بتول اگست ۲۰۲۴عدم اعتراف - بتول اگست ۲۰۲۴

عدم اعتراف – بتول اگست ۲۰۲۴

تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑاجرم کیا وہ ’’عدم اعتراف‘‘ ہے۔ اور سب سے بڑا جرم الله تعالیٰ کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے۔اپنے ہی جیسے الله تعالیٰ کے چنیدہ بندوں کو هہادی و راہنما کے طور پہ قبول نہ کرنا بھی انسانی تاریخ کا جرم عظیم رہا۔
مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بھلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملاً عدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا۔
زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی دھوپ چھا ؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے کہ اس کی ناخوش گواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے۔
تکلیف، غم،دکھ سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟
زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت سے ان کا سامنا کیا جائے۔ زندگی کی ذمہ داریا ں نبھانا بھی ایک مشقت بھرا کام ہے جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے وہ اس کو احسن طریقے سے نبھانے کا اعتراف بھی کرتا ہے ۔ اور راعی کم رعیت رکھتا ہو یا زیادہ اپنی ڈیوٹی سے انحراف کرتا ہے تو اپنے عہدے سے انصاف کیسے کرے گا اور انصاف نہ کرنے والا ظالم کہلاتا ہے۔اب ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرے گا تو اس کا ازالہ بھی کرے گا ۔
اس فانی دنیا کا ابدی قانون یہ ہے کہ الله تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے نہ ہی سب کے مزاج ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں انسانی معاملات ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے انسان کےجسمانی اعضاء مربوط ہیں۔ مزاجوں اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے سب ایک دوسرے کے لیے باعثِ زحمت بھی ہوجاتے ہیں۔
الله سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت کے تحت لوگوں کے حالات میں الٹ پھیر بھی ہونا زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کہ اچھے حالات کے ساتھ برے حالات کا سامنا بھی کسی وقت ممکن ہے انسان کو متوازن سوچ کا حامل بناتا ہے۔
یقیناً ہر ناگوار چیز کا متبادل یا مصلح موجود ہوتا ہے مصالحت اسی کو کہتے ہیں ۔
نامساعد حالات میں بالغ نظری کا انتخاب معاملات کو درست سمت میں رکھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ ناپسندیدہ حالات کے اسباب و علل کا اعتراف کر لیا جائے۔
سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تکلیف کیسی بھی ہو ذہنی،جذباتی، معاشرتی یا معاشی اس کا سامنا کرنے میں دوسروں کے قصوروں کے ساتھ ساتھ اپنی کیا کوتاہیاں شامل ہیں۔
اپنی کوتاہیوں کو بے ضرر سمجھنا دوسروں پہ بے جا غصہ کرنا نامناسب رویہ ہے۔
معاملہ دو افراد کا ہو دو گروہ کا یا دو قوموں کا، منفی ردعمل کبھی مثبت نتائج نہیں لا سکتا۔ ہر دو فریق مخاصمت میں ایک دوسرے کی اچھائیوں پہ پردے ڈال کر برائیوں کا کیچڑ اچھا لیں گے تو پھر معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن جائیں گے۔
’’اس دنیا میں غم بھی زندگی کا لازمی حصہ ہے‘‘ جو فرد اس کا ادراک کر لیتا ہے وہ غم اور تکلیف کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے اس کو نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ ذہنی توازن برقرار رکھتا ہے اور اس سے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے سبق حاصل کرتا ہے۔ بڑے سے بڑے نقصان دہ امر کا ادراک کر لینا غم و نقصان کا آدھا علاج ہے۔ باقی آدھا علاج تدبیر سے ممکن ہوجاتا ہے۔اس طرح امیدیں پوری نہ ہوں گی توانسان مایوس نہ ہوگا فریاد و ماتم نہیں کرےگا اس کا شعوری ایمان اس کا سہارا بن جائے گا۔ اس دنیا میں سب کی امیدیں مختلف ہوتی ہیں اور ایک کی تمنا پورا ہونا بعض اوقات دوسرے کی تمنا کا خون ہوتا ہے۔ اور’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کا فارمولا الله تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا خالق وہ خود ہی ہے۔
Margreat Lee Runbeck نے کہا
“Happiness is not a station you arrive at, but a manner of travelling ”
خوشیوں کا انتظار ہوتا ہے، ان کی تمنا ہوتی ہے دعائیں ہوتی ہیں، اچھے نصیب کی التجائیں ہوتی ہیں بےشک انسان دائمی خوشی کی طلب کرتا ہےکہ دکھ اور غم اس کی لسٹ میں نہیں ہوتے کوئی ان کا انتظار نہیں کرتا مگر غم دکھ تکلیف اَن چاہے بن مانگے نصیب ہوتے ہیں اور نصیب سے کوئی لڑ نہیں سکتا۔ اور الله سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار ممکن نہیں اور اس کریم رب نے انگلیوں پہ گنے جانے والے چند دکھوں کا ذکر کیا وہ بھی اس لیے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب مزید نعمتیں عطا فرمائے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے کچھ خریدنے کے لیے کچھ ادا کرنا پڑتا ہے اور وہ چند دکھ بھی ہر کسی پہ سب ہی ایک وقت میں نہیں نازل ہوجاتے ، کسی وقت ایک غم آیا ہے تو بے شمار نعمتیں موجود بھی ہیں۔ ہر نعمت اور کامیابی کسی مشقت کا ثمر ہوتی ہے۔اور خالق و مالک کسی پہ اس کی استطاعت سے بڑھ کے امتحان نہیں ڈالتا کہ رحمت اس کا شیوہ ہے۔ دراصل انسان اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ یہ امتحان بھی اس رب کی رحمت کا ہی مظہر ہوتے ہیں۔ بھلا بغیر امتحان دیے کون سی ڈگری ملتی ہے؟
عدم اعتراف کا دوسرا پہلو یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حاصل خوشیوں، نعمتوں، راحتوں اور محبتوں کا اعتراف نہ کرے، ان گنت نعمتوں کا تذکرہ نہ کرے مگر ایک دکھ پہ واویلا کرے ۔ غم بھی جب دائمی خوشیاں حاصل کرنے کا جواز بنائے گئے ہیں تو پھر انسان کس قدر نادان ہے جو کچھ حاصل ہے اس کانہ اعتراف کرتا ہے نہ قدر ،جو ملنے کے بعد چھن گیا اس کا ماتم کنا ں ہے جو کچھ موجود اور باقی ہے اس کی فکر نہیں۔ (لئن شکر تم لازیدنکم )
زندگی جو گزر گئی اس کا اعتراف کیا جائے۔ زیادہ گزر گئی،زیادہ خرچ ہوجانے کا احساس ہوگا تو باقی ماندہ کو سلیقے سے خرچ کرنے کے لیے ہوش و حواس بیدار ہوں گے ۔ خطاؤں پہ نظر جائے گی تو مغفرت کی طلب بھی ہوگی۔
نقصان،غم خطا ءکا ازالہ کرنا ہو تو اس کے موجود ہونے کا اعتراف کرنا لازمی ہے ۔کسی بھی وحشت کا مقابلہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس حقیقت کو اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے بیماری کا علاج تبھی ممکن ہے جب اس کا ہونا مان لیا جائے۔ دکھ ہو یا سکھ دونوں کے بارے میں عدم اعتراف زندگی سے توازن ختم کر دیتا ہے۔نعتموں کا اعتراف شکر کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور دکھ آزمائش کا اعتراف، صبر اور حوصلے کی ردا اوڑھا دیتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ان دو پہلوؤں کے علاوہ کو ئی تیسرا پہلو نہیں ہے۔
اس میں شکر کا پہلو زیادہ وزن رکھتا ہے کہ نعمتیں اتنی ہیں کہ شمار ممکن نہیں (وإن تعدوا نعمت الله لا تحصوھا ) اور غم کی تعداد اتنی کم کہ دو انگلیوں کے خانے بھی زیادہ ہی ہیں۔ (سورۃ البقرہ آیت55)
ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والا نفس والثمرات و بشر الصابرين ۔
الله تعالیٰ ہمیں زندگی میں خوشی و غم کا سامنا کرنے کے لیے ایمانی شعور عطا فرمائےآمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here