’’امی امی کہاں ہیں آپ ؟امی بات سنیں‘‘ فروہ باہر سے بھاگتی ہوئی آئی۔ سانس بری طرح پھول رہا تھا اور بریکنگ نیوز پہنچانے کی خواہش میں قدم تیز ہی نہیں اندھا دھند دوڑی چلی آرہی تھی ۔ نویدہ آٹا گوندھ رہی تھی باورچی خانے سے ہی پکارا۔
’’کیا ہوا؟ کون سی اہم خبر مل گئی ہماری شہرو خبرو کو‘‘۔
’’امی امی ہماری گلی میں دو تین دن پہلے جو نئے لوگ آئے ہیں آپ کو پتہ ہے کون ہیں وہ ؟‘‘
’’اس کے لہجے میں حیرت سے بھی زیادہ ناقابل یقین والی کیفیت تھی‘‘ ۔
’’وہ جو آپ کو ڈرامہ بہت پسند تھا ناں موم کی گڑیا ۔ اس میں جو شہزادی شہر بانو بنی تھی۔ ‘‘وہ اور جو ان کے اصلی والے میاں ہیں وہ بھی ڈراموں میں کام کرتے ہیں بہت مشہور ہیں ۔ منصور ملک ۔ آج کل ٹوتھ پیسٹ کے اشتہار میں بھی آرہے ہیں ۔بہت خوبصورت ہیں وہ بھی ‘‘فروہ نے بات مکمل کر کے اپنی حیرانی ڈراموں کی شیدائی اپنی ماں نویدہ کو منتقل کردی ۔
’’ک….ککیا….؟‘‘۔اس کا منہ حیرت سے کھلا ….’’کیا مطلب‘‘ ماریہ ملک وہ جو ڈراموں میں کام کرتی ہیں اور ماڈل گرل بھی ہیں ، واقعی میں سچ کہہ رہی ہو تم ؟‘‘
نویدہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ آدھی خبریں اس کی سچ ہی ہوتی تھیں ۔
’’تو اور کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میں گلی میں کھیل رہی تھی تو ڈرامے والوں کی وین آئی تھی ۔اس میں اور بھی ڈرامے والے انکل بیٹھے ہوے تھے ‘‘۔ فروہ نے ماں کی بے یقینی کو یقین میں چلنا چاہا ۔
’’اس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں رہتے ہیں ۔پاگل لڑکی وہ کسی سے ملنے بھی تو آسکتی ہیں‘‘نویدہ نے بیٹی کی کھنچائی کی ۔
نہیں امی جان ان کی آیا گلی میں آئی تھی اس نے پرام میں بے بی کو لٹایا ہؤا تھا۔جب وہ ہماری مسجد کے سامنے سے گزری تو میں نے پوچھا تھا ۔اس نے بھی یہی کہا تھا کہ باجی اور منصور بھائی دونوں ہی ٹی وی آرٹسٹ ہیں ،،فروہ نے ماں کا منہ بند کیا
نویدہ ہکا بکا اس کا منہ دیکھ رہی تھی۔ بچپن سے شوق ہی ایک تھا ڈرامے دیکھنے کا….باپ امام مسجد تھا۔ گھر سے باہر جانے کی اور بچیوں کے ساتھ کدکڑے لگانے کی پابندی تھی ڈرامے بھی چھپ چھپا کے دیکھتی تھی ۔ اب میاں بھی امام مسجد بس فرق اتنا تھا کہ باپ گلی کی مسجد کا امام تھا اور یہ کینٹ کی مسجد کا پڑھالکھا سوٹڈ بوٹڈ امام ۔ صرف امام ہی نہیں مسجد کی کمیٹی کا صدر اور شعلہ بیان خطیب بھی ۔رکھ رکھاؤ اور زمانے کی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والا\۔یہاں ڈرامے دیکھنے کی ممانعت تو نہیں تھی ہاں شرائط کڑی عائد کر رکھی تھیں ۔صرف وہ ڈرامے دیکھے جائیں گے جن میں بچیوں کے لیے کوئی نہ کوئی تعمیری سوچ یا پیغام ہوگا ۔رات نو بجے کے بعد کوئی ڈرامہ نہیں دیکھا جا سکے گا وغیرہ۔ دن رات ڈراموں کی ہیروئین اور ہیرو کو ڈسکس کرنے اور دل میں بسانے والی نویدہ کو جب پتا چلا کہ ان کی گلی میں ٹی وی آرٹسٹ مقیم ہیں ۔اس پر عجیب سی کیفیت طاری تھی\۔کوئی ایسا طریقہ ایسا ٹوٹکا کہ وہ ماریہ ملک سے راہ و رسم بڑھا سکے ۔
وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے ان ادکارائوںکی جھلک دیکھنے کی تمنا تو ساری عمر کرتی آئی تھی۔وہ کیسے بولتی ہوں گی ، گھر میں ان کا طور طریقہ کیاہوگا۔کیا وہ عام زندگی میں بھی اتنی ہی پیاری ہوں گی جتنی چھوٹی سکرین پر یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب ڈھونڈنے کی اس نے اپنی اڑتیس سالہ زندگی میں بھر پور کوشش کی تھی۔ اب خدا اس پر مہربان ہورہا ہے اس کی آنکھیں کنچوں کی طرح چمک رہی تھیںاور چہرے پر مسکراہٹ۔ ان دیکھی دنیا میں وہ قدم رکھ سکتی تھی مگر کیسے؟
اگر وہ کالونی کے باقی لوگوں کی طرح امیر کبیر ہوتی تو راہ و رسم بڑھانے کے لیے ان کی طرف کھانا بنا کے لے جاتی اور اس کی نظریں عمر بھر کے سوالوں کا جواب حاصلِ کر لیتیں ۔
اگر….اگر….اگر….کیسے ماریہ سے ملاقات کا سبب پیدا ہو ؟ وہ فخریہ ،گردن اٹھا کے سب کو بتا سکے کہ وہ اتنی مشہور ڈرامہ آرٹسٹ سے مل چکی ہے \۔پھر اس کی بے قراری کو قرار آگیا ۔ڈراموں فلموں کی دنیا سے کوسوں دور ہونے والا اس کا میاں مجتبیٰ حسین کھانے کے لیے گھر آیا۔نویدہ نے سرسری سے لہجہ میں پوچھا ۔
’’یہ بچے پتا نہیں کیا بکواس کر رہے تھے کہ ہماری گلی میں فلم سٹار اور ڈرامہ آرٹسٹ کی فیملی آئی ہے ‘‘۔
روٹی کانوالہ توڑتے ہوے مجتبیٰ حسین نے بیوی پر نظر ڈالی اور کہا ۔
’’ہاں کرنل ملک صاحب کا بیٹا اور بہو ہیں ڈراموں کے علاوہ فلموں میں کام کرتے ہیں ۔ ملک صاحب تو پانچوں نمازیں مسجد میں باجماعت ہی پڑھتے ہیں\لیکن بیٹے نے دو چار نمازیں ہی مساجد میں ادا کی ہیں ۔کہہ رہے تھے ملک صاحب مجھے کہ دعا کروں اللہ میرے بیٹے کو بھی نمازی بنادے ‘‘۔
نویدہ کا دل بلیوں اچھل رہا تھا\۔آرٹسٹ فیملی کے سربراہ نے اس کے میاں سے بات کی\۔رابطہ کیا ۔دعا کا کہا۔اس وقت وہ بادلوں میں اڑ رہی تھی۔ آنکھیں چھلکنے کو بے تاب۔کب وہ گھڑی آتی کہ اس کی قسمت یاوری کرے وہ اس گھرانے کے افراد کی نظروں میں آئے اس کے مقدر کا ستارہ چمکے ٹی وی ٹی والوں کی باتیں۔شوٹنگ اور شوٹنگ کے دوران کی آف دی ریکارڈ باتیں۔اللہ ….اللہ ۔کیسے پتاچلے گا ۔
اف بندہ اتنا بھی سادہ نہ ہو۔ جنہیں یہ سادہ لوھی میں آرٹسٹ کہہ رہے ہیں ارے ان کو کیا معلوم یہ کتنی بڑی سلیبرٹی ہیں۔ اللہ تو قادر مطلق ہے ۔مسبب الاسباب ہے۔ کن کہے بغیر۔رنے والے نے اس کی حسرت پوری کردی ۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی ڈسپوزیبل پیکنگ لیے داخل ہوئی۔
’’آپ مجتبیٰ صاحب کی بیگم ہیں ناں ؟‘‘ داخل ہونے والی نے پوچھا ۔
اندر کمرے میں بیٹھی نویدہ کے کان کھڑے ہوئے۔آواز بھی اجنبی اور لب و لہجہ بھی ۔وہ تیزی سے باہر آئی ۔
’’جی میں ہی ہوں مسز مجتبیٰ ۔آپ کون ؟ ‘‘
میں میڈ ہوں کرنل ملک صاحب کی الیون پی میں نئے آئے ہیں ۔ یہ انہوں نے بریانی کی دیگ بنوائی تھی \۔اور ماریہ باجی نے آپ کا سیل فون نمبر بھی مانگا ہے اگر آپ استعمال کرتی ہیں تو۔ ’’آپ کے پاس موبائل فون ہے ناں ؟‘‘ اس نے سر سے پاؤں تک نویدہ کا معائنہ کرتے ہوئے کہا ۔
’’میں ….میرا نمبر ۔ کس نے مانگا ؟ ‘‘نویدہ شدید بے یقینی میں بولی۔
میڈ نے حیرت سے کہا ’’آپ کو ماریہ باجی کا نہیں پتا ۔کمال ہے ۔ ماریہ باجی اور منصور بھائی کو کون نہیں جانتا؟ابھی پچھلے مہینے ہی تو دونوں کی ڈرامہ سیریز ختم ہوئی ہے موم کی گڑیا ‘‘۔
’’اوہ ….اچھا…. بس میرے ذہن میں الیون پی سے ان کا خیال نہیں آیا ‘‘۔
’’انہوں نے میرا نمبر کیوںمانگا ہے ‘‘۔ وہ تیزی سے کاغذ پر نمبر گھسیٹتے ہوے بولی ۔
’’پتا نہیں جی ۔اچھا جی اللہ حافظ‘‘ ۔میڈ واپس چلی گئی ۔بچے بریانی پر ٹوٹ پڑے ان کے لیے بریانی کی لذت اور نویدہ کو فون پر بات کی خوشخبری مزہ بڑھتا گیا ۔ اس کے کان ہی نہیں پورا جسم بلکہ وہ خود مجسمہ سماعت بن گئی تھی ۔فون بچوں سے چھین کر اس نے ہاتھ میں لیا ہوا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز سےتیز تر ہوتی جارہی تھی کہ نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔
خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوے اس نے’’ہیلو ‘‘کہا ۔
’’السلام علیکم ورحمتہ اللہ‘‘۔دوسری طرف سے سریلی گھنٹی کی مانند آواز سنائی دی۔
’’میں ماریہ ملک بات کر رہی ہوں۔آپ مجتبیٰ حسین صاحب کی وائف ہیں ناں ‘‘۔
’’جی ۔جی میں نویدہ بات کر رہی ہوں۔ آپ کیسی ہیں‘‘بڑی مشکل سے وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔
’’الحمدللہ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔کائینڈلی مجھے تھوڑا سا ٹائم دے سکتی ہیں آپ ؟‘‘نرم،نرم سی ریشمی آواز نویدہ کے کانوں سے لپٹی ۔
’’جی ضرورآپ بتائیے کیا کہنا ہے‘‘نویدہ بہت اہم ہو گئی تھی ۔
’’اصل میں میرا دل بیٹی کو قاری صاحب سے قرآن پڑھانے پر نہیں مانتا….میں یہ چاہتی ہوں کہ بچیاں خواتین سے پڑھیں اور بچے قاری صاحب سے۔تو میں چاہ رہی تھی کہ میری بیٹی ساڑھے تین سال کی ہے اور میرے دیور کی پانچ سال کی….اگر آپ ان کو پڑھا سکیں تو مجھے نہ صرف اطمینان ہوگا بلکہ دلی خوشی ہوگی۔ میرے سسر بھی آپ کے میاں کی بہت تعریف کرتے ہیں آپ بھی یقیناً بہت اچھی ہوں گی ‘‘۔
’’ کیوں نہیں جب چاہیں آپ بھیج سکتی ہیں‘‘ نویدہ بولی۔
’’ہائے نہیں پہلے کچھ کمٹمنٹ ہوگی‘‘ ۔تاکہ آپ کو بھی یاد رہے اور مجھے بھی ….ایک تو یہ کہ یہ گرمی ہو یا سردی سہ پہر چار سے پانچ بجے تک پڑھیں گی ۔ صرف ناظرہ نہیں آپ ان کو جو پڑھائیں گی اس کا مطلب بھی بچوں کی زبان میں سمجھائیں گی تاکہ یہ رٹو طوطے کی طرح قرآن مجید کی تلاوت کر کے فارغ نہ ہوں بلکہ ان کو اس میں موجود باتوں کا بھی پتاچلے۔دوسرا ان دونوں کا ہر مہینے میں ایک دن ٹیسٹ کے لیے مخصوص ہوگا۔آپ ان کا رزلٹ کمپائل کرتی جائیں گی میں بھی ان کو چیک کرتی رہوں گی ان شاءاللہ۔تیسرا یہ کہ یہ چھٹی بس جمعہ اور اتوار کی کریں گی ہاں آپ نے کہیں جانا ہو یا مصروفیت کی وجہ سے نہ پڑھا سکیں تو آپ پہلے سے انفارم ضرور کیا کریں ۔
آخری بات یہ کہ آپ میرے بچوں کو اتنا ٹائم دیں گی تو اصولی طور پر مجھے کچھ طے کرنا چاہیے مگر یہ سوچ کر کہ یہ کائنات کا سب سے مقدس کام ہے۔میں اس کے بدلے میں کچھ نہیں دے سکتی اصل معاوضہ تو اللہ کی ذات ہی دے سکتی ہے ‘‘۔نویدہ کو ماریہ ملک کی آواز میں کچھ ارتعاش سا محسوس ہؤا ۔بہت دل سے شکریہ ادا کرنے کے بعد فون کال تو کٹ گئی مگر نویدہ دیر تک گم سم موبائل فون ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہی ۔بچے بھی پرجوش تھے مگر نویدہ کے شوق کا تو عالم ہی کچھ اور تھا۔
اگلے دن سے بچیاں آنا شروع ہوگئیں۔جیسے امیر لوگوں کی بچیاں ہوتی ہیں ویسی ہی تھیں۔ اچھے خوبصورت فراک پہنے ہوئے۔ سفید منے سے حجاب سے سر ڈھکا ہؤا۔ دھیمے انداز میں بات کرنے والیاں۔ پہلے دو چار ہفتے اس نے حد درجہ محتاط ہو کے پڑھایا۔ ادھر ادھر کی کوئی آلتو فالتو بات سے پرہیز ہی کیا۔ بچیاں بھی کچھ سلجھی سلجھائی تھیں مجال ہے کبھی ایک لفظ زائد بولا ہو ۔آہستہ آہستہ ہلکی پھلکی بے ضرر سی باتیں معلوم ہوئیں ۔
گھر میں سسر کا یعنی کرنل ملک صاحب کا پورا کنٹرول ہے۔ رات کے کھانے میں سب کا اکٹھے ہونا ضروری ہے ۔ماما کی شوٹنگ میں بابا ساتھ جاتے ہیں ۔فجر کی نماز سب لازمی پڑھتے ہیں ورنہ دادا کی ڈانٹ پڑتی ہے ۔گھر میں دو چاچو بھی رہتے ہیں۔ ایک کی ابھی شادی نہیں ہوئی دوسرے چاچو اور چچی دونوں ڈاکٹر ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ۔
نویدہ کے لیے اتنی بھی معلومات دل کی ٹھنڈک کا باعث بن گئیں۔مہینہ مکمل ہؤا ۔وہ بغدادی قاعدہ مکمل کرنے کے علاوہ چار پانچ چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کرچکی تھیں ۔
نویدہ کی جان ماری سے ان کا ٹیسٹ بہت اچھا ہؤا ۔شام میں میڈ کے ہاتھ مشہور بیکری کے بسکٹ ،نگٹس اور چپلی کباب کے بڑے بڑے پیک آگئے۔
چند دنوں کے بعد ماریہ ملک کا فون آیا وہ شوٹنگ پر سنگا پور جارہی تھیں تو ذرا زیادہ توجہ دینے کی تلقین کے ساتھ ایک درخواست بھی تھی کہ نویدہ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ ضرور بتائے پردیس سے اس کے لیے خریداری کرکے ماریہ کو بہت خوشی ہوگی۔
نویدہ نے قطعیت سے انکار کردیا ۔نہیں بالکل بھی نہیں ۔ وہ بار بار اصرار کرتی رہیں اور نویدہ انکار کرتی رہی بالآخر ماریہ چپ ہو گئی’’ چلیں میں جو مناسب سمجھوں گی خود ہی لے آؤں گی بس آپ دعا کریں یہ کام ہے تو ہمارا شوق مگر پردیس کی شوٹنگز مجھے بالکل پسند نہیں ۔اللہ میرے لیے آسانیاں پیدا کرے‘‘۔
’’دعا تو میں آپ کے لیے روزانہ کرتی ہوں لیکن پلیز کچھ لانے کو رہنے دیں ‘‘۔کیسے منہ پھاڑ کے بتا دیتی کہ کھانے پینے کی چیزوں کی حد تک تو میاں کو یہ کہہ کے چپ کروادیتی ہوں کہ یہ کرنل صاحب کی کمائی سے ہیں ۔شو بز اور ڈراموں کی کمائی تو ویسے ہی مجتبیٰ حسین کو حرام کا سب سے اوپر والا درجہ لگتی ہے وہ کیسے تحائف رکھے گی اور کیسے واپس کرے گی ۔ رکھتی ہے تو میاں کا رعب ڈرا نہ رکھے تو اتنے خلوص سے دیے تحائف واپس کرنے سے ماریہ کا دل خراب ہوگا ۔اگلے دن بچیوں نے بتایا کہ ماما اور بابا دونوں گئے ہیں اور پندرہ دن سے زیادہ کی شوٹنگ ہے ۔ اس سے زیادہ بچیوں کو بھی علم نہیں تھا۔ نویدہ حسبِ سابق بہت محنت اور محبت سے پڑھاتی رہی ۔عیدپر ماریہ کی میڈ سب گھر والوں کے کپڑے اور ڈھیر سارا بکرے کا گوشت دے گئی ۔
نویدہ لیتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہو رہی تھی ۔
’’ماریہ تو ملک سے باہر ہیں کپڑے کس نے دیے ہیں‘‘ ۔اسے لگا شائد کرنل صاحب یا ماریہ کی دیورانی نے بھیجے ہیں۔
ماریہ باجی جاتے ہوے یہ ماما جی کو پکڑا گئی تھی۔اور گوشت تو ظاہر ہے کہ کرنل صاحب نے ہی بھیجا ہے ،میڈ یہ بتانے کے بعد واپس چلی گئی ۔ مجتبیٰ حسین اپنے گاؤںگئے ہوئے تھے۔ خوب تسلی سے نویدہ نے کپڑوں کو کھول کر دیکھا ۔بہت ہی شاندار اور مہنگے سوٹ تھے ۔سب کے ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔
پہلےتواس نے سوچا کپڑےواپس بھیج دے۔ پھر سوچا کہ کون سا ماریہ یہاں ہے جب آئے گی تو خود ہی واپس کردوں گی ۔اور فی الحال اس موضوع کو بچوں کے سامنے ممنوعہ قرار دے کر مطمئن ہو گئی۔
عید سے دسویں دن ماریہ اس کی طرف آئی ۔چاکلیٹ،بچوں کی جیکٹس ،کھلونے ،ہینڈ بیگ اور جانے کیا کیا ۔نویدہ پہلی مرتبہ اسے یوں آمنے سامنے دیکھ رہی تھی ۔ماریہ اپنی شکل و صورت میں ایسے بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ بچوں جیسی نرم ملائم جلد اور چہرہ پر حدرجہ معصومیت ۔ خاطر تواضع سے اس نے آتے ہی منع کردیا کہ میں ڈائیٹنگ پلان پر عمل کر رہی ہوں پلیز بس سادہ چاے کا کپ بغیر شوگر کے لوں گی مگر گھنٹے بعد۔اس نے بغیر کہے ٹانگیں سیدھی کیں۔ ’’میں کبھی شوٹنگ پر باہر جاؤں بھی تو کوشش ہوتی ہے بچوں سے دن میں دو ایک مرتبہ ضرور رابطہ رکھوں اس مرتبہ مجھے خوشی تھی ماشاءاللہ بچیاں ریگولر آتی رہیں آپ کے پاس۔ اچھی پروگریس ہے۔ وہ سارا کچھ بتا دیتی ہیں ناں‘‘۔ادھر ادھر کی باتیں کچھ گھر والوں کی باتیں مگر بھولے سے بھی اس نے ایکٹنگ یا اس سے متعلقہ کسی بات کا ذکر نہیں کیا ۔
گھنٹہ بھر کی دلچسپ گفتگو میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ماریہ چاے کا سادہ کپ پی کر چلی گئی۔ مگر جاتے ہوئے نویدہ کی ہزار منت سماجت کے باوجود تحائف واپس نہیں لے کے گئی آخری حربے کے طور پر اس نے اپنے مولوی میاں کا ڈراوا دیا ’’وہ پسند نہیں کرتے ناں ‘‘۔
ماریہ نے یہ بھی بات چٹکیوں میں اڑادی ۔
’’بھائی جان سے کہیے ہم ان کے ہمسائے ہیں اور وہ ہمارے استاد ۔تحفے تحائف سے تو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی منع نہیں کیا تھا‘‘۔
نویدہ بس چپ ہوگئی مزید کیا کہتی۔ نویدہ نے میاں سے تحفے تحائف کی بات گول کی اور از خود تین سالہ بیٹی کے لیے باربی ڈول کچھ فراکس اور کیک ،بکے خرید کے بھیجنے کا پروگرام بنایا ۔اتفاق سے دو دن کے بعد بسنت کی خوشی میں انہوں نے اپنے گھر میں گرینڈ پارٹی رکھی۔ محلے کے ہر گھر سے ایک ایک فرد کو بلایا گیا مگر نویدہ کا گھر توجہ سے محروم ہی رہا ۔
لان ان کی وسیع و عریض کوٹھی کے پچھلی جانب تھا جہاں پر خوب ہلا گلا ہؤا۔ باربی کیو ہوا، گانے بجانے کی آواز بھی آتی رہی۔ چھت پر اونچی آواز میں ڈیک بجتا رہا بوکاٹا کے نعرے لگتے رہے رات تین بجے تک جب ستارے روشنی کی لو دے دے کر تھک گئے تھے ہنگامہ جاری رہا ۔
مجتبیٰ حسین کروٹیں بدلتا توبہ استغفار میں مصروف رہا اور نویدہ نہ بلائے جانے کے دکھ میں کلستی رہی ۔
’’کون سا چلے ہی جانا تھا ہم نے ‘‘ہنکارا بھر کر اس نے سوچا ۔
کچھ عرصہ بعد اتفاق سے دونوں میاں بیوی کو بہترین اداکاری پر ایک تنظیم نے نامزد کیا اور ماریہ بہترین اداکارہ کا ایوارڈ لے اڑی۔ سارے محلے والے مدعو تھے مگر حسب سابق انہیں صلح تک نہ ماری گئی ۔
نویدہ کا دل کھٹا ہوگیا۔ کتنا شوق ہے جانے کا مگر کیا استاد ہونے کے ناطے بھی نہیں بلا سکتی تھی ۔
مگر نویدہ یہ سب کہتی کس سے ۔بچے اس راز ونیاز کے قابل نہیں ہوئے تھے اور میاں رازدار بننا ہی نہ چاہتا تھا ۔آخری کیل تابوت میں ماریہ کے بیٹے کی سالگرہ نے ٹھونکی جب گلی کے سب لوگ مدعو تھے ۔ سالگرہ کے دعوت نامے بانٹے گئے ۔خوب موج میلا ہؤا ڈم ڈم ڈی ڈی ڈم ڈم گایا جاتا رہا اور سالگرہ گزر گئی ۔
شروع میں دل کا بہلاوہ تھا کہ بھول گئی ہوگی ۔اب تو پے درپے تین فنکشنز ہوئے بھولنے کا تو امکان ہی نہیں تھا ۔
سالگرہ کے دوچار دن کے بعدوہ خود ہی بچیوں کے دوسرے پارے کی تکمیل کی خوشی میں کیک ،بکے اور فراکس کے علاؤہ باربی ڈول لے کر پہنچ گئی ۔بہت ہی مہنگی گڑیا تھی۔ کبھی آنکھیں بند کرکے ناچتی اور کبھی آنکھیں کھول کے گاتی۔
ماریہ کے علاوہ بھی سارے ہی بہت خوشی سے ملے۔ باتوں ہی باتوں میں اس نے طریقے سے جتلادیا ۔میں نے تو یہ سب کچھ اس دن کا منگوایا ہوا تھا مگر شاید آپ بھول گئیں۔نویدہ نے بات بیچ میں چھوڑ دی ماریہ چلائی۔
’’بھول گئےہم؟ نہیں نہیں بالکل نہیں بھولے۔ جو ہمارے مردوں کو پانچ وقت بلا ناغہ اللہ کے در پر بلائے، نماز پڑھائے، جو ہمارے بچوں کے سینوں میں اللہ کا کلام محفوظ کرے اسے کون بھول سکتا ہے۔نیور نیور‘‘ اس نے سر جھٹکا’’ یہ تو…. یہ تو …. آپ شاید نہ بلانے پر خفا ہیں ۔مجھے اریبہ میری دیورانی نے کہا تھا بلا نے کا مگر مجھے اچھا نہیں لگا جہاں ناچ گانا ہو ۔جہاں ہلا گلا ہو، بے پردگی ہو، شور شرابہ ہو یا سالگرہ جیسا بے تکا اور دین سے دور تہوار ہو اس میں آپ کو کیسے بلا سکتی ہوں؟ یہ تو ہم جیسے گناہگاروں کے شغل میلے ہیں ۔پتا نہیں اوپر والی ذات بخشے گی بھی یا نہیں ۔آپ تو قرآن والے ہیں آپ کا ان بے ہودہ فنکشنز یا سالگرہ جیسے غیر اسلامی تہواروں سے کیا واسطہ ۔میں آپ کو دعوت دے دیتی، آپ مروت میں یا سنت سمجھ کے قبول کر لیتیں تو میں آپ کو بھی گناہگاروں میں شامل کر لیتی ۔ایسے نہیں ہوسکتا ‘‘۔
ماریہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر رو رہی تھی اور نویدہ شرمساری سے بس یہی سوچ رہی تھی کہ وہ تو خود بچوں کی سالگرہ کی دعوت دینے والی تھی ۔
’’ماریہ نے پاس پڑے ٹشو سے آنسو پونچھے اور بولی ’’جب میری بچیوں کو اللہ نے قرآن مجید پڑھنے کی سعادت دےدی تو آپ ہی مہمان خصوصی ہوں گی۔آپ کا مقام اللہ والوں کا مقام ہے میں ان شاءاللہ اتنا گرینڈ فنکشن ارینج کروں گی سب اسے مدتوں یاد رکھیں گے دنیاداری کے دھندے تو آپ جیسوں کے لیے نہیں ہوتے ناں ؟‘‘
وہ معصومیت سے پوچھ رہی تھی۔ نویدہ کیا جواب دیتی وہ تو خود لاجواب ہوگئی تھی۔
٭ ٭ ٭
1