اکتوبر۲۰۲۲رب کی جنت - بتول اکتوبر۲۰۲۲

رب کی جنت – بتول اکتوبر۲۰۲۲

نعمت بھری جنت اللہ تعالیٰ کا وہ انعام ہے جو اس نے اپنے متقی بندوں کے لیے تیار کیا ہے، اور اس کا وعدہ کیا ہے۔ اور اسے بندوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھاہے۔یہ نقص اور عیب سے پاک ایک محفوظ مقام ہے جس میں من چاہی نعمتیںمیسر ہوں گی۔یہ ابدی قیام کا ایسا گھر ہے جس کی کوئی مثیل نہیں۔جنت کا سرچشمہ اللہ کے کرم، اس کی عطا اور اس کے فضل اور عنایت سے پھوٹتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور نبی اکرمﷺ نے احادیث کے ذریعے اس جنت کا تعارف کروایا ہے، اور یہ کہہ کر اشتیاق کو دوبالا کر دیا ہے کہ:
’’ان کے لیے ان کے رب کے پاس سلامتی کا گھر ہے‘‘۔ (الانعام،۱۲۷)
یعنی ایسی جنت جہاں انسان ہر آفت سے محفوظ اور ہر خرابی سے مامون ہو گا۔
ایک اور مقام پر ان نعمتوں کو انتہائی پیارے انداز میں بیان کیا ہے:
’’پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے‘‘۔ (السجدۃ،۱۷)
یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ خفیہ تعلق کی تعبیر کا عجیب انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود اپنے دوستوں کے لیے تحفے تیار کر رکھے ہیں، ان کو خفیہ رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اطلاع کسی کو بھی نہیں دی تاکہ ان کو قیامت کے دن اچانک ظاہر کیا جائے۔ اب یہ ہونے والی ملاقات کس قدر شاندار ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں میں نادیدہ تحفے تقسیم کریں گے جو تیار ہو چکے ہیں۔ اور اللہ اپنی موجودگی میں یہ تحفے بانٹیں گے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الاآیۃ)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ فراہم کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کبھی کسی کان نے سنا، نہ کوئی انسان کبھی اس کا تصور کر سکا ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
جنت کے لغوی معنی ’’بستان‘‘ یا ’’باغ‘‘ کے ہیں۔ جس کے اندر کی صفات باہر سے دکھائی نہیں دیتیں۔اس کا مادہ ’’ج ن ن‘‘ جنن ہے۔ جس کے معنی ’’ستر‘‘ یعنی چھپی ہوئی کے ہیں۔ اصطلاح میں جنت سے مراد وہ ہمیشگی کا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لیے تیار کیا ہے۔
جنت کی صفات
جنت کی صفات کا احاطہ ممکن نہیں، جو کچھ وحی کے ذریعے ہم تک پہنچا ہم بس اسی قدر جانتے ہیں۔
جنت کے گھر
جنت کے گھر اور محل اور خیمے دنیا کے گھروں سے مختلف ہوں گے اور ان کی شباہت بس نام کی حد تک ہو گی۔رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’جنت میں ایک کھوکھلے موتی کا خیمہ ہو گا جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے، اس کے ہر گوشے میں اس کے گھر والے ہوں گے، اور وہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں گے، اور مؤمنین ان کے پاس چکر لگائیں گے‘‘۔ (رواہ البخاری، ج۳، ۴۸۷۹)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جنت کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی ہے، اس کا گارا خالص مشک کا ہے، اس کی بجری موتی اور یاقوت کی ہے، اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ جو اس میں داخل ہو گا ہمیشہ خوش رہے گا، کبھی غم گین نہ ہو گا۔ہمیشہ زندہ رہے گا، کبھی موت نہ آئے گی۔اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی ان کی جوانی فنا ہو گی‘‘۔ (رواہ الترمذی، ج۴، رقم۲۵۳۴)
جنت کے درجے
جنتیوں کے درجات ان کے نیک اعمال کے مطابق ہوں گے جن کی اللہ نے انہیں توفیق عطا کی۔فرمایا:
’’اور جو اس کے حضور مومن کی حیثیت سے حاضر ہو گا، جس نے نیک عمل کیے ہوں گے، ایسے سب لوگوں کے لیے بلند درجے ہیں‘‘۔ (طہٰ،۷۵)
’’دیکھ لو دنیا ہی میں ہم نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر کیسی فضیلت دے رکھی ہے، اور آخرت میں اس سے بھی زیادہ درجے ہوں گے، اور اس کی فضیلت اور بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر ہو گی‘‘۔(بنی اسرائیل،۲۱)
اگر کوئی حقیقی طور پر بلند مرتبہ چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس عظیم اور سچی تفاوت اور امتیاز کے لیے جدو جہد کرے جو آخرت میں ہو گی، جس کا میدان وسیع اور جہاں کسی جگہ کوئی تنگی اور کمی نہیں ہے۔ اور وہ اس قدر وسیع ہے کہ صرف اللہ ہی اس کی حدود سے آگاہ ہے۔ جو لوگ مقام ِ امتیاز میں باہم مقابلہ کرنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مقام ِ آخرت کے لیے مقابلہ کریں۔ (فی ظلال القرآن)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جنت کے سو سے زائد درجے ہیں۔ اور دو درجوں کا باہمی فاصلہ زمین و آسمان جتنا ہے۔اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ’’ فردوس‘‘ ہے، جنت کی چاروں نہریں اسی سے پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے۔جب تم اللہ سے سوال کرو تو اس سے فردوس مانگو۔(رواہ الترمذی،۲۵۳۱)
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اہلِ جنت بالا خانوں والوں کو دیکھیں گے تو وہ افق کے مشرق اور مغرب میں روشن چمکتے ہوئے ستاروں کو مانند انہیں نظر آئیں گے۔یہ ان کے درمیان فضیلت ہو گی۔ لوگوں نے پوچھا: یہ انبیاء کا مرتبہ ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ فرمایا: کیوں نہیں، اس ذات کی قسم کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ لوگ جو اللہ پر ا یمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی (ان میں بھی ایسے ہو سکتے ہیں)‘‘۔ (متفق علیہ)
جنت کے وارث
جنت اور اس کی نعمتیں ان نیک انسانوں اور جنوں کو عطا کی جائیں گی، جنھوں نے دنیا میں خدا ترسی کی زندگی بسر کی ہے، اور عمل کرتے ہوئے یہ احساس رکھا کہ مجھے اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔
’’اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیاتھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا، جنت اس کا ٹھکانا ہو گی‘‘۔ (النزعت،۴۰۔۴۱)
یہ جنت کے وارثین کا مستقل رویہ ہے جو وہ زندگی میں اختیار کرتے ہیں۔دنیا میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہ بات ہر وقت ان کے پیشِ نظر رہتی ہے، کہ آخر ِ کار ایک دن انہیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اور وہ نفس کی بری خواہشات کو پوا کرنے سے اس لیے باز رہتے ہیںکہ اس عارضی خواہش یا لذت کے بدلے وہ دائمی لذتوں اور خوشیوں سے محروم نہ ہو جائیں۔اور اگر ان کے نامہء اعمال میں فلاں فلاں نافرمانیاں اور گناہ ہوں گے تو وہ اللہ کو کیا جواب دیں گے۔
فرمایا: ’’جو لوگ ایمان لے آئے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، وہ یقیناًبہترینِ خلائق ہیں، ان کی جزا ان کے رب کے ہاں دائمی قیام کی جنتیں ہیں‘‘۔ (البینۃ،۷۔۸)
ایمان اور نیک عمل اختیار کرنے والاشخص ایسا مسلمان ہے جس کا ایمان ، محض الفاظ اور کلمات کی ادائیگی نہیں ہے جو صرف ہونٹوں سے ادا ہوتے ہیں، بلکہ وہ صالحات کا پیرو ہے۔ وہ افعال انجام دیتا ہے جن کا اللہ نے حکم دیا ہے،اس میں اخلاق بھی شامل ہے اور اعمال بھی، طرزِ عمل اور معاملات بھی ہیں۔ وہ اعمال میں اس کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کو زمین پر قائم کرنے کی جدو جہد کرتا ہے۔اور لوگوں کے درمیان شریعت ہی کے مطابق فیصلے کرنے کی کوشش کرے۔جو لوگ یہ کام کریں وہ بہترین خلائق ہیں۔(فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
یعنی اہلِ جنت خدا کی تمام مخلوقات، حتیٰ کہ ملائکہ سے بھی افضل و اشرف ہیں، کیونکہ وہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود اللہ کی فرماں برداری اختیار کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
اہلِ جنت کی صفات
دنیا ایک امتحان گاہ ہے، اس امتحان کا نتیجہ آخرت میں ملے گا، اور اس میں کامیاب و کامران ہونے والوں کو جنت عطا کی جائے گی۔ رب کی جنت اتنی سستی نہیں ہے کہ ہر خواہش مند کو مل جائے بلکہ اس کے لیے دنیا میں تیاری مطلوب ہے۔ دنیا میں جیسا کچھ ہم بوئیں گے اسی کا پھل نعمت بھر جنت کی صورت میں پائیں گے یا اس کے برعکس ناکامی و نامرادی اور ہمیشہ کا عذاب! (اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔آمین)
اہل جنت کی صفات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں۔
تقوی؛ ’’کہو، میں تمہیں بتاؤں کہ اس (متاعِ دنیا) سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقویٰ کی روش اختیار کریں، ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہو گی، پاکیزہ بیویاں ان کی رفیق ہوں گی، اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے‘‘۔ آل عمران، ۱۵)
رسول اللہ ؐ کو حکم دیا کہ آپؐ اہل ِ تقوی مؤمنین کو اس بارے میں خوشخبر ی دے دیں، کہ اس سازو سامان تک ان لوگوں کو رسائی ہو گی جو دنیا میں اہلِ تقویٰ تھے۔ جن کے دل اللہ کے خوف سے لرزتے تھے اور وہ یاد ِ الہی سے معمور تھے۔عالم ِ آخرت کے پاک و صاف اور کامل ساز وسامان میں دنیائے دنی کی ترک کردہ شہوات کا بہترین بدلہ ہے۔ اگر وہ دنیا میں سرسبز و شاداب کھیتوں کے مالک تھے، جو اچھی پیداوار دیتے تھے تو آخرت میں انہیں ایسے باغات دیے جائیں گے جو مکمل ہوں گے۔جو ہمیشہ سرسبز رہیں گے۔ آخرت کے ساز و سامان سے بڑھ کر ایک عظیم نعمت انہیں حاصل ہو گی اور وہ ہے اللہ کی رضا مندی۔ (دیکھیے:فی ظلال القرآن)
اطاعت؛ ’’اور اے پیغمبر، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘‘۔ (البقرۃ، ۲۵)
’’جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (البقرۃ، ۸۲)
یعنی ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ عمل ِ صالح کی شکل میں پھوٹ کر باہر نکل آئے۔ جو لوگ ایمان کے دعوے دار ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس حقیقت پر ذرا غور کر لیں کہ ایمان کا وجود اس وقت تک متصور نہ ہو گا جب تک اس کے نتیجے میں عمل ِ صالح پیدا نہ ہو۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، پھر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نیکی اور بھلائی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ زمین پر اسلامی نظامِ حیات کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں، اسلامی اخلاق کے خلاف برسرِ پیکار رہتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے دولتِ ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے۔ ان کے لیے اللہ کے ہاں کوئی اجر نہیں ہے۔ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے اگرچہ وہ ایسی خوش آئند امیدیں اور آرزوئیں اپنے دلوں کے اندر رکھتے ہیں جیسی یہود رکھتے تھے۔(فی ظلال القرآن)ِ
’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ اسے اسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔ (النساء،۱۳)
قانون ِ وراثت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مقرر کردہ حدود قرار دیا۔اور ان کو حدیں اس لیے کہا ہے وہ لوگوں کی عائلی اور اقتصادی تعلقات میں سنگ میل ہوں اور ترکہ کی تقسیم میں فیصلہ کن ہوں۔جو لوگ اس معاملے میں اللہ کی اطاعت کریں گے وہ ہمیشہ جنگ میں رہیں گے اور یہ ان کی عظیم کامیابی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ نظامِ میراث میں ورثاء کے حصّوں کی تقرری کا تعلق براہِ راست اللہ کی اور رسول ؐ کی اطاعت سے ہے۔ اور اس کی اطاعت کا نتیجہ ایسے باغات کی صورت میں ملے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، یا اس کا انجام ایک توہین آمیز عذاب کی شکل میں ہوگا جو جہنم کی آگ میں دائماً دیا جائے گا۔(دیکھیے:فی ظلال القرآن)
مؤمنین؛ ’’ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے سیدی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی، وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ ’’پاک ہے تو اے اللہ‘‘، ان کی دعا یہ ہو گی کہ ’’سلامتی ہو‘‘، اور ان کی ہر بات کا خاتمہ اس پر ہو گا کہ ’’ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے‘‘۔(یونس،۱۰)
آخرت میں جنت انہیں لوگوں کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام اور ہر شعبہء زندگی میں، ہر انفرادی واجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔ نعمت بھری جنتیں اس ایمان کا بدلہ نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ یہ اس ایمان کا بدلہ ہے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔
دنیا کے دار الامتحان سے کامیاب ہو کر نکلنے والے جب نعمت بھری جنتوں میں پہنچیں گے تو وہاں پہنچتے ہی سامانِ عیش پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ نہیں پڑیں گے اور ہر طرف سے لاؤ حوریں، لاؤ شراب، کی صدائیں بلند نہیں ہوں گی، بلکہ صالح اہلِ ایمان اپنے افکار ِ عالیہ اور اخلاقِ فاضلہ اختیار کر کے، اپنے جذبات کو سنوار کر، اپنی خواہشات کو سدھار کر اور اپنی سیرت و کردار کو پاکیزہ بنا کر ، جس قسم کی بلند ترین شخصیتیں اپنی ذات میں بہم پہنچائیں گے، وہی جنت کے پاکیزہ ترین ماحول میں اور زیادہ نکھر کر ابھر آئیں گی۔ان کا محبوب ترین مشغلہ وہی اللہ کی حمد وتقدیس ہو گا جس سے وہ دنیا میں مانوس تھے، اور ان کی سوسائٹی میں وہی ایک دوسرے کی سلامتی چاہنے کا جذبہ کار فرما ہو گا جسے دنیا میں انہوں نے اپنے اجتماعی رویے کی روح بنایا تھا۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۲۶۹)
بغوی نے لکھا ہے: اہلِ تفسیر کا بیان ہے کہ اہلِ جنت اور ان کے خادموں کے درمیان سبحانک اللھم کا لفظ طلب طعام کی علامت ہو گا۔ جب اہل ِ جنت کھانے کے خواہش مند ہوں گے تو کہیں گے: سبحانک اللھم ۔ فوراً حسب پسند کھانے کے خوان حاضر کر دیے جائیں گے۔ ہر خوان ایک میل لمبا ، ایک میل چوڑا ہو گا۔ ہر خوان پر ستر ہزار کاسے ہوں گے، ہر کاسہ الگ رنگ کا ہو گا، ایک دوسرے کے مشابہ نہ ہو گا۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب اللہ کی ثنا کریں گے۔ وآخر دعواھم ۔ کے یہی معنی ہیں۔ علماء کہتے ہیں، اہلِ جنت سبحانک اللھم مزے لے لے کر کہیں گے، یعنی اس کلام کے کہنے میں ان کو لذت آئے گی۔ امام احمد نے حضرت جابر ؓ کی مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ سانس لینے کی طرح اللہ کی طرف سے سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنے کا اہلِ جنت کو الہام ہو گا۔ (مسلم، ابو داؤد)
جامعہ الازھر مصر کے عالم اور مفتی ڈاکٹر علی جمعہ کہتے ہیں کہ: اہل جنت میں پانچ صفات پائی جاتی ہیں: (۱ )خوبصورت چہرہ،(۲) نرم دل، (۳) لطیف زبان،(۴)محرمات سے اجتناب، اور(۵) حسنِ اخلاق۔
اہلِ جنت کی نعمتیں
شناسا منزل: ’’(اللہ تعالیٰ) ان کو اس جنت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو واقف کروا چکا ہے‘‘۔(محمد،۶)
اللہ تعالی انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کا ذکر وہ دنیا میں قرآن و سنت میں اس طرح جان چکے ہیں کہ وہ انہیں کوئی اجنبی مقام محسوس نہیں ہو گا، بلکہ وہ اس میں اسی طرح داخل ہوں گے جس طرح ایک شخص اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ آیت شہداء کے بارے میں ہے۔ کہ انہیں جنت میں ان کی قیام گاہ دکھا دی جاتی ہے۔آپؐ نے فرمایا: ’’شہید اپنی قیام گاہ کو پہلے ہی دیکھ لے گا‘‘۔ (رواہ الترمذی)
ہر خواہش کی تکمیل ’’اس (جنت) میں ان کی ہر خواہش پوری ہو گی، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمہ ایک واجب الادا وعدہ ہے‘‘۔ (الفرقان،۱۶)
فرشتے نیک انسانوں کے سامنے جنت کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:
’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمھیں ملے گا، اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے تمھاری ہو گی‘‘۔ (حم السجدۃ،۳۱)
لازوال نعمتیں: ’’خداترس انسانوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل دائمی ہیں اور اس کا سایہ لا زوال۔ یہ انجام ہے متقی لوگوں کا‘‘۔ (الرعد،۳۵)
یہ ہے سازو سامان ان کے لیے اور یہ ہے ان کی تفریح اور خوشی۔ یہ منظر کہ گھنی چھاؤں اور باغات ہیں اور ان کے پھل دائمی ہیں یہ ایک نہایت فرحت بخش احساس ہے۔
کمال نعمتیں: ’’متقین کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی نتھرے ہوئے پانی کی، نہریں بہہ رہی ہوں گی ایسے دودھ کی جس کے مزے میں ذرا فرق نہ آیا ہو گا، نہریںبہہ رہی ہوں گی ایسی شراب کی جو پینے والوں کے لیے لذیذ ہو گی، نہریں بہ رہی ہوں گی صاف شفاف شہد کی۔ ان میں ان کے لیے ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بخشش‘‘۔ (محمد،۱۵)
جنت کی تمام نعمتیں کمال درجے کی ہوں گی، اس کے پانی کا مزا بدلا ہؤا ہو گا نہ رنگ، کہ اس میں بساند پیدا ہو جائے، خالص صاف ستھرا پانی ہو گا۔ اس کا دودھ بھی جانوروں کے تھنوں سے نکلا ہؤا نہ ہو گا بلکہ اللہ تعالی اسے چشموںکی شکل میں اسے زمین سے نکالے گا اور نہروں کی صورت میں بہا دے گا، اور اس میں ذرا سی بساند بھی گی نہ ذائقے میں فرق ہو گا۔اس کی شراب کو انسانوں نے پاؤں تلے روند کر نہ نچوڑا ہو گا نہ اس میں سڑاندھ ہو گی بلکہ چشموں کی صورت زمین سے نکلے گی اور نہروں کی صورت بہا دی جائے گی۔اور وہ پینے والوں کے لیے تلخ اور بدبو دار نہ ہو گی، اور سورۃ الصافات کے مطابق اس کے پینے سے عقل میں فتور نہ آئے گا نہ جسم کو کوئی ضرر لاحق ہو گا۔ اور حدیث مرفوع کے مطابق جنت کا شہد بھی مکھیوں کے پیٹ سے نہ نکلے گا، وہ بھی چشموں میں نکلے گا اور نہروں میں بہادیا جائے گا۔
بہترین ہم نشین: ’’اے میرے بندو، آج تمھارے لیے کوئی خوف نہیں، اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہوگا، داخل ہو جاؤجنت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمھیں خوش کر دیا جائے گا‘‘۔ ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کروائے جائیں گے اور ہر من بھاتی اور لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔(الزخرف،۶۹۔۷۱)
ازواج سے مراد صرف بیویاں ہی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی شخص کے ہم مشرب، ہم جولی اور ہم جماعت ہوں۔اہلِ ایمان کی مومن بیویاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کے مومن دوست بھی جنت میں ان کے رفیق ہوں گے۔ (تفہیم القرآن، ج۴،ص۵۵۰)
جنتِ خلد: ’’ان سے کہا جائے گا ، ’’اب تم یہاں ہمیشہ رہو گے۔ تم اس جنت کے وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے‘‘۔ (الزخرف،۷۱۔۷۲)
جنت کے اندر ہر ملاقاتی کا ابتدائی کلام (لفظ) سلام ہو گا۔ فرشتے بھی ہر دروازے سے داخل ہو کر کہیں گے: سلام علیکم بما صبرتم ۔اور اللہ کی طرف سے بھی سلام لے کر فرشتے آئیں گے اور کہیں گے: اللہ تم کو سلام فرماتا ہے۔(ابنِ ماجہ)
نعمتوں کی انتہا
اہل جنت کی خوش بختی کا کیا کہنا، جب فرشتے عزت و احترام کے ساتھ انہیں جنت میں داخل کریں گے تو ان سے کہیں گے: ’’یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور و رحیم ہے‘‘۔ (حمٰ السجدۃ،۳۲)
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جب اہلِ جنت اپنی راحتوں میں مشغول ہوں گے کہ اچانک ان پر ایک نور چمکے گا۔ سر اٹھا کر دیکھیں گے تو (نظر آئے گا) کہ اللہ اوپر سے ان پر جلوہ پاش ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’السلام علیکم یا اہل الجنۃ‘‘۔ جیسا کہ ارشاد ہے: سلام قولاً من رّب رّحیم۔
جنت کا راستہ
اللہ تعالیٰ نے جنت میں جانے کا شوق دلایا ہے، فرمایا:
’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اورآسمانوں جیسی ہے ‘‘۔ (آل عمران،۱۳۳)
گویا کہ جنت کسی انعامی مقابلے میں مقرر ہدف ہے۔جنت تک پہنچنے کے لیے ہر نیک عمل جو ایمان اور اخلاص سے انجام دیا جائے وہی جنتی عمل ہے، کچھ اعمال کا اللہ تعالیٰ نے خاص تذکرہ فرمایا اور بعض کو مکرر بیان کیا، چند امور یہ ہیں:
۔ ایمان باللہ جو شرک سے پاک ہو، اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرنے والا اور ان کی اطاعت کرنے والا ہو۔ اس میں ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب ، ایمان بالآخرت اور تقدیر کے اچھے اور برے ہونے پر ایمان بھی شامل ہے
۔ اللہ کے عائد کردہ فرائض کو ادا کرنے والا ہو۔
۔ نوافل کے ذریعے سے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
۔ ہر قسم کے کھلے اور چھپے فواحش سے اجتناب کرے۔اسے میں فحش کام، فحش گفتگو اور فحش مناظر دیکھنا اور ہر طرح کی بری باتیں شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی صفات میں تذکرہ فرمایا: ’’اور وہ لغویات سے دور رہتے ہیں‘‘۔ (المؤمنون،۳)
۔ امانت اور عہد کا پاس کرتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا: جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا اور جو عہد کا پاس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا۔(بیہقی فی شعب الایمان)
۔ شرم گاہ کی حفاظت کرے۔
۔سچائی اختیار کرے۔
۔اللہ کی راہ میں جہاد کرے۔
۔ قرآن کی تلاوت کو لازم کر لے، اور صرف آیات ہی نہ پڑھے بلکہ اس کے مفاہیم سمجھنے کی کوشش کرے۔
۔ یتیموں پر شفقت، ان سے حسنِ سلوک اور ان کی کفالت
۔ والدین کی اطاعت۔
۔ احتسابِ نفس کرے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور تم میں سے ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے‘‘۔ (الحشر،۱۸)
۔ وضو کے بعد دو رکعت نفل (نبی اکرم ؐ نے حضرت بلالؓ کے قدموں کی چاپ کو جنت میں سنا، تو استفسار پر حضرت بلالؓ نے اپنا یہی مستقل عمل بیان کیا)
جنت کے دروازے
جنت کے آٹھ دروازے ہیں، اگرچہ وہ داخل تو ایک دروازے سے ہی ہو گا، مگر یہ عمل کا شوق دلانے کے لیے ہیں کہ بندہ کونسا عمل آگے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے، ان کے نام درج ذیل ہیں:
۔ باب الایمان؛ جن کا ایمان اعلیٰ درجے کا ہو گا۔
۔ باب الصلاۃ؛ کثرت سے محاسنِ صلاۃ کی حامل نماز پڑھنے والے۔
۔ باب الصیام؛ کثرت سے تقویٰ کے حصول کے لیے روزہ رکھنے والے۔
۔ باب الصدقہ؛ کھلے اور چھپے، تنگی اور خوشحالی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ، اور اسے ریا اور احسان جتا کر ضائع نہ کرنے والے۔
۔ باب کاظمین الغیظ؛ غصّے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے محسنین۔
۔ باب الراضین؛ اللہ کی رضا میں راضی رہنے ولے، اور اس کی نعمتوں اور عطا پر خوش ہونے والے شکر گزار بندے۔
۔ باب الجہاد؛ اللہ کی راہ میں تن من دھن کی بازی لگانے والے اور اس کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہمہ تن کوشاں۔
۔ باب التوبہ؛ غلطی، قصور اور گناہوں پر نادم اور شرمسار ہونے والے، اللہ کی جانب رجوع کرنے اور پلٹ آنے والے، اور دوبارہ ان گناہوں کا ارتکاب نہ کرنے والے مومنین۔
جنت میں لے جانے والے چند اعمال
(۱) آیۃ الکرسی؛ ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنا، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس نے ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھی اس کے جنت میں داخل ہونے میں موت کے سوا کوئی رکاوٹ نہیں‘‘۔
بارہ رکعت نفل؛ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا: ’’جو مسلمان بندہ فرض نماز کے علاوہ دن رات میں بارہ رکعت ادا کرے اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جاتا ہے‘‘۔
تقوی و حسنِ اخلاق: حضرت ابو درداءؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن مومن کے میزان (ترازو) میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہو گی۔بے شک اللہ تعالیٰ فحش کام اور فحش گفتگو کرنے والے سے سب سے زیادہ غضب ناک ہوتا ہے‘‘۔(رواہ الترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ سے پوچھا گیا کہ کس چیز کے سبب سب سے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ کا تقویٰ اور حسنِ اخلاق۔ پھر سب سے زیادہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: منہ اور شرم گاہ‘‘۔ (رواہ الترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’مومنوں میں ایمان میں کامل سب سے اچھے اخلاق والا ہے، تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہے‘‘۔ (رواہ الترمذی)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے لیے جنت میں گھر بنا دے اور ہمیں جنت الفردوس کا مکین بنا دے اور ہمارے والدین، ازواج اور ہماری اولاد اور بہن بھائیوں اور دوستوں کو ہمارا ساتھی بنا۔ آمین
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here