۲۰۲۳ بتول مارچتفسیر سورۃ الفاتحہ - بتول مارچ ۲۰۲۳

تفسیر سورۃ الفاتحہ – بتول مارچ ۲۰۲۳

فضائل سورۃ الفاتحہ
۱۔ اس سورت کے بہت سے نام ہیں فاتحۃُ الکتاب، امُّ الکتاب، سورۃ شفاء، سبع مثانی۔
۲۔ یہ سورت قرآن کریم کے مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے۔
۳۔ اس سورت میں وہ تمام مضامین جمع کیے گئے ہیں جو مضامین پورے قرآن میں ہیں مثلاً اللہ کی تعریف، صفات، عبادت، استعانت، ہدایت اور ہدایت یافتہ وگمراہ لوگوں کا انجام وغیرہ۔
۴۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورۃ فاتحہ کے مثل سورت کسی بھی آسمانی کتاب میں موجود نہیں بلکہ خود قرآن مجید میں بھی اس کے مثل سورت کوئی نہیں۔
۵۔ یہ سورت امت محمدیہ ؐکے لیے خاص تحفہ ہے۔
اس سورت کے مضامین دو حصوں پر مشتمل ہیں
۱۔ خدا شناسی ۲۔ خود شناسی
الحمدللہ سے مالک یوم الدین تک خدا شناسی کا تذکرہ ہے اور ایاک نعبد سے ولاالضالین تک خود شناسی کا تذکرہ ہے۔
ان دو مضامین کا مقصدیہ ہے کہ بندہ اپنے خدا کو بھی جان لے، اس کے مقام سے واقف ہوجائے، نیز اپنے آپ کو اور اپنی حیثیت اور پوزیشن کو بھی جان لے۔
الحمدللہ رب العالمین
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔
۱۔ اس آیت میں دو باتیں ہیں : ذات باری تعالیٰ یعنی ”اللہ“ صفت ِ باری تعالیٰ یعنی ”رب العالمین“۔
۲۔ الحمد للہ، یعنی دنیا میں اگر کوئی قابل تعریف ذات ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات ہے، اس کے علاوہ جو بھی ہے وہ کامل تعریف کے لائق نہیں بلکہ ان میں کوئی نہ کوئی معمولی یا زیادہ نقص اور کمی ضرور پائی جاتی ہے۔
۳۔ کائنات ساری کی ساری ”اللہ“ کی ہے یعنی کائنات کے کسی بھی کرشمے کی تعریف کی جائے تو گویا وہ اللہ رب العالمین کی تعریف ہوگی جیسے تعمیر کی تعریف کرنے سے معمار کی تعریف ہوجاتی ہے۔
۳۔ رب العالمین”رب“ کا معنی پالنے والا، پرورش کرنے والا، اول تا آخر دیکھ بھال کرنے والا۔ رب ایسی ذات کو کہتے ہیں جو ذرّے ذرّے سے لے کر چاند سورج ستارے تک سب کا خیال رکھنے والا ہو۔
۴۔ اللہ رب العالمین ہے العالمین یہ العالم کی جمع ہے۔ یعنی اللہ کی صفت وخوبی یہ ہے کہ وہ تمام عالم کا رب ہے۔ جس میں عالم جن وانس، عالم ملائکہ وغیرہ سب شامل ہیں۔
اَلرَّحمٰنِ الرَّحِیْم
جوکہ مہربان رحم کرنے والا ہے
۱۔ اس آیت میں ”اللہ“کی مزید دو صفات الرحمٰن اور الرحیم کا تذکرہ ہے۔
۲۔ الرحمٰن اس ذات کو کہتے ہیں جو مہربان ہو اور اس کی مہربانی ساری عالم پر ہو اس صفت کا تعلق دنیا سے ہے۔ یعنی کسی ایک تک یا کسی مخصوص خطے، مذہب یا قوم تک اس کی مہربانی نہ ہو بلکہ وہ عام طور پر ہر جگہ ہر ایک کے لیے مہربان ہو۔وہ ذات کہ جس کی مہربانی صرف پاکستان اور مسلمان پر نہیں پوری دنیا کے پورے انسان، مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی، بدھ مت یہاں تک کہ وہ لوگ جو ملحد ہوکر اس کے وجود ہی کے منکر ہیں وہ بھی اس کی مہربانیوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
۳۔ الرحیم وہ ذات کہ جس کی مہربانیاں خاص ہوں اس صفت کا

تعلق آخرت سے ہے۔ آخرت میں اس کی مہربانیاں خاص طور پر صرف ایمان والوں کے لیے ہوں گی کافر اس کی مہربانیوں سے محروم ہوں گے۔
مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن
بدلے کے دن کا مالک ہے
اس آیت میں خدا شناسی کے تناظر میں چوتھی صفت کا ذکر فرمایا کہ وہ اللہ ”مالک یوم الدین“ یعنی روزِ جزا کا مالک ہے۔
۱۔ اس کا مالک ہونا فقط دنیا کی اس عارضی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد یوم الدین یعنی قیامت کے دن کا بھی مالک ہے۔
۲۔ چونکہ دنیا دارالعمل ہے اور انسان نفسیاتی طور پر اس بات کا خواہشمند ہے کہ اس کے اچھے اعمال کا کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ اور مظلوم اس بات کے خواہشمند ہیں کہ دنیا میں نہ سہی آخرت میں تو ہمارے مظلومیت کا بدلہ ہمیں مل جائے گا۔ان تمام امور کو دیکھتے ہوئے اللہ جوکہ مالک یوم الدین ہے اس نے ایک ایسا دن طے کر رکھا ہے جو ہر ایک کے عمل کا بدلہ دے گا: ’’جو ذرّہ برابر نیکی کرے گا اس کا بھی بدلہ اسے مل جائے گا اور جو ذرّہ برابر برائی کرے گا اس کا بھی بدلہ اسے مل جائے گا‘‘۔ (سورۃ الزلزال)
۳۔ اس روز اللہ کے مالک یوم الدین ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس دن ایک ایسی عظیم ذات مالک ہوگی جوکہ برابر انصاف کا معاملہ کرے گی اور بدلہ دینے میں کسی کا بھی کوئی ادنیٰ حق بھی متاثر نہیں ہوگا۔
۴۔ اس آیت سے یوم الدین کا تصور بھی واضح ہوگیا کہ معاملہ صرف اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ ایک عظیم دن آنے والا ہے جو جزا سزا کا دن ہوگا۔
۵۔ دنیا میں جس قدر بھلائی، انصاف، نیکی اور جرائم کی روک تھام تصور آخرت کے ذریعے ممکن ہے کسی ایک قانون کے ذریعے بھی ممکن نہیں مثلاً قانون کے لحاظ سے دنیا کے منظم ترین ممالک اپنے ہاں جرائم کا سو فیصد خاتمہ نہیں کرسکتے جبکہ مدنی ریاست ہمارے سامنے ایسی مثالیں پیش کرتی ہے جہاں مجرم خود اپنے آپ کو سزا کے لیے پیش کرتا ہے۔اس فرق کی وجہ سے مادّی طاقت کا سارا زور قانون سازی پر ہوتا ہے جبکہ نظام خلافت میں قانون کی ترتیب وتنظیم کے علاوہ بہت سا زور اس محنت پر خرچ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر آخرت کی فکر اور مالک یوم الدین کے سامنے جوابدہی کا احساس بیدار ہو۔
مذکورہ بالا آیات میں خدا شناسی کا مضمون مکمل ہؤا۔بندہ اپنے خدا کو جان گیا کہ وہ ایسا خدا ہے کہ جس کا نام ”اللہ“ ہے اور اس کی صفات یہ ہیں کہ وہ ”رب العالمین“، ”رحمٰن“، ”رحیم“ اور”مالک یوم الدین“ ہے۔
اِیّاکَ نعْبُدُ وَاِیّاکَ نَسْتَعِیْن
ہم آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
ان آیات سے خود شناسی کا سلسلہ شروع ہورہا ہے یعنی بندہ اپنے بارے میں جان رہا ہے کہ وہ کیا ہے۔
جب اتنے عظیم الشان ”اللہ“ کا تعارف سامنے آگیا تو مزید اس بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ بندہ سرکشی اختیار کرے بلکہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بندگی اور محتاجی کا اظہار کرکے اپنی حیثیت اور اللہ کے عالی مقام کا اعتراف کرے۔
اس آیت میں بندہ دو امور کا بھرپور اعتراف کررہا ہے۔ بندگی اور اللہ سے مدد مانگنا۔
۱۔ بندہ اقرار کرتا ہے کہ میں آپ ہی کا بندہ ہوں اور رہوں گا اور نعبد جمع متکلم کا صیغہ ذکر فرمایا جسکا مصدر ”عبد“ ہے اور عبد عربی زبان میں غلام کو کہتے ہیں۔ غلام کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی مخصوص مقام، مدت یا اوقات کا پابند نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے تمام اوقات تمام مقامات میں وہ اپنے آقا یعنی اللہ کا عبد اور غلام ہوتا ہے۔
۲۔ اس آیت میں عبادت کا بھی تذکرہ ہے جوکہ بندگی کا اہم تقاضا ہے اللہ رب العزت فرماتے ہیں”:اے لوگو عبادت کرو اپنے اس رب کی جس نے تمھیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(بقرہ)
۳۔ بندہ کا یہ تعلق صرف مسجد یا نماز تک محدود نہیں بلکہ مسجد، مدرسہ، گھر، گلی، بازار، عدالت، پارلیمنٹ سب ہی جگہ اور غمی، خوشی کے ہر موقع پر اس کی بندگی کے تقاضے کو مدنظر رکھے۔
۴۔ علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ

قرآن مجید ہے اور پورے قرآن مجید کا خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے اور پوری سورۃ فاتحہ کا خلاصہ اس کی ایک آیت ”ایاک نعبدوایاک نستعین“ ہے۔
۵۔ آیت کے دوسرے حصے میں بندہ اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ میں آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں اور مانگتا رہوں گا۔ یعنی مدد مانگنا جو ہر انسان کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے اور شاید ہی کوئی انسان ہو جو کسی نہ کسی وقت لوگوں سے کچھ نہ کچھ مانگنے یا لینے کی احتیاج نہ رکھتا ہو۔
۶۔ بندہ اعتراف کررہا ہے کہ میں،میری مدد، ضرورت، محتاجی، امنگ، امید، توقع اور آس یاس تمام کا مرکز آپ ہی ہیں اور رہیں گے۔
۷۔ میرے لیے رازق، مالک، خالق، رب اللہ آپ ہی ہیں اور آپ ہی رہیں گے۔
۸۔ اس میں اللہ پاک اپنے بندے کو دعا کرنا سکھارہے ہیں جوکہ مخ العبادۃ یعنی عبادت کا مغز ہے۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم
اے اللہ مجھے سیدھے رستے کی ہدایت نصیب فرما۔
۱۔ اس آیت میں اللہ بندے کی ضرورت کو جانتے ہوئے اسے دعا سکھارہے ہیں اور دعا میں کیاکہنا چاہئے وہ بھی سکھارہے ہیں۔
۲۔ بندہ دعا کررہا ہے کہ اے اللہ مجھے ہدایت نصیب فرما۔ علماء فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ جوکہ قرآن کی پہلی سورت ہے اس میں اللہ رب العزت ہدایت کی دعا سکھارہے ہیں اور سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرۃ سے سورۃ الناس تک پورا قرآن دعائے ہدایت کی قبولیت کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ تمھیں ہدایت چاہیے یہ لو پورا قرآن جوکہ تمھارے لیے ہدایت کا مکمل کورس ہے۔
۳۔ انسان دو چیزوں کا مجموعہ ہے جسم اور روح جسم کے لیے خوراک، ہوا، اور پانی ضروری ہیں اور روح کے لیے ہدایت کا مل جانا ضروری ہے اگر ہدایت نہ ہو تو انسان کا مادّی وجود پرورش پالیتا ہے لیکن اس کے ساتھ جو روح موجود ہے وہ پریشان اور مضطرب رہتی ہے۔
۴۔ اللہ نے جس طرح انسان کی مادّ ی ضروریات کے لیے اس دنیا کو اپنی نعمتوں سے بھردیا ہے اسی طرح اس کی روحانی ضرورت یعنی ہدایت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 1لاکھ 24ہزار انبیاء مبعوث فرمائے ۔
۵۔ معلوم ہؤا کہ ہدایت کامل جانا بہت اہم اور بہت ضروری ہے بلکہ بعض اوقات مادّی ضروریات سے بھی کئی گنا زیادہ ضروری ہے۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ
ان لوگوں کے راستے کی ہدایت دے جن پر تو نے انعام فرمایا ہے۔
۱۔ اس آیت میں صراط مستقیم کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ صراط مستقیم کیا ہے اور کون سار استہ ہے۔ اللہ رب العزت بندے کو سکھارے ہیں کہ صراط مستقیم کوئی مشکل معاملہ نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ نے انعام یافتہ ہونے کی مہر لگائی ہے۔
۲۔ انعام یافتہ کون لوگ ہیں؟ اس سوال کا جواب قرآن کریم نے ایک اور جگہ یوں دیا ہے کہ :’’انعام یافتہ لوگ وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں جوکہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں‘‘۔(نساء)
یہاں یہ دعا مانگی جارہی ہے کہ یا اللہ ہمیں بھی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین(نیک لوگوں) کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
۳۔ معلوم ہؤا کہ ہدایت کا راستہ صرف کتابیں پڑھنے تک محدود نہیں بلکہ ان لوگوں جیسا بننا (جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ پر عمل پیرا ہیں) بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم کے نزول کے ساتھ ساتھ اپنے حبیب محمد مصطفی ؐعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کے لیے ان کی زندگی کا عملی مشاہدہ کرکے قرآن پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجائے۔
۴۔ اس کو علمائے کرام یوں بیان فرماتے ہیں کہ ”کتاب اللہ اور رجال اللہ دونوں ضروری ہیں“۔
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّین آمین
نہ کہ ان لوگوں کے رستے پر جن پر تیرا غضب ہؤا، نہ ہی گمراہوں کے رستے پر۔
۱۔ اس آیت میں ایک استثنا ذکر کیا گیا ہے کہ مجھے انعام یافتہ لوگوں میں شامل فرما لیکن ان لوگوں سے میری خاص طور پر حفاظت فرما جوکہ مردود ہیں اور بھٹکے ہوئے ہیں۔ یعنی اس بات کا ڈر ہے کہ ایسے لوگوں

کا فتنہ مجھے کہیں ہدایت سے محروم نہ کرے اسی لیے اس قسم کے لوگوں سے حفاظت کی بھی دعا بھی فرمادی۔
۲۔مغضوب سے مراد وہ لوگ جن کو راہ ہدایت کا علم ہو لیکن اپنی ہٹ دھرمی اور سرکشی کے سبب وہ اس راستے کا انکار کردیں جیسے قرآن مجید میں گزری ہوئی قوموں کا تذکرہ ہے بطور خاص قوم یہودکا۔
۳۔ ضالّین سے مراد وہ لوگ جن کو درست راستے کا علم ہی نہ ہو اور اپنی جہالت کے سبب گمراہی کے دلدل میں دھنستے جارہے ہوں۔
۴۔ معلوم ہؤا کہ دین کا علم حاصل نہ کرنا ایک وبال ہے اور علم حاصل کرنے کے بعد بھی اسی بد تر روش پر قائم رہنا یہ غضب الٰہی کو دعوت دینے والی بات ہے۔
٭ ٭ ٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here