بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
ڈسکلیمر: اس مضمون کا مقصد جذبات سے ہٹ کر غیر جانبدارانہ طور پر بین الاقوامی قانون کے تناظر میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے رویہ کا جائزہ لینا، پاکستان اور مسلم دنیا میں اس حوالے سےجو غلط فہمیاں موجود ہیں انکا علمی و فکری ازالہ کرنے کی کوشش ہے
فلسطین کی صورتحال پر پاکستان اور مسلم دنیا کے عوام بہت تکلیف اور کرب محسوس کرتے ہیں اور اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ریلیوں کا یا ان کے حق میں آواز اٹھانے کا کیا فائدہ ہے؟ عالمی اداروں نے تو خود اسرائیل کی ناجائز ریاست کو جنم دیا ہے، وہ کیوں فلسطینیوں کے حق میں کچھ کریں گے؟ انسانی حقوق کی بات کرنے سے کیا ہوگا؟ کیا طاقت کے نشے میں چور اسرائیل ایسی باتوں سے متاثر ہو کر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے پر راضی ہو جائے گا یا انہیں دوبارہ اپنے گھروں میں آباد کر دے گا؟ غزہ کا محاصرہ ختم ہو جائے گا؟
مسلم دنیا میں اس حوالے سے بجا طور پر بہت شدید مایوسی اور بے بسی کے احساسات پائے جاتے ہیں-اتنا سمجھ لیجئے کے ایسے پیچیدہ عالمی تنازعات صبر کے ساتھ طویل کثیر الجہتی جدوجہد کے متقاضی ہوتے ہیں جس میں جنگ کے میدان میں طاقت سے مقابلہ کرنا بھی شامل ہے اور ڈپلومیسی اور اظہار یکجہتی بھی، علمی اورتحقیقی کام بھی اور ابلاغ کی طاقت کا استعمال بھی اور ہر ممکن طریقے سے جہاد کے لیے طاقت پکڑنا بھی- ان میں کچھہ کوششیں مختصر (شارٹ ٹرم) اور کچھ طویل عرصے جدو جہد کی متقاضی ہوتی ہیں- نتائج الله کے ہاتھ میں ہیں- وہی راستے دکھانے والا ہے اور وہی بہتر چال چلنے والا- وہ جب چاہے گا مغلوبیت کو غلبے میں بدل سکتا ہے- ہمارا کام موجودہ وسائل استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن طریقے سے طاقت پکڑنا اور اپنی سی کوشش کرنا ہے.
خود سیرت پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلیٰ الله علیہ وسلم اپنی پوری زندگی ڈپلومیسی کی بہترین اہلیت استعمال کرتے ہوئے قبائل سے معاہدے بھی کرتے رہے، ان معاہدوں کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں، جنگیں بھی لڑی گئیں، رومی سلطنت اور فارس کے چھوٹے اور بڑے بادشاہوں کو اس دور کے ابلاغ کے انسٹرومنٹس کو استعمال کرتے ہوئے دعوتیں بھی بھیجی گئیں- بہترین اخلاق کا مظاہرہ کر کےکفار کی تالیف قلب بھی کی گئی- ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دینی، اخلاقی اور علمی تربیت کا کام بھی مسلسل جاری رہا اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے کام بھی چلتے رہے، ان کو بھی موقوف نہیں کیا گیا مثلاً تجارت اور شادیاں- پھر جنگی قیدیوں تک کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح بڑھانے کی کوشش بھی جاری رہی، اور ایک ایسے وقت میں جاری رہی جب مسلمانوں کی اپنی بقا شدید خطرے میں تھی- مدینے کی چھوٹی سی ریاست چاروں طرح سے اور اندرونی طور پر بھی دشمنوں سے گھری ہوئی تھی- اس طرح آہستہ آہستہ ڈپلومیسی دعوت اور جہاد کے ذریعے طاقت بھی پکڑی گئی- انہیں یہود سے معاہدے بھی کیے گئے اور ان کی خلاف ورزیوں پر انہیں سزا بھی دی گئی-
اب آئیے موجودہ صورتحال کی طرف جس میں ہم مسلمان شدید مایوسی کا شکار ہیں- خود ہماری اپنی صفوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں اور دوسری انتہا پر ایسے لوگ بھی جو اسرائیل پر فوری چڑھائی کے لیے بے چین ہیں-
فی الحال اتنا سمجھ لیجئے کہ فلسطینیوں کی مالی و اخلاقی مدد فراہم کرنا، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کے حق میں علمی اور تحقیقی مواد مرتب کرنا، عالمی تنظیموں میں ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے ذریعے
بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کا استعمال کر کے ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا، دنیا کے سامنے اسرائیل کے جرائم کھول کر اسے شرمندہ کرنا، جہاد کے لیے طاقت پکڑنے کی کوشش کرنا یہ سب مختلف محاذ ہیں، جن میں سے ہر محاذ پر صبر کے ساتھ ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے- اسی طرح صحافت بھی ایک محاذ ہی ہے جس کے ذریعے اسرائیلی پروپیگنڈے کا جواب مستند معلومات کے ذریعے دینا ضروری ہے- اسی مقصد کے لیے یہ مضمون زیر تحریر ہے-
قبلہ اول اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم
سورۂ الاسراء آیت نمبر ایک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے، تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا‘‘-
جیسا ہم نے ذکر کیا، دوسرے عالمی تنازعات کے مقابلے میں مسلم دنیا میں قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا مسکن ہونے کے ناتے فلسطین کا مسئلہ دینی جذبات سے جڑا ہے لیکن قوم کی اکثریت زمینی حقائق سے بے خبر ہے اور اسی ناوا قفیت اور مستند معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عجیب عجیب غلط فہمیاں سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں کے بیانیہ میں بھی نظر آتی ہیں- رائے عامہ دوسرے تنازعات کی طرح یہاں بھی دو بیانیوں میں تقسیم ہے لیکن دونوں عام طور سے فلسطین کے پیچیدہ مسئلے کا ضرورت سے زیادہ سادہ منظرنامہ ( اوورسمپلی فائیڈ ورژن) پیش کرتے ہیں- ایک بیانیہ کے تحت یہ قبلہ اول کی حفاظت و حرمت کا مسئلہ ہے- جبکہ ایک مخصوص طبقے کے بیانیہ کے مطابق بیت المقدس میں یہود کا ہیکل سلیمانی مسجد اقصیٰ سے پہلے موجود تھا اور اس طرح یہود کا حق فلسطین پر مذہبی لحاظ سے مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ اس موقف کی کمزوری پر ہم آگے بحث کرتے ہیں-
حقیقت یہ ہے دیکھا جائے تو اس تنازعہ کو مذہبی تنازعہ قرار دلوا دینا، اسرائیل کی بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ فلسطینیوں کے موقف کو کمزور بنا دیتی ہے۔ صیہونی اسی دلیل کے تحت فلسطین پر قابض ہونے میں کامیاب ہوئے کہ دو ہزار سال قبل انہیں فلسطین سے بے دخل کیا گیا تھا، یہاں ان کا ہیکل موجود ہے اور اس لیے وہ اس سر زمین کے وارث ہیں-
اس تنازعہ کو عالمی منظر نامے میں مذہبی رنگ دینے میں صیہونیوں کا فائدہ ہے- وہ مذہبی حق کو بہانہ بنا کرپچھلے بہتر سال سے طاقت کا استعمال کر کے فلسطینیوں کو ان کی سر زمین سے بے دخل کرتے جا رہے ہیں- جبکہ جو منظر نامہ صیہونی پیش کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں اصل تاریخی حقائق کچھ اور ہیں-
فلسطین پر پہلا حق کس کا
آثار قدیمہ، عالمی تاریخ اور مذہبی صحیفے متفق ہیں کہ فلسطین میں بنی اسرائیل سے قبل کنعانی رہتے تھے- معروف اسرائیلی صحافی، امن ایکٹوسٹ اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے سابق سپاہی اوری ایونری اپنے ایک مضمون ‘Whose Acre’ میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے دوسرے صدر یتزک بن زیوی کی ریسرچ کے مطابق فلسطین کی سر زمین کی آبادی میں تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے لے کر انیسویں صدی میں صیہونی بستیوں کے قیام تک کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی. کنعانی آبادی، بنی اسرائیل (حضرت یعقوب کی اولاد جو بعد ازاں یہودی کہلائے) کے ساتھ مدغم ہوئی اور یہودی ہو گئی ۔رومی سلطنت میں عیسائیت پھیلنے کے بعد یہ عیسائی ہو گئے. دور فاروقی کی مسلم فتح کے بعد آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کیا اور عرب کلچر اور زبان کو اپنا لیا اوری اونری کے مطابق یورپ کے اشکنازی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت سے پہلے یہاں جو عربی بولنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد تھے، وہی در اصل اس سرزمین کے اصل وارث تھے۔
اوری ایونری کے مطابق یہودیت کے بارے میں یہ روایت غلط ہے کہ یہ تبلیغ کے کبھی قائل نہیں رہے – ان کا کہنا ہے کہ قرون وسطیٰ کے ادوار
تک یہودیت میں تبلیغ ہوتی تھی- ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپی یہودی نسلی طور پر بنی اسرائیل نہیں ہیں، بلکہ قرون وسطیٰ کے ادوار میں روس اور مشرقی یورپ کے خطے کی ایک ریاست کے باشندے تھے، جس کےبادشاہ نے یہودی مذہب قبول کیا اور اس کے ساتھ ساتھ تمام آبادی نے- یہی آبادی بعد ازاں یورپ کے مختلف حصوں میں پھیل گئی اور اشکنازی یہودی کہلائی- یورپ میں نشاۃِ ثانیہ اور فرانسیسی انقلاب کے باوجود انہیں انسان نہیں سمجھا جاتا تھا- ان کے ساتھ تاریخ کی بدترین نسلی عصبیت کا رویہ رکھا گیا- سولہویں صدی سے یورپ کے مختلف ممالک میں باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے انہیں گھیٹوزمیں دھکیلا گیا۔ روس اورمشرقی یورپ میں وقفے وقفے سے ان کے خلاف یہود کش فسادات ہوتے رہے اور انہیں حالات نے دراصل اشکنازی یہودیوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا اور صیہونیت کی تحریک وجود میں آئی –
یاد رہے اسرائیل کے قیام کی جدو جہد کرنے والے یہی اشکنازی یہودی تھے جو صیہونی (زِیونِسٹ) کہلائے-
ہسپانیہ میں مسلم دور ختم ہونے کے بعد جو یہودی گریٹر مشرق وسطیٰ میں پھیلے وہ سفارڈی یہودی کہلاتے ہیں- اس کے علاوہ اسرائیل کے قیام کے وقت یمن میں بھی یہودیوں کی بڑی تعداد موجود تھی- یہ یہودی مزراہی کہلاتے تھے- موخر الذکر دونوں گروہوں کا اسرائیل کے قیام میں کوئی کردار نہ تھا او ر اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرق وسطیٰ، سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ کے مسلم حکومتوں کے تحت زندگی گزرنے والے یہودیوں کو کبھی یہود کش فسادات، نسل پرستی یا ہولوکوسٹ جیسے انسانیت کش جرائم کا سامنا نہیں کرنا پڑا-
یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کے قیام کی جدو جہد کرنے والے صیہونی یہودیوں کی اکثریت سیکولر نظریات کی حامل ہے جو مذہب کو ریاست سے الگ پرائیویٹ معاملہ سمجھتے ہیں- اسی لیے یروشلم میں ہر سال گے (ہم جنسوں کی ) پریڈ ہوتی ہے جس کے مذہبی یہودی شدید مخالف ہیں- یورپ کےمذہبی یہودی گروہ خود بائبل کی تعلیمات کا حوالہ دے کر صیہونی تحریک سے الگ ہو گئے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ بائبل میں طاقت کے ذریعے اسرائیل میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے-
امریکی محقق جان گوئگلی کے مطابق مذہبی یہودی صیہونی تحریک سے شروع میں ہی اس کے سیکولر کردار کی وجہ سے بھی الگ ہو گئے- یعنی صیہونیوں کا یہ دعویٰ کہ وہ مذہبی اور تاریخی طور پر فلسطین کی سر زمین کے وارث ہیں، تاریخی اعتبار سے صحیح نہیں-
بعد ازاں اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم دیکھ کر بھی مغربی ممالک میں مقیم بہت سے یہودی اسرائیل کے مخالف ہو گئے- ان میں آئن اسٹائن جیسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اسرائیل کے قیام کی جدو جہد میں اپنا حصہ ڈالا لیکن اسرائیل کی حرکتیں دیکھ کر اس سے دوری اختیار کی- اس کا ذکر آگے آ رہا ہے-
عرب یہودیوں کے ساتھ اسرائیل کا سلوک
اس کے علاوہ اسرائیل میں عرب یہودیوں کے خلاف بھی شدید امتیاز اور تفریق برتی جاتی ہے- اسرائیلی صحافی اور محقق شوشانہ مدمونی نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے جس میں وہ تفصیل کے ساتھ یمنی اور دیگر عرب یہودیوں کے ساتھ اسرائیل کی امتیازی پالیسیوں کا ذکر کرتی ہیں – سرکاری طور پرعرب یہودیوں کے بچوں کے اغوا اور انہیں اشکنازی یہودیوں کی تحویل میں دینے کے اس کینڈل پر جس کا اقرار اب اسرائیلی پارلیمنٹ میں کر لیا گیا ہے، راقم کا ایک تفصیلی فیچر ایکسپرس اور نیشن میں شائع ہو چکا ہے-
عرب یہودی، عرب عیسائی اور مسلمان مل جل کر رہتے تھے
اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تاریخ گواہ ہے اور خود عرب فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اعلانِ بالفور سے پہلے فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی مل جل کر رہتے تھے- عربی بولنے والے عیسائی اور یہودی فلسطین میں ہمیشہ ایک معقول تعداد میں موجود رہے اور ان کے اور فلسطینی
مسلمانوں کےدرمیان کبھی دنگے فساد نہیں ہوئے جبکہ یورپ سے آئےیہودیوں کی بستیوں کے قیام سے قبل ان میں نوے فیصد سے زائد مسلمان تھے-
فلسطینیوں کے انسانی حقوق کا مسئلہ
حقیقت یہ ہے کہ لاکھوں فلسطینیوں کو خون ریزی کر کے ان کے گھروں اور گاؤں سے بے دخل کرنا، انہیں ہمسایہ ممالک اور غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کرنا، انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیاں ہیں- مسجد اقصیٰ کی حرمت کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے-
اگر ہم دنیا کو فلسطینیوں کا حق دلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس مسئلے کو بین الاقوامی قانون کے تناظر میں سمجھنا ہو گا اور سمجھنا ہو گا- یہی تناظر فلسطینیوں کے حق میں بھی جاتا ہے- ہم مسلمان عالمی ڈپلومیسی میں کمزور رہنے کی وجہ سے بہت جگہ اپنے دشمنوں سے مار کھا جاتے ہیں اور یہ امر ہماری بےبسی اور زوال کو بڑھاتا جا رہا ہے اور ہمیں اپنے ارد گرد دشمن کی سازشیں نظر آتی ہیں- اگر ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے تو سازشی نظریات پر غصہ کھاتے رہنے کی بجائےدنیا کی نفسیات اور آج کے مروجہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق دنیا سے معاملہ کرنا سیکھنا ہو گا-دنیا چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اس معاملے کے انسانی حقوق کے تناظر میں ہی ہماری بات سنے گی اور ہمیں اس تناظر میں بات کرنی سیکھنی ہو گی-
حضرت عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا،’’ اے کعبہ تو کتنا آمد ہے تیری خوشبو کتنی پیاری ہے. تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے. قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی جان اور مال کی حرمت الله کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے. (ابن ماجہ ٣٩٣٢)
سرکارؐ کے ارشاد گرامی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان کی جان ، مال اور عزت کا تحفظ ہمارے نزدیک مقدم ہونا چاہیے- یہاں کوئی یہ نہ سمجھے کہ انسانی حقوق کوئی مغربی ایجاد ہے- قرآن میں توریت کے حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے- یعنی ہمارا مذہب ہمیں صرف مسلمانوں کے ہی نہیں غیر مسلموں کے حقوق کی بھی ہدایت دیتا ہے-
بھارت اور اسرائیل کی ڈپلومیسی کی کامیابی
ہم اس سے قبل کشمیر پر اپنے مضمون (ستمبر 2019) میں کہہ چکے ہیں کہ کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ قرار دلوانا بھارت کی کامیابی ہے- اپنی سادگی میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر ہم بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیریوں کی طاقتور پوزیشن بھی چھین رہے ہوتے ہیں- جس چیز سے بھارت خوف زدہ ہے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت کشمیریوں کا حق خود ارادیت، بھارت کا قابض قوت ہونا، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسئلے کا عالمی سطح پر اٹھنا ہے- اسرائیل کی طرح بھارت کی عالمی ڈپلومیسی بھی بہت طاقتور ہے اور ہم میں اس کا جواب دینے کی اہلیت کمزور ہے- یہی معاملہ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں بھی ہے- یہاں بھی فلسطین کے مسئلے کو اگر دنیا میں اجاگر کرنا ہے، تو اس کے مقدمے کو عالمی قوانین کی اصطلاحات کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھانے کی ضرورت ہے-اس کام میں قابل افراد کی کمی آڑے آتی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کوبین الاقوامی قانون کی تعلیم دلوانے اور اس کے شعور کو عام کرنے کی ضرورت ہے-
مسئلہ فلسطین بین الاقوامی قانون کے تناظر میں
1948 میں اسرائیل کا قیام اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت عمل میں آیا لیکن اسرائیل کا طاقت کے زور پر منظم طریقے سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ہمسایہ ممالک یا فلسطین میں ہی Internally Displaced Personsبننے پر مجبور کرنا ایتھنک کلینزنگ کی تعریف میں آتا ہے- گو بین الاقوامی قانون کے مطابق اس اصطلاح کی تعریف
متعین نہیں ہے لیکن اس کا شمارانسانیت کے خلاف بڑے جرائم میں کیا جاتا ہے- اپنے قیام کے بعد سے ہی اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ شدید تفریق اورامتیاز پر مبنی ظالمانہ پالیسیوں پر عمل پیرا رہا ہے جس سے فلسطینی اپنے گھروں اور زندگی گزارنے کے بنیادی وسائل سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں- حال ہی میں عالمی اور اسرائیل کی اپنی انسانی حقوق کی تنظیم (بیتسلیم )نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف اپارٹائید یعنی نسلی عصبیت کے ارتکاب کا الزام عائد کیا ہے، جس کابھی شمار انسانیت کے خلاف بڑے جرائم میں ہوتا ہے- جیسا ہم نے ذکر کیا، اسرائیل کے قیام کو اقوام متحدہ کی سرپرستی حاصل تھی لیکن 1967 میں اسرائیل نے اچانک مصر اور شام پر حملہ کر کے فلسطین کی سو فیصد سر زمین کے علاوہ مصر میں صحرائے سینا اور شام میں گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا-اس سے قبل بھی1948 سے لے کر 1967 تک اسرائیل طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرتا رہا لیکن یہ حقائق مسلسل نظر انداز ہوئے-
روس، امریکا، برطانیہ جرمنی فرانس سمیت طاقتور اقوام عالم کو صیہونیوں نے اپنی ڈپلومیسی کے زور پر دباؤ میں رکھا ہو&ٔا ہے- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے خلاف پچھلے بہتّر سال میں بہت سی قرار دادیں منظور ہوئیں اور مجموعی طور پر دنیا کے ممالک اسرائیل کی حرکتوں اور فلسطینیوں پر مظالم کو صحیح نہیں سمجھتے لیکن سلامتی کونسل میں امریکا ہمیشہ اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا ہے-
اسرائیل کےاس دباؤ اور اثر کے باوجود یہ صورت ہے کہ 1967 میں جب اسرائیل نے فلسطین کے باقی ماندہ بائیس فیصد علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تو اس قبضے کو اقوام متحدہ نے تسلیم کرنے سے ان کار کر دیا- یہ علاقے Occupied territories کہلاتے ہیں-
کیلوگ براینڈن پیکٹ اور جنیوا کنونشن
1928 سے قبل عام طور پر دنیا میں طاقت کا استعمال کر کے کسی سر زمین پر قبضے کو قانونی حیثیت حاصل تھی لیکن 1928 کے کلوگ براینڈن پیکٹ اور پھر 1945 میں یو این کے قیام کے وقت تشکیل دیے گئے یو این چارٹر کے مطابق طاقت کے زور پر کسی ملک پر قبضہ کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا- جنیوا کنونشن جسے انٹرنیشنل ہیومینیٹیرین لاء یا عالمی قانونِ جنگ بھی کہا جاتا ہے، اس کے تحت فلسطین کے یہ تمام علاقے جن پر 1968 کے بعد اسرائیل نے قبضہ کیا، جن میں قبلہ اول کا مسکن مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی شامل ہے، ان کی حیثیت مقبوضہ علاقوں کی ہے- اسی کنونشن کے تحت، مقبوضہ علاقوں کے مکینوں کو جب تک یہ علاقہ واپس نہیں کر دیا جاتا، فلسطین اور اسرائیل دونوں فریقین حالت جنگ میں تصور کیےجائیں گے- اس سے بڑھ کر عالمی قانون مقبوضہ فریق کو مزاحمت کا حق دیتا ہے- اس کے علاوہ فلسطینیوں کا حق خود ارادیت بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹکل ایک (ا) کے تحت مسلّم ہے- ان سب قوانین پر ہم آگے تفصیل سے بات کرتے ہیں- مختصراً حق خود ارادیت کے تحت کسی بھی قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی فیصلے خود کرسکتی ہے- یعنی یہ کہ وہ کسی دوسری قوم کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا علیحدہ خود مختار ملک کی حیثیت سے رہنا چاہتی ہے، اس فیصلے کا حق اس قوم کو حاصل ہے بجائے اس کے اس ریاست کو جس کے تحت وہ زندگی گزار رہی ہے-
آئیے اب ان نکات پر تفصیلی بحث کرتے ہیں۔
اسرائیل کی نسلی عصبیت کی پالیسیاں
حالیہ دنوں میں فلسطین کو عالمی سطح پر جو سب سے بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا اسرائیلی پالیسیوں کو نسلی عصبیت کے ارتکاب کا الزام ہے- اپارٹ آئیڈ انسانیت کے خلاف نسل کشی جینو سائیڈ کے بعد دوسرا بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے- اپارٹ آئیڈ کا لفظ ایسے طرز حکمرانی کے لیے بولا جاتا ہے جس میں سرکاری سرپرستی میں نسلی عصبیت پر مبنی غیر انسانی پالیسیاں باقاعدہ منظم (institutionalized) طریقے سے اختیار کی جائیں اور ملک میں موجود دو قوموں یا نسلوں کے
ساتھ الگ الگ برتاؤ کیا جائےیا کسی ایک قوم کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جائے اور ایسا ایک قوم کو دوسری قوم پر برتری دلانے کے لیے کیا جاتا ہے-
یہ لفظ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں 1948سے لے کر 1990 کی دہائی کے آغاز تک گوروں کی حکومت میں مقامی آبادی کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے لیے استعمال ہوا- حالیہ ادوار میں چین کے ایغور مسلمانوں کے ساتھ چینی حکومت کے امتیازی سلوک کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہو رہا ہے- اس نظام کے تحت سرکاری پالیسیوں میں ایک نسل (گورے، چینی، اسرائیلی یہودی) کی حیثیت دوسری نسل (کالے، ایغور، عرب فلسطینی) سے اونچی ہوتی ہے اس لیے سرکار کی پالیسیاں برتر نسل کی حمایت میں بنائی جاتی ہیں اور دوسری نسل کے ساتھ باقاعدہ منظم طور پر غیر انسانی سلوک اور امتیاز برتا جاتا ہے- یہ امتیاز دوسری نسل کو مسلسل کمزور اور بنیادی حقوق اور زندگی گزارنے کے وسائل سے محروم کرتا چلا جاتا ہے-
اپارٹ آئیڈ کا اردو ترجمہ نسلی عصبیت کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور اصطلاح racial segregation استعمال ہوتی ہے جس کا ترجمہ نسلی تفریق کیا جا سکتا ہے- گو ترجمہ لفظ کی وسعت کا احاطہ نہیں کرسکتا-
انسانی حقوق کے معروف اداروں کا اسرائیلی پالیسیوں کو نسلی عصبیت پر مبنی قرار دینا
اپریل 2021 میں انسانی حقوق کے معروف ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی 213 صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل فلسیطنیوں کے خلاف اپارٹ آئیڈ یعنی نسلی عصبیت پر مبنی قوانین اور پالیسیز کا ارتکاب کر رہا ہے۔ رپورٹ میں ان اقدامات کو انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیا گیا- ہیومن رائٹس واچ نے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اپارٹ آئیڈ اور جنگی جرائم میں ملوث افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی کاروائی کا آغاز کرے۔ مذکورہ رپورٹ سے چند ہفتے قبل آئی سی سی نے اسرائیل اور حماس دونوں کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان کیا- فلسطینی اتھارٹی نے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا، لیکن اسرائیل نے ان تحقیقات کو سامی مخالف یعنی یہود مخالف قرار دیکر انہیں عدالت کے دائرہٕ کار سے باہر کہہ کر مسترد کر دیا ہے-
17 مئی 2021 کو الجزیرہ نے تین ماہرین کو فلسطین اسرائیل تنازعہ کا بین الاقوامی قانون کے تناظر میں جائزہ لینے کی دعوت دی تو اینکر سمیت تینوں ماہرین کی متفقہ رائے تھی کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی حدود میں بھی اور مقبوضہ علاقوں میں بھی اسرائیل کی پالیسیاں نسلی عصبیت پر مبنی ہیں اور فلسطینیوں کو مزاحمت کا حق ہے-
دنیا اسرائیل کی نسلی عصبیت پر حال میں آواز اٹھانے لگی ہے، لیکن فلسطین کے شہر ناصرہ میں مقیم برطانوی صحافی جوناتھن کک جو فلسطین اسرائیل تنازعہ پر تین کتابوں کے مصنف ہیں،اپنی کتاب Disappearing Palestine میں ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا طرز حکمرانی اپنی حدود میں رہنے والے فلسطینی عربوں کے ساتھ 1948 سے ہی نسلی عصبیت پر مبنی رہا ہے- ان کتابوں اور ان کی تحقیق کے اثرات عالمی منظر نام پر آج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں لیکن یہ دو دہائیوں سے نسلی عصبیت کے ثبوت خود اسرائیلی میڈیا اور اسرائیلی سیاست دانوں کے بیانات اور فلسطین کی سرزمین پر ہونے والے واقعا ت کی گراؤنڈ رپورٹنگ کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کرتے رہے ہیں- ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ کو اسی طرح کنٹرول کرنا چاہتا ہے جیسے سلطنت عثمانیہ استنبول سے ان خطوں کو کنٹرول کرتی تھی اور اسی مقصد کے لیے عرب دنیا کے ممالک کو اتنا کمزور کیا جا رہا ہے کہ وہ بظاہر خود مختار ہوتے ہوئے بھی خطے کی واحد طاقت کے محتاج ہوں-
اقوام متحدہ نے 1973 میں باقاعدہ ایک کنونشن کے تحت اپارٹ آئید اور نسلی تفریق (segregation ) کو بین الاقوامی قانون کے تحت
جرم قرار دیا- یاد رہے یہ یو این کا پہلا عالمی بائینڈنگ کنونشن تھا جس پر 109 ملکوں نے دستخط کیے- دوحہ کے کانفلکٹ اسٹڈیز سنٹر کے ڈائریکٹر سلطان برکات کے مطابق،اسرائیل اقوام متحدہ کے اس کنونشن اور بہت سے انسانی حقوق کنونشنز کا حصہ نہیں ہےاور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا-
ان اپارٹ آئیڈ پالیسیوں کا سب سے زیادہ کریہہ پہلو فلسطینیوں سے ان کے گھر اور گاؤں خالی کروا کر وہاں مسلسل یہودی بستیاں بسانا یا ان کے گھروں میں یہودیوں کو آباد کرنا ہے-1967 کی جنگ کے بعد باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے درمیان یہودی بستیاں قائم کی گئیں تاکہ فلسطینیوں کو مسلسل تقسیم کیا جائے۔ پچھلے چوّن 54 سال سے فلسطینی آبادیوں کی تقسیم کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے علاوہ خود مغربی کنارے میں بھی لاتعداد صیہونی بستیاں قائم کی گئیں۔ اس طرح فلسطینی آبادیوں کو مسلسل ایک دوسرے سے کاٹ کر گویا’’گھیٹوز‘‘ میں تبدیل کیا گیا اور انہیں اپنی ضروریات کے لیے خود انحصار نہیں رہنے دیا گیا۔ فلسطینی ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کبھی کبھی اسکول، صحت کے مراکز اور ہسپتال جانے کے لیے بھی اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہیں جو اپارٹ آئیڈ پالیسیوں کی ہی ایک شکل ہے- فلسطینی گاؤں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جدا کیا گیا ہے، جن پر اسرائیل کا قبضہ ہے- جوناتھن کک کے مطابق یہ بھی اپارٹ آئیڈ اور نسلی تفریق کی ہی تکلیف دہ شکل ہے کیونکہ اسرائیل کے زیر قبضہ یہودیوں کو ان حالات سے نہیں گزرنا پڑتا-
اپارٹ آئیڈ کے خلاف گوریلا جنگ کو عالمی برادری کی حمایت حاصل ہے
یاد رہے جنوبی افریقہ میں اپارٹ آئیڈ کے خلاف مزاحمت کی گئی جس میں مسلح گوریلا مزاحمت بھی شامل تھی- 1990میں ساؤتھ افریقہ میں نسلی عصبیت پر مبنی حکومت کا خاتمہ ممکن ہوا، اس میں مسلح مزاحمت کا بھی کردار تھا- جنوبی افریقہ کے ٹم مورتھی کا کہنا تھا کہ خود نیلسن منڈلا ایک وقت میں مسلح مزاحمت کا حصہ تھے۔ یہ حقائق ہمارے دیسی نقلی لبرل کے منہہ پر طمانچہ ہیں جو حماس کی جدوجہد کو مغرب سے متاثر ہو کر دہشت گردی کے زمرے میں رکھتے ہیں- یاد رکھیں چند دہائیوں پیشتر جنوبی افریقہ میں تبدیلی کے بارے میں بھی نہیں سوچا جا سکتا تھا لیکن 1990 کے آغاز میں نا ممکن ممکن ہو گیا اور سیاہ فاموں کو گوروں کے مقابلے میں انصاف ملا- یہ بات بھی نظر میں رکھنی چاہیے کہ مسلح مزاحمت کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ کو خطے سے باہر عوام اور دانشوروں میں بھی حمایت حاصل تھی جنہوں نے بائیکاٹ اور دیگر شکلوں میں جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف کمپین کو جاری رکھا۔اسی اصول کے تحت ساٹھ کی دھائی میں افریقہ اور دنیا کے بیشتر حصوں میں مقبوضہ قوموں نے اپنی آزادی کے لیے جدو جہد کی جنھیں اقوام متحدہ نے ان کا حق قرار دیا- اسی طرح آئر لینڈ نے برطانیہ کے خلاف مسلح مزاحمت کی اور بالآخر علیحدہ ریاست کا قیام عمل میں آیا- تو یہ حق فلسطینیوں کے لیے بھی لاگو ہے-
نارمن فنکل اسٹین، ایک امریکی یہودی محقق ہیں جن کے والد اور والدہ ہٹلر کے ہولوکوسٹ سے بچ نکلنے والوں میں سے تھے- فنکل اسٹین کی پی ایچ ڈی کا موضوع فلسطین اسرائیل تنازعہ تھا- وہ فلسطینیوں کے حق میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں- وہ اپنی کتابBeyond Chutzpaمیں وہ ایک خاتون مغربی رائیٹر ہیلن ہنٹ جیکسن کی ایک کتاب کا اقتباس پیش کرتے ہیں:
یورپی طاقتوں کے قبضے سے مزاحمت کے دوران، مقامی امریکیوں (قبائل) نے بہت سے ہولناک جرائم کا ارتکاب کیا وہ در اصل اپنی زمین چوری کرنے والوں کو قتل کر رہے تھے- (ہیلن ہنٹ جیکسن، 1981، پ.265)
ہیلن کا موقف یہ ہے کہ قابض قوت کے خلاف مسلح مزاحمت
مقبوضہ فریق کا حق ہے، اسے جرم نہیں سمجھا جائے گا-لیکن اس مسئلے کو سب سے زیادہ وضاحت سے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے پروفیسر مشتاق سمجھاتے ہیں جن کے مطابق بین الاقوامی قانونِ جنگ کے تحت جسے انٹرنیشنل ہیومینٹیرین قانون بھی کہا جاتا ہے، جب تک جارح طاقت کا قبضہ برقرار ہے حالت جنگ برقرار ہے- جینوا کنونشن میں اس کی صراحت کی گئی ہےکہ اگر قبضے کے وقت یا اس کے بعد بھی کوئی مزاحمت نہ ہو تو بھی طاقت کے استعمال سے کسی ریاست پر قبضہ ناجائز ہو گا اور جب تک قبضہ ختم نہیں ہوگا حالت جنگ رہے گی- جینوا قوانین کے تحت مزاحمت کار مقبوضہ علاقے میں بھی مزاحمت کرنے کا حق رکھتے ہیں، کسی دوسرے علاقے میں جا کر بھی مزاحمت کر سکتے ہیں، دوسری ریاستیں بھی ان کی مدد کر سکتی ہیں، وہ جلا وطن حکومت بھی قائم کر سکتے ہیں-
ایتھنک کلینسنگ (کسی قوم کو خوں ریزی اور تشدد کے ذریعے اس کی سر زمین سے باہر کر دینا)
ہمارے ہاں دانشوروں کا ایک طبقہ یہ بھی کہتا نظر آتا ہے کہ فلسطینی اگر 1948 میں اقوام متحدہ کے فیصلے کو قبول کر لیتے تو وہ آج اپنے ملک کے مالک ہوتے- حقیقت یہ ہے کہ صیہونی دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی فلسطینیوں کو فلسطین سے نکالنے کا فیصلہ کر چکے تھے- یہ وہ وقت تھا جب برطانوی مینڈیٹ کے زمانے میں فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر ان کی سر زمین پر یورپ سے یہودیوں کو لاکھوں کی تعداد میں منتقل کیا جا رہا تھا- صیہونی دنیا کو یقین دلا رہے تھے کہ صیہونی ریاست کے قیام کے بعد عربوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی- ان کا کہنا تھا کہ ہم تو فلسطین کی خالی زمین پر یورپ سے آئے ہوئے یہودیوں کو بسائیں گے-
لیکن امریکا کی اوہائیو یونیورسٹی کے ایک محقق جان کویگلی کی کتاب اس معاملے کے کچھ اور حقائق آشکار کرتی ہے-وہ اسرائیل فلسطین تنازعہ پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں- اپنی 2016 میں شائع شدہ کتاب
The International diplomacy of the Founders of Israel: Deception at the United Nations in the Quest for Palestine
’’اسرائیل کے بانیوں کی عالمی ڈپلومیسی: فلسطین ہتھیانے کے لیے اقوام متحدہ کو کس طرح دھوکہ دیا گیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جنگ عظیم دوئم کے دوران برطانیہ میں روسی سفیرایوان مایسکی کو یقین دلایا گیا کہ صیہونی خود کوبرطانیہ سے زیادہ روس کے قریب محسوس کرتے ہیں اور فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کے بعد مشرق وسطیٰ کےخطے میں روس کے مفادات کا تحفظ کریں گے- 1941 میں ان کی روسی سفیر سے گفتگو کے ریکارڈز میں فلسطینی آبادی کے ہمسایہ ممالک میں منتقلی کا منصوبہ بھی شامل ہے- جس پر روسی سفیر نے انہیں مدد کی پیش کش کی کہ روس کو آبادی کی منتقلی کا تجربہ ہے لیکن صیہونی لیڈران کا کہنا تھا کہ اردن، شام اور لبنان سے فلسطین کا فاصلہ اتنا(کم)ہے کہ وہ (صیہونی) خود یہ کام آسانی سے کر سکتے ہیں-
اسرائیل کے جرائم عالمی اداروں، حکومتوں اور میڈیا پر اثر رسوخ کی وجہ سے کئی دہائیاں چھپے رہے ہیں اور پاکستان میں آج بھی عوام کی کثیر تعداد اس کا شکار ہو رہی ہے لیکن خود یہودی اس کے جرائم سے خوب واقف ہیں، اور اسی لیے اسرائیل کے بعض حمایتیوں نے بھی فلسطینیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں دیکھنے کے بعد اس کی بدمعاشیوں کے خلاف احتجاج کیا-
آئن اسٹائن کی زندگی پر تحقیق کرنے والے اور اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر کئی کتابیں لکھنے والے محقق فریڈ جیریمی اپنی کتاب Einstein on Israel and Zionism میں لکھتا ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیلی لیڈر مینخم بیگن (جو بعد ازاں اسرائیل کا چھٹا وزیراعظم بھی بنا) کی امریکا آمد کے موقع پر آئن اسٹائن امریکا کے ان
پچیس معروف ترین یہودیوں میں شامل تھا جنہوں نے اپنے دستخط کے ساتھ نیویارک ٹائمز میں اسرائیلی لیڈر کی امریکا آمد پر احتجاج کیا- مشترکہ خط میں جو چار دسمبر 1948 کو نیویارک ٹائمز میں پورے پیج پر اشتہار کی صورت شائع ہؤا، کہا گیا کہ اسرائیل کو قائم کرنے والی جماعت دہشت گرد، اور نازیوں کی طرح فاشسٹ ہے جس نے فلسطینی گاؤں دیر یاسین میں نہتے فلسطینیوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا- یہ حقائق ہمارے اسرائیل نواز دانشوروں کے منہہ پر طمانچہ ہیں جو حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اسرائیل کو ہیومن رائٹس کا چیمپئن-
یہود مخالف کارڈ کا استعمال
نارمن فنکل اسٹین کے مطابق اسرائیل یا اس کے حواریوں کے سامنے جب دلائل سے اسرائیل کی زیادتیوں اور عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا جائے تو وہ اینٹی سمیٹک یعنی یہود مخالف کارڈ کا استعمال کرتے ہیں کہ اسرائیل پر تنقید دراصل یہود سے نفرت ہے- اینٹی سمیٹزم کے خاتمے کے نام پر اربوں ڈالر کا بجٹ رکھنے والی تنظیمیں مغرب کو ہولوکاسٹ اور صدیوں یہود پر ظلم کا طعنہ دیکر مسلسل دباؤ میں رکھتی ہیں- اظہار رائے کی آزادی جدید مغرب کی چند بنیادی اقدار میں سے ہے لیکن مغربی میڈیا اور سیاست کچھ اس طرح اسرائیل کے کنٹرول میں ہے کہ اینٹی سمیٹزم کے الزام سے بچنے کے لیے لوگ اس سے احتراز کرتے ہیں لیکن اب مغرب سے بلکہ انصاف پسند یہودیوں کے حلقوں سے ہی اس کے خلاف چیدہ چیدہ آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں-
ہمارے کرنے کے کام
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے منظر نامے میں ہمارا لا ئحہ عمل کیا ہونا چاہیے ؟
اکثر مایوسی میں ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ تحقیق، قلمی جہاد، سب وقت کا ضیاع اور فضول سرگرمیاں ہیں- ان چیزوں سے دنیا میں حقوق نہیں ملتے- اصل بات یہ ہے کہ ہم مسلمان سنسنی اور جلد بازی کا شکار ہیں اور صحیح سمت میں کام کرنے کے لیے جو صبر آزما جدوجہد درکار ہے اس سے جی چراتے ہیں- اپنے زوال کا ذمہ دار ہم اپنے دشمنوں کی سازشوں کو ٹھہراتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ دشمن کا تو کام یہی ہے-
ہمارے کرنے کا سب سے پہلا کام تو تنازعہ کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرنا اور انہیں پھیلانا ہے، کیونکہ پاکستان میں بھی اسرائیل کے پروپیگنڈے سے متاثر لوگ بڑی تعداد میں غلط فہمیاں پھیلانے میں مصروف ہیں- سوشل میڈیا کے دور میں ہر فرد صحافی ہے بس خبر یا معلومات جو شئیر یا فارورڈ کریں اس کی تصدیق ضرور کریں- اس کے ساتھ ہی فلسطینیوں اور جہاں جہاں انسانیت پر ظلم ہو رہا ہے مظلوموں سے یکجہتی کا اظہار ضرور کریں- ان میں روہنگیا بھی شامل ہیں اور ایغور بھی اور بھارت کے مسلمان بھی جو اس پاکستان کی قیمت ادا کر رہے ہیں جس میں ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں- اس کے ساتھ ان مسلمانوں کی مالی و اخلاقی مدد فراہم کرنا، ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا، ان کے حق میں علمی اور تحقیقی مواد مرتب کرنا، عالمی تنظیموں میں ڈپلومیسی اور سفارت کاری کے ذریعے بین الاقوامی قوانین اور اصطلاحات کا استعمال کر کے ان کے انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی ضروری ہے-اس کی اہلیت خود بھی پیدا کریں اور اپنے بچوں کو بھی تیار کریں-
مغربی اور انصاف پسند یہودیوں کی تحقیقی کاوشیں
پاکستان میں فلسطین کے مسئلے کے حوالے سے جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں، ہم نے اس مضمون میں ان میں سے چند کا جواب دینے کی کوشش کی ہے- میں ان تمام مصنفین کی مشکور ہوں جن کی تحریر اور تحقیق سے استفادہ کر کے یہ مضمون تحریر کیا گیا- عام طور سے ہمارے ہاں مغرب کو اسرائیل کا حمایتی اور مسلمانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے اور حکومت اور علمی میڈیا کی حد تک اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں تحقیق کا دشوار گزار کام تقریباً سارا مغربی یونیورسٹیوں میں ہی ہؤا ہے- اور یہ اس بات کا ثبوت ہےکہ
مغرب کے انصاف پسند علمی حلقے فلسطین کے مسئلے کی پیچیدگیوں سے ہم سے زیادہ واقف ہیں- ان محققین اور صحافیوں میں ایک معقول تعداد خود یہودی مصنفین کی بھی ہے اور مغربی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل مسلمانوں کی بھی- مسلم دنیا میں ہم فی الحال جذبات کے اظہار کو ہی کافی سمجھتے ہیں-
نوٹ :اس مضمون کی تیاری میں جوناتھن کک، اوری اونری، نارمن فنکل اسٹین، جان کویگلی، شوشانہ مدمونی کی تحریروں کے علاوہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر محمد مشتاق، دوحہ قطرمیں کانفلکٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر سلطان برکات، جنوبی افریقہ کے پروفیسر ٹم مورتھی، برطانیہ کی ایج ہل یونیورسٹی کے پروفیسر ترسٹینا مارینیلو کی یوٹیوب وڈیوز میں موجود گفتگو سے استفادہ کیا گیا ہے-
٭ ٭ ٭