۲۰۲۴ بتول فروریعذرا - احسن اختر

عذرا – احسن اختر

عرصہ گزرا ،کراچی کے ایک نواحی علاقے میں ایک مخبوط الحواس نوجوان عورت جس کے نقوش مقامی آبادی سے مختلف نظر آتے تھے گھومتی نظر آتی تھی ۔
کبھی کبھی اس کے چیخنے کی آواز بلند ہوتی اور کبھی اس کے آنسو دل کو چیر دیتے۔
ہمارے دوست خالد صاحب جو ایک فلاحی تنظیم سے وابستہ ہیں انہوں نے اس کا علاج کرایا۔
آج وہ خاتون جس کا نام عذرا ہے۔ ہمارے محلہ کے ایک نوجوان کی اہلیہ ہے اور اپنی زندگی کو سکون سے گزار رہی ہے۔
عذرا سے اس کا سفر زندگی سنا تو دل کٹ گیا۔
٭ ٭ ٭
میانمار ( برما)سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پچاس کے قریب گھرانے آباد تھے، سارے مرد ہی ماہی گیری کے کاروبار سے منسلک تھے۔ گاؤں کے وسط میں ایک مسجد بنادی گئی تھی ، جہاں بچے بچیاں قرآنی و ابتدائی تعلیم حاصل کرتے، علاقے کے بزرگوں نے اہتمام کر رکھا تھا کہ ان کی نسلیں اپنے دین سے ناطہ قائم رکھیں۔
زندگیاں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھیں۔اسی گاؤں میں عذرا اپنے دو چھوٹے بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔باپ اپنی کشتی لےکر سمندر میں نکل جاتا ، مچھلیاں پکڑ کر لاتا، اسے بیچ کر اپنے گھرانے کی کفالت کرتا، ماں ماہی گیری کے جال تیار کرنے والے کارخانے میں ملازمت کرتی ، اور اپنا گھر چلانے میں خاوند کا ہاتھ بٹاتی۔
عذرا گھر کا نظام چلانے میں ماں کا ہاتھ بٹاتی اور دونوں بھائی تعلیم حاصل کرنے مسجد جاتے۔
گاؤں کے بڑے بوڑھے بچوں کو کہانیاں سناتے کہ یہ سمندر اور یہ زمینیں کبھی اسلام کا قلعہ ہوتے تھے، کبھی وہ دن تھے جب یہاں مسلمانوں کے سکے تجارت میں استعمال ہوتے تھے۔ان دنوں برمی نوجوان بغداد اور قونیہ علم حاصل کرنے جاتے جہاں کے مدارس علم کا سمندر جانے جاتے تھے۔
بچے تعجب کرتے اور پوچھتے کہ ایسا کیا ہؤا کہ اب یہاں مسلما نو ں کی حکومت نہ رہی۔بوڑھے تاسف سے بتاتے ہم اپنی آزادی کی حفاظت نہ کر سکے ۔
٭ ٭ ٭
دسمبر کی ایک سرد شام گاؤں کی جیٹی پر برمی بحریہ کی بڑی کشتیاں لنگر انداز ہوئیں، اور جدید اسلحہ سے لیس فوجی اترے۔
فوجیوں نے تمام مردوں کو ہاتھ پیچھے باندھ کر قطار میں بٹھا دیا، خواتین اور بچوں کو گھروں سے نکال کر ان کے گھر نذراتش کر دیے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ غیر برمی ہیں اور ان کے اجداد بنگال سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔
یہ برما کی نسل پرست حکومت کی علاقے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے بودھ مت کے لوگوں کو زمینوں پر قبضہ کرانے کی سازش تھی۔
علاقہ مکینوں نے تمام قانونی دستاویزات اہلکاروں کو دکھائیں جنہیں ان کے سامنے پھاڑ کر جلا دیا گیا۔
حکومت نے عذرا اور اس کے گھر والوں سمیت سارے گاؤں والوں کی جمع پونجی ضبط کر لی اور ان کو لانچوں میں بھر کر بنگلہ دیش کی سرحد پر دھکیل دیا۔بنگلہ دیشی سرحدی اہلکاروں نے دراندازی کے جرم میں معصوم لوگوں پر فائر کھول دیا۔عذرا کا باپ ، دونوں بھائی اور ماں موقع پر جاں بحق ہوگئے۔خواتین اور بچیوں کو بردہ فروشوں کے حوالے کر دیا گیا۔
عذرا ایک زندہ لاش تھی جس پر وہ مظالم توڑے گئے کہ آسمان کے آنسو نکل جاتے لیکن انسان نما شیطان اپنے دل کی جگہ پتھر رکھتے تھے۔
عذرا کا ذہنی توازن بگڑ گیا، وہ کیسے بنگلہ دیش سے پاکستان کے شہر کراچی پہنچی اس کو علم نہیں۔
برما سمیت دنیا میں اسلام کے نام لیوا اور کلمہ گو بہن بھائیوں پر اب بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، ان کا جرم کچھ نہیں صرف مسلمان ہونا ہے۔چین میں، برما میں ، ہندوستان میں، اسرائیل میں اور دیگر ملکوں میں مسلمانوں پر ظلم توڑے جارہے ہیں۔56 اسلامی ریاستیں آزادی کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن غلامی کا ثبوت دیتی ہیں۔زیادہ ترمسلمان ملکوں کی حکومتیں اوربادشاہتیں کفر کے ظلم پر خاموش رہ کر مسلمانوں پر ظلم کا ساتھ دیتی ہیں۔ان کے مسلم عوام مضطرب بھی ہوں تو اپنی حکومتوں کی بزدلانہ پالیسیوں کے باعث کچھ نہیں کر سکتے۔
آگ بڑھ جاتی ہے تو ان گھروں پر بھی یقینی لگتی ہے جو آگ بجھانے کے لئے نہیں نکلتے۔
٭ ٭ ٭
نوٹ: برما اراکان کے مسئلہ سے پہلی بارواقفیت 90 کی دہائی میں ہوئی، جب جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں منعقد اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماع عام کے ایک سیشن میں عالمی اسلامی تحریکوں کے مندوبین کے خطاب میں سے ایک برمی نوجوان کا خطاب سنا۔بعد ازاں اتفاقی طور پر وہ فرد ہمارے ساتھ بیٹھ گئے اور بالمشافہ گفتگو کا موقع ملا۔گزشتہ چند برسوں میں دوبارہ برما کا ایشو وہاں ہونے والے مظالم کی بنا پراس وقت تازہ ہوا جب ترکی صدر رجب طیب اردوغان اپنی اہلیہ کے ہمراہ ان کے کیمپوں میں دادرسی کے لیے پہنچے۔
٭ ٭ ٭

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here