سورج طلوچ ہوتے ہی جیل کے اندر کی دنیا انگڑائی لے کر آہستہ آہستہ بیدار ہونے لگتی ۔ بلوری آنکھوں والی قحبہ خانے کی مالک لالہ مائی اورپکی رنگت والی شیدی تو نماز کے بعد تسبیح لے کربیٹھ جاتیں ، کوٹھری کی دوسری عورتیں اپنے اپنے بستروں پرپڑی کسلمندی سے کروٹیں لیتی رہتیں ۔ لالہ مائی اونچی آواز میں سب کونماز پڑھنے کا کہہ کر پھر تسبیح کے دانے گرانے لگتی ۔ جوں جوں دن چڑھتا جاتا جیل کی گہما گہمی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ۔ صبح صبح بیٹھے بٹھائے ناشتہ کرنے کی تیاری شروع ہوجاتی ۔ ناشتہ کے بعد دبلی پتلی فہمیدہ جوچوری کے کیس میں آئی تھی اپنے دس ماہ کے ببلو کے کپڑے دھونے میں مصروف ہوجاتی ۔ کسرتی بدن اورسانولی رنگت والی تیس بتیس سالہ کرن جواغوا کے کیس میں ملوث تھی ،حدود کے کیس والی صغریٰ سے اپنے چہرے اوربدن کا مساج کروانے کی تیاری پکڑنے لگتی ۔بیس بائیس سالہ شکیلہ جو خاندانی جھگڑوں میں اپنے بھائیوں سمیت جیل میں تھی ، تمام دن اوندھے منہ بسترپرپڑی سسکتی رہتی ۔ اس کے پڑھنے لکھنے کے تمام خواب چکنا چور ہوچکے تھے ۔
ان تمام مصروفیات میں مائی سکینہ سب سے الگ تھلگ اپنے دکھوں کی چبھن کم کرنے کے لیے بیگماں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ۔ بیگماں جسے عمر قید سنائی جا چکی تھی ، ایک ذہنی مریضہ بن گئی تھی ۔ اس کے وجود پرایک گھمبیرخاموشی چھا چکی تھی ۔ دو سال سے کسی نے اسے بات کرتے نہ دیکھا تھا ۔ مائی سکینہ بن مول مشقتی تھی جس نے اپنی خدمات بیگماں کے لیے وقف کررکھی تھیں۔
نام تواس کا مائی سکینہ تھا مگروہ دبلی پتلی کھلتی رنگت والی درمیانی عمرکی عورت تھی ۔ جوبیگماں کی ذرا ذرا سی تکلیف پربے چین ہو جاتی وہ اس کی خدمت کر کے اپنے گناہوں کو ہلکا پھلکا محسوس کرتی ۔ اس کے گناہ کس قدربوجھل تھے ، وہ تمام عمربھی کفارہ دیتی تب بھی ان کا بوجھ کم نہ ہوتا ۔وہ اپنےہاتھوں اپنے پیاروں کو لٹا بیٹھی تھی ۔ دھان پان سی مائی سکینہ دن رات تڑپتی مگر اسے کسی پل چین نہیں ملتا تھا ۔ و ہ ہنستی کہاں تھی ، بلکہ اس کی پھیکی مسکراہٹ میں بھی ایک کرب ہوا کرتا ۔
آج بھی وہ میلی کچیلی بیگماں کو نہلا دھلا کراس کے بالوں کو سنوار رہی تھی اوراس سے ہولے ہولے باتیں کر رہی تھی جن کو بیگماں شاید سمجھ پا رہی تھی یا نہیں ، مگر وہ اس سے اپنا درد ِ دل ہر روز بیان کرتی کیونکہ اس سے اچھا ہم راز اسے نہیں مل سکتا تھا جو اس کی ہر بات خاموشی سے سن لے اور اس سے کوئی سوال نہ کرے ۔
’’ بیگماں تم سن رہی ہو نا !فضلو مائی سکینہ کو ہر روز مارتا تھا ۔فضلو کا پتا ہے نا مائی سکینہ کا شوہر ۔ نشہ کرتا تھا ، نشے کے لیے جب پیسے ختم ہوجاتے تووہ اسے بری طرح مارتا۔اتنا مارتا کہ اس کے جسم پر نیل پڑ جاتے ۔ وہ تین کوٹھیوں کا کام کر کے جب گھر لوٹتی تووہ اس کا منتظرہوتا ۔ اس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پیسے لائی ہو یا نہیں۔
روزانہ کی مار پیٹ مائی سکینہ کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی کہ جس روز فضل دین نہ آتا اس روز مائی سکینہ کے جسم کی ٹیسوں میں اضافہ ہو جاتا۔مار اس کی زندگی میں روٹی یا پانی کی طرح رچ بس گئی تھی ۔
شروع سے توایسا نہ تھا بیگماں ! جانتی ہو مائی سکینہ اپنے گھر میں کتنی خوش تھی جب فضل دین اسے بیاہ کر لایا تھا ۔ سہرے کی سنہری لڑیوں میں اس کی گندمی رنگت اوربھی سنہری لگ رہی تھی ۔ڈھولک کی تھاپ پرلڑکیاں بیاہ کے گیت گا رہی تھیں ۔ تیکھے نین نقش اورسرخ و سپید چہرے والی مائی سکینہ شرمائی شرمائی سی گانے کے بولوں پر بیر بہوٹی بن جاتی تھی ۔ فضل دین منہ پر رومال رکھے دز دیدہ نگاہوں سے اسے بار بارتک رہا تھا۔
فضل دین اسے بیاہ کرفیکٹری کے احاطے میں بنے کوارٹروں میں لے آیا تھا ۔ وہ فیکٹری کا ایک محنتی ملازم تھا گھر میں ضرورت کی ہرچیز موجود تھی ۔ اب توسکینہ کی موجودگی میں گھرجنت کا نمونہ بن چکا تھا ۔ اس کی ازدواجی زندگی کے پہلے پانچ سال خوشیوں کے سال تھے ۔اللہ نے اسے چاند سے پیارے بیٹے مراد سے اس کی جھولی بھر دی تھی ۔ اب تو مراد بھی اسکول جانے لگا تھا ۔ مراد کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا خواب دونوں نے دیکھا تھا ایک بڑے عالی شان گھر کی خواہش انہوں نے کبھی نہ کی تھی۔ انہیں چھوٹے سے گھر کی خوشیاں عزیز تھیں۔
انہی دنوں ساتھ والے کوارٹر میں رہنے والے بشیر کی بیوی اپنے پانچ سالہ جمیل کو روتا دھوتا چھوڑ کر اگلی دنیا کو سدھارگئی ۔ مائی سکینہ نے جمیل کوگود میں لے کر کہا تھا ، آج سے میرے دوپتر ہیں ایک مراد اوردوسرا جمیل اورجمیل مائی سکینہ کے اس رشتے کو ابھی تک نبھا رہا تھا اورمائی سکینہ نے بھی اپنے لفظوں کی پوری لاج رکھی تھی اورجمیل کو ماں جیسا پیار دیا تھا ۔
’’ تمہیں معلوم ہے بیگماں‘‘ وہ بیگماں کی چٹیا گوندھتے ہوئے بولی۔’’آج جمیل مائی سکینہ کے ساتھ جیل میں ہے ۔وہ ایک بیٹے کا فرض ادا کررہا ہے۔اس نے ہمیشہ بیٹا بن کردکھایا ہے۔ اب پتا نہیں جیل والے اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ۔
’’ بیگماں تم سوچتی توہو گی وہ دونوں جیل میں کیسےآگئے، میں تمہیں بتاتی ہوں ۔’’ اس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں ماضی کے دریچے ایک ایک کرکے کھلنے لگے۔
مائی سکینہ کی خوشیوںکو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی جب فضلو کوفیکٹری کے نئے مالک نے نوکری سے نکال دیا تھا ۔ فضلو کواپنی قابلیت اورمحنت پر اعتماد تھا۔ اس نے مالک کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنی چاہی مگر مالک اس وقت غصے میں تھا ، اس نے فضلو کی کوئی بات نہ سنی ۔ بعد میں مائی سکینہ نے فضلو کوبہت سمجھایا کہ جا کر ایک بار پھرمالک سے بات کر لے مگر اس کا غصہ مالک سے دوہاتھ آگے ہی تھا ۔ اس کے ضمیر نے اسے مالک کے سامنے جھکنے نہ دیا ۔آخر کار انہیں فیکٹری کے ساتھ ساتھ گھربھی چھوڑنا پڑا۔
فیکٹری کے نزدیک اسے کسی نے ایک کوٹھی کے پچھواڑے بھینسوں کے طویلےکے ساتھ والی خالی کوٹھری رہنے کے لیے دلوا دی ۔ چھت کا آسرا تو ہوگیا مگربھوک کا کیا حل ہوتا ۔پیٹ کی آگ توروز جلتی تھی۔ اس کو بجھانے کا فوری انتظام چاہیے تھا ۔
فضل کودوماہ تک کوئی نوکری نہ ملی ۔ جو جمع پونجی تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ سکینہ مائی نے چودھریوں کے گھر ملازمت کرلی جس سے دووقت کی دال روٹی بمشکل چلنے لگی۔ بچے کچھے سالن اور رات کی باسی روٹیاں اسے بہت غنیمت لگتیں ۔
انہی دنوں کسی ہمدرد نے فضلو کوایک ایسی دوا لا کردی جسے پی کروہ سارے غم اورسارے دکھ بھول گیا ۔ چند ہی دنوں میں وہ نشے کا پکا عادی بن چکا تھا ۔
جس روز فضلو نے پہلی باراس سے نشےکے لیے پیسے مانگے تھے اس روز اسے یوں لگا کہ وہ آسمان سے پاتال میں آگری ہے۔وہ فضلو کے لرزتے وجود کوحیران ہوکر دیکھ رہی تھی ۔ منہ سے کف بہہ رہا تھا ، آنکھیں لال انگار ہ تھیں ۔ آج ہی وہ پیلی کوٹھی والی بیگم صاحبہ سے تنخواہ لے کر آئی تھی ۔ فضلو نے اسے زور سے دھکا دیا تھا اوروہ سامنے دیوار کے ساتھ جا لگی تھی ۔ اس نے اس کی مٹھی کھول کر اس کی تمام تنخواہ اپنے ہاتھ میں لے لی تھی ۔ اس کی بند مٹھی کے خواب ایک پل میں اڑ چکے تھے ۔ اس کی تقدیر اس پرہنس رہی تھی ۔ وہ تو جیسے سکتے کے عالم میں کلیجہ تھامے کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔
یہ دوسری بارہوا تھا جب قسمت نے اس کے ساتھ ایسا سنگین مذاق کیا تھا ۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اس کے خوابوں کی دنیا اجڑ چکی ہے ۔ اب اس کی قسمت ہمیشہ کے لیے اس سے روٹھ چکی ہے ۔
فضلو اس کے ہاتھ سے پیسے لے کر کب کا جا چکا تھا ۔ ننھا مراد اس کی ٹانگوں سے چمٹا بری طرح رو رہا تھا ۔فضلو جس نے آج تک اس سے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کی تھی آج نشے نے اسے اس حد تک گرا دیا تھا کہ اپنی سکینہ کے ساتھ اتنا برا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ کانپتے وجود کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی اورسر نیہواڑے ہولے ہولے سسکنے لگی۔اس کو اپنا آپ یکدم بہت بوڑھا سا لگنے لگا تھا ۔
اس نے پندرہ سال تک فضلو کے ظلم سہے صرف مراد کی خاطرکہ بڑا ہو کرمراد اس کا سہارا بنے گا ، اس کے دکھ بانٹ لے گا ، اسےفضلو کے ظلم سے نجات دلائے گا ۔
مراد سکینہ کا اکلوتا بیٹا جس کے بڑے ہونے کے انتظار میں اس نے اپنی زندگی کے سنہرے سال گھٹا گھوپ اندھیروں میں گزار دیے ۔ گھر کے برے ماحول اورباپ کے نشے نے اسے ہر چیز سے بیزارکردیا تھا ۔ اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا ۔ پانچویں جماعت کے بعد اس نے سکول کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔ماں سارا سارا دن کوٹھیوں میں کام کرتی اوروہ گلیوں میں آوارہ پھرتا رہتا ۔ شام کو گھر آتا توماں باپ کا جھگڑا اورماں کو مار کھاتے دیکھنے کا وہ اس قدر عادی ہوچکا تھاکہ ماں کی چیخ و پکار اس پر کسی طرح بھی اثر انداز نہ ہوتی تھی ۔ وہ ان کو جھگڑتے دیکھ کر خاموشی سے گھر سے باہرنکل جاتا اورکسی آوارہ دوست کے ساتھ پتے کھیلنے لگتا ۔ آہستہ آہستہ وہ شراب اورجوئے کا بھی عادی ہوتا جا رہا تھا ۔
پھر بھی مائی سکینہ کو ایک آس تھی۔ میرا مراد میری زندگی کو با مراد کردے گا ۔
مراد کوبگڑتے دیکھ کر سکینہ کی فکر مندیوں میں اضافہ ہوگیا ۔پیلی کوٹھی والی بیگم صاحبہ سے کہہ کہلوا کرمراد کو بس کنڈیکٹر کی نوکری مل گئی تو سکینہ کو جیسے کچھ سکون سا آگیا ۔
ادھر جمیل بی اے کر کے کسی دفتر میں ملازم ہوچکا تھا مگراس کا روزانہ کا چکر مراد کے گھر ضرورلگتا ۔ وہ مراد کو اپنے بھائیوں کی طرح سمجھتا تھا ۔ وہ جب بھی مراد کی طرف آتا اسے سمجھاتا کہ اسے ماں کا سہارا بننا چاہیے ماں سے اب کوٹھیوں کے کام نہیں ہوتے۔مگرمراد تو اپنی تنخواہ گھر سے باہراللوں تللوں میں اڑا دیتا ۔
اگر کبھی جمیل کی موجود میں فضلو سکینہ پر ہاتھ اٹھاتا توجمیل اس کا ہاتھ روک دیتا اوراپنی جیب سے اس کی ضرورت پوری کرتا ۔ سکینہ مائی سوچتی کاش مراد ایسا کرتا تواس کا جی کتنا سکھی ہوجاتا مگروہ دن کب آئے گا ۔ ایسے میں جمیل کا سہارا اسے عمیق وادیوں سے نکال باہرکرتا ۔ کاش مراد کے سینے میں جمیل جیسا احساس کرنے والا دل ہوتا مگروہ توبے حس تھا،پورے کا پورا باپ پر گیا تھا۔ کوئی آس کوئی آہ اس کے دل کے کسی تار کو نہ چھوتی تھی ۔
اس کے برعکس جمیل کا توروپ ہی اورتھا ۔ مائی سکینہ سوچتی جمیل کس قدرہمدرد دل کا مالک ہے ۔ وہ ہر کسی کے لیے کچھ بھی کر نے کو تیار رہتا ہے چاہے اس کا اپنا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔
وہ مائی سکینہ کے سامنے بان کی بنی پیڑھی کھینچ کر بیٹھ جاتا اور مکئی کی روٹی اورساگ کی فرمائش کرتا تومائی سکینہ کی آنکھوں میں ڈھیروں پیارامڈ آتا ۔ وہ مائی سکینہ سے دنیا جہاں کی باتیں کرتا۔ اس کے دل کا حال سنتا جس سے اس کے دیمک زدہ جسم میں نئی روح اورتازگی بھر جاتی ۔
جمیل کومائی سکینہ کا وجود ایک ایسے درخت کی مانند دکھائی دیتا جس میں پیار کے پھول کھلتے تھے ، محبت کے پتے لہلہاتے تھے ، جس کی ٹھنڈی چھائوں میں اسے ممتا کی خوشبو میسر تھی ۔
یہ اس کی زندگی کا تیسرا موڑ تھا جب اس نے ایک بار پھر خواب بننے شروع کیے تھے ۔ یہ خواب تھوڑے تھوڑے کر کے ہر ماہ اس کے سب سے نچلے ٹرنک کی تہہ میں محفوظ ہو جاتے ۔ وہ اپنے مراد کواس ماحول سے بہت دوربھیج دینا چاہتی تھی جہاں وہ نشے کی لت سے محفوظ رہ سکے ۔ جمیل نے اسے بتایا تھا کہ اس کاایک دوست بیس ہزار میں لوگوں کو باہرکے ملک بھجواتا ہےاورنوکری بھی دلواتا ہے تو وہ بھی مراد کوباہربھیج دے ۔ وہ کئی سالوں سے پیسہ پیسہ جوڑ کرمرادکو باہربھجوانے کی تیاری کررہی تھی۔ اس کے لیے اس نے دو کوٹھیوں کا کام اورپکڑ لیا تھا ۔
’’جمیل تو کتنا ہمدرد ہے ! تیرے جیسے دوچار اور لوگ دنیا میں پیدا ہوجائیں تو یہ دنیا نہ بدل جائے‘‘ ۔ وہ جمیل سے پیار سے کہتی ۔
’’چاچی میرا بس نہیں چلتا میں کس طرح تیرے حالات بدل دوں ۔ مراد باہرچلا جائے گا توچاچے کا کسی بڑے ہسپتال میں علاج کروائیں گے‘‘ ۔ سکینہ مائی کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے امید کے دیے جگمگا نے لگتے ۔’’ مگر یہ کام بہت مشکل ہے‘‘ ،وہ نا امیدی سے کہتی ’’جوخودہی ٹھیک نہیں ہونا چاہتا اسے کون ٹھیک کرسکتا ہے‘‘۔
’’اللہ سے مایوس نہیں ہوا کرتے بس تو نماز پڑھ کردعا کیا کر‘‘ ۔ وہ یقین سے کہتا ۔
ایک روز جمیل شام ڈھلے آگیا ۔ فضلو کوٹھڑی میں نشے میں دھت لیٹا تھا ۔ مائی سکینہ باہر برآمدے میں مٹی کے تیل کے چولہے کی بتیاں ٹھیک کر رہی تھی ۔ جمیل کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا ۔
’’چاچی خوش ہو جا ‘‘، وہ جوش سے بولا۔
’’آہستہ بول‘‘ ، مائی سکینہ کی آواز جیسے حلق میں پھنس گئی ،’’ تیرا چاچا اندر ہے۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’چاچی تیرا خواب پورے ہونے کے دن آگئے ہیں۔ ایک ہفتے تک پیسے جمع کروانے ہیں پاسپورٹ اورویزے کے لیے۔ درخواست بھی دینی ہے۔ بس اب تو مراد کوبتا دے اورتیارکر‘‘۔
’’مگرپیسے توابھی پورے نہیں ہیں‘‘ ۔ مائی سکینہ کو اپنی آواز ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’کتنے کم ہیں؟‘‘ وہ تفکرسے بولا۔
’’یہی کوئی پانچ چھ ہزار کم ہے‘‘۔وہ آہستگی سے نظریں جھکا کر بولی۔
’’چل تو فکر نہ کر اللہ کچھ نہ بندو بست کرہی دے گا بس تو تیاری کر‘‘۔ جمیل نے اسے تسلی دی ’’اچھا اب میں چلتا ہوں کل صبح دس بجے آئوں گا اورخود مراد سے بات کروں گا ‘‘۔
اندر فضلوکھاٹ پرلیٹے لیٹے دونوں کی باتیں سن رہا تھا ۔’’ کہاں جانے کی تیاری ہے‘‘۔ وہ وہیں سے چیخ کر بولا ۔
’’تو دوبئی جائے گی ؟کس کے پاس جائے گی؟ بول ‘‘اور دھاڑتا ہوا کوٹھری سےباہر نکلا اورمائی سکینہ کوچوٹی سے پکڑ کر کھینچتا ہوا کوٹھری کے اندر لے آیا ۔
’’کہاں جا رہی ہے تو ؟‘‘ وہ اسے دھکا دیتے ہوئےبولا۔ ’’کہاں سے آئے ہیں تیرے پاس پیسے…. کہاں ہیں پیسے ؟ ‘‘وہ اس کے منہ پر طمانچے مارتا ہؤا بولا۔
’’تو کیا سمجھ رہا ہے ؟ ‘‘وہ حیران سی بولی ۔ ’’میں توکہیں نہیں جا رہی ‘‘۔
’’تو جھوٹ بولتی ہے۔اب مجھے معلوم ہوا کہ یہ جمیل یہاں کیوں آتا ہے۔ تو اس کے ساتھ بھاگ جانے کی تیاری کر رہی ہے ۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔ وہ ہذیانی انداز میں چلایا ۔’’ کہاں چھپائے ہیں پیسے بول …بول … ‘‘وہ اس کی گردن دبانے لگا ۔
’’تومیری بات تو سن فضلو ۔میری بات توسن‘‘ ۔ وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی ۔ آنسوئوں کی جھڑی اس کے گالوں پر بہہ نکلی تھی ۔ وہ فضلوکو کسی صورت بھی پیسوں کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی تھی ۔ وہ مراد کو ہرصورت اس گندے ماحول سے دوربھیج دینا چاہتی تھی ۔ اس کی زبان پرجیسے تالا سا لگ گیا ۔ مگرفضلو تو جیسے وحشی ہو گیا تھا ۔ اس نے پیسوں کی تلاش میں گھر بھر کو الٹ پلٹ دیا تھا۔ اب ٹرنکوں کی باری تھی ۔ وہ ٹرنکوں سے کپڑے نکال نکال کرباہرپھینک رہا تھا ۔ مائی سکینہ نے اسے ٹرنک کوکھولتے دیکھا تو بے اختیار اس کی طرف لپکی اور اسے روکنے کی کوشش کی مگرطوفان بھی کبھی رکا کرتے ہیں ۔وہ تو اپنے راستے میں آنے والی ہردیوار کو بہا کر لے جاتے ہیں۔
یہی حال مائی سکینہ کا ہوا ۔ فضلو نے اسے بے تحاشا مارا جب مارمار کرتھک گیا توایک کونے میں گرپڑا ۔ تب مائی سکینہ نے اسے غور سے دیکھا ۔ فضلوبےحد لاغر اوربیماردکھائی دے رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اندر دھنس گئی تھیں۔رنگ کسی یرقان زدہ مریض کا سا ہو رہا تھا۔ جسم کی ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ اس کی پنڈلیاں جوکبھی گوشت سے پرتھیں اب وہاں فقط ہڈیاں رہ گئی تھیں ۔تھوڑی دیر کوہمدردی کی ایک لہراس کے دل میں آئی اورجو نہی وہ اس کے قریب جانے کے لیے اٹھی درد کی ٹیسوں نے اس کا راستہ روک لیا ۔ وہی ہمدردی ایک دم نفرت میں تبدیل ہوگئی ۔ فضلوتھوڑی دیر سانس درست کرنے کے بعد پھراٹھ کھڑا ہوا مگرسکینہ میں اس لمحے نہ جانے کہاں سے طاقت بھرآئی تھی ۔ وہ فضلو کےسامنے دیوار بن کرکھڑی ہوگئی ۔ ’’پہلے میری بات سن لے‘‘ ، وہ سخت لہجے میں بولی۔
’’سن لی ہیں تیری ساری باتیں اب کیا سنائے گی چل ہٹ بے شرم … ‘‘فضلونے اسے دھکا دینا چاہا مگروہ سخت چٹان کی مانند کھڑی تھی جس سے ٹکرانے والے کو پاش پاش ہی ہونا تھا ۔ فضلو اپنے ہی زورمیں لڑ کھڑا کردیوارکے ساتھ جا لگا ۔ نقاہت کی وجہ سے سنبھل نہ سکا اورگرپڑا ۔ اتنا بڑا الزام سننے کے بعد مائی سکینہ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ فضلو کا پتہ کرتی کہ اسے کیا ہوا ہے۔وہ پتھر کی بے جان مورتی کی طرح صرف ایک ٹک لگائے رہی ۔
غصے کی شدت سے فضلو کے حواس جواب دے رہے تھے ۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا ۔ اس نے اٹھنے کی دوبارہ کوشش کی مگر بے دم ہوکرگرپڑا اورگالیاں بکنے لگا ۔
اتنے میں مراد گھر آگیا ۔ فضلو کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی ، آنکھیں اوپرکی طرف چڑھ رہی تھیں ، ٹانگوں میں حرکت کم ہو رہی تھی ۔فضلو کی یہ حالت دیکھ کر مراد بے طرح گھبراگیا ۔’’اماں کیا ہؤا ہےاسے؟‘‘ وہ زرد ہوتی ماں کودیکھ کربولا ۔
’’میں بتاتا ہوں ‘‘، فضلو سانس کھینچ کھینچ کربولا ’’یہ ہماری عزت خراب کرکے جمیل کے ساتھ دوبئی جا رہی ہے ۔ ٹرنک میں اس نے پیسے بھی جمع کررکھے ہیں ۔ بے شک تودیکھ لے‘‘ ۔ وہ مرتا مرتا اس پرالزام لگا کر الگے جہان کوچل دیا اوراس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی ۔
’’اماں ! یہ کیا کہہ رہاہے ؟ ‘‘مراد کو اس لمحے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ابا مرتے مرتے کیا کہہ گیا تھا ۔تھوڑی دیر کے بعد اس نے پلٹ کرماں کودیکھا جو کونے میں مجرموں کی طرح کھڑی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ۔’’ میں تجھے نہیں چھوڑں گا‘‘ وہ ماں کو مارنے کے لیے کوئی چیز تلاش کرنے لگا ۔ سکینہ توپہلے ہی ریزہ ریزہ ہوچکی تھی اس کی رہی سہی تمام امیدیں ایک پل میں دم توڑ گئیں ۔ ایک فضلو کے بعد اب دوسرا فضلو ۔ کیا اب اس کی باقی زندگی مراد سے ماریں کھاتے گزرے گی ؟ کیا یہ کہانی اب پھر دہرائی جائے گی ؟ میرا مراد مجھے مارے گا ۔جس کے لیے میں نے اتنے خواب جوڑ جوڑ کر ٹرنک میں بھر رکھے ہیں ۔
غم کی شدت نے مائی سکینہ کے جسم سے جیسے جان ہی نچوڑ لی تھی۔ اس نے کچھ بولنے کے لیے لب کھولے مگرہونٹ توجیسے خشک ہو کر آپس میں چپک گئے تھے ،زبان تالو کے ساتھ جا لگی تھی ۔ وہ مراد کو بتانا چاہتی تھی کہ یہ سب غلط فہمی ہے۔ اس نےبولنا چاہا مگردرد نے اسے بے حال کر دیا ۔ اس کی بائیں آنکھ کے نیچے ایک بڑا سا نیل بن گیا تھا ، اس کی کمر مسلسل جوتے کھانے کے باعث دوہری ہوئی جا رہی تھی ۔اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ تڑ چکی تھیں ۔ و ہ بےدم سی ہوکر اسی جگہ گرپڑی۔ آج اس کے جسم کے اعضا چیخ رہے تھے ، چلا رہے تھے ۔
ساتھ والے گھر کی اماں شاداں اپنی بہو سے کہہ رہی تھی آج مائی سکینہ کی پھر شامت آئی ہے۔پیسے توفضلولےہی جاتا ہے پھرمار کھانے سے پہلے ہی اسے کیوں نہیں دے دیتی ۔ یہ بھی اسی کا قصورتھا ۔ دنیا کی نظروں میں تو وہ قصوروارتھی ہی اپنوں کی نگاہوں میں بھی گناہ گار ٹھہرائی جا چکی تھی۔
میں گنہگار نہیں ہوں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا میں دنیا سے لڑوں گی میں مقابلہ کروں گی۔ اس کے اندر نہ جانے کہاں سے اتنی ہمت آگئی تھی۔ جیسے ہی مراد نے اسے مارنے کے لیے چھڑی اٹھائی ۔ اس نے مراد کے قدم روکنے کے لیے اپنی پوری قوت مجتمع کر کے اس کے پیٹ میں ٹانگ ماری ۔ مراد اس حملے کے لیے تیار نہ تھا ۔ وہ لڑ کھڑا یا اورپیچھے دیوار کے ساتھ جا لگا ۔ دیوار پرلگی کھونٹی سے اس کا سرٹکرایا اورخون کا ایک فوارہ بہہ نکلا، چھڑی اس کے ہاتھ سے گرپڑی ۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام کرزمین پرگرپڑا ۔ یہ سب اتنا آناً فاناً ہوا کہ وہ کچھ سمجھ نہ سکی۔
’’ مراد مراد ….‘‘وہ چلاتی ہوئی مراد کوتھامنے کے لیے آگے بڑھی ۔ ’’میں تو تجھے دوبئی بھیج رہی تھی مگر تیرا باپ میری بات سمجھ نہ سکا ۔ مراد تجھے کیا ہوگیا ہے ہوش کرہوش …. ‘‘وہ اسے ہلاتی ہوئی چلائی مگر چند ہی لمحوں میں نگاہوں کے سامنے فضلو اورمراد ڈھیر ہوچکے تھے ۔ اس کا جسم ساکت ہو گیا ، کمرے کی ہرچیز اسے اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگی ، وہ چھڑی ، کھونٹی ، دیوار اوردروازے ٹیڑھےمیڑھے ہو کرنیچے کو آنے لگے، گھر کی چھت جیسے جھومتی ہوئی اس پرآ گری اوروہ غش کھا کر ان بے جان جسموں پرگرپڑی۔
جب ہوش میں آئی تو نیم خشک سی سپیدی طلوع ہورہی تھی ۔ صبح ہونے کے قریب تھی ۔ وہ اسی طرح ٹیڑھی میڑھی سی لاشوں پر گری ہوئی تھی فضلو اور مراد کے چہروں پر مکھیاں ،بھنبھنا رہی تھیں۔ ان کی لاشیں اکڑ چکی تھیں ۔ اسے اپنا وجود بھی اکڑا ہوا محسوس ہوا مگراس کے وجود میں ابھی جان باقی تھی ۔ اسے اپنے رگوں میں خون کی بجائے خوف دوڑتا محسوس ہؤا۔ وہ دوبے جان لاشوں پر ایک زندہ لاش کی طرح پڑی تھی ۔
اس نے اپنی بہت سی قوت جمع کر کے ایک ٹانگ ہلائی اورپھردوسری ٹانگ کوحرکت دی ، دونوں ہاتھوں کوجنبش دی اور اپنی کہنیوں پرزوردے کر ہولے ہولے اٹھ کربیٹھ گئی ۔ یہ سب اسے ایک ڈرائونا خواب معلوم ہو رہا تھا جس کی تعبیربہت بھیانک تھی ۔
سارے گھر میں موت کی خامشی طاری تھی ۔ وہ اب کیا کرے۔ وہ ابھی پوری طرح ہوش میں نہیں آئی تھی۔ ٹھیک دس بجے جمیل مراد کوملنے آ گیا مگر وہاں تومراد کی بجائے مراد کی لاش تھی ۔چاچا فضلوبھی اب اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔ وہ مائی سکینہ کی طرف دیکھ کر چلایا جوسکتے کی حالت میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے لاشوں کودیکھ رہی تھی ۔ فرش پرخون جم چکا تھا۔’’یہ کیا ہوگیا چاچی ؟‘‘وہ مائی سکینہ کوجھنجھوڑتے ہوئے بولا۔
دو اکڑی لاشیں دیکھ کراس کےہاتھ پائوں ٹھنڈے پڑ گئے ۔ چاچی کی حالت دیکھ کراس کادل کٹ سا گیا ۔’’ چاچی یہ سب بھی تمھاری قسمت میں لکھا تھا ‘‘۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، کسی ہمدرد وجود کواپنے قریب پا کرچاچی کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ چاچی نے زور زورسے رونا شروع کردیا۔ وہ کبھی بین کرتی اپنے ہاتھوں کوملتی کبھی دوہتھڑ اپنے منہ پرمارتی کبھی سینہ کوبی کرتی ۔ جمیل یہ میں نے کیا کر دیا ۔ یہ میں نے کیا کردیا۔ وہ ایک ہی جملہ باربار دہرا تی جا تی’’ میں نے اپنی ساری عمر کی کمائی ایک ہی وارمیں لٹا دی ، میں خالی ہاتھ رہ گئی ‘‘۔اس نے بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھوں کودیکھا اورانہیں زور زورسے زمین پر مارنے لگی۔
کچھ دیر بعد جب جمیل کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے اٹھ کرمائی سکینہ کو پانی پلایا ، خود بھی پیا ۔ اسے پانی میں سے چاچا فضلواورمراد کے خون کی بو آ رہی تھی ، اس نے گھبرا کرپیالہ ایک طرف رکھ دیا۔
پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ یہاں سے فوراً بھاگ جائے ، ہو سکتا ہےپولیس اسے یہاں پا کر اسے بھی گرفتار کرلے ،مگر وہ چاچی کواکیلے چھوڑ کرکیسے چلا جاتا ۔ کیا اب پولیس مائی سکینہ کولے جائے گی ۔اس کی آدھی حیاتی گھر کی جیل میں ماریں کھاتے گزری اب باقی جیل میں گزارے گی ۔ اس بے چاری نے ساری عمر کیا دیکھا ، کیا سکھ پایا ۔ وہ سوکھی سڑی سی چاچی سکینہ کودیکھ رہا تھا جوایک ہی رات میں اپنی عمر سے دوگنی لگ رہی تھی ۔ اس کے گال پچک گئے تھے آنکھوں کی جگہ دو خول دکھائی دے رہے تھے ، رنگ روپ وقت نے چھین لیا تھا ۔ پھر جیسے جمیل نے یکدم فیصلہ کرلیا ، میں مائی سکینہ کو ضرور بچائوں گا ،مگر کیسے ؟اور پھر رات کی خاموشی میں گھر کے پچھلے صحن میں دو گڑھے کھود کر جمیل اورمائی سکینہ نے دونوں لاشوں کودفنا دیا۔ کسی کو کانوںکان خبر نہ ہو سکی اورجمیل اپنے گھر چلا آیا۔
مگرجرم کیسے چھپ سکتا ہے۔چند روز بعد جب فضلواورمراد کسی کو نظر نہ آئے توفضلو کے بھائی نے اس کی تلاش شروع کی۔ نہ ملنے پر پولیس میں رپٹ درج کروائی۔ پولیس نے مائی سکینہ کو گرفتارکرلیا اور چند روز بعد اس کے بیان پر جمیل کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور گھر کے صحن میں سے دونوں لاشیں بھی برآمد کرلی گئیں۔
ادھر جمیل جیل کی کوٹھڑی میں پڑا سوچ رہا تھا کہ مائی سکینہ کے ساتھ ایسا کیوں ہؤا ، مائی سکینہ کی تباہی کا ذمہ دار کون تھا اورساتھ ہی وہ بھی چاچی کو بچاتے ہوئےاس اندھیر نگری میں آ پڑا تھا ۔ اس ملک میں کتنی مائی سکینہ ہیں جوروز مرتی اورروز جیتی ہیں ۔ کاش چاچے کی نوکری نہ چھٹتی کاش وہ نشئی نہ بنتا اورنہ ہی مراد آوارہ ہوتا۔فیکٹری کے مالک نے نوکری سے جواب دیتے ہوئے یہ تو نہ سوچا ہوگا کہ اس غریب کے بیوی بچوں کا کیا بنے گا ۔ اس کے کتے توائیر کنڈیشنڈ کمروں میں امریکن بسکٹ کھا کر رات بسرکرلیں گے مگرآدم کا یہ بیٹا کہاں رات گزارے گا ، اس کی روٹی کا بندو بست کہاں سے ہو گا ۔ کاش میں کچھ کرسکتا۔ کیا ہمارے ملک میں بے روز گاروں کے لیے سوائے نشے کے اورکوئی سہارا نہیں ہے؟
میں چاچی کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ میں نے جوقدم اٹھایا وہ بھی غلط تھا۔مجھے قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا ۔ کیا میں قانون کی نظر میں بے گناہ ثابت ہو سکوں گا ۔لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔مگرمیں تومجرم نہیں ہوں میں نے تو ایک مظلوم کی مدد کی ہے ۔میں عدالت میں بالکل سچ بولوں گا ۔
ان شاء اللہ میں اورچاچی دونوں بری ہوجائیں گے ۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں مدغم کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا عہد کیا ۔ وہ اپنا مقدمہ خود لڑے گا۔ وہ جج صاحب کو بتا دے گا کہ سچائی کیا ہے۔وہ ایک مصمم ارادے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا ۔
ابھی وہ نہ جانے کتنی اور سوچوں میں گم تھا جب حوالدار نے اسے ٹھڈا مار کراٹھایا ’’اٹھ مائی سکینہ کے عاشق آج تیری پیشی ہے ‘‘۔
عاشق، عاشق،عاشق اس کی کنپٹیاں سلگنے لگیں حوالدار نے اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں میں نہ ٹوٹنے والی اندھے قانون کی زنجیر پہنا دی ۔ ایک بیٹے کوماں کا عاشق بنا دیا گیا تھا ، اب آگے اس کے ساتھ کیا ہوگا، وہ سوچ نہ سکا اور سرجھکائے حوالدارکے پیچھے پیچھے چل پڑا۔٭
٭ ٭