رافعہ کواچھی طرح یاد تھا کہ نجیبہ اسےپہلی مرتبہ مصر کے سفارت خانے میں ملی تھی۔
جشن آزادی کی تقریبات پورے جوش و خروش سے جاری تھیں۔ اگست کا دوسرا عشرہ شروع ہونے کی دیر ہوتی کہ خوب دھوم دھام سے ہر سطح پر پروگرام شروع ہوجاتے۔
یہ بھی ایسا ہی پروگرام تھا ۔رافعہ تیسری رو میں تھی اور اس کے ساتھ والی کرسی پر وہ بیٹھی تھی۔ سر پر نیلا سکارف، کالی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور آنکھوں میں ان کہے دکھوں کی کوئی ایسی داستان تھی کہ جو دیکھتا ان کالی آنکھوں کے سحر میں کھو سکتا تھا ،اور ان خوبصورت آنکھوں کے نیچے بہت چھوٹی سی ناک اور گلابی رنگت والی وہ لڑکی ۔
مجموعی طور پر وہ بہت خوبصورت نہ بھی سہی لیکن اس کی آنکھیں ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی تھیں۔وہ بلا کی پرکشش تھی۔کرسی پر بیٹھی ہوئی دیکھنے میں زیادہ سے زیادہ سولہ سترہ سال کی لگ رہی تھی ۔رافعہ کی نظریں بار بار بھٹک کر اس کی طرف اٹھ رہی تھیں۔جونہی مغنیہ نے’’وطن کی مٹی گواہ رہنا ‘‘ گانا شروع کیا اس کے چہرے پر یک لخت سنجیدگی چھا گئی۔رافعہ کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے حیرت بھی ہوئی کہ اتنی چھوٹی عمر میں ملّی ترانہ اور وہ بھی دوسرے ملک کا کیسے انہماک سے سن رہی ہے
چند لمحوں کے بعد ایک اور مغنیہ نے سُر اور لے کے ساتھ شہناز بیگم کا ملی نغمہ’’گھر تو آخر اپنا ہے‘‘گانا شروع کیا تو اس کی آنکھوں سے ساون بھادوں کی برسات ہی شروع ہو گئی۔
’’ معاف کیجیے کیا نام ہے آپ کا؟‘‘ رافعہ نے توجہ بٹانے کے لیے سوال کیا
’’نجیبہ۔نجیبہ الخماش‘‘ نجیبہ کی جواب دیتے ہوئے بھی توجہ نغمے کے بولوں کی طرف تھی۔اگلے سوال کی نوبت نہ آسکی اور وہ پروگرام درمیان میں ہی چھوڑ کر چلی گئی۔
کئی دن رافعہ اسے یاد کرتی رہی۔نجیبہ نام کی یہ بچی کون تھی کس ملک سے تعلق رکھتی تھی ،پتہ نہیں چہرہ پر اتنے دکھ کیوں تحریر تھے۔کیابالی عمریا میں بھی جان کو ایسے روگ لگ سکتے ہیں کہ ملی نغمے کے بول بھی روح کے تار ہلادیں اور بندہ ہچکیوں سے رونے لگے؟
چند دنوں کے بعد وہی دنیااور دنیا کے دھندے ۔تقریب اور تقریب والے سب بھول بھلا گئے۔
گزشتہ سال عمرے پر جانے کا اتفاق ہؤا ۔عمرہ کرتے ہوئے رافعہ کےآگے جو خاتون تھیں مصری سکارف اوڑھے ہوئے ،چہرہ تو لوگوں کے ہجوم اوراوٹ کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا تاہم دبی دبی سسکیوں سے رافعہ کےدل کی کیفیت ایکدم ہی بدل گئی ۔
کبھی یہ سسکیاں آہوں میں اور کبھی ہچکیوں میں بدل جاتیں تو لہجے میں بھی سوز بڑھ جاتا ۔جب بھی رافعہ نے گردن اچکا کر اس خاتون کو دیکھنے کی کوشش کی ایکدم لوگوں کا ریلا پانی کی طرح بہتا ہؤا رکاوٹ بن جاتا۔صرف رافعہ ہی نہیں بہت سے مرد اور خواتین اس کی آہوں پر رو رہے تھے۔جو عربی دان تھے ان کی آمین اوراللھم آمین کی صدا سنائی دیتی۔
رونے بلکنے کی اس فضا میں سات چکر مکمل ہوگئے اور نماز کی ادائیگی کے بعد رافعہ شٹل پر ہوٹل واپس آگئی۔دس ایک منٹ کے سفر میں ایک لمحے کے لیے بھی رافعہ کےکانوں سے اس عورت کی تڑپنے بلکنے کی آواز نہ گئی۔ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے اور وہ ٹشو سے صاف کر رہی تھی۔دل پر بے حد بوجھ تھا ۔عرب عورت ہو یا غیر عرب ،مسلم ہو یا غیر مسلم ،عورت کے دکھ تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں!
شوہر کی جدائی ، دوسری عورتوں کی طرف ملتفت ہونا، لاعلاج بیماری، اولاد سے محرومی، اولاہو تو بےراہروی کے دکھ ،یا اولاد کا اپنے ہاتھوں قبر کے سپرد کرنا ….عورت کو رلانے کے لیے اور کون سے دکھ ہوسکتے ہیں؟
انہی سوچوں میں شٹل سے اتر کر رافعہ ہوٹل کی لابی میں داخل ہوئی تو لابی مختلف چھوٹے بڑے بیگز سامان سے لدی ٹرالیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔
کچھ لوگ صوفوں پر بیٹھے قہوہ پینے میں مصروف تھے ،کچھ سامنے لگی ایل سی ڈی پر ڈاکومنٹری دیکھنے میں منہمک،بائیں جانب منی مارکیٹ تھی رنگ برنگی جائے نماز تسبیح اور ہزار چیزیں گاہکوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ خریداری کے بے تحاشا شوق کے باوجود رافعہ کا اس وقت کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا ۔رہ رہ کر اس مظلوم عورت کی آہ و بکا یاد آجاتی اور دل کٹ کر رہ جاتا۔پتہ نہیں اس بیچاری پر کون سی بپتا آن پڑی کہ آہ وزاری دیکھی نہ جارہی تھی۔
دل ہی دل میں اس کے لیے دعا کرتے ہوئے رافعہ نے لفٹ میں قدم رکھا تو دو خواتین مزید اندر آئیں۔ایک کاسکارف وہی تھا جو رافعہ ابھی حرم میں دیکھ کر آئی تھی ہلکے بھورے رنگ کا مصری سکارف۔رافعہ چونکی پھر دل کو بہلایا….لیکن یہ تو ہر تیسری عورت اوڑھ سکتی ہے ،رافعہ نے کون سا اس کی شکل دیکھی تھی۔قدرت نے رافعہ کی الجھن دور کردی، اس نے رافعہ کی طرف متوجہ ہو کر سلام کیا تو وہ ششدر رہ گئی ۔
ارےوہی آواز وہی لہجہ وہی سوز ….چہرے پر آنسوؤں کے نشان ثبت تھے۔وہی بالکل وہی ۔ہزاروں لوگوں میں سے جس سے ملاقات کی تمنا تھی وہ اس کے روبرو تھی ۔
رافعہ نے جوش میں آکر کچھ زیادہ ہی زور سے وعلیکم السلام کہا تو اس کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑی۔اس کی مسکراہٹ سے رافعہ کوکچھ الجھن ہوئی ۔
اس چہرے کو میں نے کہاں دیکھا ہے؟
یہ جانا پہچانا کیوں ہے؟
’’میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے آں….ہاں یاد آیا….یہ مصر کے سفارت خانے میں جشن آزادی کی تقریب میں شریک تھی۔ نام کیا تھا بھلا….؟نج ….نجیبہ….؟‘‘رافعہ نے تصدیق کے لیے انگریزی کا سہارا لیا۔
اس نے اردو میں جواب دیا۔
’’جی آپ نے ٹھیک پہچانا میں نجیبہ ہی ہوں‘‘۔
اوہ مائی گاڈ! رافعہ نے دل کی آواز کو دبایا اور ساتویں فلور پر باہر نکلنے کی بجائے اس کے ساتھ ہی اوپر تک چلی گئی۔لفٹ سے نکلتے ہوئے رافعہ نے اسے اپنا نام بتایا ۔تیرھویں فلور پر وہ جس کمرے میں داخل ہوئی اس کا نمبر نوٹ کیا اورپوچھا۔
’’ اب آپ حرم میں کب جائیں گی؟‘‘
’’فجر کی نماز سے پہلے‘‘ اس نے اردو میں ہی جواب دیا ۔
’’میں آپ کا لاؤنج میں انتظار کروں گی‘‘ کہہ کر رافعہ تیزی سے اسی لفٹ سے واپس آگئی۔
عجیب بات تھی ۔وہ نامعلوم سا درد اور بوجھ جو چند لمحے قبل رافعہ کوہر چیز سے بے نیاز کر رہا تھا وہ یکسر ختم ہو گیا تھا اور طمانیت طاری تھی۔
تہجد کے لیے اٹھتے ہی رافعہ کو نجیبہ کا خیال آیا ۔قدرت نے تین سال پہلے کی خواہش یوں پوری کی کہ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔وضو کے فوری بعد رافعہ کمرے سے نکلی، لفٹ کے انتظار میں تین چار منٹ کھڑی رہی ،جونہی لفٹ رکی قدم رکھتے ہی نظر نجیبہ پر پڑی۔
’’السلام علیکم کیسی ہو؟‘‘، خوشدلی سے رافعہ نے پوچھا ۔
’’الحمد للہ ، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ‘‘اس نے اسی خوشدلی سے جواب دیا ۔
شٹل باہر پارکنگ میں آئی تو وہ دونوں تیزی سے آگے بڑھیں۔ رافعہ کی خواہش تھی دونوں ساتھ ساتھ کی سیٹوں پر بیٹھیں۔ بیٹھتے ہی رافعہ نے پوچھا۔
’’نجیبہ آپ نے اتنی خوبصورت اردو کہاں سے سیکھی ؟‘‘
’’الازھر یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا ہے اردو میں، بہت سال پہلے بلکہ پڑھایا بھی ہے وہاں‘‘ سکارف کو پن سے قابو کرتے ہوئے نجیبہ نے جواب دیا۔
’’واہ زبردست اتنی بڑی ہیں آپ ؟ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ایسے لگتا ہے جیسے انڈر گریجویٹ ہوں‘‘ رافعہ نے کہاجس کے جواب میں بس اس نے ہلکا سا مسکرانے پر اکتفا کیا۔
’’آپ کا قیام کہاں ہے ،مطلب…. کتنے دنوں کے لیے ہیں آپ یہاں؟ اتفاق سے رات میں نے حرم میں آپ کی عشاء کی نماز سے پہلے مناجات سنی تھیں، تب سے میرا دل چاہتا ہے میں آپ سے تفصیلی ملاقات کروں‘‘۔
چونکہ کبوتروں والے چوک کا ٹرمینل نظر آنا شروع ہو گیا تھا اس لیے رافعہ نے جلدی سے سارے سوالات کردیے اور تجسس نہ کرنےیا کسی کی ذاتی زندگی کی ٹوہ نہ لینے کی عادت والی رافعہ ایسے کیوں کہہ رہی تھی یہ اسے خود بھی معلوم نہیں تھا ۔
’’جی ضرور ان شاءاللہ میں کل رات تک ہوں ہوٹل میں ویسے آج کل جیزان میرئیٹ ہوٹل میں جاب ہے میرے میاں کی ‘‘ اس نے شٹل سے اترتے ہوئے بتایا۔
حرم میں داخل ہونے کے لیےابھی نو دس منٹ مزید پیدل چلنا تھا اس لیے رافعہ تیز رفتاری سے قدم اٹھا کر اس کا ساتھ دے رہی تھی۔
اس کے میاں کی ملازمت کا سن کر وہ لمحے بھر کے لیے گنگ ہوئی
’’ارے آپ شادی شدہ ہیں؟ لگتا تو نہیں‘‘۔
وہ مسکرائی’’ میری شادی کو ساتواں سال ہے اور تین بچے ہیں میرے الحمد للہ‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تین بچے ؟اوہ مائی گاڈ‘‘رافعہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی’’آپ تو خود ننھی منی سی بچی دکھائی دے رہی ہیں‘‘۔
سامنے حرم کے بلند بالا مینار نظر آرہے تھے۔اس نے کہا ’’میں اب ہوٹل میں نہیں جاؤں گی، دس بجے تک ادھر ہی ہوں آپ مجھے یہاں بھی مل سکتی ہیں۔ ورنہ چاہیں تو میں شاہراہ خلیل پر شروع ہی میں جو صیدلیہ(فارمیسی) ہے اس کے عقب میں ایمرجنسی ہاسپٹل ہے وہاں پر رکوں گی۔آپ دس بجے وہاں آسکتی ہیں یا جیسے آپ کو سہولت ہو‘‘ باب عبدالعزیز سے اندر جاتے ہوئے نجیبہ نے کہا۔
’’ میرا خیال ہے ہم ناشتہ اکٹھے کرلیتے ہیں یہیں کہیں قریب ہی‘‘رافعہ نے پیچھے ریسٹورنٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’ناشتہ میرے پاس موجود ہے ۔ابھی آپ میرے ساتھ ہی رہیں پھر فجر کی نماز کے بعد ایک طواف کرلیں گے ان شاءاللہ، اس کے بعد ناشتہ بھی یہیں بیٹھ کر کرلیں گے‘‘نجیبہ نے جوتے اپنے بیک پیک میں ڈالتے ہوئے کہا۔
حرم کی بیسمنٹ میں کعبہ کے بالکل سامنے ان دونوں کوجگہ مل چکی تھی۔دونوں با وضو تھیں دونوں تہجد کے نوافل کی ادائیگی کی نیت کر کے دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہوچکی تھیں۔
چند ہی لمحوں کے بعد وہی سسکیاں آنسو اور رب کعبہ کے حضور نجیبہ کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔دھیما لہجہ اور سوز میں ڈوبی آواز اور ارد گرد کی سب خواتین کا بآواز بلند آمین آمین کہنااور رافعہ کے دل کی بے چینی۔
طواف کے دوران نجیبہ رافعہ کی نظروں سے غائب ہوچکی تھی لیکن چھٹے چکر میں پھر دونوں آمنے سامنے تھیں۔
دل چیر دینے والی آہ و بکا نے نجیبہ کو اردگرد سے بے گانہ کر رکھا تھا ۔ وہی نوحے وہی دل کو ٹکڑے کردینے والے الفاظ۔جو اس کے پیچھے کی قطاروں میں تھے وہ بھی آنسو پونچھ رہے تھے اور جو آگے کی صفوں میں وہ بھی بھیگے چہروں کے ساتھ مڑ مڑ کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تب اس کے دل میں شدت سے تمنا پیدا ہوئی کاش اسے اتنی تو واقفیت ہوتی عربی زبان سے کہ وہ اس کی دعا کے مفہوم کو سمجھ سکتی!
ساتواں چکر مکمل ہؤا مقام ابراہیم پر دو نوافل ادا کرنے اور زمزم پینے کے بعد فارغ ہوئیں تو سورج کعبہ کی پشت سے ابھر رہا تھا۔
قدرت ان دونوں کوپھر زمزم پیتے ہوئے آمنے سامنے لے آئی تھی۔
جونہی رافعہ نے اسے سورج کی طرف تکتے دیکھا اس کی آنکھوں میں اس دہکتے سورج سے کہیں زیادہ سرخی نظر آرہی تھی۔ضبط کے جانے کن مراحل سے گزر رہی تھی کہ آنکھوں میں لہو رنگ جیسے جم گیا تھا۔
رافعہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔اس کے آنسو اس کے گال پر ٹکے ہوئے تھے۔صفا مروہ کی پہاڑیوں کے بیچ سعی کرنے والوں کی تعداد قدرے کم تھی۔زمزم کےکولر والے سٹینڈز کے لیے بنی خالی جگہ پر اس نے بیگ سے نکال کر سفرہ بچھایا۔چھ سات سکری کھجوریں ، دو عدد پف پیسٹری جو ایک ایک ریال میں ہر چھوٹی بڑی بیکری سے کروسنٹ کے نام سے مل رہی تھیں ،اور ایک فوئل پیکنگ میں فلافل ، زمزم کی بوتل ،اللہ اللہ خیر صلا۔
نجیبہ نے گفتگو شروع کی۔
’’ آپ کو معلوم ہے یہ کھجور دنیا کی نہ سہی لیکن عربی کی بہترین کھجوروں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی مٹھاس باقی کھجوروں سے قدرے کم ہوتی ہے اور یہ کروسین ایک ایک ریال کے ہر جگہ سے مل جاتے ہیں میرے بیگ میں ہروقت موجود رہتے ہیں، کئی مرتبہ جب ہم لمبی مسافرت پر ہوتے ہیں یہی کروسین ہمارا ناشتہ لنچ اور ڈنر ہوتے ہیں‘‘۔
اس کے بعد نجیبہ نےفلافل کو دو حصوں میں تقسیم کرکےآدھا رافعہ کے حوالےکیا اور آدھا خود کھایا ۔چار سے چھ منٹ میں ناشتے سے فارغ ہوئیں تو نجیبہ نے مروہ پہاڑی کی طرف بنی جالی سے پشت لگائی۔
’’ جی آپ کیا پوچھنا چاہ رہی تھیں؟‘‘اس کا لہجہ بہت تھکا ہؤا تھا۔
’’عجیب بات ہے، مجھے آپ سے مصر کے سفارت خانے کی ملاقات بہت عرصہ تک یاد رہی۔ تب مجھے لگتا تھا آپ کی شادی نہیں ہوئی اور آپ کی آنکھوں میں اداسی کا موسم ٹھہرا ہؤا تھا ۔میں نے سچ پوچھیں آپ کی عمر کی کسی بچی کو ملّی ترانوں پر یوں آنسوؤں سے روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، تو بہت لمبی مدت تک آپ کے چہرے کا حزن اور آنکھوں کی اداسی بھول نہ پائی۔میں پوچھنا چاہ رہی تھی کہ آپ کس دکھ میں ہیں…. مطلب ہے تو پرسنل لیکن ….‘‘رافعہ جھجکی۔
’’ کل طواف کے دوران آپ کے رونے نے صرف مجھے ہی نہیں ہر قریب سے گزرتے شخص کو تڑپایا ،سب نے آپ کی دعا پر آمین کہا۔ جب ہوٹل میں آپ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا قدرت ہمارا بار بار ٹاکرا کیوں کروارہی ہے، کوئی نہ کوئی مقصد تو ضرور ہے ،کچھ ہے جو آپ مجھے دے سکتی ہیں ، آپ کی تکلیف آپ کا دکھ جو آپ کے چہرے پر تحریر ہوچکا ہےشاید میں اس میں کمی کا باعث بن سکوں‘‘رافعہ نے کہا۔
’’دکھ؟ نجیبہ نے اپنے آپ سے سرگوشی کی ’’دکھ تو نہیں اس سے اوپر کی چیز ہے‘‘۔
’’کیا؟ کیا آپ بتانا پسند کریں گی ؟‘‘رافعہ نے محبت سے اس کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لیا۔
’’کیا آپ کو کوئی مسئلہ ہے کوئی جدائی کوئی پریشانی….مجھ سے آپ کے چہرے کا حزن برداشت نہیں ہورہا ‘‘ رافعہ نے دلی خلوص سے کہا۔
’’میرا کوئی مسئلہ نہیں کوئی دکھ نہیں سوائے اس جدائی کے جو ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے…. میرا ملک…. جس سے نکلے کئی برس بیت گئے، میرا وطن میری زمیں جس کے ہجر میں مجھے برسوں سے نیند نہیں آتی۔ میں زیادہ سے زیادہ پانچ سات منٹ سوتی ہوں اور دہشت کے عالم میں آنکھ کھل جاتی ہے۔میں نےبرسوں سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا ، دو لقمے اندر جاتے ہیں اور ندامت کا احساس تیسرے لقمہ کو نگلنے میں ناکام کردیتا ہے۔ میری روح اپنی زمیں پر سجدے سے سیراب ہوسکتی ہے لیکن میں کیا کروں؟مجھے جب وطن کے متعلق کچھ سننے کو یا پڑھنے کو ملے میں یوں ہی بے تاب ہوتی ہوں‘‘ آنسو تیزی سےاس کی آنکھوں سے نکلے۔
’’ہاں میں نے پڑھا ہے شام کی طرح مصر بھی بہت خوبصورت ملک ہے، اس کی سرزمین نے بھی بہت سے پیغمبروں کے قدموں کو چوما ہے۔ یعقوب علیہ السلام نے بیٹے کی جدائی میں یہیں آنکھیں کھوئی تھیں ، یوسف ؑکو بادشاہت اسی ملک کی ملی موسیٰ ؑ کلیم اللہ اور ہارون علیہ السلام کا تعلق بھی تو اسی سرزمین سے تھا، حضرت ادریسؑ اور حضرت صالحؑ کی قبریں اسی ملک میں ہیں‘‘ رافعہ اپنے تئیں نجیبہ کے دکھ کی وجہ مصر سے جدائی سمجھتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں نہیں میرا تعلق مصر سے تو صرف حصول تعلیم کے زمانے کا ہے میرا وطن تو ارض مقدس ہے….فلسطین!قدس کی سر زمین جہاں میرے والدین اور میرے دونوں بھائی میرے سامنے اشکلان (عسقلان ) کے بھیڑیوں کا شکار بنے تھے ۔میرے والدین میرے بیمار بھائی کو لے کر ناصر ہسپتال میں گئے تھے،تل ابیب کے کتوں نے میرے چھوٹے بھائی کو بےدردی سے گھسیٹا تو اس کی کمر چھل گئی تھی گوشت نظر آنے لگا تھا ۔تب میرا بڑا بھائی ان کا کھانا لے کر ہسپتال گیاتو ہسپتال کو حبرون کے درندوں نے آگ لگا دی تھی ،سب کچھ جل گیا….مریض ….مشینیں، سامان….میرے ہیرے موتیوں جیسے بھائی جو بہنوں کا مضبوط بازو ہوتے ہیں۔ تب ہم دونوں باقی رہ جانے والی بہنوں کو رفح بارڈر سے مصر نے ہی پناہ دی تھی۔ہم دونوں بہنوں نے مصر کی طرف ہجرت کی۔مصر واقعی بہت پیارا ملک ہے لیکن یہ میری جائے عشق تو نہیں۔ میرا وطن تو فلسطین ہے القدس!‘‘
نجیبہ کی آواز میں آنسو گھل گئے تھے۔وہ کعبہ کی طرف منہ کرکے بولی۔
’’رب کعبہ کی قسم جب دھماکوں میں ہمارے پیارے رخصت ہوئے تو ہمیں ان کے جانے کے غم سے کہیں زیادہ اپنے عشق میں اضافہ محسوس ہؤا۔
مسجد اقصٰی کا عشق ، رسولِؐ امین کو ساتویں آسمان پر لے جانے والی مسجد اقصٰی جس کی محبت ہمارے ہر سانس میں ہے ہمارے دل کی دھڑکن میں اقصٰی اقصٰی کی آواز صاف سنائی دیتی ہے‘‘۔
اس نے بے تابی سے رافعہ کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھااور بولی۔
’’سنو اس کی دھڑکن میں ہمیں کچھ اور سنائی ہی نہیں دیتا۔یہ قبلہ اول ہی نہیں اللہ عزوجل کی امانت ہے ۔امانت کی قدروقیمت جتنی زیادہ ہوتی ہےاس کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہے‘‘۔
اس نے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کعبہ کی طرف کی۔
’’جیسے اس گھر کی اہمیت ہے اس قبلہ اول کی اہمیت بھی کم نہیں۔پوری روئے زمین پر کوئی حبشی کوئی ایرانی تورانی چینی جاپانی نہیں ہم اس کی حفاظت کے لیے منتخب ہوئے ،ہمیں اللہ نے اس کا امین بنایا….پیدا کرنے والے نے ہمارے اندر اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کٹ مرنے کی صفت دیکھی ہوگی تو یہ ذمہ داری ہمیں سونپی۔اس لیے بچپن سے ہی ہماری مائیں ہمیں مال دولت عہدے زمیں جائیداد کی نہیں اقصیٰ کی محبت کی لوری سناتی ہیں ۔ہم دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوں ہماری روحیں القدس کو سلام بھیجتی ہیں۔
ہمارے گھروں کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں ہم ان کے ملبے پر پہلے کی طرح بیٹھ کر سارے کام سر انجام دیتے ہیں کہ ہمارے حوصلے شاید پوری روئے زمین پر بسنے والوں سے زیادہ ہیں۔ہم بمباری اور میزائل پھینکنے سےہونے والے دھماکوں میں تباہی کا جائزہ لینے جاتے ہیں تو اپنے پیارون کی لاشیں اٹھانا پرجاتی ہیں اور ہم امدادی کام نہیں روکتے ، جاری رکھتے ہیں کہ ہمارے حوصلے پہاڑوں جیسے ہیں ۔ہمیں تباہ ہونے والے گھروں کے ملبے پر وہ سکون محسوس ہوتا ہے جو آپ لوگ کسی سیون سٹار ہوٹل یا پائوں دھنسنے والے قالین پر چلتے ہوئے بھی نہیں محسوس کر سکتے کیونکہ ہم دنیا میں بھیجے ہی اس کی حفاظت کے لیے گئے ہیں۔ ہاں ….اس لیے ہم اپنے پیاروں کی لاشیں خود ہی اٹھاتے ہیں خود ہی دفناتے ہیں ‘‘۔
اس نے انگلی کی پور سے آنسو صاف کیے۔
’’جب ہمارے پیارے شہید ہوتے ہیں آپ نے دیکھا آنسو تو ہماری آنکھوں میں بھی ہوتے ہیں کہ ہم بھی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں ،ہمارے سینے میں بھی دل ہے، لیکن آپ نے یہ کہیں نہیں دیکھا ہوگا ،باقی دنیا میں کوئی جدا ہوجائے تو لوگ اسے حوصلے کے لیے کندھا دیتے ہیں ہمیں کسی نے کبھی کندھا نہیں دیا ۔بس ہم اپنی ٹانگوں میں سر دے لیتے ہیں….ہم اپنے غمزدہ چہرے کو اپنے ہی ہاتھوں میں چھپا لیتے ہیں…ایک دوسرے کو کندھا دینے کا رواج ہمارے ہاں نہیں ۔ جب تک مسجد اقصیٰ آزاد نہیں ہوجاتی….ہم اپنی زمیں کو ان صیہونیوں سے چھڑوا نہیں لیتے ہم کسی کا کندھا تلاش کر بھی نہیں سکتے۔
پتہ نہیں کیوں؟‘‘
اس نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا کہ اسے بھی شاید کوئی کندھا دینے والا نہیں ملا تھاوہ بھی اپنی ٹانگوں کو موڑ کر ان میں منہ دے کر رورہی تھی۔
اس نے اپنی سسکیوں کو روکنے کے لیے سکارف کا کونا منہ میں ٹھونس لیا تھا اس کی پسلیاں شدت غم سے اوپر نیچے ہورہی تھیں ،اور میں سوچ رہی تھی کہ اس کی دبی دبی آواز تو یقیناً کعبہ کے درودیوار تک بھی پہنچ ہی رہی ہوگی… کوئی سن کر آگے نہ بھی بڑھے رب کی رحمت تو حصار میں لے رہی ہوگی…رہی بات کعبہ کے رب کی مخلوق کی… تو ان کے کانوں میں شاید پگھلا ہؤا سیسہ ڈلا ہے کہ قوت سماعت ختم ہوگئی ہے!٭
٭٭