غزل
اندر کا غم کہہ ڈالے تو
گر چشمِ نم کہہ ڈالے تو
تنگ آکر جو مرضی کر لو
زیادہ سے کم کہہ ڈالے تو
وہ بھی اک دن اچھا جاؤ
ہو کر برہم کہہ ڈالے تو
زخمِ دل، ہونٹوں کا اپنے
رکھ دے مرہم کہہ ڈالے تو
چپ ہوں پر آنکھوں کا بادل
دل کا موسم کہہ ڈالے تو
وہ اب تک تو میں ہے لیکن
اک دن گر ہم کہہ ڈالے تو
جھوٹی برکھا گر وہ تجھ سے
برسو چھم چھم کہہ ڈالے تو
کیا گزرے محرابوں پر کچھ
زلفوں کا خم کہہ ڈالے تو
کیا ہے کوئی قوسِ قزح کو
سُر کا سَرگم کہہ ڈالے تو
کوئی، عجب کیا ان آنکھوں کو
جاموں کا جم کہہ ڈالے تو
مٹی پانی، بارش، کوئی
پی جا تھم تھم کہہ ڈالے تو
کیوں آنکھوں کا کاجل پھیلا
زلفِ برہم کہہ ڈالے تو
تم بھی سکھیوں میں ہو، آ کر
ہم سے پونم کہہ ڈالے تو
حبیب الرحمٰن
غزل
کچھ اس طرح سے تمہیں پُر وقار کرنا تھا
تمہارا عشق ہی سر پر سوار کرنا تھا
تمام رات ہی اپنی تلاشی لینا پڑی
توُ گمشدہ تھا تجھے بازیاب کرنا تھا
میں تیرے درد ہی بازار میں سجا لایا
اسی نگر میں ہمیں کاروبار کرنا تھا
وہ کہہ رہا تھا محبت بھی نقد سودا ہے
میں لُٹ چکا تھا مجھے تو اُدھار کرنا تھا
نگاہِ یار سے موسم چُرا کے لایا ہوں
لُٹی بہار نے پھر سوگوار کرنا تھا
تم ایک چاکِ گریباں کی بات کرتے ہو
تمہیں تو سارا بدن تار تار کرنا تھا
کسی کی آنکھ سے آنسو ڈھلکنے والے تھے
سو تھوڑی دیر ہمیں انتظار کرنا تھا
ہماری گنتیاں پھر ختم ہو گئیں باتشؔ
تمہیں شمار ہمیں بے شمار کرنا تھا
ڈاکٹر جاوید اقبال باتشؔ