۲۰۲۴ بتول فروریاب میں کیا کروں؟ - ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

اب میں کیا کروں؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

لفظوں کی ترتیب، لہجے کا اتار چڑھائو، ایک سادہ سے جملے کی ساری بُنَت بدل دیتا ہے۔ جیسے مشہورِ زمانہ کتاب کا عنوان:
‘‘Friends not master’’
اس میں’’not‘‘کو پہلے لفظ کے ساتھ یا بعد والے لفظ کے ساتھ کر دیں تو معنی یکسر بدل جاتے ہیں۔
’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ کو بھی کہنے والا اپنی منشاء کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔
اس کو دوغلی پالیسی بھی کہتے ہیں۔ دوغلی کا مطلب ہے برعکس، متضاد یا دو رُخی پالیسی۔ جس کو منافقت بھی کہا جاتا ہے۔ منافقت لفظ نفق سے ہے اور نفق سرنگ کو کہتے ہیں جس کی دونوں اطراف کھلی ہوتی ہیں۔ چوہے کے بل کو بھی نفق کہا جاتا ہے، اس لیے کہ چوہے کے لیے موقع محل دیکھ کر دائیں یا بائیں کا راستہ اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جملے کے درمیانی لفظ کی نشست کا ’’رولا‘‘ کس طرح نمٹایا جائے؟ کہنے والا تو اپنے لیے دونوں طرف کا راستہ کھلا رکھتا ہے۔ نتیجہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھتا ہے اور مطیع کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ شاید اسی صورتحال کو کہہ سکتے ہیں’’حکم حاکم مرگ مفاجات‘‘۔
یہ کسی کے ساتھ انتقامی رویہ میں ذہنی اذیت دینا یا بڑے مقصد کے تحت تربیت دینے کے لیے حکمت جانچنے کی ذہنی آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔
جنگی حکمت عملی سکھانے یا کوئی تربیتی کورس کے لیے تو یہ بہت کارآمد طریقہ کار ہے کہ ہر دو ایمرجنسی صورتحال میں ’’اٹھنے‘‘ یا ’’بیٹھنے‘‘ کا فوری فیصلہ کس طرح کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ عمومی معاشرت میں بااختیار فرد اس طرح بولنے کا عادی ہو تو کیا کرنا مناسب ہے؟
کسی حکمت عملی سے کام لیا جائے یا اپنی مرضی کی جائے؟
بیٹھا جائے یا اٹھا جائے یا دونوں کے درمیان معلق رہا جائے؟
اس مزاج کے مکار لوگوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے جو محض اپنی متکبرانہ انا کی تسکین کی خاطر دوسرے کو غلط، نافرمان اور بے وقوف ثابت کرنے کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ہم پہ کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا اور ان کے رویے برداشت کرنے والے بھی معاشرتی یا دفتری دبائو کے تحت مجبور محض ہوتے ہیں۔
بااختیار فرد اپنے سے بڑے با اختیار کے سامنے محاسبے سے صاف بچ نکلتا ہے کہ اس نے اپنے بچائو کا راستہ ہر دو صورت میں کھلا رکھا ہوتا ہے۔
ایک اور قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ماتحت افراد کو فیصلہ کرنے کے دو متضاد آپشنز دیتے ہیں اور دونوں کے نفع و نقصان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آپ کو طرزِ عمل کے اختیار میں کلی آزادی ہے مگر بعد میں حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے احمق ثابت کر کے نقصان کی ساری ذمہ داری ماتحت افراد پہ ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ باور کرواتے ہیں کہ میں نے اس کے علاوہ بھی آپشن دیا تھا۔ آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے وہ یکسر بھول جاتے ہیں کہ دونوں آپشن میں آزادانہ طرزِ عمل کا اختیار خود ہی دیا تھا۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے ذہنی اذیت دینے والے افراد کا توڑ کرنے کے لیے عقل سلیم کیا کہتی ہے؟ معاشرے میں ایسے لوگوں کے ساتھ نبھا کرنے کے لیے حکمت کا تقاضا کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ عقل سلیم ہی حکمت عطا کرتی ہے تو پہلا کام اپنی عقل سلیم کا جائزہ لینا ہے۔
عقل سلیم ایک سلیم الطبع، عملی فکر کا نام ہے جس کی میزان پر روزانہ کے معاملات پر کوئی حتمی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ اس میں وہ صلاحیتیں بھی شامل ہیں جو معاملے کو سمجھ سکیں، اس کی باریکیوں کو جاننے میں مدد کریں اور ایسی فیصلہ سازی پر پہنچ سکیں جو تقریباً سبھی عاقل لوگوں کے نزدیک قابل قبول ہو۔
سلیم کا مطلب ہے صحیح سالم، بے عیب، آلودگی سے پاک اور صاف ستھرا…. یعنی عقل سلیم جو فیصلہ کرے اس پہ قائم رہنا۔
دراصل قرآنی اصطلاح میں قلب سلیم ہی عقل سلیم ہے….سورہ الشعراء آیت نمبر٢٦ میں فرمایا گیا:
’’اس دن نہ مال کام آئے گا نہ ہی اولاد بلکہ صرف جو قلب سلیم کے ساتھ آئے گا‘‘۔
قلب سلیم یا عقل سلیم کسی بھی انسان کو مثبت فکری جدو جہد سے حاصل ہوتی ہے۔ مثبت فکری جدوجہد کے ذرائع میں علم نافع کا حصول اور اس کی روشنی میں اپنا مسلسل محاسبہ بنیادی نکتہ ہے۔ جو فرد اپنی شخصیت کو بہتر سے بہترین بنانے کا نصب العین بنا لیتا ہے اس کی قدرت راہنمائی کرتی ہے اور دل کی نگری میں توحید کا دیا روشن ہو جاتا ہے….اور انسان کو اپنے لیے راہ نما بھی مل جاتا ہے۔ عقیدہ توحید ہی عقل سلیم کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ اور عقیدہ رسالت ہی قلبِ سلیم والی مضبوط شخصیت بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔
یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اب دنیا میں عقیدہ توحید کی حامل امت مسلمہ ہے اور مسلمانوں کی عقل سلیم یا قلب سلیم کا پیمانہ کیا ہے؟
جی ہاں! ہم سب کو انفرادی طور پہ اپنے اپنے عقیدہ توحید و رسالت کی آبیاری کی ضرورت ہے۔اور اس میں خود رو کانٹے دار جھاڑیوں کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے دیار دل اجڑا ہؤا ہے اس لیے کوئی فرعونی مزاج کا ہے تو کوئی اس مزاج کے سامنے حق بات کہنے سے ڈرتا ہے۔’’اپنی اصلاح آپ‘‘ کے تحت ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے۔ اس طرح ہی مومنوں کے روشن دلوں کی وجہ سے امت مسلمہ کھوئی ہوئی عظمت حاصل کر پائے گی۔
قول و فعل میں تضاد منافقت ہے اور اس کی علامات درج ذیل ہیں:
دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
•محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور اسوہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اپنے معاملات کو نبھانا ضروری نہ سمجھنا۔
دھوکہ دہی اور مکر و فریب، جھوٹ بولنے کی نفسیات کا حامل ہونا۔
یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہے۔
•یہ خیال کرنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
•نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔ دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہلِ عقل و دانش سمجھنا۔
•اپنے مسلک کے علاوہ امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔
•کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔ شریعت کا جو حکم اپنے نفس کو پسند ہو صرف اس پہ عمل کرنا۔
•اہلِ حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
•دین دار لوگوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
•باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
•سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
•تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔
• اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچائو کی تدابیر اختیار کرنا۔
•اہلِ حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔
•اپنے مفادات کے حصول کے لیے اہلِ حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔
•حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا۔
اپنا جائزہ لینے کے بعد یہ تعین کیا جائے کہ آپ کا پیمانہ ایمان و اسلام کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس فطرت پہ پیدا کیا ہے کہ وہ خود اپنا جائزہ لے کر تعین کر سکتا ہے کہ وہ بحیثیت انسان کہاں کھڑا ہے۔ انسان اپنی ذات کی برائیوں پہ لاکھ دلیلیں دے، اندر سے وہ جانتا ہے کہ دراصل اس کا عمل دوسروں کے لیے باعثِ خیر ہے یا شر…. اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ وہ شر پسند انسان کے شر کا توڑ جانتا ہے یا خود ٹوٹ جاتا ہے۔
آئیے اب اس سوال کی طرف چلتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے جب ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جیسے حکم دینے والے مزاج سے واسطہ پڑ جائے۔ اس مشکل صورتِ حال میں عموماً یہی بہتر سمجھا جائے گا کہ سیاق وسباق سے اندازہ لگا کر’’اٹھ جائیں‘‘ یا’’بیٹھ جائیں‘‘۔
جی بہت بہتر! مگر درست سیاق و سباق تو قلبِ سلیم ہی سجھا سکتا ہے۔ منافقانہ طرزِ عمل اختیار کرنے والوں کے سامنے ڈٹ جانے کی ہمت اسی وقت آتی ہے جب قلبِ سلیم کا رابطہ رب العزت سے جڑا ہوگا اور اسی رب کی طرف سے فیصلے کرنے کے لیے دل میں القاء ہوگا۔ بروقت درست فیصلہ کرنے اور اس پہ ڈٹ جانے کے لیے ہر نماز کی ہر رکعت میں یہی تو سکھایا گیا ہے:
إَیَّاکَ نَعْبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ إھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
دنیا کے بد باطن منافق اور اذیت پسند لوگوں کے طرزِ عمل پہ کیا ردعمل دکھانا ہے اور ہر ناگہانی، لاینحل، پیچیدہ مسئلے کا حل مائل بہ کرم ذات کی طرف سے دل میں القاء ہو جانے کا راز سورہ الفاتحہ میں ہی تو پوشیدہ ہے۔
غزل

چپ رہنا ٹک دیکھنا کچھ نہ کہنا اچھا لگتا ہے
دل ہی دل میں کڑھنا رونا ہنسنا اچھا لگتا ہے
کھوج میں جب دو چار سُکھوں کے دنیا گھوم کے تھک جائیں
دکھ گھر کی دہلیز پہ مِل کے سہنا اچھا لگتا ہے
کھلی فضا میں اڑتے پنچھی بہکی بہکی مست ہوا
پنکھ بنا ان سب کے سنگ سنگ اڑنا اچھا لگتا ہے
جگنو تتلی چاند ستارے اڑتے بادل ہنستی دھوپ
دل آنگن میں انہیں بلا کے کھیلنا اچھا لگتا ہے
ساری عمر کی دانائی کا بوجھ اتار کے کندھوں سے
ہر بچے کی نادانی سے بہلنا اچھا لگتا ہے
بغض وحسد کی آگ میں جلتی دنیا جب برسائے آگ
صبر کی ٹھنڈی موجوں کے سنگ بہنا اچھا لگتا ہے
سارے کام ادھورے چھوڑ کے نرم سنہری دھوپوں میں
بیتے وقت کی اک اک تہہ کو کھولنا اچھا لگتا ہے
شیلف پہ رکھی تصویریں جب دھیرے دھیرے بات کریں
کوئی پرانا پیاروں کا خط پڑھنا اچھا لگتا ہے
دیکھ کے اپنے بچوں کو خود اپنے میں مصروف بہت
پانی کیاری کے پھولوں کو دینا اچھا لگتا ہے

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here