’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ اس نے کہا۔ ’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔‘‘ پھر وہ بولا۔ ’’دیکھ تو سہی ٗ کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی؟ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی پوری نسل کی بیخ کنی کر ڈالوں۔ بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’’اچھا تو جا ٗ ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں ٗ تجھ سمیت ان سب کے لیے جہنم ہی بھرپور جزاء ہے۔ تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے۔ ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا ٗ مال اور اولاد میں ان کے ساتھ ساجھا لگا اور ان کو وعدوں کے جال میں پھانس— اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں— یقینا میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا اور توکل کے لیے تیرا رب کافی ہے۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل: ۶۱ تا ۶۵)
ہمارے نفس میں برائیاں پیدا ہو جانے کا اصل منبع تو یہ دشمنِ ازلی ہی ہے جو ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا رہتا ہے اور چونکہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا ٗ اس لیے اکثر پتہ نہیں چلتا کہ وہ کس کس وقت کیا کیا خوشنما طریقے اختیار کر کرکے دل کو راہ سے بے راہ کر رہا ہے۔
ام المومنین حضرت صفیہؓ سے ایک روایت بیان ہوئی ہے جسے میں انہوں نے بتایا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک شیطان انسان (کی رگوں) میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔‘‘(ابو دائود)
ہمارے نفس کی خرابی کی پہلی وجہ تو یہی ہے کہ ہم اس ہوشیار ٗ موقع شناس ٗ حیلہ جو کینہ توز اور وسوسہ انداز دشمن کی طرف سے غافل رہتے ہیں اور ہماری یہ غفلت اسے وہ مواقع بہم پہنچاتی رہتی ہے جن سے فائدہ اٹھا کر وہ ہم احمقوں کا متاعِ کارواں لوٹ لے جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ ہمیں پور احساس زیاں ہو—
شیطان ہوشیار رہے
اس طرح کہ جس مقصد کا عزم لے کر وہ دنیا میں آیا تھا ٗ اس مقصد کی طرف سے وہ کبھی لاپروا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو اس طرح بھول گئی ہے گویا اس نے اللہ سے وہ وعدہ کبھی کیا ہی نہیں تھا۔
شیطان نے دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ:
’’تیری عزت کی قسم ٗ میں ضرور ان سب کو گمراہ کرکے رہوں گا ٗ سوائے ان میں سے تیرے خالص بندوں کے۔‘‘(الحجر۴۰،۳۹)
انسانوں نے بھی دنیا میں آنے سے پہلے ہی ایک عہد کر لیا تھا۔
سورۃ الاعراف ۱۷۲ میں بیان ہؤا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے ان سے دریافت فرمایا تھا کہ:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔‘‘
تو انہوں نے جواب دیا تھا۔
’’کیوں نہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں (کہ آپ ہمارے رب ہیں)‘‘
اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ شیطان تو اپنے ’’لَاُغْوِیَنَّھُمْ‘‘ پر پورے پورے طور پر کاربند ہے اور صبح شام اس فکر میں رہتا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے ہر فرد بشر کو گمراہ کرتا رہے۔ مگر انسان کی روزمرہ کی زندگی میں سے اس کا ’’بَلٰی‘‘ اس طرح غائب ہو گیا ہے ٗ گویا اس نے کبھی خدا کو اپنا رب ماننے کا اقرار کیاہی نہیں تھا۔ غریبوں کو پیٹ کے دھندے ہی سے فرصت نہیں کہ سوچ سکیں کہ کسی کو رب ماننے کے تقاضے کیا ہیں۔ امیروں کو کھانے پہننے کی فکر کی تکلیف نہیں تھی تو انہوں نے معیارِ زندگی بڑھانے اور عیش و عشرت کے سامان حاصل کرنے کا روگ ایسا پال لیا ہے کہ وہ بھی اتنے ہی مصروف ہیں جتنے غریب۔ باقی رہا متوسط طبقہ جسے کسی قوم کا بہترین حصہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ نہ اس کے پاس اتنا کم ہوتا ہے کہ وہ چوری ٗ دھوکا ٗ فریب ٗ گداگری اور بددیانتی کا مرتکب ہو اور نہ اس کے پاس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ ہوسِ زر ٗ عیش و عشرت اور فسق و فجور کا شکار ہو۔ سو اس طبقے کا بھی یہ حال ہے کہ اس میں اپنی معیاری پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کا خیال بہت کم پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے بھی اکثر حصے نے غریبوں کو دیکھ دیکھ کر اپنی حالت پر مطمئن ہونے کے بجائے امیروں کو دیکھ دیکھ کر ترسنا شروع کر دیا ہے اور سر دھڑ کی بازی لگا کر دوڑ رہے ہیں کہ کسی طرح ان سے زیادہ سے زیادہ قریب ہو جائیں۔ لہٰذا رب کی ربوبیت کو ماننے کے تقاضے پورے کرنے کے سلسلے میں یہ لوگ بھی بالکل لاپروا ہیں۔
سوائے تھوڑے سے نیک نفوس کے —–انسانوں کی غالب اکثریت اپنے کیے ہوئے وعدے اور اپنے مقصد زندگی کے بارے میں مجرمانہ قسم کی غفلت کا شکار ہے۔ اس کے برعکس شیطان کا یہ حال ہے کہ کیا مجال وہ اپنے ’’لَاُغْوِیَنَّھُمْ‘‘سے ذرا سی بھی غفلت برتے۔ صبح کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ٗ سکھ کی نرم و نازک ہوائیں چل رہی ہوں یا دکھ کی جلا ڈالنے والی گرم آندھیاں ٗ انسان فتح و کامرانی حاصل ہونے کی حالت میں ہو یا ناکامی اور محرومی کے چنگل میں گرفتار ہو۔ شیطان ہر صورتِ حالات میں ایسی را ہیں ڈھونڈنے میں لگا رہتا ہے جن پر چل کر وہ ان غافلوں کی غفلت سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکے ٗ اور انہیں سیدھی راہ سے بھٹکا کر ٹیڑھی میڑھی راہوں پر لا ڈالے تاکہ یہ بیوقوف دنیا میں بھی زندگی کے صاف کشادہ راستے چھوڑ کر کانٹوں بھری ٗ اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر بھٹکتے اور کپڑوں کو تار تار اور جسموں کو لہولہان کرتے رہیں اور آخرت میں بھی اسی ذلت خیز جگہ میں جا داخل ہوں۔
’’جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے۔‘‘(البقرہ:۲۴)
اور جو
’’محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکتی ہو گی۔‘‘(المرسلٰت : ۳۲)
اور جس میں ڈالے جانے والا
’’نہ اس مرے گا اور نہ زندہ (ہی) رہے گا۔‘‘(طہ : ۷۴)
شیطان موقع شناس ہے
وہ اس طرح کہ وہ کسی ایسے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ٗ جس سے کام لے کر وہ انسان کو گمراہ کر سکے۔ اور ایسے مواقع تو زندگی میں مسلسل آتے ہی چلے جاتے ہیں کیونکہ انسانی زندگی کبھی راحت ٗ آرام ٗ خوش حالی ٗ صحت اور سکون کی ٹھنڈی چھائوں تلے خوش و خرم ہوتی ہے تو کبھی غم و الم ٗ تکلیف ٗ محتاجی ٗ بیماری اور ذہنی و قلبی اذیتوں کی تپتی دھوپ میں جل رہی ہوتی ہے۔ اب دکھ کا وقت ہو یا سکھ کا ہر صورت میں انسان کے لیے آزمائش موجود ہوتی ہے۔
خوشحالی اور راحت میں جہاں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ انسان شکر گزار بن کر خدا کی طرف رجوع ہو گا ٗ وہاں یہ خدشہ بھی موجود ہوتا ہے کہ وہ فخر و غرور کاشکار اور عیش و عشرت کا عادی ہو کر شیطان کا مصاحب بن بیٹھے گا ٗ اسی طرح مصائب اور غم و الم کے وقت بھی جہاں اس بات کی توقع لگائی جا سکتی ہے کہ مصیبت زدہ شخص دل نرم ہو جانے کے باعث خدا کا مقرب بن جائے گا ٗ وہاں یہ خطرہ بھی بہرحال موجود ہوتا ہے کہ وہ باغی بن کر بالکل ہی شیطان کا آلہ کار ہو جائے گا۔ اب انسان تو ہے غافل اور لاپروا ٗ اس نے کہاں یہ سوچنا ہے کہ سکھ مجھے خوشی پہنچانے ہی نہیں آیا بلکہ میری آزمائش کرنے بھی آیا ہے کہ میں مسرت اور شادمانی کی حالت میں اپنے رب کو کہاں تک یاد رکھتا ہوں اور دکھ میرے لیے غم و الم کا سامان لے کر ہی نہیں آیا بلکہ میرا امتحان لینے بھی آیا ہے کہ میں آلام اور اذیتوں میں سے گزرتے ہوئے بھی کس حد تک اپنے خالق کا وفادار اور شکر گزار رہتا ہوں۔
مگر شیطان نہ غافل ہے نہ لاپروا۔ وہ انسان کی خوشی اور غم دونوں حالتوں میں اپنا مطلب نکالنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ مسرور اور خوش حال انسان کو وہ دنیا کے عشق میں مبتلا کرکے اس کے ذہن سے آخرت کا خیال بھلاتا ہے اور اس کی طرز فکر ایسی کر دیتا ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے حاصل ہونے پر منعم کا شکر گزار اور مطیع ہونے کے بجائے اس کی نافرمانی کی راہوں پر چل نکلتا ہے اور یوں کفران نعمت کا مرتکب ہوتا ہے۔ دولت کے لیے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں ایک ’’خیر‘‘ بھی ہے یعنی بھلائی۔ کیوں کہ دولت بہت سی بھلائیاں کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ٗ مگر بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اس بھلائی سے مزید بھلائیاں حاصل کرنے کا کام لیں۔
مال و زر حاصل ہونے سے دل اور دماغ کے جن کونوں سے روٹی کپڑے اور دوسری ضروریاتِ زندگی کے وسائل حاصل کرنے کی فکر ختم ہوتی ہے ٗ وہ زیادہ دیر تک خالی نہیں رہتے۔ شیطان جلد ہی انہیں فخر ٗ غرور ٗ تکبر ٗ خود نمائی ٗ مزید حاصل کرنے کی حرص ٗ لوگوں کو شان و شوکت دکھلانے کی تمنا اور اپنی آئندہ آنے والی کئی پشتوں کی مالی جڑیں مضبوط کر جانے کی ہوس سے بھر دیتا ہے۔
اگر دولتِ ایمان کا ساتھ حاصل نہ ہو تو مادی دولت شیطان کا وہ کامیاب ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ انسان کا نکتہ نگاہ ہی بدلا کر رکھ دیتا ہے۔
جب اس کے پاس زر و مال موجود ہے تو آخر وہ کیوں نہ جو جی چاہے کھائے ٗ جو جی چاہے پہنے اور جس طریقے سے چاہے زندگی گزارے۔ پھر جب بات اس کے جی کے چاہنے ہی پر آٹھہری ہو تو پھر حرام کیا اور حلال کیا؟ جب اس کے پاس دولت موجود ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو پانی اور دودھ اور شربت تک ہی کیوں محدود رکھے۔ وہ شراب کیوں نہ پئیے ٗ جب کہ وہ اقوام جو اس وقت دنیا کی امامت کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں ٗ بے تکلف شراب پیتی ہیں۔
جب وہ خرچ کر سکتا ہے ٗ تو پھر وہ اپنے لباس ٗ اپنے رہنے کی جگہ اور اپنے ساز و سامان میں ضرورت سے زیادہ دکھا وے اور نمائش کو اختیار کیوں نہ کرے جب کہ ایسا کرنا لوگوں پر رعب ڈالنے کا ایک کامیاب ذریعہ ہے!۔
جب اس کے پاس موجود زندگی کو شان و شکوہ اور راحت و آرام سے گزارنے کے ذرائع موجود ہیں تو پھر آخر کیوں وہ آخرت کی فکر میں ڈر ڈر کر مرتا رہے اور کیوں نہ جی بھر کر زندگی کا لطف حاصل کرے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ان اعمال و افعال کو اختیار نہ کرے ٗ جنہیں ’’تنگ نظر‘‘ لوگ فسق و فجور کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ ایک ’’نارمل‘‘ انسان کی طبعی خواہشات ہیں!
خوش حال لوگوں کی خوشحالی کو گمراہی کا ذریعہ بنانے کے لیے شیطان کا ایک کامیاب ہتھیار یہ ہے کہ عہدہ و جاہ اور دولت و ثروت حاصل کرنے والوں کے دل میں ’’طبقہِ اعلیٰ‘‘ کا ایک فرد بننے کی خواہش پیدا کر دی جائے۔ بس پھر اس کے بعد وہ شخص عموماً اپنی گمراہی کی منازل خود ہی طے کرتا چلا جاتا ہے۔ کیونکہ ’’بڑوں‘‘ کے زمرے میں داخل ہونے کی خواہش کو پورا کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بڑوں کے طور طریقے اختیار کیے جائیں۔ ورنہ ’’بڑے‘‘ بھلا اسے کاہے کے لیے اپنے زمرے میں داخل کرنے کا شرف بخشیں گے اور ’’بڑوں‘‘ کی اکثریت تو اس وقت اس لادینی تہذیب کی گرویدہ ہے جس کی نمایاں خصوصیات مادہ پرستی اور آخرت فراموشی ہے۔ لہٰذا ان کے زمرے میں داخل ہونے کے لیے اسلام کے قائم کردہ حرام اور حلال کے اصولوں کو نظر انداز کیے بغیر چارہ نہیں۔ چنانچہ جس نے ’’بڑوں‘‘ میں شامل ہونا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنی طرزِزندگی اور اخلاقی اقدار بدلے۔
بہت سے خاندان ایسے دیکھنے میں آتے ہیں کہ جب تک مالی وسائل محدود تھے اور معاشرے میں کوئی اور اونچا عہدہ نہیں ملا تھا۔ اچھی بھلی مسلمانوں کی سی زندگی گزاری جاتی تھی۔ جس میں شرم و حیا ٗ حبِ دین ٗ اسلامی اخلاق بہت حد تک نہیں تو کسی حد تک ضرور موجود تھا۔ مگر جیسے ہی کوئی رتبہ حاصل ہو گیا یا بعض اور ذرائع سے دولت دنیا زیادہ مل گئی۔ ایک دم ’’طبقہِ اعلیٰ‘‘ کا ایک حصہ بننے کی خواہش نے زور مارنا شروع کر دیا اور پھر اغیار کے طور طریقوں کی بھونڈی نقالی ٗ اجنبی مردوں عورتوں کا بے جا اختلاط ٗ لباس کی عریانی ٗ بے جا اسراف ٗ نمود و نمائش ٗ تعلّی ٗ بے حیائی ٗ سب کچھ ضروری ہو گیا۔ پھر جیسے جیسے ’’بڑا‘‘ بننے کی خواہش تیز تر ہوتی گئی۔ ’’روشن خیالی‘‘ میں اتنی ترقی ہوتی گئی کہ کھلی کھلی بدعملیاں بھی جائز سمجھی جانے لگیں۔
یہ تو ہوئیں وہ آزمائشیں جن کے ذریعے شیطان خوش حال لوگوں کو اپنے ڈھب پر لاتا ہے۔ اب باقی رہے مصیبت زدہ ٗ غریب اور پریشان حال لوگ تو وہ بھی اسی طرح شیطان کی زد میں ہیں جس طرح مسرور اور خوش حال لوگ۔ کیونکہ اگرچہ عام خیال یہی ہے کہ غم اور تکلیفیں انسان کو خدا سے زیادہ قریب کرتی ہیں تاہم ایسے انسانوں کی بھی کمی نہیں جو محتاجی ٗ غم اور تکلیف کی حالت میں زیادہ آسانی سے شیطان کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پریشانیاں ان کے دلوں کو نرم کرنے کے بجائے ان میں بغاوت بھر دیتی ہیں۔
آخر اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ہمیں کو کیوں محتاجی اور پریشانی میں مبتلا کیا جب کہ اور بہت سے لوگ بڑے ٹھاٹھ سے زندگی گزار رہے ہیں۔ آخر ان لوگوں نے کیا نیکی کی اور ہم بے چاروں نے کیا گناہ کیا کہ وہ ہر طرح کے آرام و آسائش کے مالک بنے بیٹھے ہیں اور ہمارے لیے نہ پیٹ بھر روٹی ہے نہ تن ڈھانکنے کو کپڑا ٗ نہ رہنے کا کوئی ڈھنگ کا ٹھکانہ ٗ نہ دن کا چین نہ رات کا آرام۔
مسرت اور خوشی درحقیقت جھپٹ کر لی جانے والی چیزیں ہیں۔ خودبخود نہیں ملا کرتیں—– تو پھر ہم بھی کیوں نہ اسے جھپٹنے کی کوشش کریں۔
جب ہمارے پاس ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں تو پھر ہم کیوں چوری نہ کریں ٗ کیوں جھوٹ نہ بولیں ٗ کیوں لوگوں کو دھوکا نہ دیں—– جب ہم مشقت کرکے بھی محتاج رہتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ گداگری کریں ٗ خیانت سے کیوں کام نہ لیں سمگلر کیوں نہ بنیں۔ آخر مسرت دوسروں ہی کے حصے میں کیوں آئی ہے ہم بھی کیوں نہ اسے حاصل کریں ٗ چاہے صحیح طریقے سے حاصل ہو یا غلط طریقے سے۔
کیا حرام اور کیا حلال—– کیسی جنت اور کہاں کی دوزخ۔ جب مریں گے دیکھا جائے گا۔ اس دنیا میں تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو زیادہ برائی کرتا ہے اسے ہی زیادہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں!!!
شیطان نے تو انسان کا سوچنے کا انداز ہی بدلانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد انسان خود ہی اپنی اصلاح کے ذرائع کو بھی اپنے بگاڑ کا سامان بناتا چلا جاتا ہے۔ جب ایک دفعہ انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ محتاجی اور پریشانی میں مبتلا ہو جانے کے باعث اب میں حق بجانب ہوں کہ ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حرام یا حلال جو ذرائع بھی ہاتھ آئیں انہیں استعمال کر لوں تو پھر یہی تنگ دستی اور غم جو اسے خدا کے زیادہ قریب لانے کا ذریعہ بھی بن سکتے تھے ٗ اسے خدا سے زیادہ دور بھگالے جانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
تنگ دستی ٗ مصائب اور پریشانی کے باعث دل میں جو نرمی پیدا ہوتی ہے ٗ وہ شیطان کو سخت ناگوار ہے کیونکہ یہ نرمی انسان کو خدا کے زیادہ قریب کرتی ہے۔ لہٰذا شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے انسان کے دل میں باغیانہ خیالات پیدا کرکے اس کے دل کی نرمی کو سختی میں بدل دے اور پھر جب دل سخت ہو جائے تو اس کی وہی کیفیت ہوجاتی ہے کہ وہ:
’’پتھروں کی طرح سخت (ہو گئے) بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت۔‘‘(البقرہ : ۷۴)
پھر غریبی کے ساتھ چونکہ عموماً دینی بے علمی بھی ہوتی ہے ٗ اس لیے بہت سے لوگ تو گناہ اور ثواب سے پورے طور پر واقف بھی نہیں ہوتے اور بڑی آسانی سے چوری ٗ خیانت ٗ جھوٹ ٗ دھوکا فریب وغیرہ جیسے برے اعمال اختیار کر لیتے ہیں اور انہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ وہ کوئی ایسی حرکت کر رہے ہیں جس کے سلسلے میں کل مواخذہ ہو گا۔ ایسی صورت میں وہ ان لوگوں سے تو ضرور ڈرتے ہیں جو اگر انہیں جرم کرتے پکڑ لیں گے تو سزا دیں گے ٗ مگر اس خدا سے نہیں ڈرتے جو انہیں ہمہ وقت جرم کرتے دیکھ رہا ہوتا ہے اور جو شَدِیْدُ العِقَاب ہے (شدید سزا دینے والا)۔(جاری ہے )٭
شیطان حیلہ جُو ہے
شیطان کی ایک اور صفت جو بتائی جاتی ہے ٗ وہ یہ ہے کہ وہ بڑا۔اسے اس بات کی بڑی مشق ہے کہ چکر کھا کھا کر انسان کے سامنے آئے اور فریب دے دے کر اسے مطمئن کر دے کہ جس راہ کی طرف وہ اسے لے جا رہا ہے ٗ وہ برائی کی راہ ہے ہی نہیں ٗ وہ تو عین بھلائی ہے۔
دنیا میں بڑے بڑے ظالم حکمران ایسے گزرے ہیں جو ظلم توڑتے ہوئے یہی سمجھتے رہے کہ وہ تو ملک میں نظم و نسق اور امن و امان قائم کر رہے ہیں اور شریر عناصر کا استیصال کرکے اہلِ ملک پر احسان کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ظلم کی چکی میں شریر عناصر سے زیادہ بے گناہ پستے رہے اور ملک میں امن و امان انصاف کرنے سے قائم ہوتا ہے نہ کہ ظلم کرنے سے۔
بے شمار خوش عقیدہ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جو بزرگوں کی قبروں پر جا جا کر سجدے کرتے ٗ چڑھاوے چڑھاتے اور کھلے کھلے مشرکانہ اعمال کرتے ہیں مگر شیطان ان سے یہ سب کام کراتے ہوئے انہیں بالکل مطمئن رکھتا ہے کہ یہ سب کچھ عین دینداری ہے!
بہت سے ایسے ’’دیندار‘‘ موجود ہیں جو اپنی دینداری کے زعم میں لوگوں کے لیے انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہیں ٗ کسی پر نکتہ چینی کرتے ہیں ٗ کسی کی عیب جوئی کرتے ہیں ٗ کسی کے چھپے ہوئے اعمال کو الم نشرح کرکے اسے معاشرے میں رسوا کرتے ہیں ٗ اپنے ہی مسلمان بہن بھائیوں کے لیے ’’بدعتی‘‘ ٗ ’’مشرک‘‘ بلکہ ’’کافر‘‘ تک کے الفاظ بے تکلف استعمال کرتے ہیں ٗ طعن و تشنیع سے لوگوں کے سینے چھلنی کرتے ہیں اور راہ چلتوں سے جھگڑا شروع کر دیتے ہیں—– شیطان ان سے وہ سب اعمال کرواتا جاتا ہے ٗ جو حضورؐ کے اس فرمان مبارک کے خلاف ہوتے ہیں کہ:
’’آسانی کا معاملہ کرو اور تنگی اور سختی نہ کرو اور خوش خبری سنائو اور نفرت نہ پیدا کرو۔‘‘ (بخاری و مسلم)
مگر ان سے یہ سب ناپسندیدہ کام کرواتے ہوئے بھی شیطان ساتھ ساتھ انہیں یقین دلاتا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ تو ’’مومنانہ بے باکی‘‘ ہے جو مومن کی ایک بہت بڑی صفت ہے۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ بزعمِ خود بڑی لگن سے تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں مگر درحقیقت اسلام کو دنیا میں متعارف کرانے سے بہت زیادہ ان کی توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ اپنے اپنے فرقے کے نظریات کو مسلمانوں ہی کے دوسرے فرقوں کے نظریات سے درست ثابت کر دیں۔ اس طرح ان کی پوری توجہ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی طرف نہیں بلکہ مسلمانوں ہی کے مختلف فرقوں کو کافر ثابت کرنے کی طرف لگی رہتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو شاباش دیتے رہتے ہیں کہ واہ بھئی واہ کیا بات ہے ہماری! ہم کتنی زیادہ خدمت دین کر رہے ہیں۔!
بڑے بڑے سخت گیر اور ظالم خاوند ایسے دیکھے جاتے ہیں جو اپنے رشتہ داروں کے کہے سنے میں آکر بیویوں کے شرعی حقوق غضب کرتے اور ان پر وہ بوجھ ڈالتے ہیں جن کے لیے شریعت نے کوئی جواز نہیں رکھا ٗ مگر ایسا کرتے ہوئے بھی وہ سمجھ یہی رہے ہوتے ہیں کہ ہم بڑے اطاعت شعار بیٹے اور بڑے جاں نثار بھائی ہیں اور ہماری جنت پکی ہے۔ حالانکہ ماں باپ کی خدمت کرنے اور رشتہ داروں سے محبت رکھنے کے لیے یہ قطعی ضروری نہیں کہ ساتھ ہی انسان ظالم خاوند بھی بن جائے۔
غرضیکہ شیطان جو کامیاب چالیں چلتا ہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ نادان لوگوں سے خدا کی نافرمانی کے کام کرواتا ہے ٗ مگر ساتھ ہی انہیں پورا یقین دلائے رکھتا ہے کہ یہ تو عین اطاعت ہے۔ بڑے سے بڑا گنہگار بھی اگر گناہ کو گناہ سمجھ کر کرے گا تو امکان ہے کہ کسی دن وہ ڈر جائے اور توبہ کر لے ٗ مگر جب انسان گناہ کو ثواب ہی سمجھ لے تو پھر اس نے کہاں توبہ کرنی ہے۔!
ایسے ہی بسا اوقات شیطان لوگوں سے غیر شرعی قدم اٹھواتا ہے مگر ساتھ ساتھ انہیں مطمئن کرتا رہتا ہے کہ اس میں ملک و ملت کا فائدہ ہے حالانکہ کوئی غیر شرعی قدم کبھی ملت کی بھلائی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ نے انہیں نظریات اور اعمال کو غلط قرار دیا ہے جو تھے ہی ملت کے لیے مضر۔
تاریخ اسلام میں بنو امیہ کا گورنر حجاج بن یوسف بہت مشہور ہے۔ وہ بعض امور میں بڑا قابل تھا مگر وہ ظالم بے انتہا تھا اور اپنے زیر حکومت علاقوں کا بندوبست کرنے کے سلسلے میں اس نے بعض ایسے قدم اٹھائے جو اسلامی احکام کے خلاف تھے۔ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں پر ایک ٹیکس لگایا جاتا ہے جسے جزیہ کہتے ہیں۔ جب کوئی غیر مسلم شخص مسلمان ہو جائے تو یہ ٹیکس فوراً معاف ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی غیر مسلموں کے پاس جو زمینیں تھیں ٗ ان پر خراج لیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے پاس جو زمینیں تھیں ان پر عشر لیا جاتا تھا۔ اور اصول یہ ہے کہ اگر خراجی زمین مسلمان کے پاس آجائے تو وہ خراجی سے عشری ہو جائے گی۔ حجاج بن یوسف نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نو مسلموں سے بھی جزیہ لینا شروع کر دیا اور جن خراجی زمینوں کو مسلمانوں کے قبضے میں آجانے کے باعث عشری ہو جانا چاہیے تھا ٗ ان سے بدستور خراج لیتا رہا۔ یہ بڑی ناروا حرکات تھیں۔ مگر حجاج نے اپنے زعم میں ملک کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے یہ عمل جاری رکھا۔
حجاج کی وفات کے کچھ عرصہ بعد جب بنو امیہ کی حکومت حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے قبضے میں آئی تو انہوں نے حکم دے دیا کہ نو مسلموں سے جزیہ لینا بند کر دیا جائے اور مالی امور میں بنو امیہ کے سابق حکمرانوں کے عہد میں جتنی بدعنوانیاں ہوتی تھیں سب منسوخ کر دیں۔ ایک عام شخص یہی سمجھے گا کہ اس سے حکومت کی آمدنی کم ہو گئی ہو گی اور نو مسلموں سے جزیہ ختم کر دینے کے باعث اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ بعض جگہ شکایت پیدا ہوئی بھی کہ آمدنی کم ہو گئی ہے ٗ مگر انجام کار جو کچھ سامنے آیا ٗ وہ یہ تھا کہ آمدنی کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی۔ مورخ بتاتے ہیں کہ حجاج رعایا پر ظلم کرکے جتنی مال گزاری وصول کرتا تھا ٗ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ظالمانہ ٹیکس معاف کرکے اور لوگوں پر نرمی اور شفقت برت کر اس سے بہت زیادہ مال گزاری وصول کی۔ وہ خود فرماتے تھے کہ:
حجاج پر خدا کی لعنت ہو ٗ اسے نہ دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔ اس نے اپنے ظلم کے باوجود عراق سے صرف دو کروڑ اسی لاکھ درہم وصول کیے اور جب عراق میرے قبضے میں آیا ٗ تو میں نے اس سے ۱۰ کروڑ ۲۴ لاکھ درہم وصول کیے۔
شیطان کی سکھائی ہوئی حیلہ سازی کی ایک بدترین شکل وہ ہے جس میں انسان کسی شرعی حکم سے جان بچانے کے لیے کوئی ایسا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جس سے بظاہر قانونی طور پر وہ اس حکم سے واقعی بچ جاتا ہے ٗ مگر اس شرعی حکم پر نہ عمل کرنے کے جو برے نتائج پیدا ہونے ہوتے ہیں ٗ وہ پیدا ہو جاتے ہیں۔
اسلامی شریعت میں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی اس وقت فرض ہوتی ہے جب زکوٰۃ والے مال کو قبضے میں آئے ایک سال گزر چکا ہو۔ بعض لوگ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے یوں حیلہ کر لیتے تھے کہ گیارہ مہینے تک وہ مال خاوند اپنی ملکیت میں رکھتا اور بارہویں مہینے اسے بیوی کے نام ہبہ کر دیتا۔ اب جب تک اس مال کو بیوی کے قبضے میں آئے سال نہ گزر جاتا اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہو سکتی تھی۔ اب بیوی بھی گیارہ مہینے اسے اپنی ملکیت میں رکھ کر بارہویں مہینے پھر اسے خاوند کو دے دیتی۔ اس طرح چکر چلا کر وہ زکوٰۃ سے محفوظ ہو جاتے۔ مال رہتا بھی اسی گھر میں اور اس پر زکوٰۃ بھی عائد نہ ہوتی۔ میاں بیوی مطمئن ہوتے کہ ہم نے کوئی گناہ نہیں کیا ٗ مگر زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی انفرادی اور اجتماعی خرابیاں برابر قائم رہتیں۔ مال والوں کے دلوں سے مال کی حرص بھی کم نہ ہوتی اور معاشرے کے جن محتاجوں اور ضرورت مندوں نے اس زکوٰۃ سے فائدہ اٹھانا تھا ٗ وہ بھی محروم رہتے اور خدا کے ایک حکم سے بچنے کے لیے ان چکر چلانے والوں کو اللہ کے ساتھ چالاکیاں کرنے کا جو گناہ ہوتا وہ علیحدہ۔
شیطان کینہ توز ہے
شیطان کی ایک مزید صفت یہ ہے کہ وہ کینہ توز ہے۔اس موجودات میں حکم تو اللہ ہی کا چلتا ہے مگر اس کی منشاء کو پورا کرنے کے لیے مختلف ہستیاں ذرائع کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ شیطان اپنی نافرمانی کے باعث اللہ کی رحمت سے دور ہؤا اور اس کے اللہ کی رحمت سے دور ہونے کا ذریعہ انسان بنا ٗ جس کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کے باعث وہ خدا کے غضب کا مستحق ٹھہرا۔
انسان نے بھی دنیا میں آنے سے پہلے بہشت میں بیٹھ کر ہی خدا کی نافرمانی کرکے اس کی ناراضی مول لے لی اور اس کے ساتھ خدا کے ناراض ہونے کا ذریعہ شیطان بنا جس نے اسے ممنوعہ پھل کھلایا۔
اب شیطان کی کینہ توزی کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ بات کبھی نہیں بھولی کہ اسے خدا کی رحمت سے دور کروانے والی ہستی انسان تھا۔ چنانچہ وہ برابر اس سے کھلی کھلی دشمنی کیے جاتا ہے اور اپنی مانند اسے بھی خدا کی رحمت سے دور کروا دینے کی سعی میں مصروف رہتا ہے۔
دوسری طرف انسان ایسا بھلکڑ ہے کہ اس کی اکثریت کو سرے سے یاد ہی نہیں کہ شیطان نے اس سے کیا دشمنی کی تھی۔
شیطان تو اپنے زیاں کو اتنا پہچانتا ہے کہ اس زیاں کے ذریعے کے خلاف اس کا دل بغض و عداوت سے کبھی خالی نہیں ہؤا مگر انسان ایسا زیاں کار ہے کہ اپنے زیاں کے ذریعے سے دوستیاں کرنے سے بھی نہیں شرماتا بلکہ بعض اوقات اس دوستی پر بہت کچھ فخر و مباہات کا اظہار بھی کرتا ہے—– اب اسے انسان کی بے غیرتی کے سوا اور کیا کہا جائے کہ جو دشمن ذلیل و رسوا کرنے کے در پے ہو اسی کے اشاروں پر ناچا جائے
وسواس اور خناس ہے
کلام پاک کی آخری سورت میں شیطان کے لیے دو نام استعمال کیے گئے ہیں۔تفہیم القرآن جلد ششم میں ان الفاظ کی تشریح یوں بیان کی گئی ہے:
’’وسواس کا مطلب ہے بار بار وسوسہ ڈالنے والا ٗ اور وسوسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جا رہی ہو اسے یہ محسوس نہ ہو سکے کہ وسوسہ انداز اس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے۔ وسوسے کے لفظ میں خود تکرار کا مفہوم شامل ہے جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے در پے کوشش کرنی ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی کوشش کو وسوسہ اور کوشش کرنے والے کو وسواس کہا جاتا ہے۔
رہا لفظ خناس ٗ تو یہ خنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں۔ اور خناس چونکہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے اور ساتھ ساتھ جب اسے خناس بھی کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خودبخود یہ مفہوم پیدا ہو گیا کہ وسوسہ ڈال کر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایک دفعہ جب اس کی وسوسہ اندازی کی کوشش ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے۔ پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ ٗ سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ٗ جلد ششم)
شیطان کی ان صفات پر غور کرنے کے بعد اب اس بات پر غور کیجئے کہ جب دشمن ہوشیار بھی ہو اور موقع شناس بھی ہو اور حیلہ جو بھی ہو اور کینہ توز بھی ہو اور وسواس اور خناس بھی ہو تو پھر کیا کیا جائے اس نادان کا ٗ جو ایسے زبردست دشمن کے ساتھ رہتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کو شعار بنائے رکھے— پھر کیوں نہ اس کے نفس میں خرابیاں پیدا ہوں ٗ کیوں نہ وہ خسارے کا شکار ہو اور کیوں نہ اسے دنیا میں بھی غم و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے اور آخرت میں بھی عذاب و رسوائی کا!
خدائے بزرگ و برتر اور خدا کے مکرم رسولؐ نے انسان کو بار بار اس دشمن ازلی کی چالوں سے ہوشیار رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
سورۃ الاعراف آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تنبیہہ فرمائی ہے:
’’اے بنی آدم ؑ ٗ ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا…‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے دل میں ایک خیال ڈالتا ہے اور فرشتہ بھی انسان کے دل میں ایک خیال ڈالتا ہے۔ شیطان کا خیال برائی کا وعدہ دینا اور حق کو جھٹلانے پر آمادہ کرنا ہے اور فرشتے کا خیال بھلائی کا وعدہ دینا اور حق کی تصدیق پر آمادہ کرنا ہے۔ پس جو کوئی (اپنے دل میں) یہ چیز (یعنی فرشتے کا ڈالا ہؤا خیال) پائے تو وہ جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے پس اللہ کی تعریف کرے اور جو کوئی (اپنے دل میں) کوئی اور شے (یعنی شیطان کا ڈالا ہوا خیال) پائے تو وہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے…‘‘ (ترمذی)
حقیقت یہ ہے کہ ارادتاً ضد کے باعث برائیاں کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں۔ برائیوں کا شکار ہونے والوں میں سے غالب اکثریت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے جو غفلت اور لاپروائی کے باعث اس دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔
لوگوں نے ایک دفعہ شیخ شبلیؒ سے پوچھا کہ حضورؐ کے اس قول کا کیا مطلب ہے:
(جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو مبتلائے بلا ہیں تو اپنے رب سے عافیت مانگو)
اس پر شیخ شبلیؒ نے فرمایا کہ ’’مبتلائے بلا وہ لوگ ہیں جو خدا کی طرف سے غافل ہیں۔‘‘
آپ کی مراد یہ تھی کہ چونکہ وہ غافل ہیں ٗ اس لیے آسانی سے ایسی حرکات کا ارتکاب کر لیں گے جو انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی مصائب کا شکار بنا دیں گی۔ غفلت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے اہم پہلوئوں پر کبھی غور نہ کرے۔ اسے کبھی یہ خیال نہ آیا ہو کہ میں کہاں سے آیا ہوں ٗ کہاں جائوں گا ٗ کس نے مجھے یہاں بھیجا ہے ٗ کیوں بھیجا ہے ٗ میرے یہاں آنے کا مقصد کیا تھا ٗ اگر میں نے وہ مقصد پورا نہ کیا تو کیا ہو گا۔
آخر انسان آئے دن لوگوں کو اس دنیا سے رخصت ہوتے دیکھتا ہے۔ پھر بھی اگر اسے یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن میں نے بھی اسی طرح رخصت ہونا ہے۔ یہ جو میرے سامنے رخصت ہؤا ہے یہ کہاں گیا ہے۔ میں نے کہاں جانا ہے۔ وہاں کیا ہو گا۔ مجھے اس کے لیے کیا تیاری کرنی ہے۔ یہ سوال اگر اس کے دل میں نہیں اٹھتے تو اس کا دل غافل ہے۔ اگر لوگوں کو مرتے دیکھ کر بھی اس کے ذہن میں اپنی موت کا اور مابعدالموت کا خیال نہیں آتا تو یہی وہ غفلت ہے جس کی اسلام نے مذمت کی ہے۔ ان غافلوں میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو فوری نکلنے والے نتائج کے سلسلے میں ازحد ہوشیار ہوتے ہیں۔ اپنی دنیوی زندگی کے مادی فوائد حاصل کرنے میں ان کا دماغ خوب چلتا ہے اور وہ بڑی سوجھ بوجھ اور ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہیں مگر چونکہ اپنے لازماً آنے والے انجام کی وہ بالکل پروا نہیں کرتے ٗ اس کی پروا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے ٗ اس لیے وہ اپنی ساری مادی سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کے باوجود پرلے درجے کے غافل ہوتے ہیں۔ اور یہ غفلت انہیں انواع و اقسام کی برائیوں میں مبتلا ہو جانے کے خطرے میں ڈالے رکھتی ہے۔
حضرت عثمانؓ کا فرمان ہے۔ ’’غریب آدمی ذلیل نہیں ہوتا بلکہ ذلیل وہ ہے جو اپنے مذہب کی طرف سے غافل ہے۔‘‘
ایسے دنیا پرست غافل انسان عموماً کسی خیر اندیش کی خیر خواہانہ نصیحتوں سے بھی کم ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے:
’’تیرے اور نصیحت کے درمیان بے توجہی کا پردہ حائل ہے۔‘‘
یہ بے توجہی انسان کے لیے انتہائی نقصان دہ شے ہے کیونکہ ہر لمحہ ٗ جو گزر رہا ہے ٗ انسان کی زندگی کے تاروں کو کاٹے چلا جا رہا ہے اور وہ لحظہ بہ لحظہ اپنے انجام سے قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
’’دنیا والے ان مسافروں کی طرح ہیں جنہیں قافلہ لیے جا رہا ہو اور وہ غافل سو رہے ہوں۔‘‘
٭…٭…٭