This Content Is Only For Subscribers
زیبو نے اپنی بیٹی گڑیا کو اچھا سا تیار کیا۔ اس کے ماتھے پر کالا ٹیکا لگایا اور پیار کیا۔ میری گڑیا کتنی پیاری ہے۔زیبو نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔آج اسے کام کے لیے ایک نئے گھر میں جانا تھا۔
زیبو نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھول کر ٹھنڈے کمرے کے اندر قدم رکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔سامنے بڑے سےخوبصورت پلنگ پر بیٹھی بیگم صاحبہ کسی سے فون پر محوِ گفتگو تھیں۔انہوں نے ایک اچٹتی سی نگاہ زیبو پر ڈالی اور پھر باتیں کرنے میں منہمک ہو گئیں ۔کوئی دس پندرہ منٹ بعد انہوں نے اس کو اشارے سے اپنے قریب بلایا جو ایک طرف ٹھنڈے کمرے میں سکون محسوس کر رہی تھی تو دوسری طرف انتظار کر کرکے ہلکان ہو رہی تھی۔
اب بتاؤ ۔بیگم صاحبہ نے اس سے پوچھا۔ تمہیں میری پہلے والی ماسی نے تو سب کچھ بتا دیا ہوگا کہ گھر میں کیا کیا کام کرنا ہے؟
زیبو نے فوراً کہا، جی باجی اس نے سب کچھ سمجھا دیا ہے۔
اچھا تو پھر تم کام کرنے پر راضی ہو؟ بیگم صاحبہ نے پوچھا۔
جی میں کل صبح سے ہی کام کے لیے آ جاؤں گی۔
بھئی یہ کیا تمہارے ساتھ آیا کرے گی؟انہوں نے زیبو کے پاس بیٹھی ہوئی چار سالہ گڑیا کو دیکھ کر پوچھا ۔تم اس کے ساتھ کیسے کام کرو گی؟ یہ تمہیں پریشان تو نہیں کرے گی ؟ایک ہی سانس میں بیگم صاحبہ نے کئی سوالات کر ڈالے۔
کیا کروں باجی اسے تو کوئی رکھنے والا ہی نہیں۔ اس کا باپ بھی سارا دن کام پر ہوتا ہے ۔ساس میری بیمار ہے ۔پھر وہ آدھا سال کراچی میں رہتی ہے تو آدھا سال پنجاب میں رہتی ہے۔ اس اکیلی کو میں کیسےچھوڑوں۔
دیکھتے ہیں تم اس کے ساتھ کیسے کام کرتی ہو!بیگم صاحبہ نے ذراناگواری سے کہا۔
زیبو بہت محنتی تھی۔ اس نے بیگم صاحبہ کا گھر کچھ ہی دنوں میں شیشے کی طرح چمکا دیا تھا۔ لیکن بیگم صاحبہ کو اعتراض تھا تو گڑیا پر۔ کبھی زیبو نے ٹی وی لاؤنج میں صاف ستھرا پونچھا لگایا ہوتا تو وہ دھم دھم کرتی آ جاتی ۔ کبھی کوئی چیز اٹھا لیتی۔اماں کا دوپٹہ پکڑ کر پیچھے پیچھے چلتی۔ بیگم صاحبہ کے ماتھے پر شکنیں پڑ جاتیں ۔
آج تو حد ہی ہوگئی۔ زیبو نے ڈرائنگ روم کے فرنیچر کی صفائی شروع کی اور اس کے پیچھے آتی گڑیا نے میز پر سجے قیمتی گلدان کوشوق سے ہاتھ میں اٹھا لیا۔ زیبو نے مڑ کر دیکھا توگڑیا لگی بھاگنے۔زیبو اس کو آوازیں دیتے دیتے پیچھے بھاگ رہی تھی کہ جیسے ہی گڑیا کو پکڑا دونوں چکنے فرش پر گر گئیں۔ اس کے ہاتھ میں بھی تھوڑی چوٹ آئی لیکن گلدان چکنا چور ہو چکا تھا۔
بیگم صاحبہ بھاگ دوڑ کی آوازیں سن کر کمرے سے باہر آ چکی تھیں۔ٹوٹے ہوئے گلدان پر نظر پڑی تو غصے سے چلّائیں۔
یہ کیا کر دیا …..میرا قیمتی گلدان….. بہت بدتمیز لڑکی ہے یہ…..زیبو اگر تمہیں میرے گھر کام کرنے کے لیے آنا ہے تو تم اس کو لے کر نہیں آؤ گی۔ بس بہت ہو گیا۔
جی باجی آپ جیسے کہتی ہیں ٹھیک ہے۔سہمی ہوئی زیبو یہ کہتی ہوئی گھر سے نکل گئی۔
آج چھٹی کا دن تھا زیبو پہلے تو اپنی پڑوسن رشتہ دار مامی کے گھر گئی ۔
مامی یہ بچی مجھے کام پربہت تنگ کرتی ہے۔ اسے اپنے گھر رکھ لیا کر، تھوڑی دیر گلی میں کھیلا کودا کرے گی ، شام کو میں اسے گھر لے جایا کروں گی۔مگر مامی نے اسے ٹکا سا جواب دے دیا۔
نہ بھئی میں اس کو نہیں دیکھ سکتی۔ ہو سکتا ہے میں بھی کچھ دنوں میں کام کرنے لگ جاؤں۔ پھراس کو کون دیکھے گا؟
زیبو کوخیال آیا پچھلی گلی میں اس کی خالہ رہتی ہیں اور ان کی بہو سارا دن کام پر جاتی ہے ۔ ان کے کئی پوتا پوتی سارا دن ان کے پاس ہی رہتے ہیں ۔وہ یہ سوچ کر خوش ہو گئی۔
خالہ کے گھر کے اندر داخل ہوئی تو وہ چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھیں۔اسے دیکھ کر مسکرائیں ۔کیسی ہو زیبو؟خالہ مجھےتم سے ایک کام ہے۔یہ گڑیا مجھے سارا دن کام نہیں کرنے دیتی۔ بہت تنگ کرتی ہے ۔ اسے اپنے پاس رکھ لیا کرو۔
خلاف توقع وہ خوش ہو کر بولیں ، اس میں کیا خاص بات ہے۔ میرے پوتاپوتی بھی تو ہیں ۔یہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہے گی۔ سارا دن تو وہ گلی میں کھیلتے رہتے ہیں اور شام ڈھلے گھر واپس آتےہیں۔
لیکن خالہ ذرا اس کا خیال رکھنا کیونکہ یہ ابھی زیادہ بڑی نہیں ۔
زیبو تم فکر نہ کرو۔ بس کل سے میرے پاس چھوڑ کر کام پر جاؤ۔خالہ نے جواب دیا۔
سال سے زیادہ ہو گیا۔ زیبو صبح صبح کام پہ جاتے ہوئے گڑیا کو خالہ کے گھر چھوڑ دیتی ۔شام گئے گھر واپس آتی۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ گڑیاکے ہاتھ میں بہت سی ٹافیاں اورکھلونے ہیں۔
گڑیا یہ سب تم کو کس نے دیا۔زیبو نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
وہ مجھے….. سامنے ہی ایک ماما ہے ۔ وہ مجھے بہت ساری چیزیں دے رہا تھا ۔وہ کہہ رہا تھا میں تمہیں کھلونوں کی بڑی اچھی دکان پر لے جاؤں گا تم وہاں سے اپنی پسند کے کھلونے خرید لینا۔امی میں وہاں سے وہ گانا گانے والی تتلی بھی لوں گی جو میں نے بیگم صاحبہ کے گھر میں دیکھی تھی۔
ابھی گڑیا باتیں کر رہی تھی کہ دن بھر کی تھکی ہاری زیبو کی آنکھ لگ گئی۔ پھر وہ صبح صبح اٹھ کر بیگم صاحبہ کے گھرچلی گئی کہ آج ان کے گھر دعوت تھی۔کام کرتے ہوئے اچانک اس کو گڑیا کی بات یاد آئی کہ ماما کہتا ہےکہ تمہیں کھلونے دلانے لے جاؤں گا۔ اللہ خیر کرے!اس کا دل گھبرایا۔آج صبح سے اس کا دل نہ جانے کیوں پریشان سا تھا۔
اس نے بیگم صاحبہ سے کہا ، میں نے سارے کام کرلیے ہیں آج مجھے جلدی گھر جانے دیں۔
اچھا تمھیں جانا ہے تو چلی جاؤ، بیگم صاحبہ نے ذرا کرخت لہجے میں کہا۔ لیکن کل صبح جلدی آ جانا۔
جی اچھا۔
زیبو تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے سڑک کے موڑ تک پہنچی او ارادہ کیا کہ آج پیدل جانے کی بجائے رکشہ لے لے۔چنگچی میں بیٹھی،ایک اسٹاپ پہلے اسے یاد آیا کہ بازار سے کچھ سامان لینا ہے۔سودا خریدااور ابھی و دکان ہی میں کھڑی تھی کہ اس نے دیکھا گڑیا ایک آدمی کے ساتھ کھڑی ہے اورسامنے والی دکان سے کھلونےلے رہی ہے۔
گڑیا ۔ااا…..زیبو نے دور سے آواز لگائی ۔تم ادھر ہو ؟تم یہاں کیسے؟
اس کی آواز کا سننا تھا کہ وہ آدمی گڑیا کو پکڑ کر جلدی سے سامنے کھڑے رکشے میں بیٹھ گیا۔زیبو کی چیخیں نکل گئیں۔
میری بیٹی….. میری گڑیا…..یہ دیکھو وہ آدمی لے کر بھاگ رہا ہے میری بچی کو ۔
دو موٹر سائیکلوں میں یونیورسٹی کے لڑکے آ رہے تھے ۔ کیا ہؤا ؟ انھوں نے زیبو کو چیختے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔
پھر فوراً معاملہ بھانپ کران لڑکوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور دونوں موٹر سائیکلوں کو رکشے کے پیچھے تیز رفتاری سےبھگایااورآخرکار انہوں نے رکشے کو پکڑ کر ہی دم لیا ۔ایک لڑکے نے موٹر سائیکل آگے کھڑی کر دی اور دوسرے نے پیچھے۔لڑکوں نے اس آدمی کو گھسیٹ کر رکشے سے اتارا ،دوتین تھپڑ لگائے اور کہا چلو پولیس سٹیشن۔اتنی دیر میں اچھا خاصا مجمع اکٹھا ہو چکا تھا۔ایک لڑکا سہمی ہوئی گڑیا کو لے کر زیبو کے پاس پہنچا۔
گڑیا!زیبو اپنی بیٹی کو دیکھ کر زور زور سے رونے لگی۔اسے گلے لگا کرگھر کے راستے پر قدم اٹھاتے ہوئے وہ صرف یہ سوچ رہی تھی کہ اب میں ہر قیمت پر گڑیا کو اپنے ساتھ رکھوں گی۔