بتول دسمبر ۲۰۲۰تحریک پاکستان ، بنگال کے تناظر میں ...

تحریک پاکستان ، بنگال کے تناظر میں – بتول دسمبر ۲۰۲۰

یہ مضمون جناب ابو الحسن کی تازہ شائع شدہ کتاب’’ سقوط ڈھاکہ کی حقیقت‘‘(اکتوبر 2020) سے لیا گیا ہے ۔ انہوں نے چشم دیدہ گواہ کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے لیے وہ آغاز میں برصغیر میں برطانوی راج ، تحریک پاکستان اور مابعد حالات کا پس منظر بیان کرتے ہیں تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں مدد ملے ۔ یہ مضمون اسی حصے میں سے منتخب کیا گیا ہے (ص۔۱)

کانگریس پورے ہندوستان پرحکمرانی کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف Quitانڈیا مہم شروع کی اور یہ مہم تحریک میں بدل گئی ، جو پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔26جنوری1930ء کو یوم آزادی ڈکلیئر کیا گیا ، ان کا ہدف یہ تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ جائیں اور ملک ان کے حوالے کردیں کیوں کہ وہ ہندوستان میں اکثریت میں ہیں ۔ مسلم لیگ اس تحریک کے اہداف کو سمجھ گئی تھی کہ اس تحریک کی کامیابی کی صورت میں مسلمان انگریزوں کی غلامی سے ہندوئوں کی غلامی میں آجائیں گے۔
لہٰذا مسلمان رہنمائوں نے ہندوئوں کی اس تحریک کی شدید مخالفت کی اور بمبئی میں ایک کنونشن منعقد کیا ۔ اس کنونشن میں مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانوں کو ہندوئوں کی اس چال سے آگاہ کیا اور انہیں اس سے دور رہنے کی نصیحت کی ۔ مولانا محمد علی جوہر نے برطانیہ کے وزیر اعظم کو ایک خط کے ذریعے نہرو کے ہندو راج کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ برصغیر کے مسلمان پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت اور مزاحمت کریں گے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو ہندوئوں کے مختلف واقعات اور فیصلوں سے یہ اندازہ ہو گیا کہ کانگریس صرف ایک ہندو تنظیم ہے جو صرف ہندوئوں کی بھلائی کا سوچتی ہے ۔لہٰذا انہوں نے فوری طور پر کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی۔
صورت حال کو بھانپتے ہوئے اس کا کوئی حل نکالنے کے لیے انگریز نے گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا ۔ ہندو رہنمائوں نے مسلمانوں کے ساتھ اس کانفرنس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ برصغیر میں اکثریت ہونے کی وجہ سے نمائندگی اورحکومت کا حق صرف انہی کو ہے۔1916ء میں قائد اعظم، اے کے فضل الحق اور برصغیر میں دوسرے مسلمان قائدین کی کوششوںکے نتیجے میں لکھنؤ میں کانگریس کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہؤا لیکن کانگریس اورہندوئوں نے اس کی بھی پاسداری نہ کی۔ ہندو اپنے آپ کو تنہا ہندوستان کا مالک اور وارث سمجھنے لگے ۔ مسلمانوں کے خلاف وعدہ خلافی اور ظلم و بربریت کے واقعات بڑھنے لگے ۔ بالآخر قائد اعظم نے یہ تسلیم کیا کہ علامہ اقبال کا خواب ہی صحیح سمت ہے او ریہ شرمندہ تعبیر مسلم لیگ کی قیادت میں مسلمانوں کی کوششوں سے ہی ہو سکتا ہے۔
1933ء میں کیمبرج ( انگلینڈ) میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی جنوری 1937ء کو اس تنظیم کے اپنے شائع کیے گئے ایک کتابچے میں پہلی دفعہ لفظ پاکستان کا استعمال ہؤا۔ اس کتابچہ کے سائن کرنے والوں میں چوہدری رحمت علی ، محمد اسلم خان ، شیخ محمد صادق اور عنایت اللہ صاحب اور دیگر رہنماشامل تھے۔ مسلمانوں کے لاہور کنونشن سے پہلے جناب سہروردی نے اے کے فضل الحق کو مسلم لیگ میں شامل ہونے کی دعوت دی ،جسے انہوں نے قبول کرلیا ۔ لاہور کے اس کنونشن میں جو مارچ 1940ء میں منعقد ہؤا بنگال سے سہر وردی ، اے کے فضل الحق ، ابو لہیثم ، مولانا اکرم خان اصفہانی ، خواجہ حبیب اللہ ، خواجہ شہاب الدین ، خواجہ ناظم الدین ، فضل الرحمن اورمولانا بھاشانی شامل تھے۔
کانفرنس کے دوسرے دن کے اجلاس میں جو 23مارچ 1940ء میں لاہور میں منعقد ہؤا تھا بنگال کے چیف منسٹر جناب اے کے فضل الحق کو دعوت دی گئی کہ اس میں قرار داد پاکستان پیش کریں چنانچہ یہ تاریخی قرارداد انہوں نے پیش کی ۔24مارچ1940ء کو جب یہ خبر عام ہوئی کہ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا ہے ، تو برصغیر میں تمام مسلمانوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ ہندوئوں نے اس مطالبے کو مسلمانوں کا ایک خواب قرار دیا ۔ اس مطالبے سے مسلمانوں کی سوچ کی سمت بدل گئی اور اب ان کی آنکھوں میں مسلمانوں کا ایک الگ وطن سما گیا۔ ہندو میڈیا اور اخبارات مسلمانوں کے خلاف نازیبا الفاظ اور اشتعال انگیز رویہ استعمال کرنے لگے۔
اُدھر بنگال کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی کہ ان کے رہنما اے کے فضل الحق نے الگ ملک کی قرار داد پیش کی ہے ۔ بنگال کی گلیوں میں شہر شہر محلہ محلہ میں ’ لڑ کے لیں گے پاکستان ، مر کے لیں گے پاکستان ‘‘ کا نعرہ گونجنے لگا ۔ مسلمان انگریز اور ہندو دونوں سے آزادی چاہتے تھے ۔ اب وہ اسی علیحدہ وطن کے مطالبے کے متوالے ہوگئے اور ان میں ایک خوشی اور عزم کی لہر دوڑ گئی ، لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے کالجوں اور جامعات میں جہاں بھی ممکن ہو سکا ہندو نوجوانوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو زخمی کیا۔
1945ء میں انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوئوں کی مقبولیت کا اندازہ کرنے کے لیے مئی 1945ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کروائے ۔ مسلم لیگ نے پاکستان بنانے کے ایک ایجنڈا پرانتخابات میں حصہ لیا اور بنگال اور آسام میں تقریباً تمام سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ الیکشن جیتنے کے بعد جناب سہر وردی نے1946ء میں وزیر اعلیٰ کے فرائض سنبھالے ۔
23دسمبر1946ء میں برٹش پرائم منسٹر نے اعلان کیا کہ جون 1948ء سے پہلے وہ بھارت کو آزادی دے دیں گے ۔ بنگال کی تاریخ میں یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے 1905ء میں وہی ہندو جنہوں نے تقسیم بنگال کے بعد پورے ہندو ستان کو سر پر اٹھایا ہؤا تھا ، ہر جگہ مسلمانوں پر حملے کرتے تھے اور دہشت گردی کا بازار گرام کر رکھا تھا ، زبردستی تقسیم بنگال کو ختم کروانے والے انہی ہندوئوں نے اب تقسیم بنگال کا مطالبہ کر دیا تھا۔
1947ء میں ہندوئوںنے بنگال کو تقسیم کرانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ برٹش حکومت سے ملاقاتیں کیں جلسے کیے جلوس نکالے وہ چاہتے تھے کہ صرف بنگال ہی نہیں پنجاب بھی دو حصوں میں تقسیم ہو۔ اس کے برعکس مسلمان رہنمائوں کا مطالبہ تھا کہ پنجاب اور بنگال جو مسلم اکثریت والے علاقے ہیں ، انہیں اکٹھا رہنا چاہیے ، انہیں قانوناً، اخلاقاً اور فطری طور پر بھی حالات کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔مگر بٹوارے کے وقت ہمیشہ کی طرح انگریز ن ہندوئوں کا ساتھ دیا۔ ہندوئوں کو ہر قسم کی مدد فراہم کی ۔ انگریز اور ہندو دلائل کی بنیاد پر قائد اعظم اور دوسرے مسلم رہنمائوں کا سامنا نہیں کر سکتے تھے ۔ قائد اعظم کواندیشہ تھا کہ تقسیم اگر منصفانہ ہوئی تو لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت کا خدشہ ہے ۔ لہٰذا قائد اعظم نے دلائل کے ذریعے انگریزوں کو قائل بھی کرلیا تھا ۔ مگر عملاً انہوں نے ہندوئوں ہی کا ساتھ دیا ۔ایک ایسا وقت بھی آیا جب مسلمان رہنما کسی پربھروسہ نہیں کر سکتے تھے ۔ انگریز اور ہندو دو نو ں نے مسلمانوں سے مذاکرات میں جو وعدے کیے سب میں دھوکا دیا ۔ کانگریس رہنما سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی نسل کشی پر آمادہ تھے اور فسادات کو ہوا دے رہے تھے ۔ قائد اعظم اور مسلم رہنما ہر جگہ دورے کر کے مسلمانوں کو امن کی تلقین کرتے رہے ۔ ہندو چاہتے تھے کہ ہندوستان میں فساد اور خانہ جنگی کی یہ صورت ہو کہ انگریز ہندوستان کو ان کے سپرد کر کے چلے جائیں ۔ لیکن قائد اعظم کی قیادت میں مسلم رہنمائوں نے ہندوئوں کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔
بنگال میں اس وقت سہر وردی چیف منسٹر کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ ہندوئوں نے ان کے خلاف ہر قسم کا پراپیگنڈا کیا اور لڑائی کی پوری کوشش کی لیکن جناب سہر وردی اور سپیکر جناب نور العین نے بہت حکمت اور بہادری کے ساتھ اس سازش کو ناکام بنا دیا ۔ جناب سہر وردی نے اس بات کا شکوہ کیا کہ ہندو بغیر کسی وجہ کے چھوٹی چھوٹی بات پر لڑنے پر تلے ہوئے تھے ۔ مسلمان رہنمائوں نے تقسیم بنگال اور تقسیم پنجاب کی مخالفت جاری رکھی اور انگریز کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے ۔ جناب خواجہ ناظم الدین نے 22اپریل1947ء کو تقسیم بنگال اور تقسیم پنجاب کے خلاف ایک زور دار بیان دیا ۔ اپریل کے تیسرے ہفتے میں جناب سہر وردی دلی تشریف لائے اور محمد علی جناح سے خود ملاقات کی ۔ وہ شدید علالت کے باعث بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے ۔ مگر پاکستان ( جو ابھی بننے جا رہا تھا ) کے لیے بہت پریشان تھے ۔ بیماری کے باوجود وہ دن رات پاکستا ن کے لیے کام کر رہے تھے ۔ انہیں شاید اندازہ تھا کہ ان کا یہ آخری وقت ہے ۔ اس کے باوجود وہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف ڈٹے رہے ۔ قائد اعظم نے جناب سہر وردی کو دلی میں پریس کانفرنس کا حکم دیا ۔ سہر وردی نے27اپریل1947ء کو دلی میں پریس کانفرنس میں تقسیم کی بھرپور مخالفت کی ۔ ایک طرف بنگال اور پنجاب کو تقسیم کرنے اور نہ کرنے کے حق میں لڑائی اپنے زوروں پر تھی ہندوئوں نے لسانی فسادات کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔
قائد اعظم اور مسلم رہنمائوں نے ان حالات کی سختی سے مذمت کی اور برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ حالات کو معمول پر لانے کے لیے صحیح اقدامات اور فیصلے کرے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم اکثریتی علاقے پنجاب، سرحد ، سندھ ، بلوچستان ، آسام اور بنگال کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں ایک ملک بنانے کا مطالبہ کیا ۔ انہوںنے مطالبہ کیا کہ جس بنیاد پر پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا جا رہا ہے اسی بنیاد پر ہندوستان کے باقی علاقوں کو بھی تقسیم کیا جائے ۔
ابھی یہ کشمکش جاری تھی کہ ہندوئوں نے مسلم کش فسادات شروع کر دیے ۔ اس خانہ جنگی نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ ہندوئوںنے بہت منظم طریقے سے مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام شروع کر دیا ۔ جناب سہروردی نے فسادات کو روکنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ ہر طرف آگ تھی خون ہی خون تھا ۔ مسلمان بھی مر رہے تھے اور ہندو بھی انہی حالات میں ایک منصوبے کے تحت لارڈ مائونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ اگست تک بھارت کو آزادی مل جائے گی ۔ جناح صاحب کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ یہ سب ہندو کانگریس کی مرضی کے مطابق ہو رہا ہے ۔ اس صورت حال کا جائزہ لینے اور اس کا مقابلہ کر نے کے لیے قائد اعظم نے 9جون 1947ء میں مسلم لیگ کی کانفرنس بلائی۔ یہ کانفرنس دلی کے امپیریل ہوٹل میں ہوئی ۔ کانفرنس شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ہی مسلم رہنما خواجہ ناظم الدین ، اکرم خان ، سہر وردی ، ابو الہیثم ، شہاب الدین ، فضل الرحمن سمیت بہت سے رہنما دہلی پہنچ گئے تھے ۔ اس کانفرنس میں بنگال سے 60سے زیادہ مسلمان رہنمائوں نے شرکت کی ۔
کانفرنس کا ماحول شدید جذباتی تھا کیوں کہ باہر حالات بہت کشیدہ تھے ۔ مسلمان رہنما اس وقت بہت گھمبیر صورت حال میں تھے ۔ کوئی فیصلہ کرنا ان کے لیے سخت دشوار ہو چکا تھا ۔ قائد اعظم ہندوئوں کی چال کو سمجھ گئے تھے ۔ کانفرنس میں انہوں نے لوگوں کے سامنے حالات کا تجزیہ پیش کیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ وہ اپنی زندگی میں پاکستان بنتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے رو پڑے ۔
بہرحال اس کا نفرنس نے ایک قرارداد منظور کی کہ مسلم لیگ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے حق میں نہیں ہے ۔ اس قسم کی کسی تقسیم کو وہ سپورٹ نہیں کرتے ۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو انگریز سرکار کی اس تقسیم کے بارے میں غور کرنا ہوگا آزادی کے اس طرح کے فیصلے میں مسلمانوں کا نقصان تو ہے کیوں کہ بنگال اور پنجاب کے ان علاقوں کی تقسیم کیا جائے گا،جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ انگریز نے ہندوئوں کی ہر بات مانتے ہوئے کلکتہ کو بھی بنگال سے نکال کر ہندوستان میں شامل کر دیا ۔ یہ ایک بہت بڑا ظلم انگریز سرکار کی طرف سے کیا گیا ۔ پٹ سن جو ڈھاکہ کی اہم اور بنیادی پیدوار تھی اس کا علاقہ ڈھاکہ ہی تھا ۔ مگر ڈھاکہ میں پٹ سن کی کوئی صنعت نہیں تھی ۔200سے زیادہ صنعتیں جوٹ کی کلکتہ میں تھیں ، اس پوری انڈسٹریل بیلٹ کو بنگال سے نکال کر ہندوستان میں شامل کر دیا گیا ۔ اس طرح بنگال جو مشرقی پاکستان بنا ، اس میں کوئی صنعت نہ تھی۔
برطانیہ کی حکومت وعدے کے مطابق ہندوستان کو چھوڑ کر تو چلی گئی مگر سب فیصلوں میں وہ ہندوئوں کا ساتھ دے کر مسلمانوں سے وعدہ خلافی کر کے ایسی تقسیم کر گئی جو مسلمانوں کی مرضی کے بالکل خلاف تھی ۔ پاکستان وجود میں لانے کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد اور قربانیوں کی لازوال داستان ہے ۔ پنجاب میں سکھوں کے مظالم اور بنگال میں ہندوئوں کے ظلم تاریخ کی کتابوں میں انمنٹ داستان کے طور پر تحریر ہیں۔1947ء میں پاکستان بنا اور 1971میں ٹوٹ گیا ، یہ سب ہندوئوں کی اسی سازش کا نتیجہ ہے جو شروع سے ہندو بنیے نے انگریز سرکار کے ساتھ مل کر کی ۔ دشمن ہوشیار تھا اور تیای کے ساتھ تھا اور مسلمان غفلت میں۔ اس طرح دشمن نے اپنی ضدپوری کی اور پاکستان کو دو لخت کر دیا ۔
یہ اس حال میں ہؤاکہ پاکستان کے دونوں صوبوں میں عوام کی اکثریت متحدہ پاکستان کے حق میں تھی۔ پاکستان کے سیاسی رہنما ، سول انتظامیہ اور دونوں صوبوں کے انتظامی امور کے نگران عوام کے ہمدرد بنتے دکھ درد کے ساتھی بنتے حاکم بننے کی بجائے ان کے ہم سفر بنتے ، تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی ۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جنرل اعظم خان ، جب مشرقی پاکستان میں گورنر جنرل کی ذمہ داری پر فائز ہوئے تو انہوں نے وہاں کی عوام سے یکجہتی اور محبت کا اظہار کیا ، ان کے دکھ درد میں شامل ہوئے ، ان کے مسائل کو سمجھنے اورحل کرنے کی کوشش کی تو وہاں کی عوام کی طرف سے انہیں بے تحاشا پذیرائی ملی ۔ لوگ آج بھی ان کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں ۔ اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان کو وہاں کی عوام ان کی حکمت و بصیرت کی بنا پر اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہے ۔ انسانی اقدار کے پاسداروں کو ہمیشہ عقیدت کی نگاہ سے ہی دیکھا گیا ہے۔ مگر یہ عظمت نصیبے والوں ہی کو ملتی ہے۔
190سال تک ہندو انگریز گٹھ جوڑ کی زنجیر میںجکڑے ہوئے مسلمان 24سال بعد ہی اپنی آزادی کو اپنے ہاتھوں سے کیسے کھو سکتے ہیں، ابھی تو وہ لوگ ان میں زندہ تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا اس پاکستان کی خاطر لٹے ، کٹے ، اپنا سب کچھ لٹا دیا ، بنگالی مسلمان جنہوں نے ایک لمبا عرصہ غلامی میں گزارا اور انتہائی تکالیف اور ظلم و بربریت کا سامنا کیا ، جن کے بچے بھوکے مرے ، یورپ اور امریکہ کے بازاروں میں بکتے رہے ۔ جن کے خاندان کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں کلکتہ کے شہر میں شہید ہوئے ۔ مشرقی پاکستان کے بزرگوں نے یہ سب ظلم و بربریت اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ کلکتہ میں جس طرح ہندو بلوائی نہتے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے تھے اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا تھا ، ان کو معلوم تھا ۔ ان بزرگوں کی آنکھیں دشمن کی بربریت کا ذکر کرتے سنت آج بھی نم ہو جاتی ہیں ۔ یہ بزرگ قائد اعظم کا نام نہیں لیتے تھے اور صرف قائد اعظم نہیں کہتے تھے بلکہ حضرت قائد اعظم کہتے تھے ۔ یہ بزرگ قائد اعظم اور علامہ اقبال کو مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھتے تھے ۔ وہ پاکستان کے لیے جینا مرنا اپنا فرض گردانتے تھے ۔ وہ آزاد پاکستان میں ہی سانس لینا چاہتے تھے ۔ انہیں کبھی بھی ہندوئوں کی غلامی قبول نہیں تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہوںاوردوبارہ ہندوئوں کا غلام بننا پسند کریں۔ اسلام آباد سے ناطہ توڑ کر دہلی سے ناطہ جوڑ لیں ۔ یہ پاکستان کے حکمرانوں کا خواب غفلت میں رہنے کا نتیجہ ہے ان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حقوق سے بھی محروم کر دینے کا نتیجہ ہے جس کا فائدہ دشمن نے اٹھا یا ۔ یہ لوگ کیسے دوبارہ ہندوئوں کی غلامی قبول کر سکتے تھے ۔ ابھی تو 65کی جنگ گزرے چند سال ہی ہوئے تھے جس میں انڈیاکو شکست دینے میں بنگالیوں نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ ہندوستان نے اس مختصر عرصے میں ایسا کیا گل کھلایا جس کے نتیجے میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کا تذکرہ ہم آگے چل کر کریں گے میرا مقصدریکارڈ کی درستی ہے اور قارئین کو صحیح معلومات بہم پہنچانا ہے۔
قیام پاکستان
14اگست 1947ء کو پاکستان آزاد ہؤا بہت خون بہا تب جا کر یہ خطہ دنیا کے نقشے پر ابھرا ۔ تیتو میر کی شہادت، نواب سراج الدولہ کی شہادت ، فقیر معجون شاہ شمشیر کی شہادت ، جہادی تحریک اور فرائضی تحریک کے بے شمار شہید ، 1857ء کی جنگ آزادی کے متوالے جو ہزاروں کی تعداد میں برصغیر میں مسلمانوں کی آزادی پر قربان ہوئے یہ سب قربانیاں اس پاکستان کے بننے کی بنیاد قرار پائیں ۔14اگست کا دن تھا خواجہ ناظم الدین نے پاکستان کا جھنڈ ا بلند کیا نمازِ فجر کے بعد نومولود پاکستان کی حفاظت کے لیے دعائیں کیں ۔ اس وقت نہ کوئی گارڈ آف آنر نہ کوئی پولیس فورس ، مسلم نیشنل گارڈ نے یہ فرائض انجام دیے ۔14اگست 1947ء27 ر مضا ن المبارک لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر رات کو پاکستان وجود میں آیا۔قائد اعظم نے گورنر جنرل کے طور پر حلف اٹھایا۔
پاکستان تو بن گیا مگر ہندوئوں نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ، بھارتی رہنمائوں میں ہمیشہ اس بات پر اتفاق تھا کہ پاکستان کبھی بھی معرض وجود میں نہیں آنا چاہیے اور پاکستانی قوم کو الگ وجود کا کوئی حق نہیں ہے اورایک دن پاکستان انڈیا میں ضم ہوکر رہے گا ۔ 15اگست 1947ء کو بھارئی یوم آزادی پر کانگریس کے صدر نے اعلان کر دیا تھا کہ ’’تقسیم ہندوستان قبول نہیں بھارت کو دوبارہ ایک کرنا ہوگا اور اس کا حلف لینا ہوگا ‘‘۔
پنڈت نہرو اور پٹیل ( کانگریس رہنما) نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ۔ مہاتماگاندھی کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی تھے ۔ شروع سے لے کر پاکستان دو لخت ہونے تک ہندو رہنما پاکستان پر بری نظر ڈال کر بیٹھے تھے اور پھر وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوئے۔
مشرقی پاکستان جس کو سونار بنگلہ کہا جاتا ہے ، یہاں کی ہریالی پوری دنیا میں مشہورہے ۔ یہاں کی زمین سونا اگلتی ہے ۔ یہاں کی پٹ سن کو گولڈن فائبر کہا جاتا ہے جس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں ہے ۔ یہاں کی پٹ سن کی وجہ سے ہی کلکتہ میں 200سے زیادہ صنعتیں قائم ہوئی تھیں۔ یہ بھی دشمن کی سازش کا نتیجہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں ایک بھی انڈسٹری نہ تھی ۔ پٹ سن اس وقت متحدہ پاکستان کے زر مبادلہ کا بنیادی منبع اور آمدن کا سبب تھا جس پر بنگالی فخر بھی کرتے تھے لیکن انہیں یہ شکوہ بھی تھا کہ یہ آمدنی مشرقی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں خرچ نہیں ہوتی ۔ شیخ مجیب نے معاشی نا ہمواری (Economic disparity)کا ذکر بھی کیا تھا اور بعد میں اس کی پوری مہم کی بنیاد یہی بات بنی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اسلام آباد سے مجھے پٹ سن کی بو آتی ہے ۔ مراد تھی کہ مصنوعی شہر جودارالخلافہ بنایا گیا وہ پٹ سن کی آمدنی سے بنایا گیا ہے ۔ مغربی پاکستان کی صنعتی ترقی بھی اسی آمدنی سے ہوئی تھی ۔ مرکزی حکومت نے مجیب کے اس پراپیگنڈہ کی کوئی پروا نہ کی او رصحیح صورت حال کی وضاحت بھی نہ کی جس سے مجیب کو کھلی چھٹی مل گئی اور وہ مشرقی پاکستان کی عوام میں نفرت کی بیج بوتا رہا۔
پاکستان کے دونوں حصوں کو اگر کوئی چیز متحد رکھ سکتی تو وہ اسلام اور صرف اسلام سے وابستگی تھی ۔ مسلمانوں نے یہ وطن اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا ۔190سال کی غلامی کی زنجیر کو توڑ کر قائد اعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے یہ آزاد وطن حاصل کیا تھا ۔ اس کا لازمی تقاضا ہونا چاہیے تھا کہ آزادی ملتے ہی مسلمان رہنما اس میں اسلامی نظام تعلیم اور نظام معاشرت و معیشت کے لیے جدوجہد کرتے اور سب مل کر اسلام کے احیاء کے لیے بھرپور کوشش کرتے، بھائی کو بھائی سے جوڑتے، نفرت کو ختم کر کے اخوت اور محبت کو فروغ دیتے لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا ۔ ہم نے اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی ۔ 1947ء کے بعد آنے والی اگلی نسل کو ہم اس پاکستان کے حصول کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی تاریخ تک نہ بتا سکے ۔ ہندو انگریز گٹھ جوڑکے نتیجے میں ان کے بڑوں نے کون کون سے مظالم سہے اور غلامی کے کیسے کیسے دور دیکھے ہماری آنے والی نوجوان نسل اس سے نا آشنا رہی۔
انگریز جو یہاں تاجر بن کر آیا تو یہاں کا حکمران کیسے بن گیا ، انگریزوں نے کیسے مسلمانوں کو شکست دی کتنی مسلمان خواتین بچے بھوک پیاس سے بلک بلک کر مرے ، بھوک کی خاطر مسلمان بچے کیسے یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں بکے۔ یہ بڑی وجہ ہے کہ آج کے پاکستانی نوجوان کے دل میں پاکستان کی وہ قدر نہیں ہے جو ہونی چاہیے تھی ۔ تاریخ انسانیت کا حافظہ ہؤا کرتی ہے ۔ ہماری نوجوان نسل سے ان کا حافظہ چھین لیا گیا اب وہ پاکستان کی قدر کیسے کرتے!
دوسری بڑی وجہ جو پاکستان کو متحد رکھنے کی ہو سکتی تھی وہ انڈیا کی بالا دستی کا خوف تھا ۔ ہمارے لوگوں کو یاد رہتا کہ ہندو ہمارا کتنا بڑا دشمن ہے۔ اس کے ظلم و بربریت کا خوف ہمیں اس سے چوکنا رکھتا ۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو آزادی کے وقت کی صرف ہجرت کی داستان سے ہی مسلسل آگاہ رکھتے اور آنے والی نسل اپنے دشمن کو پہچانتی تو آج ایسا نہ ہوتا ۔ ہمارے میڈیا نے تو نہ صرف ان کے مظالم کو بھلا دیا بلکہ ان کے کلچر کو اپناتے ہوئے ہم نے دو قومی نظریے کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ تعلیم اورمعاشی ترقی کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آزادی کے بعد مشرقی پاکستان کے لوگ یہ امید کر رہے تھے کہ ان کے حالات میں کوئی تبدیلی ہو گی مگر ایسا نہ ہؤا ۔ مشرقی پاکستان میں یہ دونوں سیکٹر(تعلیم اور معیشت ) کو ہندو کنٹرول کرتے تھے ۔ ڈاکٹرز ، پروفیسرز، کالج اور سکول ٹیچرز ، گورنمنٹ آفیسرز کی اکثریت وہاں ہندو تھی ۔ جو شروع سے ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کام کر رہے تھے ۔ کیوں کہ مسلمانوں کے لیے غلامی اور ظلم کے اس دور میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا دروازہ بند تھا ۔ اس لیے پاکستان بننے کے بعد بہت کم مسلمان ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر تھے۔
ہندوئوں نے انگریز بہادر سے مل کر برصغیر کی تقسیم بھی اپنی مرضی سے کروائی ، انگریز جاتے جاتے بھی ہندوئوں کو ترجیح دے گیا اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی ازلی دشمنی کا ساتھ اس انداز سے دیا کہ تقسیم کے وقت سارے صنعتی اور ترقی یافتہ علاقے خصوصاً جوٹ انڈسٹری ہندوئوں کے حصے میں آئی تاکہ مسلمان اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکے اور پاکستان غیر مستحکم رہے ۔ لیکن قائد اعظم ہار ماننے پر تیار نہ تھے ۔ و ہ اس نئی پاک سر زمین کی ترقی کی کوششوں میں لگ گئے ہر پہلو پر ان کی نظر تھی۔ انہیں اپنے ارد گرد کھوٹے سکوں کا بھی علم تھا اور آنے والی نئی مشکلات سے بھی وہ خوب آگاہ تھے ۔
قومی زبان کا مسئلہ، پاکستان کے خلاف سازش کا آغاز
ابھی پاکستان بنے ایک سال ہی ہؤا تھا۔ ایک ہندو بنیا جس کا نام دھرمیندر ناتھ دتا تھا ، وہ پارلیمنٹ کا رکن تھا، اس نے پارلیمنٹ میں قومی زبان کا ایشو کھڑا کر دیا ۔23فروری1948ء کو کراچی میں اسمبلی میں یہ کہا کہ مشرقی پاکستان کی قومی زبان بنگلہ ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی کہ چوں کہ مغربی پاکستان میں اردو بولی جاتی ہے ہے اور مشرقی پاکستان میں بنگالی ، لہٰذا بنگالی زبان ہی مشرقی پاکستان کی قومی زبان ہونی چاہیے۔ باقاعدہ ایک سازش کے تحت یہ مسئلہ کھڑا کیا گیا کیوں کہ پاکستان پنجاب ، سندھ ، بلوچستان سرحد اور بنگال پر مشتمل تھا ۔ ہر صوبے کی اپنی زبان تھی ۔ اسی طرح انڈیا میں بھی ہر صوبے کی اپنی زبان ہے مگر قومی زبان ایک ہی ہوتی ہے اور ایک ہی رہنی چاہیے۔ تھی اور اسی طرح پاکستان کی قومی زبان اردو تھی اور وہ ہے ۔ اس وقت پاکستان جو بالکل نیا پاکستان تھا، اس کے بہت سے مسائل تھے ۔ جن کے سامنے زبان کا مسئلہ کوئی ہی نہیں تھا ۔ سب سے بڑا ایشو اس وقت لٹے پٹے مہاجرین کو بسانا تھا جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ظلم اور اذیتیں برداشت کرتے پاکستان پہنچے تھے ۔ بہت کم مہاجر خاندان تھے جومالی وجانی نقصان کے بغیر پاکستان پہنچ سکے ہوں ۔ ورنہ ہر گھرکے ساتھ ظلم وبربریت کی اور قربانیوں کی داستان جڑی تھی ۔
قائداعظم محمد علی جناح صورت حال کو سمجھ گئے ، آپ کراچی سے فوری طور پر ڈھاکہ پہنچے ، لوگوں سے ملے اور لوگوںکو سمجھایا اور دو ٹوک الفاظ میں بتایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہونی چاہیے ۔ قائد اعظم کی شخصیت کے سامنے کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ وقتی طور پر یہ معاملہ دب گیا۔
بنگلہ زبان کا مسئلہ کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں تھا یہ در اصل پاکستان کے خلاف ایک سازش تھی جس کو مسئلہ بنا دیا گیا اور اگر یہ سازش نہیں تھی تو یقینا انتظامی نالائقی تھی ۔21فروری 1952ء ڈھاکہ میں طلبا کے ہجوم پرگولی چلانا سمجھ سے بالا تر بات تھی ۔ طلباء اپنے کسی مسئلے پر مظاہرہ کررہے تھے وہ اردو کے خلاف یا پاکستان کے خلاف کوئی مظاہر نہیں تھا اور نہ ہی بنگلہ زبان کے حق میں کوئی مظاہرہ تھا ۔ یہ مشرقی پاکستان کے حکومتی سربراہ جناب نورالامین کی نا تجربہ کاری تھی اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا کہ پولیس کو نہتے طلبہ پر گولی چلانے کا کہا گیا ۔ فائرنگ کے نتیجے میں چند طلبہ کی جانیں بھی گئیں ۔ مظاہرین طلبہ کی لاشیں لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے پورا مشرقی پاکستان سر پر اٹھا لیا ۔ ہر جگہ ایک ہی نعرہ لگنے لگا کہ ہمیں نور الامین کا سر چاہیے، اس پرمزید جلتی پر تیل کا کام اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے اس اعلان نے کیا کہ ’’ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اردو ہی رہے گی ‘‘۔ انہوںنے غلط اندازہ لگایا کہ یہ مظاہرہ اردو زبان کے خلاف ہے ۔
حالات نے ایک نیا موڑ لے لیا ۔ اس زبان کے ایشو نے مغربی پاکستان کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا۔ یہ پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں کے لیے سنہرا موقع تھا ۔ حکومت پاکستان نے اس کی کوئی انکوائری نہیں کی ، اس کے محرکات جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو قائل اور مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ، بلکہ حکومت پاکستان کی طرف سے اس (بنگلہ زبان کی )موومنٹ میںحصہ لینے والوں کو مختلف سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا ، کئی لوگوں کو ایس پی کے عہدے پر فائز کیا اور کئی لوگوں کو وفاقی سیکرٹری کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اس کے علاوہ مزید مراعات دی گئیں ، ان سب لوگوں کو جنہوں نے اس سر گرمی میں حصہ لیا ۔ ریاست کے خلاف سازش میں بھرپور حصہ لینے والے ، نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے اورپاکستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے والوں کو اور کیا چاہیے تھا ۔ مسٹر راب(Rob)جو وفاق کے خلاف کام کرنے والے کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ، بلک ان کے لیڈر تھے ، ان کو وفاقی سیکرٹری مقرر کیا گیا ۔
ان سب اقدامات کے پیچھے صدر پاکستان اور حکومت پاکستان تھی ، جو اس سب کے ذمہ دار تھے ۔ الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب جیسے بیورو کریٹ کی جب صد ر پاکستان سے قربت ہوئی تو وہ ایسے ہی فیصلے کرتے رہے جن کی کوئی Justificationنہ تھی ۔ جناب پروفیسر سجاد حسین اپنی کتاب شکست آرزو میں لکھتے ہیں کہ صدر ایوب مشرقی پاکستان کے سلسلے میں بالکل بے آسرا دکھائی دیے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے بالکل دلچسپی لینا چھوڑ دیا ہے اور تمام معاملات بیوو کریسی پر چھوڑ دیے ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں اٹھنے والی بنگلہ زبان کی تحریک بہت موثر اور پر کشش تھی ، کوئی پارٹی اس کی مخالفت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔ نور الامین کی صوبائی حکومت کی طرف سے اس تحریک کو نمٹنے کی بھرپور کوشش نہ ہوئی ، بلکہ انتہائی نا تجربہ کاری کی وجہ سے تحریک اور زیادہ ابھر کر سامنے آئی۔ پولیس فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں کے نام پر شہید مینار اور یاد گاریں تعمیر ہوئیں ۔تحریک کے منتظمین نے سکولوں ، کالجوں اور جامعات کو خاص ٹارگٹ کیا، پورے ملک میں تعزیتی اجلاس منعقد کیے گئے ۔ حکومت پاکستان نے ملک کی یکجہتی کے خلاف چلنے والی تحریک کو ہینڈل کرنے کی مناسب کوشش نہ کی ۔ مسلم لیگ کی نمایاں شخصیات نے کوئی اہم قدم نہ اٹھایا اوراس تحریک کو کھلا چھوڑ دیا اور جب حکومت پاکستان کو ہوش آئی تو پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا۔٭

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here