لیتی مگر بہت خوش تھی کہ اس کے شوہر کو اس کا ڈھکا رہنا ہی پسند ہے، اس لیے وہ گھر میں بھی پچھلی صدی کی گھونگھٹ نکالے رکھنے والی روح بن گئی۔
دنیا حیران تھی یا الٰہی،یہ کیا اسی صدی کی پڑھی لکھی بچی ہے !!
دن مہینےسال یہاں تک کہ دو سال حسین سنگت میں ایسے گزرے کہ تقدیر نے انعام میں انہیں اولاد کی نعمت سے مالامال کیا۔بچہ شکل وصورت میں ان دونوں سے بھی آگے تھا ۔نور آفتاب کے ڈیلیوری
کیس میں کچھ پیچیدگی ہوگئی تھی ۔وہ چوبیس گھنٹے تک آئی سی یو میں رہی،بچہ نانی دادی کی نگرانی میں رہا ۔نرسیں نور کو پل پل کی رپورٹ دے رہی تھیں۔خدا خدا کر کے دوسرے دن کے اختتام پر اسے ہوش آیا۔
عظیم بیگ کو گھر سے چلے دس منٹ ہو چکے تھے جب نرس نے بتایا کہ مسز بیگ اب ہوش میں ہیں۔خوشی سے نور کی والدہ نے داماد کو فون کیا۔ان دو دنوں میں وہ بس باؤلا ہی ہو گیا تھا ۔صدقے میں بکرا دیا ، سیلانی والوں کو دس دیگوں کے پیسے پکڑائے ۔یتیم خانے میں چیک بھیجا ۔ شیو کرنا تو دور کی بات شاید دو دن سے منہ بھی نہ دھویا تھا ۔دل کی ہر دھڑکن نور سے شروع ہو کر نور پر ہی ختم ہوتی۔
نور کی والدہ نے کال ملائی۔ ہیلو کی آواز کے بعدبس ایک پل کا دسواں حصہ تھا جب عروج زوال میں اور خوشی غمی میں بدل گئی۔مسرت اور خوشی سے حلق سے نکلنے والے قہقہوں کا گلا گھٹ گیا اور ننھی قلقاریاں ، نوحوں میں تبدیل ہو گئیں۔دھماکہ، شور، چیخیں اور کراہنے کی آواز ۔نور آفتاب کی والدہ ہیلو ہیلو کہہ رہی تھیں۔پریشانی اور تفکر سے سانس بند ہورہا تھا۔چند ہی لمحوں میں کسی انجان آواز میں خبر سنائی دی۔
’’ہیلو میڈم اس وقت گاڑی آغا خان سے دومنٹ کے فاصلے پر ہے اور گاڑی والا ایکسیڈنٹ میں اللہ کو پیارا ہوچکا ہے‘‘۔
بیٹے کی زندگی کی نوید باپ کی زندگی کے سورج کو غروب کر گئی ۔ ان ہونی ہوگئی تھی ۔کار ایک موٹر سائیکل سوار کو بچاتے بچاتے حادثے کا شکار ہو چکی تھی۔عظیم بیگ کے دل کی دھڑکن بظاہر بڑی چوٹ نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گئی تھی۔نور کی والدہ بے ہوش تھیں۔غم کا پہاڑ ان کے اوپر گر چکا تھا۔پانچ سات منٹ میں یہ خبر گھر کے افراد کو پتہ چل چکی تھی۔عظیم بیگ کی والدہ سینہ کوبی کرتے ہوئے گر گر جاتیں۔کوئی قیامت کا سماں تھا، ان کے نوحے دلوں کو چیر رہے تھے ۔عظیم بیگ ابھی تھا اور اب کچھ بھی نہیں۔
نو مولود نرسوں کے پاس تھا۔ پتہ نہیں نور آفتاب کو بھی کیسے اور کس نے خبر دی۔خبر دینا جتنا سنگین مرحلہ تھا اس سے کہیں بڑھ کر یہ فیصلہ کہ آیا نور کو اس حالت میں میت کے پاس بٹھایا جائے یا نہیں۔
دونوں گھرانوں کے مردوں نے یہی مناسب سمجھا کہ میت کو اٹھانے سے دس بارہ منٹ پہلے نور کو منہ دکھانے کے لیے لے آئیں تو بہتر ہوگا۔عظیم بیگ کا موبائل جس پر اس نے نور کے ہوش میں آنے کی خوش کن خبر سنی تھی، نرس کے ہاتھ نور کو بھجواتے ہوئے اس کا بھائی ہچکیوں سے رو رہا تھا۔
پھر عظیم بیگ کے اگلے سارے مرحلے طے ہوتے چلے گئے۔ اس کے جسم پر ،غسل دینے والوں نے دیکھا کہ نقطہ برابر بھی چوٹ یا زخم کا نشان تک نہیں، بس گردن کا منکا شدید جھٹکے سے ٹوٹ گیا تھا۔ زندگی کی ڈوری اس منکے سے ہی تو بندھی تھی۔
آہ!کتنی جلدی اپنے بچے کا خوبصورت سا نام سوچنے والا سفید کفن پہنے اگلی منزل کے لیے تیار بھی ہوگیا۔
ہر آنکھ نم تھی اور جس کی نم نہ تھی اس کا دل پھٹ رہا تھا۔
میت کو غسل دینے کے بعد جب وسیع لان میں رکھا گیا تو مرنے والے کی والدہ اس کے سرہانے تھی۔ نور آفتاب کواس کی بہنیں کسی مقدس صحیفے کی طرح دونوں بازوؤں سے تھامے سہج سہج میت کی طرف لا رہی تھیں ۔چپ ،کرب ،اذیت کا مجسمہ…..جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا وہ حقیقت میں واقع ہو چکا تھا ۔نور آفتاب ماں کے برابر والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی ۔اس کے دائیں ہاتھ پر لگی ڈرپ عارضی طور پر اتار دی گئی تھی۔نور کی بند آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ شدت کرب سے وہ آنکھیں کھولتی اور سر پٹختے ہوئے پھر بند کر لیتی۔
اس کا رنگ ہلدی کی طرح زرد اور جسم کانپ رہا تھا ۔میت کو لے جانے میں صرف دس منٹ تھے ۔اس کی نظروں میں دکھ کا سمندر تھا ۔ حسرت ہی حسرت ،بے یقینی…..دس منٹ بھی گزر گئے ۔لے جانے والے گھر میں داخل ہو چکے تھے۔ عظیم کے چچازاد بھائی،نور کے جوان کڑیل بھائی آگئے ۔عورتیں کیسے ضبط کرتیں جب مردوں نے آواز سے رونا شروع کر دیا۔عظیم بیگ ان سب کے دلوں کو غم کے تیشے سے لہو لہان کر گیا تھا۔
نور کی خالی نظروں میں سینکڑوں میل پھیلا صحرا تھا ۔
’’کلمہِ شہادت ‘‘نور کے شاید کسی بھائی کی آواز سنائی دی ۔اونچی آواز میں کلمہ پڑھتے ہوئےچارپائی اٹھا لی گئی تھی۔اٹھانے والوں کے قدموں کا رخ گھر کے بیرونی دروازے کی جانب تھا جب نور کا سکتہ ٹوٹا۔ سب اس کی طرف دیکھ رہی تھیں جب اس کے حلق سے چیخ نکلی۔
’’بھائی !‘‘اس نے لرزتی آواز میں بھائی کو روکا۔
’’ایک منٹ یار‘‘بھرائی ہوئی آواز میں بھائی نے دوسرے لوگوں کو رکنے کے لیے متوجہ کیا۔
چارپائی کو پھر سے نیچے رکھ دیا گیا ۔چونکہ نور آفتاب کا اٹھنا زیادہ مشکل تھا اس لیے چارپائی کو واپس نور کی جانب لایا گیا۔
دیکھنے والوں کے دل پگھل کر پانی ہو گئے ۔نور نے عظیم بیگ کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔اپنے لرزتے ہاتھوں سے کفن کی تہہ کھولی۔چند ہی لمحوں میں اس کے بیمار ہاتھوں میں عظیم بیگ کا ہاتھ تھا ۔ کچھ لمحے وہ ہاتھ اس کے کانپتے ہاتھوں میں رہا، پھر نور نے اپنی کرسی پر رکھا پاؤچ نکالا ۔ اس کی زپ کھولی۔سب نگاہیں اس کی طرف تھیں۔
کانپتے لرزتے ہاتھوں سے اس نے عظیم بیگ کا موبائل نکالا ، مرتعش انگلیوں سے عظیم بیگ کے موبائل فون کی سکرین پر عظیم بیگ کی بے جان انگلیاں پھیریں۔اس کا موبائل اس کے فنگر پرنٹس سے کھلتا تھا، سو فوری کھل گیا۔ موبائل کے پاس ورڈ کے طور پر اس کے فنگر پرنٹس لیے جا چکے تھے ۔عظیم بیگ کا ہاتھ لرزتے ہوئے روتے کرلاتے ہوئے اس نے پھر سے کفن کی تہوں میں چھپا دیا۔اس کا آفتاب غروب ہوچکا تھا ۔میت لے جائی جا چکی تھی۔
نور کی بہنیں قریب ہی تھیں ۔ان کا دکھ بھی کم نہیں تھا ان کے بھی آنسو بہہ رہے تھے اور سب کے دکھوں کی نوعیت اپنی جگہ برحق تھی۔دوبارہ کلمہ شہادت کی گونج میں عظیم بیگ کو ہمیشہ کے لیے لے جایا چکا تھا ۔
بھلا کسی کے جانے سے کاروبار زندگی رکتا ہے ؟
نہیں ناں !!
٭ ٭ ٭