This Content Is Only For Subscribers
رشتوں کی نازک ڈور سے بندھی ایک کہانی
’’فیصلے تو سارے اوپر ہوتے ہیں ہم نے تو ان کو دیکھنا، برداشت کرنا اور ان کے اثرات کے ساتھ ساتھ اپنے رویے اور مزاج کو تبدیل کرنا ہوتا ہے‘‘۔ خاکوانی نے انور کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’بڑے ابا اگر فیصلے اوپر ہوتے ہیں تو پھر ہم ایک دوسرے کو الزام کیوں دیتے ہیں۔ ملنا اور بولنا چھوڑ دیتے ہیں۔ رشتوں کی ڈور کو کاٹ دیتے ہیں‘‘۔ انور نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹاتے ہوئے کرسی بڑے ابا کی طرف موڑتے ہوئے پوچھا۔
’’اس لیے کہ ہم اس سپر پاور کی معرفت نہیں رکھتے، پہچان ہی نہیں ہے کہ اس کا فرمان ہر چیز پر چلتا ہے ۔ اسے جانا ہوتا، اس کی کتاب میں غور و فکر کیا ہوتا تو ہمارا رویہ مختلف ہوتا‘‘۔
’’میرا خیال ہے بڑے ابا آپ کا بیٹا بلا رہا ہے تو آپ ناروے چلے ہی جائیں ان کا فرض ہے کہ آپ کی خدمت کریں۔ اور آپ کا بھی دل چاہتا ہو گا‘‘۔
’’تم اچھی طرح جانتے ہو میں سلمیٰ ‘اس کے بچوں اور تمھیں کیسے چھوڑ کر جا سکتا ہوں‘‘۔ انھوں نے بڑے پیار سے سمجھایا۔
’’ساری زندگی کوئی کسی کے لیے انتظار تو نہیں کر سکتا‘‘۔
’’خاندان کا مطلب کیا ہے؟ خوشی ہو یا غم۔ مشکل ہو یا مصیبت ایک دوسرے کا بازو بن جانا، سایہ کرنا، ساتھ دینا تاکہ ہماری آزمائش آسان ہو جائے۔ سلمیٰ میری بھانجی ہے یہ بیوہ ہو گئی تو تین بچے لے کر میرے پاس آگئی۔ میں نے اس کا خیال رکھا۔ بھابی راضی نہ تھی کہ اس کو بچوں سمیت پناہ دے۔ مورکھ ہے نادان ہے اسے معلوم نہیں کہ یہ وقت تو کسی پر بھی آسکتا ہے کہ گاڑی چلتے چلتے پہیہ اتر جائے اور آپ دوسروں کے محتاج ہو جائیں۔ بس اسے اپنے پاس لے آیا۔ اب وہ بھی سکون میں ہے اور میرے گھر میں بھی رونق ہو گئی ہے‘‘۔
’’یہ تو آپ کا احسان اور ظرف ہے ورنہ کون کسی کو پوچھتا ہے‘‘۔
’’نہ میرے بچے یہ میرا فرض بلکہ قرض ہے جو مجھے اسی زندگی میں ادا کرنا ہے‘‘۔
انورکچھ حیران ہو کر بولا ’’فرض کی تو سمجھ آتی ہے ڈیوٹی، لیکن قرض کیسے ہو گیا‘‘۔
’’جن لوگوں نے ہمارا خیال رکھا۔ ہماری مشکل میں ساتھ دیا ۔ راستوں میں آسانیاں پیدا کیں جیسے ہم پانچ بھائی تھے۔ ابا جان جہاد میں شہید ہو گئے … دادا کے بھائی سر غلام نبی زندہ تھے ان کو برطانیہ حکومت نے سر کا خطاب دیا تھا۔ کافی امیر تھے ان کی اپنی جاگیر تھی۔ وہ ہم سب کو وہاں ساتھ لے گئے۔ ہمیں پڑھایا لکھایا۔ دو بھائی فوج میں چلے گئے۔ سب کا ایسے خیال رکھا جیسے ہم ان کی اپنی اولاد ہیں۔ سب کی شادیاں کیں ہماری ماں کے آگے کام کرنے والی خادمہ ہوتی تھی باہر کے کام کے لیے کئی ملازم تھے۔ ہم رشتے میں ان کے بھائی کے پوتے تھے ۔ دور کا رشتہ ہؤا نا۔ لیکن ہم ہی نہیں بہت بڑی حویلی تھی اسی طرح جس کو بھی ضرورت یا مجبوری تھی کام نہ ملا یا بیماری نے پکڑ لیا وہ دادا کے پاس آگیا۔ان کو اللہ پاک نے دولت کے ساتھ ساتھ ظرف، رواداری، درگزر اور فیصلہ کرنے کی قوت بھی عطا کی تھی۔ اب وہ تو چلے گئے لیکن جب تک ہم زندہ ہیں اُن کے عمل کا سلسلہ جاری رہے گا‘‘۔
’’کیا موت کے بعد عمل ختم نہیں ہو جاتا؟ جب بندہ ہی نہ رہا تو عمل کہاں اور کون لکھے گا‘‘۔ انور نے سوال کیا۔
’’ہم جب تک زندہ ہیں ان کے احسان کے مقروض ہیں جو نیکی بھلائی یا اچھائی انھوں نے ہمارے ساتھ کی ہم نے اگلی نسلوں تک اسے لے کر جانا ہے ۔ وہی دنیا ہے وہی لوگ ہیں ابھی کائنات کا انجام نہیں آیا۔ آزمائش چل رہی ہے۔ لہٰذا عمل بھی جاری ہے۔ اب جو نیکی یا فرض سمجھ کر
ہم کریں گے اس کے اجر کا ایک حصہ ان کے اعمالنامے میں جاتا رہے گا‘‘۔
’’واہ … بڑے ابا یہ تو بڑے راز کی بلکہ پتے کی بات بتائی ہے ہم مر گئے لیکن اکائونٹ زندہ ہے‘‘۔
’’بالکل جب تم پیسے بنک میں رکھتے ہو تو اس میں ترقی ہوتی رہتی ہے اور یہ اکائونٹ تو ڈائریکٹ اپنے خالق کے بنک میں ہے جو نہ بھولتا ہے نہ اس سے بے انصافی کا خیال بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔
’’پھر تو ہمیں ہر وقت اور ہر کسی کے ساتھ کوئی نہ کوئی بھلائی کرتے رہنا چاہیے‘‘۔
’’بالکل … درست سمجھے ہو۔ ایک مسکراہٹ، میٹھا بول اور ذرا سی ناگوار بات پر چشم پوشی بھی نیکی ہے ۔ اس پر کچھ خرچ نہیں آتا بس ذرا دل کو سمجھانا پڑتا ہے۔ خاموشی اور صبر کی عادت اس کام کو آسان کر دیتی ہے۔ ایسا کرو تم گرمیوں کی چھٹیوں میں ناروے اپنے ابا کے پاس چلے جائو‘‘۔
’’آپ کو اچھی طرح علم ہے کہ میں اس موضوع سے کتراتا ہوں جب سے امی اور ابا میں علیحدگی ہوئی ہے مجھے دونوں برے لگتے ہیں۔ ناروے جائوں تو وہاں ابا کی دوسری بیوی کے بچے ابا کے نورِ نظر ہوتے ہیں۔ میرے لیے اُن کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ذرا سا میرے کمرے میں آجائیں تو دونوں ریں ریں کرتے پیچھے پیچھے آجاتے ہیں۔ محترمہ کے مزاج بھی برہم ہو جاتے ہیں۔ میں نے تو آٹھویں کے امتحان کے بعد جو چھٹیاں ہوئی تھیں ان میںجا کر دیکھ لیا تھا اور توبہ کی تھی کہ پھر کبھی یہاں نہیںآئوں گا۔ سجا سجایا کمرہ ‘ساتھ باتھ روم، ڈبل بیڈ، ٹی وی اور کمپیوٹر محبت کا نعم البدل تو نہیں ہوتا۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ امریکہ امی کے پاس چلے جائو۔ وہاں ان کے شوہر نامدار ہر وقت ان کے سر پر سوار رہتے ہیں … اور مجھے تو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتے … آدھی رات کو امی اٹھ کر ان کے لیے سویاں بنا رہی ہوتی ہیں۔ امی ان کے اتنے لاڈ اٹھاتی ہیں کہ بس کیا بتائوں‘‘۔ غصے سے انور کا چہرہ سرخ ہو گیا اور بے بسی سے اس کے آنسو نکل آئے۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو ‘‘۔ خاکوانی نے اٹھ کر اسے گلے لگایا تو وہ سسک سسک کر رونے لگا۔ انھوں نے اسے رونے دیا۔ نہ جانے کب سے یہ غبار اس کے اندر گھٹن پیدا کر رہا تھا۔
خاکوانی نے تسلی دیتے ہوئے کہا ؎
کھل کر جو برس جائے گھٹا نکھرے گا موسم
ہم دو ہیں تو مل جل کے اٹھا لیں گے سبھی غم
دنیا نے تو اس سے بڑے طوفان ہیں دیکھے
یہ بات الگ، تنہا کبھی آپ کبھی ہم
’’واہ بڑے ابا آپ کو موقع پر کیسے شعر یاد رہتے ہیں۔ مجھے تو آپ کے حافظے پر رشک آتا ہے‘‘۔
’’بس میرے چاند یہ اس کی عطا ہے ورنہ مسلسل کاوش اور جدوجہد حافظے کو بھی متاثر کرتی ہے‘‘۔
’’بس ان چھٹیوں میں آپ مجھے دیوان حالی اور فیض و اقبال کی شاعری پڑھائیں گے۔ میں کہیں نہیں جا رہا۔ اور پلیز آپ بھی یہ موضوع نہ چھیڑیں‘‘۔
’’بیٹا تمھاری امی تمھیں بہت یاد کرتی ہے ۔ روتی ہے تمھارے لیے…‘‘
’’اتنی ہی محبت ہے تو آ کر مل جائیں‘‘۔
’’میرے نور نظر عورت کا گھر جب ایک بار ٹوٹ جائے تو وہ ساری زندگی اندیشوں کا شکار رہتی ہے وہ یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہے۔ اس نے اپنا گھر بچانا ہے‘‘۔
’’تو ٹھیک ہے نہ آئیں میں نے کب بلایا ہے …‘‘ وہ ناراض ہو گیا۔
اتنے میں اذان کی آواز آئی۔ ’’چلو بیٹے ناصر اور یاسر کو بلائو۔ نماز کی تیاری کریں۔ باقی باتیں بعد میں ہوں گی‘‘۔ تینوں بچے خوش خوش بڑے ابا کے ساتھ نماز پڑھنے چلے گئے واپسی پہ سلمیٰ نے کہا۔ ’’کھانا تیار ہے ادھر ہی آجائیں۔ انور تمھاری امی کا امریکہ سے فون آیا تھا تم بات کر لینا وہ انتظار کر رہی ہوں گی مگر پہلے کھانا کھا لو۔ مجھے برتن سمیٹنے ہیں ناصر
اور یاسر کو ہوم ورک کرانا ہے‘‘۔
انور چپ رہا اس کا دل بوجھل تھا۔ لیکن کمرے میں جا کر اس نے وائبر(viber)سے کال کی یہ کال بالکل مفت تھی۔ عظمیٰ نے فوراً جواب دیا۔ ’’ہیلو بیٹے کیا حال ہے‘‘۔
’’ٹھیک ہوں امی جی …؟‘‘
’’کیا بات ہے تمھاری آواز فریش نہیں ہے کیا آج روئے ہو…‘‘
’’نہیں کچھ نہیں … میں ٹھیک ہوں‘‘۔
’’مگر بتائو نا کیا بڑے ابا نے ڈانٹا ہے۔ پلیز ۔ مجھے بتائو ورنہ میں آرہی ہوں میں تمھیں یہاں لے آئوں گی اور اچھے سے کالج میں داخلہ دلوائوں گی‘‘۔
’’مجھے نہیں آنا … آپ اپنا لاڈ پیار رہنے دیں۔ اپنی زندگی کی فکر کریں، خوش رہیں۔ میری بھی گزر ہی جائے گی‘‘۔
’’اچھا بتائو … کیا ہؤا ہے؟ سلمیٰ نے کچھ کہا ہے؟ میری جان ! مجھے رات بھر نیند نہیں آئے گی تمھیں میری قسم سچ بتائو کیا ہؤا ہے‘‘۔
’’امی اتنا کچھ ہو چکا ہے ابھی اور کیا ہونا باقی ہے۔ میرا باپ کہیں ہے اور ماں کہیں ہے۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر … کیا مجھے یاد نہیں آ سکتے … کیا آپ میری خاطر اکٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ اولاد ہونے کے بعد زندگی اپنی تونہیں رہتی۔ بچوں کے لیے بندہ زندہ رہتا ہے … سلمیٰ پھوپھو بھی تو بچوں کے لیے جی رہی ہیں … میرا بھی خیال رکھتی ہیں … جائیں آپ خوش رہیں اپنی دنیا میں۔ اپنے شومارکہ ہزبینڈ کو پلیز کریں، گھر بچائیں مجھے بھول جائیں اسے اپنی دولت کا بہت غرور ہے نا‘‘۔
’’ایسا نہیں ہے بیٹا وہ تمھیں بہت یاد کرتے ہیں‘‘۔
’’I hate him…میں بڑا ہو کر اس سے زیادہ دولت کمائوں گا اور پھر آپ کو اپنے پاس لے آئوں گا‘‘۔
’’تمھاری باتوں کا میں کیا جواب دوں کاش تم جان سکتے۔ میں تمھیں کتنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’امی جی چاہت قربانی مانگتی ہے، صبر مانگتی ہے زبانی دعوے تو ہر کوئی کر سکتا ہے‘‘۔
’’اچھا مجھے بتائو تم کیا چاہتے ہو ابھی بتائو میں اسی وقت ٹکٹ بک کراتی ہوں۔ بھاڑ میں جائے سب کچھ میری سٹڈی بھی ، میں پاکستان آ کر اپنے بیٹے کے پاس رہوں گی۔ اب خوش … خداحافظ‘‘
عظمیٰ انور سے بات کرنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی کہ اوپر سے اس کے شوہر وقاص آگئے۔ کیا ہؤا میری بیگم کو … ارے کچھ بتائو تو سہی … کیا پاکستان سے فون آیا تھا؟‘‘
’’نہیں میں نے کیا تھا‘‘۔
’’اف اللہ ! صاحبزادے نے پھر کوئی نئی گل افشانی کی ہو گی۔ اب وہ کیا چاہتا ہے ہمیں سکون سے جینے دے گا یا نہیں۔ اسے کچھ پیسے بھجوا دو‘‘۔
’’اسے پیسوں کی ضرورت نہیں ماں کی محبت کی ضرورت ہے‘‘۔ وہ دھاڑی ۔
’’تو مجھے بھی اپنی بیگم کی ضرورت ہے‘‘۔ وہ بڑے دلار سے بولا۔
’’میں نے شادی کرکے سخت غلطی کی ہے۔ اب مجھے احساس ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے بچے کو کھو دیا ہے‘‘۔ وہ روتی جا رہی تھی اور کف افسوس مل رہی تھی۔
’’اب میں تمھیں کیسے تسلی دوں۔ اسے یہاں بلا لو ۔ تمھاری نظروں کے سامنے ہو گا تو دل کو تسلی رہے گی‘‘۔
’’نہیں بس میں پاکستان جا رہی ہوں میری سیٹ بک کرا دیں‘‘۔
’’بہت اچھا میں ابھی اپنے ایجنٹ کو فون کرتا ہوں۔ پلیز رونا بند کرو میں چائے بنا لائوں؟‘‘
’’نہیں پہلے ٹکٹ بک کرائیں میں جلد از جلد جانا چاہتی ہوں‘‘۔
’’اچھا اچھا تم پیکنگ شروع کرو سیٹ بھی مل جائے گی‘‘۔
وقاص نے لائونج میں جا کر فون ملایا۔ ایجنٹ سرکار خان نے کہا کہ مجھے کچھ وقت دیں میں بتاتا ہوں۔ پھر وہ کچن میں گئے چائے بنائی ساتھ شامی کباب تل کر رکھے پانی کا گلاس رکھا اور ٹرے اٹھا کر لائے۔ ’’میری ڈارلنگ عظمیٰ چائے حاضر ہے‘‘۔
’’مجھے یہ مسخرہ پن اس وقت زہر لگ رہا ہے۔ یہ ایکٹنگ میرے سامنے نہ کریں۔ اصل زندگی تلخ اور زہرناک ہوتی ہے‘‘۔
’’لیکن اسے شیریں بنایا جا سکتا ہے میں تو تمھیں خوش کرنے کے لیے یہ ناٹک کر رہا تھا۔ مگر تم تو کریزی ہو رہی ہو۔ لو چائے پیو‘‘۔
’’نہیں … پینی مجھے اسے ڈسٹ بن میں پھینکیں میں بڑے ابا سے بات کرتی ہوں‘‘۔
’’ابھی نہ کرو‘‘۔ اس نے ہاتھ سے وائبر لے لیا۔ ’’تھوڑا غصہ کم ہو جائے تو پھر کرنا‘‘۔
’’رات زیادہ ہو جائے گی وہ سو جائیں گے۔ بوڑھے بندے ہیں مجھے فون دیں ‘‘۔ اس نے چیخ کر کہا۔
’’یہ لو … جو مرضی کرو۔ غصہ آتا ہے تو پھر پاگل ہو جاتی ہو‘‘۔
’’تمھاری اولاد ہوتی … اس طرح جدا ہو جاتی اور تمھیں ایسے جلی کٹی سناتی تو تمھیں پھر بھی میرے دکھ کا اندازنہ ہو سکتا۔ کیونکہ تم ’’ماں‘‘ نہیں ہو۔ ماں کس طرح بچے کو پیٹ میں رکھتی ہے۔ اسے جنم دیتی ہے اور کن کن مشکل مراحل سے اسے پالتی ہے اور تم مرد اپنے نام کا ٹھپہ لگا کر اولاد کو ماں سے چھین لیتے ہو۔ ظالم، بے حس، بے مروت ، بے انصاف، اولاد پر جتنا حق ماں کا ہے اتنا باپ کا نہیں ہے‘‘۔
’’اچھا بولتی رہو … میں نے تو چاہا تھا کہ تمھاری زندگی میں کوئی بہار آجائے تمھارے دکھوں کا مداوا کروں۔ اس ظالم شخص نے جو کچھ تمھارے ساتھ کیا اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اس کی بازگشت تمھیں پریشان بے چین اور اپ سیٹ رکھتی ہے۔ وچھڑی کونج کی طرح کرلاتی ہو۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کبھی سوچتا ہوں میں نے شادی کرکے غلطی کی ہے تم انور کو کسی طرح رضامند کرکے ساتھ یہاں لے آئو‘‘۔
’’جائیں جائیں مجھے مسکہ نہ لگائیں۔ جب وہ یہاں آیا تھا تو آپ کا رویہ مشفقانہ اور پدرانہ ہوتا تو وہ یہاں رہ جاتا۔ وہ اتنا ہرٹ ہؤا کہ چلا گیا‘‘۔
’’تم خواہ مخواہ مجھے الزام دے رہی ہو … تمھارے نخرے میں ہی اٹھاتا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے نہ اٹھائو۔ مجھے سر پہ اٹھا رکھا ہے نیچے پھینک دو میں نے نہیں رہنا۔ مجھے طلاق دے دو میں ہمیشہ کے لیے تمھاری زندگی سے جا رہی ہوں‘‘۔
وقاص کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’یہ کیا کہہ رہی ہو … اس وقت غصے میںہو ایسی بات منہ سے مت نکالو۔ ہم دونوں مل کر اس کا کوئی حل نکال لیں گے۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں‘‘۔
’’نہیں مجھے اکیلے جانا ہے‘‘۔
’’تمھاری حالت ٹھیک نہیں ہے اکیلے سفر کرنا مناسب نہیں۔ میں تمھارے ساتھ گھر نہیں جائوں گا۔ میں سوات اپنے عزیزوں کے پاس رہوں گا۔ جب تم اوکے کرو گی تو آجائوں گا۔ اچھا یہ نیند کی گولی کھا لو۔ رات زیادہ ہو گئی ہے سو جائو‘‘۔
’’زہر لا دیں کہیں سے … بڑے ابا کا موبائل بند آ رہا ہے۔ شاید سو گئے ہیں‘‘۔
’’اچھا منہ ہاتھ دھو لو تھوڑی دیر بعد ٹرائی کر لینا‘‘۔
اتنے میں بڑے ابا کا فون آگیا۔ ’’السلام علیکم بیٹی عظمیٰ کیسی ہو‘‘۔
’’وعلیکم السلام بڑے ابا آج کیا ہؤا تھا۔ میں نے انور کو فون کیا تو اس نے میری اچھی خاصی بے عزتی کی ہے میں اس وقت سے رو رہی ہوں کیا بات ہوئی ہے؟ میں کل آ رہی ہوں‘‘۔
’’اوہو … تم تو بہت اپ سیٹ ہو گئی ہو کچھ نہیں ہؤا۔ وہ ٹین ایج میں ہے۔ آج تمھیں یاد کرکے بہت رورہا تھا اوپر سے تمھارا فون آگیا اس نے اپنا غصہ تم پر نکالا ہے۔ بچہ ہے معاف کر دو، درگزر کرو اب ٹھیک ہے کھانا کھا کر سو گیا ہے۔ فکر نہ کرو‘‘۔
’’اچھا مجھے جونہی سیٹ ملتی ہے میںآرہی ہوں‘‘۔
’’اس ذرا سی بات پر پریشان ہو گئی ہو زندگی تو قدم قدم پر خراج لیتی ہے۔ جو بھی قدم اٹھائو سوچ سمجھ کر پہلے بھی تم دونوں نے سمجھداری سے کام نہیں لیا۔ ضرور آئو جم جم آئو تمھارا اپنا گھر ہے لیکن خوشی اور اطمینان سے آئو۔ بے چینی میں سفر نہ کرو۔ اسے میں بہلا لوں گا۔ہاں تمھارے امتحان ہو رہے تھے رزلٹ آگیا؟‘‘
’’ہاںمیں نے وہی بتانے کے لیے فون کیا تھا۔ میں نے یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔ مجھے گولڈ میڈل ملے گا۔ اس کی تقریب اگلے ماہ کی انتیس تاریخ کو ہو رہی ہے میں چاہتی تھی آپ اور انور میری اس خوشی میں ضرور شریک ہوں اس لیے فون کیا تھا۔ لیکن جواباً وہ مار پڑی کہ ساری خوشی کافور ہو گئی‘‘۔
’’مبارک ہو یہ تو بڑی خوشی کی خبر ہے۔ تم نے بہت محنت کی ۔ دیکھو جہاں آزمائش آتی ہے ساتھ ہی ساتھ انعامات بھی ملتے رہتے ہیں۔ ہم تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں لیکن نعمت کا شکر ادا نہیں کرتے بس یہاں ہم سے غلطی ہو جاتی ہے‘‘۔
’’ہاں ابا آپ نے ٹھیک فرمایا بس میں تو غصے میں پاگل ہو گئی تھی وقاص کو بھی بے نقط سنا ڈالیں‘‘۔
’’یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم دونوں آسکتے ہیں تو کتنے دنوں کے لیے پھر بتائوں گا‘‘۔
’’مگر میں نے تو سیٹ کے لیے کہہ دیا ہے …‘‘
’’تم آجائو ذرا دل بہل جائے گا پھر ہم تینوں اکٹھے سفر کریں گے۔ اور بین الاقوامی ٹکٹ لیں گے تاکہ ساتھ سارا یورپ بھی گھوم لیں۔ اب میری زندگی کی شام ہو گئی۔ رات ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ یہ حسرت بھی پو ری ہو جائے ‘‘۔
’’نہ ابا جی ایسے نہ کہیں اللہ آپ کو میری زندگی بھی لگا دے۔ آپ تو انور کا سب کچھ ہیں۔ وہ آپ کی جدائی برداشت نہ کر پائے گا۔ آپ کی زندگی بہت لمبی ہو‘‘۔
’’اچھا اب اجازت رات بہت ہو گئی ہے۔ تہجد کے لیے بھی اٹھنا ہے۔ خداحافظ‘‘
ابھی خاکوانی بستر تک نہ آنے پائے کہ پھر فون بجا۔ یہ ان کے بیٹے طارق کا فون تھا ناروے سے۔
’’ہیلو ابا جی کیسے ہیں‘‘ طارق خوشی سے سرشار تھا۔
’’السلام علیکم … میں ٹھیک ہوں تم سنائو‘‘۔
’’انور کہاں ہے اس کو فون دیں۔‘
’’وہ تو سو گیا ہے بہت تھکا ہؤا تھا۔ پڑھائی اور کھیل دونوں ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ کل بات کر لینا کوئی پیغام ہے تو مجھے دے دو‘‘۔
’’میں سوچ رہا تھا کہ ان چھٹیوں میں یہاں بھجوا دیں‘‘۔
’’مگر اس کی امی پاکستان آ رہی ہے وہ کیسے آ سکتا ہے‘‘۔
’’اچھا … پھر اسے پیار دیں کل فون کروں گا‘‘۔
خاکوانی بستر پر لیٹے تو نیند آنکھوں سے دور تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ماضی کا جھروکہ سامنے تھا۔
طارق نے اپنی پسند سے ضد کرکے ماموں کی بیٹی عظمیٰ سے شادی کی۔ کوئی بھی اس رشتے کے حق میں نہیں تھا۔ طارق سنجیدہ، اپنے آپ میں مگن، اپنی لیاقت اور مردانہ وجاہت پر نازاں، تعلیمی کیریئر میں سب سے آگے، دوستوں کے جھرمٹ میں ہوتا تو راجہ اندر ہوتا۔ دوستیو فسکی، شیلے، کیٹس اور شیکسپیئر کو کوٹ کرتا، حوالے دیتا، فیض اور اقبال کے شعر سناتا۔ ساری محفل دم بخود اس کو سنتی رہتی۔ ادھر عظمیٰ شوخ چنچل، سادہ دل، جلد غصے میں آنے والی مگر ہر وقت مسکرانے والی ۔ مخلص، خدمت گزار، عبادت گزار، چھوٹی بیٹی تھی لاڈلی تھی۔ بے حد حسین نازک سی گڑیا۔ خاندان کے کئی لڑکوں کی مائوں کی اس پر نظر تھی۔ مگر طارق عمر میں سب سے بڑا تھا اور عظمیٰ سے گیارہ سال بڑا۔ بڑے ابا نے بہت سمجھایا کہ عمر کا اتنا فرق مزاجوں میں تفاوت … گزارہ کیسے ہو گا۔ لیکن طارق کی ضد تھی کہ شادی ہوگی تو عظمیٰ سے ورنہ زندگی بھر شادی نہیں کرے گا۔ ابھی عظمیٰ نے ایف ایس سی کا امتحان دیا تھا کہ منگنی کا غلغلہ برپا ہؤا۔رزلٹ میں عظمیٰ نے پورے بورڈ میں دوسری پوزیشن لی۔ میڈیکل کالج کا دروازہ کھلا تھا۔لیکن طارق نے کہا کہ مجھے تو گھریلو بیوی چاہیے۔ مجھے جاب کرنے والی عورتیں سخت نا پسند ہیں۔
یوں عظمیٰ کی ذہانت، محنت، لیاقت اور شوخی ڈبے میں بند ہو کر رہ گئی۔ اس کی سفید اوور آل پہن کر سٹیتھ گلے میں ڈال کر وارڈ میں پھرنے کی آرزو گھٹ کر رہ گئی۔ اس نے بچپن سے ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھے تھے لیکن خواب تو خواب ہیں ان کی تعبیر کون جانے۔
شادی ہوئی تو عظمیٰ کو بے حد دل جوئی اور توجہ کی ضرورت تھی۔ لیکن
طارق تو خود ہیرو تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ عظمیٰ تتلی کی طرح اس کے آگے پیچھے پھرے۔ وہ گھر آئے تو پھر ساری توجہ اس کو ملے۔ چنانچہ یہ کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھانے لگی۔ اس بے چاری نے کوشش بھی کی لیکن کم عمری اور خوابوں کے ریزہ ریزہ ہونے سے دل شکستہ تھی۔ اوپر سے انور کی آمد کی نویدمل گئی۔ ان تمام باتوں نے اسے سنبھلنے کا وقت ہی نہ دیا۔ اسے شادی ایک بوجھ، بندھن ، قید او رمشکل لگنے لگی۔
طارق نے اس موقع پر سختی شروع کر دی کہ یہی اصل زندگی ہے۔ تعلیم حاصل کرنا اور جاب کرنا تو سراسر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
سب سے پہلے اس نے ضد کی کہ عظمیٰ برقع پہنا کرے۔ اس نے سعادت مندی سے مان لیا۔ اسے اپنی تعلیم کے ادھورا رہ جانے کا بہت قلق تھا۔ انور کی پیدائش کے بعد اس نے پرائیویٹ بی اے کی تیاری کرکے امتحان دیا یہ بھی خاکوانی کی حمایت اور فیصلے کا نتیجہ تھا۔
پھر خاکوانی کو دو سال کے لیے کانگو کی حکومت نے افریقہ بلا لیا۔ انھوں نے جوانی میں وہاں دس سال ملازمت کی تھی۔ بس گاڑی کسی نہ کسی طرح چلتی ہی رہتی۔ اب طارق گھر میں بڑا تھا۔ خلیج بڑھتی گئی ابا کے جانے کے بعد روکنے والا کوئی نہ تھا۔اور واپسی پر ان کو ایک مرجھائی ہوئی عظمیٰ ملی ۔ انور البتہ بہت پیارا بچہ تھا۔ تندرست ، توانا اور بے حد حسین ایسا کہ راہ چلتوں کو پیار آجاتا۔ بے بی شو میں ہر سال انعام لے کر آتا اور عظمیٰ کا انٹرویو ریڈیو پر نشر ہوتا۔ سال کی بہترین ماں سے ملیے۔ تین سال تک یہ اعزاز اسی کے پاس رہا۔ ان کی سوچ کی یہاں تک پرواز ہوئی تھی کہ نیند مہربان ہو گئی۔
تین دن بعد عظمیٰ رات تین بجے کی فلائیٹ سے وطن واپس آگئی۔ ماں بیٹا ملے۔ روئے جھگڑے، گلے شکوے کیے … لیکن دو دن بعد مطلع صاف ہو گیا اور دونوں بہت خوش نظر آنے لگے۔
عظمیٰ نے سارے گھر کے فرنیچر کی ترتیب بدلی۔ بیٹے کے کمرے میں نئے پردے لگوائے۔ نیا قالین ڈالا۔ لیپ ٹاپ وہاں سے لے کر آئی تھی۔ اپنے ہاتھوں سے اس کا ناشتہ بناتی۔ شام کو دنوں بیڈمنٹن کھیلتے … لیکن پھر اچانک وہ کھیل چھوڑ کر ریکٹ پھینک دیتا۔ وہ منتیں کرتی کہ کیا ہؤاہے۔ ’’آپ نے پھر امریکہ چلے جانا ہے۔ مجھے آپ لالی پاپ دینے آئی ہیں۔ میں اب بچہ نہیں رہا۔ بڑا ہو گیا ہوں۔ جائیں چلی جائیں۔ مجھے کسی کی ضرورت نہیں میں اکیلا ہی جی مر لوں گا‘‘۔ ان باتوں سے عظمیٰ کا کلیجہ کٹ جاتا۔ جب وہ روتی تو خاکوانی اسے سنبھالتے۔ اسی طرح ایک ماہ گزر گیا۔ وقاص کے فون آتے کب آئو گی تمھارے میڈل کی تاریخ اب اگلے سال ہو گئی ہے وہ گومگو کا شکار تھی ۔ کبھی اسے یوں لگتا اس نے انور کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے۔
انور کا رویہ کبھی اچھا ہوتا، پھر اچانک بگڑ جاتا اور دودودن بات نہ کرتا۔ عظمیٰ خود بیمار پڑ گئی۔ ایک دن گاڑ ی لے کر نکلا تو رات کے دو بجے واپس آیا یہ بات بہت تشویشناک تھی۔ وہ دیر سے گھرآنے لگا تھا۔
خاکوانی دونوںکو لے کر سائیکالوجسٹ کے پاس گئے۔اس نے ساری ہسٹری سنی۔ تین دفعہ بلایا، وقت دیا، اور پھر بتایا کہ محبت اورنفرت دونوں برابر پرورش پا رہی ہیں ۔ جب ماں کی محبت اس بچے پر غالب آتی ہے تو وہ ٹھیک ہوتاہے لیکن جدائی کے لمحات میں جو تکلیف اس نے اٹھائی لاشعور میں نفرت بیٹھ گئی ہے جب وہ یاد آتی ہے تو اس کا رویہ ابنارمل ہوجاتاہے۔
عظمیٰ نے پوچھا’’ا س کا حل کیاہے؟میں اپنا گھر چھوڑ کر تین ماہ سے یہاں بیٹھی ہوں، میں کیا کروں…؟سمجھ میں نہیں آتا‘‘۔
’’ابھی اس بچے سے میں نے تنہائی میں ایکSession کیا ہے۔ اس کو اعتبار نہیں ہے وہ سمجھتا ہے کہ آپ پھر چلی جائیں گی۔ وہ جذباتی طور پر اندر سے ٹوٹ کر بکھر گیا ہے۔ وہ اپنی ماں سے بے حد محبت کرتاہے۔کاش میاں بیوی جدا ہونے سے پہلے اپنے بچوں کے بارے میں سوچ لیا کریں۔ صبر کریں اور سمجھو تہ کرلیں، تاکہ اولاد کی بربادی کا تماشہ دیکھنے سے بچ جائیں‘‘۔
عظمیٰ بولی’’باپ کو تو کوئی تکلیف نہیں ہے اس نے اور بچے پیدا کرلیے ہیں۔ یہ ماں ہے جو ساری عمر اس آگ میں جلے گی شایداسی لیے ماں ہی قربانی دیتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر نے کہا’’اسی لیے تو ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘۔
اسی دن شام کو جب گھر واپس آئے تو فون کی گھنٹی بجی۔ عظمیٰ نے اٹھایا تو وقاص نے کہا’’میں پاکستان آگیا ہوں فکر نہ کرو۔ ٹیکسی لے کر گھر آرہاہوں‘‘۔
عظمیٰ کو خوشی بھی ہوئی لیکن پھر انجانے خوف نے اسے آگھیرا… کیا اس موڑ پر پھر کوئی فیصلہ کرنا ہوگا۔کیا پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے۔طارق سے الگ ہوکر کیا پایا۔ بیٹا کھو دیا۔ وقاص کو پالیا۔ لیکن دل کاسکون تو چھن گیا اوربیٹے کی زندگی یہ کیساپیارا، ذہین اور ہینڈسم بچہ تھا۔ اب کیساہوگیا ہے۔ اس نے بڑے ابا کو بتایا، وقاص آگئے ہیں۔ وہ سب کے لیے تحائف لے کرآیا تھا۔عظمیٰ کو توجلدی میں آنا پڑا تھا، وہ صرف لیپ ٹاپ اٹھا لائی تھی۔ جس لمحے سے وہ ڈر رہی تھی،آخر وہ سامنے تھا۔
وقاص نے کہا’’میں نے واپسی کا ٹکٹ اوپن رکھا ہے جب تم کہو گی تو سیٹ کنفرم کرالیں گے، کل انور کاٹکٹ بھی بنوا لوں گا۔ میرے پاس دس دن ہیں، اگر کہو تو یورپ کا ٹور لگ سکتاہے، انور خوش ہوجائے گا۔یا شمالی علاقہ جات گھوم لیتے ہیں۔ ناران چلتے ہیں۔ جھیل سیف الملوک دیکھیں گے۔کیا سوچ رہی ہو؟‘‘
اس نے اپنا دل مضبوط کیا۔ اپنے ارادے کو الفاظ کا جامہ پہنایا اوربولی۔’’میں امریکہ نہیں جائوں گی نہ انور جارہاہے۔اس عمر میںاسے وہاں نہیں جانا چاہیے۔ اس کے لیے پاکستان بہتر ہے۔ یہاں بھی اچھے ادارے ہیں سب لوگ یہاں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ بھی کرلے گا‘‘۔
’’لیکن میرا بزنس امریکہ میں ہے اس کا کیابنے گا؟‘‘
’’وہ آپ کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔ میرا بیٹا میرے لیے دنیا کی ہرچیز سے زیادہ قیمتی ہے۔ میں اسے بکھرتا نہیں دیکھ سکتی‘‘۔
’’ہم دونوں مل کر اس کی دیکھ بھال اچھے طریقے سے کرسکتے ہیں۔ اسے باپ کی بھی ضرورت ہے۔ لڑکوں کو ماں کی شفقت کے ساتھ باپ کی سختی بھی چاہیے‘‘۔
’’ٹین ایج میں بچوں کا امریکہ جانا… مطلب جانتے ہیں آپ…؟گمراہی، بے راہ روی، عریانی، بغاوت، دین سے دوری، نشہ اور کئی دوسری خرابیاں… بڑا ہوکر جائے تو اور بات ہے‘‘۔
’’تمہیں امریکہ کی خامیاں نظرآگئیں جس کے ویزے کے لئے لوگ سالوں انتظار کرتے ہیں تمہیں گرین کارڈ مل گیا ہے اس لیے قدر نہیں ہے‘‘۔
’’میرا وطن سلامت ہے، مجھے گرین پاسپورٹ پر فخرہے گرین کارڈپر نہیں۔آپ اس کی سڑکوں، ڈسپلن اور تعلیم سے متاثر ہیں یا لبرٹی کے مجسمے سے…لیکن امریکہ کے دوچہرے ہیں، ایک جو نظرآتا ہے، دوسرا ظالم، بے انصاف،لالچی،ظالم کے ساتھ رہنا بھی ایک ظلم ہے‘‘۔ بڑے ابا اور انور نے اندر آتے ہوئے اس کی بات سن لی تھی۔
’’ہاں وقاص کوئی صورت نکالو، بزنس بھی چلتا رہے یہاں آجائو۔ میں نے سالوں بعد انور کو اتنا خوش دیکھا ہے بڑی دعائوں کے بعد یہ واپس ملا ہے، میرا فرض ہے کہ میں تمہاری رہنمائی کروں تنکا تنکا جوڑ کر گھر بنتے ہیں،دیکھنا کہیں یہ پھر نہ کھو جائے‘‘۔
وقاص نے اٹھ کر بڑے ابا کے گھٹنے پکڑ لیے’’میرا دنیامیں کوئی نہیں ہے میرے سرپر ہاتھ رکھ لیں۔ میں بھی آپ کا بیٹا ہوں ،میں بھی کھو گیا تھا۔آج میں سوچ رہاہوں کہ اپنے وطن میںسب کچھ ہے۔ جو لوگ امریکہ جانے کے لئے بے چین ہیں وہ دیوانے ہیں‘‘۔
’’تم بھی میرے بیٹے ہو کیوں نہیں۔ سامنے والی کوٹھی بند پڑی ہے تمہارے لیے کھلوا دیتا ہوں۔تم آہستہ آہستہ اپنا بزنس یہاں شفٹ کرلو۔ اپنے وطن کا ہم پر قرض ہے ۔ اپنے لوگوں کی خدمت کرو‘‘۔
چاروں مل کر باجماعت مسکراتے ہوئے رورہے تھے، منزل نظرآنے کی خوشی میں۔
٭٭٭