۲۰۲۱ بتول جونغزل- بتول جون ۲۰۲۱

غزل- بتول جون ۲۰۲۱

غزل

مسئلہ کوئی بھی ہو حل بڑے آرام سے ہو
کام ہر فرد کو اپنے ہی اگر کام سے ہو

تذکرہ تیری جفاؤں کا بھی لازم ٹھہرا
غم کے ماروں کو دلاسہ مرے انجام سے ہو

عقل ہر درد کا احساس کہاں کرتی ہے
روح انجان اگر اپنے ہی اندام سے ہو

ضبط ایسا ہے کہ ہر صبح فراموش کروں
حوصلہ یہ ہے کہ ہر شام ترے نام سے ہو

بات کرتے ہیں بہت سوچ سمجھ کر جیسے
رابطہ اُن کے خیالات کا الہام سے ہو

(اسامہ ضیاء بسمل)

 

غزل

ہو وقت کڑا ڈھال بھی تلوار بھی ہم ہیں
ٹل جائے تو دہشت گر و غدار بھی ہم ہیں
جب دیس پکارے تو ہتھیلی پہ رکھیں سر
اور لائقِ تعزیر و سزاوار بھی ہم ہیں
موقع ہو تو چھوڑیں کوئی مردار نہ زندہ
کہنے کو بڑے صاحبِ کردار بھی ہم ہیں
ہے جس میں مہک آج بھی پُرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ در و دیوار بھی ہم ہیں
یاروں کیلئے ریشم و کمخاب ہیں لیکن
دشمن کیلئے حیدرِ کرار بھی ہم ہیں
اے آسماں اب تیری ضرورت ہی رہی کیا
اپنے ہی اگر در پئے آزار بھی ہم ہیں
اب عشق مفادات کا تابع ہوا یعنی
اقرار بھی ہم ہیں کبھی انکار بھی ہم ہیں
ہے سلطنت کون و مکاں اپنی اسی کے
ہم تخت بھی ہم تاج بھی دربار بھی ہم ہیں
جرأت ہے کسی میں کوئی پوچھے کہ وطن کا
آئین بھی قانون بھی سرکار بھی ہم ہیں
شرمائیں نہ گھبرائیں حبیبؔ آئیں کہ ہم ہی
فرسودہ روایات بھی سنسار بھی ہم ہیں

(حبیب الرحمن)

 

غزل

رت جگے لے لو نئ صبح کا تارا دے دو
دھوپ دیکھی ہے بہت پیڑ کا سایا دے دو

کوئی تعویذ ، وظیفہ ، کوئی دھاگا دےدو
ہجر کے مارے کو تھوڑا سا دلاسا دے دو

چشم یعقوب کی بینائی پلٹ آئے گی
یوسف وقت اتارا ہؤا کُرتا دے دو

ہجرتیں اور مقدر میں نہ لکھنا یارب
پاؤں زخمی ہوئے جاتے ہیں ٹھکانا دے دو

شاخِ زیتون سنبھالے ہوئے جاتی ہے کہاں
کھڑکیاں کھول دو چڑیا کو تو رستا دے دو

اذن دے دو کہ نئ سمتِ مسافت دیکھیں
کوچہِ دل سے نکل جائیں اشارہ دے دو

(عزیزہ انجم)

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here