جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو آسمان سے برف روئی کے گالوں کی طرح زمین پر اتر رہی تھی۔ میں اپنے نواسے کے سکول کے سامنے کھڑی اس کے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لانبے قد، سبک متوازن جسم اور بے حد گوری رنگت والی حسین لڑکی چھتری اٹھائے میرے قریب ہی کھڑی تھی ۔ اس نے لانگ شوز پہن رکھے تھے اور پینٹ کے اوپر اوور کوٹ زیب تن کر کے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کا پورا انتظام کر رکھا تھا ۔ شانوں تک کٹے اس کے سنہری بال یوں معلوم ہو رہے تھے جیسے سفید برفیلے ماحول میں بجلیوں کے شرارے جل بجھ رہے ہوں۔ میں سوچ رہی تھی کہ کیا دنیا میں اتنا حسن بھی ہوتا ہے ؟ واقعی کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بڑی فرصت سے بناتا ہے ۔ اس ہی لمحہ میرا نواسا سکول کے گیٹ سے باہر آگیا اور ہم گھر کی جانب چل پڑے۔
میں اپنی بیٹی سے ملنے انگلستان کے اس چھوٹے سے قصبے ہنینگٹن آئی تھی ۔ جب میں نے یہاں قدم رکھا تو مجھے احساس ہؤا کہ یہ علاقہ برمنگھم سے بہت مختلف ہے ۔پچھلے سال جب میں برمنگھم آئی تھی تو میری بیٹی برمنگھم یونیورسٹی میں پڑھنے کی وجہ سے وہاں رہتی تھی ۔ اس کی پڑوسن جو پاکستان سے شادی ہو کر یہاں آ بسی تھی ، بہت اچھی عورت تھی اور اس میں اپنا پن خوب نظر آتا تھا ۔ اس علاقے میں دیسی خاندانوں کی کثرت تھی لیکن یہاں پاکستانی اور بھارتی افراد آٹے میں نمک برابر ہی تھے ۔ یہ گوروں کا علاقہ تھا جو دیسیوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ یہاں پاکستانی صرف وہی نظر آتے تھے جنھیں کسی کمپنی یا ادارے میں ملازمت مل جاتی تھی اور انھیں مجبوراً یہاں رہنا پڑتا تھا ۔
اس دن میری بیٹی کو اپنے دفتر میں کسی کام کی وجہ سے دیر تک رکنا تھا اس لیے اس نے مجھے بچے کو سکول سے لانے کا کہہ دیا اور میں اس فتنہ انگیز حسن کے بارے میں سوچتے ہوئے گھر پہنچی تھی ۔ دو دن بعد مجھے بڑی خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔
میری بیٹی سجیلہ باورچی خانہ میں کچھ پکا رہی تھی کہ دروازے پر لگی اطلاعی گھنٹی بج اٹھی ۔ میں نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے وہ سندر حسن کھڑا تھا۔ اتنے میں سجیلہ بھی ہاتھ پونچھتی ہوئی باورچی خانہ سے نکلی ۔ دونوں نے خوش دلی سے ایک دوسرے کو خوش آمدید کہا ۔ سجیلہ نے مجھ سے اس کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ کیتھرین ہے اور میرے ساتھ کام کرتی ہے ۔
ڈائنننگ ٹیبل پر گرم گرم کافی کی چسکیاں لیتے اور کپ کیک کھاتے ہوئےکیتھرین بڑی دلچسپ باتیں کر رہی تھی ۔ ہنس کر بولی، ’’ آنٹی ! میں نے دو دن پہلے آپ کو سکول کے باہر دیکھا ‘‘۔
’’ہاں کیتھرین ! میں بھی تمہارے دمکتے حسن کو سراہ رہی تھی ‘‘۔ وہ دل کھول کر ہنسی۔
’’ آپ کے منہ سے اپنی تعریف سن کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میں اس دن اپنی کولیگ کے بچے کو لینے گئی تھی ۔ اصل میں وہ بس نکل جانے کی وجہ سے لیٹ ہو گئی تھی اور وقت پر سکول نہ پہنچ سکتی تھی اس نے سکول والوں کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ وہ بچے کو میرے حوالے کردیں ‘‘۔
کیتھرین سجیلہ کے ساتھ آفس میں کام کرتی تھی ۔ زندگی کی حرارت اس کی نس نس سے پھوٹتی تھی ۔ وہ بات کرنے کے لیے منہ کھولتی تو موتیوں کی طرح چمکتے اس کے دانت قدرت کی صناعی کا منہ بولتا ثبوت نظر آتے ۔ اس کے ہونٹوں پر ہر لمحہ سجی مسکراہٹ کیتھرین کی طمانیت بھری زندگی کی گواہی دیتی تھی ۔ جیسے دکھ کا کوئی لمحہ اسے چھو کر بھی نہ گزرا ہو۔مجھے اس کی سادگی اور بے تکلفی بڑی پسند آئی ۔ اسے میرے ہاتھ کی پکی مونگ کی ہری دال کی کھچڑی بہت اچھی لگی تھی ۔ جب وہ کھچڑی میں بینگن کا رائتہ ڈال کر مزے لے لے کر کھاتی اور ہنس ہنس کر اس کی تعریف کرتی تو مجھے بالکل ایک ایسی ننھی سی بچی لگتی جسے اچانک اپنا کھویا ہوا کھلونا مل گیا ہو۔
وہ ایک ایسا ہی سرد دن تھا ۔ درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سے بھی کم تھا ۔ تیز ہوا ڈھلوان سرخ چھتوں پر سفید برف کی چادریں بچھا رہی تھی ۔ سجیلہ اپنے کام سے نہیں لوٹی تھی ۔ میں گھر میں اکیلی تھی ۔ ایسے میں اچانک کیتھرین کی آمد مجھے اچھی لگی ۔ اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی اپنا لانگ کوٹ اتار کر کھونٹی پر ٹانگا اور صوفے میں دھنس گئی ۔ میں نے پہلی بار اس کی آنکھوں میں تھکن اور مایوسی کی پر چھائیاں ابھرتی اور ڈوبتی دیکھیں ۔ کیتھرین خود اٹھ کر باورچی خانہ میں گھس گئی اور گرم گرم کافی کے دو مگ بنا کر میز پر رکھ دیے ۔
’’ آنٹی ! مجھے آپ کا خاندانی نظام بہت پسند ہے ۔ سجیلہ کتنی خوش قسمت ہے کہ آپ اب تک اس کی فکر کرتی ہیں ‘‘۔
’’ تمہارے ماں باپ کہاں ہیں کیتھرین؟‘‘
’’ میرے ماں باپ؟‘‘ ایک لمحہ کے لیے اس کے ہونٹوں پر مختصر سی مسکراہٹ ابھری۔
’’ جب میں پیدا نہیں ہوئی تھی تو میرے ماں باپ دوستوں کی طرح ساتھ رہتے تھے ۔ جب میں پیدا ہو گئی تو انہیں احساس ہؤا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے لیے نہیں بنے اس لیے انہوں نے اپنے اپنے راستے جدا کر لیے ۔ میرا باپ کسی اور عورت کے ساتھ رہنے لگا اور ماں کا بھی نیا بوائے فرینڈ بن گیا ۔ میں ماں کے پاس پلتی رہی ، پھر ماں نے اپنے دوست سے شادی کرلی اور میں نے پندرہ سال کی عمر سے اپنا بوجھ اٹھانا سیکھ لیا ۔ میں غریب تھی ، میں نے خود تعلیم حاصل کی ‘‘۔
میں منہ پھاڑے تعجب سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ وہ کتنے سکون سے مجھے بتا رہی تھی کہ وہ ایسے افراد کی اولاد ہے جن کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
اس نے کہا ،’’ ہمارے معاشرے میں یہ کوئی انوکھی بات نہیں ، یہاں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ۔ بچوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہارے والدین قانونی طور پر میاں بیوی ہیں یا نہیں ؟ نہ ان سے کوئی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے ‘‘۔ پھر اچانک اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی مگر وہ گہری آواز میں بولی، ’’ بچپن میں میرا بہت دل چاہتا تھا کہ میرا باپ مجھے گود میں اٹھائے ، سیر کروانے لے جائے ۔ ماں اپنی زندگی میں مگن تھی ۔ میں جب سجیلہ کو دیکھتی ہوں تو اس کی زندگی پر رشک آتا ہے۔مجھے آپ کا خاندانی نظام بہت پسند ہے جہاں والدین مرتے دم تک اپنے بچوں کے پاس رہتے ہیں ۔ یہاں تو بزرگوں کا آخری وقت بڑی اذیت میں گزرتا ہے ‘‘۔
کیتھرین بول رہی تھی اور میرے کانوں میں امتیاز کی آواز گونج رہی تھی ۔ وہ اپنے نانا کی گود میں سر چھپائے بلک رہا تھا ۔’ ’ نانا ابا ! حرامی کیا ہوتا ہے ؟لڑکے مجھے حرامی کیوں کہتے ہیں ؟ وہ مجھے اپنے ساتھ کھلاتے بھی نہیں ‘‘۔
امتیاز ہمارے برابر والے گھر میں اپنے نانا نانی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی ماں بھی وہیں تھی لیکن وہ بھی امتیاز سے اچھا سلوک نہیں کرتی تھی۔ بات بات پر ننھے سے بچے کو دھنک کر رکھی دیتی جیسے اپنی تمام محرومیوں کا بدلہ لینا چاہتی ہو ۔ امتیاز اس کی ہی لغزش کا نتیجہ تھا لیکن ہر روز ، ہر لمحہ ایک ایسے جرم کی پاداش میں اسے ٹھکرایا جاتا تھا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا ۔ امتیاز اس کلنک کے ٹیکے کے ساتھ ہی بڑا ہوتا گیا ۔ اس ایک لفظ نے اس کی شخصیت کی کون کون سی پرت کو ادھیڑ کر رکھ دیا ، یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔ تعلیم سے بھی اس کا دل اُچاٹ ہو گیا تھا ۔ اس کے باپ نے جو اس کی ماں کا ہی کزن تھا ، بعد میں بیوی کو اپنا لیا تھا لیکن امتیاز کے دل سے وہ نفرت نہیں نکل سکی تھی جس کا بیج بچپن میں اس کے ذہن میں بو دیا گیا تھا ۔ سولہ سترہ سال تک طعنوں کے کون کون سے نشتر امتیاز کی روح کو چھلنی کرتے رہے، مجھے ان کی شدت کا اندازہ تو نہیں مگر کم عمر ہونے کے باوجود میں اکثر سوچتی تھی کہ امتیاز کا قصور کیا ہے ؟ کیا وہ اپنی مرضی سے دنیا میں آیا تھا۔
وہ جنوری کی ایک ابر آلود صبح تھی۔ میں ابھی لحاف میں دبکی نیند کے مزے لے رہی تھی کہ میری بہن بھاگتی ہوئی آئی ۔’’ آپا ! تم مزے سے سو رہی ہو اور محلہ میں شور مچا ہے کہ امتیاز گھر چھوڑ کر غائب ہو گیا ‘‘۔
وہ اپنے نانا کے نام خط لکھ کر غائب ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد ہم نے اسے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ آج کیتھرین کی باتوں نے امتیاز کو میرے سامنے لا کھڑا کیا تھا ۔ ان بچوں کے بارے میں مغرب اور مشرق کے الگ الگ رویے مختلف النوع سوچ کے، سکے کے دورخ تھے۔
٭٭٭