ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

محشر خیال – بتول جنوری ۲۰۲۳

شمارہ دسمبر 2022ء دھند بادلوں اور سخت سردی کا تاثر دیتا ہوا ٹائٹل بہت ہی دلکش ہے ۔ اور ’’ابتدا تیرے نام سے‘‘ مدیرہ محترمہ ڈاکٹر صائمہ اسما کے جاندار حالاتِ حاضرہ پر تبصروں پہ مبنی اداریہ دعوتِ فکر د ے رہا ہے ۔ارباب بست وکشاد کی آنکھیں کھولنے کے لیے اداریے کے یہ جملے ہی کافی ہیں ’’ سیاست کے نام پہ شیطانیت کا رقص جاری ہے ہوسِ اقتدار اور خاندانی حکومتوں کے تسلسل کی خاطر انسانیت بالائے طاق رکھ دی گئی ہے ، تیس پینتیس برس تک مادرِ وطن کی لوٹ کھسوٹ سے اب تک شکم بھرے نہ نیت ۔ البتہ خزانے خوب بھر گئے ، جائیدادیں بن گئیں ۔ اب یہ سب اپنی آل اولاد کے لیے چھوڑ کر خود دو گز زمین کے منظر ہیں ، آج ملے یا کل‘‘۔ اداریے کا اختتام بڑے زبردست اشعار سے کیا گیا ہے ۔
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بھر جاتے ہیں
زندگی تیرے تعاقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
۔’’دعوت دین ‘‘ چند گمنام گوشے ( عبد المتین ) اس شاندار مضمون میں دعوت دین دینے کے اسرار و رموز بنائے گئے ہیں کہ داعی کو بھرپور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے اُسے معاشرے سے کٹ کر نہیں رہنا چاہیے ان کی غمی خوشی میں شامل ، خدمتِ خلق کے جذبے سے سر شار ہونا چاہیے اور دعوت دین میں خلوصِ نیت کا ہونا بہت ضروری ہے ۔
۔’’ مشترکہ رہائش‘‘ احکامِ نبویؐ کی روشنی میں (ندا اسلام) آپ نے نہایت خوبصورتی سے سمجھایا ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں بھی بے شمار مسائل جنم لے سکتے ہیں اس لیے ہمیں ہمیشہ مشترکہ خاندانی نظام پر زور نہیں دینا چاہیے بہر حال بوڑھے والدین کو اپنے پاس عزت و احترام کے ساتھ رکھنا لازمی ہے ہمارا مذہب یہی سکھاتا ہے ۔
۔’’ مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے چند پہلو ‘‘ ( حبیب الرحمن صاحب کا مضمون) مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے بارے میں ایک معلوماتی ، تحقیقی اور دلچسپ مضمون ہے ۔ مولانا نے اپنی ساری زندگی خدمت اسلام میں گزاری ۔ آپ کی گرانقدر تصانیف ساری دنیا میں پڑھی جاتی ہیں آپ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کے مطابق طرزِ حکومت پر زور دیا۔
حصہ شعر و شاعری
۔ڈاکٹر جاوید اقبال باتش کی خوبصورت نعت سے دو منتخب اشعار
یہ میرے سانس کی خوشبو ہے میرے کمرے میں
لبوں نے اسمِ محمدؐ ابھی پکارا ہے
درودِ پاک سجایا ہے میں نے ماتھے پر
جبیں پہ ان دنوں روشن یہی ستارا ہے
۔’’کتھا‘‘ صہیب اکرام کی ایک خوبصورت آزاد نظم۔
عمر بھر کی کاہش بے غم کے خو گر
اس جہانِ بے بصر میں ہم کہاں تک
اپنے دل میں خاک ہوتی بستیوں کے دکھ سمیٹیں
۔حبیب الرحمن صاحب کی غزل سے ایک منتخب شعر۔
سرنگوںہے تو بصد شوق جیو تم یارو
سراٹھانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی

۔’’’سچ نگری کے مسافروں کے نام ‘‘عائشہ اسلم کی ایک خوبصورت آزاد نظم۔
میں سچ نگری کے رستے کا جگنو، تارا بن جائوں گا
ختم کریں گے جسم مرا تو میں شعلہ بن جائوں گا
۔’’ گڈو، آپا اور دودھ مدھانی‘‘( شاہدہ اکرام)ایک مثالی کردار ’’ آپا‘‘ پر لکھی گئی ایک خوبصورت کہانی۔ ایک ایسی خوب صورت اور خوب سیرت خاتون کاذکر جو حسن اخلاق وکردار کا پیکر تھی۔ اس کہانی میں کردار نگاری بڑی زبردست ہے ۔ دیہاتی زندگی کا خوبصورت تذکرہ، پڑھ کے لطف آگیا۔
۔’’ وہ اجنبی شناسا سی ‘‘(شہلا خضر) یہ کہانی سکھاتی ہے کہ ہمیں کسی کے بارے میں خوامخواہ بد گمانیوں کوجگہ نہیں دینی چاہیے ہو سکتا ہے ہمارا اندازہ غلط ہو۔
۔’’ یہ تیر وہ ہے کہ جو لوٹ کر بھی آتا ہے ‘‘( اسما صدیقہ) بعض خواتین کی عادت ہوتی ہے کہ دوسروں پرکوئی نہ کوئی اعتراض کرنا، کوئی پھتی کسنا ، دوسروں کے لباس کو نشانہ بنانا لیکن کبھی کبھی یہی صورت ان کے اپنے ساتھ پیش آجاتی ہے تو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔
۔’’سیاہی‘‘ ( عائشہ ناصر) اس کی رنگت سانولی تھی کوئی اس کا رشتہ لینا پسند نہ کرتا تھا ۔ بالآخر اس کی شادی ہوگئی لیکن خاوند نابینا تھا ۔ اس نے پھر بھی شکر ادا کیا کہ وہ اس کی سانولی صورت تونہ دیکھ سکے گا ۔
۔’’ گواہی آخرِ شب کی ‘‘( الطاف فاطمہ)سقوط ڈھاکہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کی یاد مدتوں بھلائی نہ جا سکے گی ۔ ہمارے ہزاروں فوجی جوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے کہ کسی طرح پاکستان نہ ٹوٹے لیکن بھارت کی سازش اور اپنوں کی غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہو گیا ۔ یہ اثر انگیز کہانی اس پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔
۔’’ اک ستارہ تھی میں ‘‘ ( اسما اشرف منہاس) اس ناول کی یہ قسط بہت ہی خوبصورت ہے بی بی ، ان کی بیٹی ماریہ ، خود پون تینوں کردار بہت پیارے ہیں ، دلکش شخصیت اور کردار کے مالک ، عزم وحوصلے کے پیکر ۔ کہانی بہت دلچسپ ہوتی جا رہی ہے ۔ واقعی اسما منہاس صاحبہ کو کہانی لکھنے کا فن خوب آتا ہے ۔
۔’’خدا کے خاص بندے ‘‘ فرحت نعیم اختر کی بنگلہ دیش کے شہیدوں کے نام خوبصورت خراج عقیدت ہے ۔
لحد پہ پھول کھلتے ہیں کفن خوشبوکا ہوتا ہے
کبھی دیکھے نہ ہوں گے اس طرح آباد ویرانے
۔’’ہم کے ٹھہرے اجنبی‘‘( ڈاکٹر بشریٰ تسنیم ) بنگلہ دیش کے پس منظر میں لکھی گئی ایک زبردست کہانی ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت درد ناک لہجے میں اسے تحریر کیا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا زخم ہے جو شاید قیامت تک مندمل نہ ہو سکے ۔ کاش اس سانحے سے پہلے سنجیدگی سے کچھ اقدام کر لیا جاتا تو یہ سانحہ رونما نہ ہوتا اور اک دل کے یوں دوٹکڑے نہ ہوتے۔
۔’’ اک آگ کا دریا تھا ‘‘(فریحہ مبارک)1947ء میں مسلمانوں کے ساتھ انتہا پسند ہندئوں اورسکھوں نے بہت بے رحمانہ ظلم کیا نہ جانے جواس وقت تک آپس میں پیار محبت سے رہ رہے تھے انہیں اچانک کیا ہو گیا ، آنکھوں میں خون اتر آیا ۔ کاش ارباب اختیار پہلے سے پیش بینی سے کام لیتے اور یہ انتقالِ اقتدار پر امن ہوتا ۔ اس المناک سانحے کے زخم بھی قیامت تک نہیں بھریں گے ۔
۔’’ عملِ قوم لوط اور آج کے مسلمان‘‘ ( تزئین حسن) ہم جنس پرستی ایک نہایت تشویش ناک مسئلہ ہے ۔ اسلام میں تو اس قبیح فعل کی قطعاً گنجائش و اجازت نہیں ۔ اس اہم تحقیقی مضمون میں اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ مصنفہ کا خیال صحیح ہے کہ ہم ان فتنوںسے آگاہی کے ذریعہ ہی بچوں کو اس مذموم فعل سے دور رکھ سکتے ہیں ۔
۔’’ ہنسنا منع نہیں ہے ‘‘( عالیہ حمید ) ایک تقریب کا نہایت دلچسپ احوال ۔ اس میں مصنفہ کی حسِ مزاح جھلکتی ہے ہلکے پھلکے انداز میںدلچسپ جملوں سے یہ مضمون بہت مزیدار بن گیا ہے ۔
۔’’ قصہ محبتوں کا ‘‘(عینی عرفان) ایک خوبصورت اور پیاری تقریب کا آنکھوں دیکھا احوال ۔ اندازِ بیان بڑا دلچسپ اور دلکش ہے ۔ یہ جملے خوب ہیں ’’ آج عشرت جی نے سوال پوچھا آپ بولتی کیوں

نہیں؟ بولتی تو میں بہت ہوں، پر شاید میرے سسٹم میں کچھ گڑ بڑ ہے ۔ میری زبان میری انگلیوں میں ہے اور میری آواز میرے قلم میں ‘‘۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر صائمہ اسما نے اپنے خطاب میں کیا فرمایا مختصر ذکر کر دیتیںتو بہت اچھا لگتا ۔
۔’’ ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ (نبیلہ شہزاد) خواتین اپنی عمر چھپانے کی کوشش کرتی ہیں اس موضوع پر نہایت دلچسپ انداز میں یہ مضمون تحریر کیا گیا ہے بلکہ اب تو مرد حضرات بھی اپنی عمر چھپانے کے لیے بیوٹی پارلر کا رخ کرتے ہیں ۔
۔ بتول میگزین’’ بیچارے ‘‘ میںفریحہ مبارک صاحبہ نے موٹر سائیکل سواروں کی اندھا دھند ڈرائیو نگ پر دلچسپ تبصرہ کیا ہے ۔
۔’’ ایک ہندوستانی نو مسلم خاتون ‘‘( مریم فاروقی ) ایک ایسی مہربان خاتون کی داستان جو پہلے ہندو تھی پھر مسلمان ہوگئی اوراسلامی تعلیمات اوراصولوں پر کار بند رہنے لگی ۔
۔’’ ایک اچھا قدم ‘‘ ( بنت زاہدہ) اس مضمون میں سمجھایا گیا ہے کہ بیوہ لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق دوسری شادی کر لینی چاہیے اسی میں بھلائی ہے اور معاشرے کی اصلاح ہے۔
۔اس ماہ خلاف توقع نہ تو قانتہ رابعہ صاحبہ کی کوئی کہانی شامل ہے اور نہ ہی ہمیں ’’ گوشہ تسنیم ‘‘ کی سیر کی سعادت حاصل ہوئی ۔ بہت کمی محسوس ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ آپ دونوںنامور خواتین کو سلامت رکھے (آمین)
ادارہ’’ چمن بتول ‘‘اور قارئین کے لیے دلی نیک خواہشات کے ساتھ اجازت۔
٭…٭…٭
مہوش احسان ۔راولپنڈی
نومبر کا بتول میرے سامنے ہے بتول سے بچپن کی یادیں جڑی ہیں بہت معیاری رسالہ ہے اللہ سے دعا ہے ہماری نوجوان نسل کو اچھے لٹریچر سے محبت ہو جائے کہ کتاب بینی اب ختم ہونے کو ہے ۔
اداریہ میں ڈاکٹر صائمہ اسما دریا کو کوزے میں بند کر دیتی ہیں تاکہ کم الفاظ میں حالات حاضرہ پر گہری نظر ڈال لی جائے۔
ڈاکٹر میمونہ حمزہ کامضمون ( ہم نے تمہیںجوڑوںمیں پیدا کیا) بہت معلوماتی ہے جس جنس کے بارے میں ہدایات ہیں ان تک یہ معلومات پہنچنی چاہئیںکہ تمہارے بارے میں دین کے کیا احکامات ہیں تاکہ وہ اس دنیا میں بے مقصد زندگی نہ گزاریں۔
شگفتہ عمر کا مضمون ( انسانیت اس قعرمذلت میں کیسے گری) تاریخی معلومات رکھتاہے جن تہذیبوںمیں یہ تنظیمیں پروان چڑھیں ان کی چالاکی دیکھیے کہ انہوں نے ساتھ ساتھ خواتین اور مخنثوں کے حقوق کا بھی پر چار کیا تاکہ ان کے حقوق کی آڑ میں خود پھل پھول سکیں۔
سارے افسانے بہت اچھے ہیں مگر قانتہ رابعہ ( بھید) کا انداز انوکھا ، ہلکا پھلکا مگر سوچنے پر مجبور کرنے والا، دل کو موہ لیتا ہے۔
کچرے میں کلی ( سمرہ ملک ) عمل کی نئی راہیں بتاتا ہے جو اس تیسری جنس کے لیے کچھ کر سکیں ۔ نادرہ خان کی کہانی (عابدہ فرحین ) اندرونی حقائق پر مبنی اس جنس کو در پیش اصل مسائل ۔
تزئین حسن کی رو داد آنکھوں کو کھول دینے والے حقائق رکھتی ہے کہ واللہ وہ ترقی یافتہ لوگ اس پر نو مسلم اس گناہ کبیرہ کوجائز سمجھ کرکرتے ہیںاور عقلی دلائل کی بنیاد پر جائز کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ اس فتنے سے اس امت کو بچائے۔
ہم جنس پرستی کے عنوان پر یہ خاص نمبر بہت معلوماتی ہے اور اس عنوان کو پورا کور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
٭…٭…٭

 

 

بتول میگزین
مریم فاروقی
ہماری قریب ہمسایوں کی جوان بیٹی ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو گئی غسل بہت مشکل سے دیا حالت بہت نازک تھی گھر والوں نے اس کے دونوں ہاتھوں پہ مہندی لگائی ، غسل کے بعد میک اپ کر کے سرخ دوپٹہ دیا کہ یہ سہاگن تھی اس کا میاں سلامت ہے پھر اس کی ویڈیو بنائی پھر کہیںدفنایا۔
عورتوں کی زبانی ہم سن سن کر حیران ہوتے رہے کیونکہ جب ہم تعزیت کے لیے گئے تھے تو وہ نہلا کر کفن دے کر فارغ ہوئے تھے ۔ اب بعد میں جو کچھ ہوا اس کا تو ہمیں علم ہی نہیں کہ یہ کچھ ہؤا۔
گائوں میں بھی ایک بزرگ خاندانی خاتون کو غسل دینے کی رہنمائی کے لیے مجھے بلایا گیا کیونکہ میں موقع پر موجود تھی سب کچھ سنت کے مطابق بتاتی گئی کہ پہلے میت کو بٹھانے کی طرح کر کے پیٹ دبائیں پھر استنجا مٹی کے تین ڈھیلوں سے پھر پانی سے پھر وضوپھر کمر پر پانی پھر دائیں پھربائیں اوپر چادر دے کر تاکہ جسم نظر نہ آئے ، ہاتھوں پر تھیلیاں چڑھا کرتاکہ براہ راست جسم سے مَس نہ کرے ۔ رسول پاک ؐ نے فرمایا کہ میری بیٹی کو پانچ یا سات مرتبہ غسل دو ۔ اس لیے یہی ان کو بتایا ۔ پھر کفن کے وقت سر کا رومال سفید کی بجائے زرد رنگ کا دوپٹہ اوڑھانے لگیں ۔ منع بھی کیا کہ سنت سفید لباس میں کفن دینا ہے مگر وہ کہنے لگیں ہمارے یہاں تو سب زرد رنگ کا دوپٹہ ہی دیتے ہیں۔بہت کہا، کہنے لگیں گھر پر پرانا دوپٹہ ہے لیکن لاہی نہیں سکی۔ آخر اس رنگ دار میںدفن ہوئیں۔ تو حید کے ماننے والوں کو پتہ ہی نہیں کہ سنت پر عمل کیسے کرنا ہے۔ہماری ترجمہ قرآن کی ایک ساتھی کہنے لگیں میں ایک بہت بڑے عالم کے ہاں گئی ان سے کہا کہ رسول پاک ؐ کو دنیا سے گئے ساڑھے چودہ سو سال ہو گئے ابھی تک ہم سنت کو نہیں پا سکے ۔ مردفوت ہوتا ہے اس کی میت عورتوں میں پڑی ہوتی ہے ۔ سب عورتیں میت کا چہرہ دیکھنا ضروری سمجھتی ہیں چاہے وہ غیر محرم رشتے دار ہوں یا ہمسائیاں وغیرہ ۔ دین سے دوری نے ہمارا شعور ختم کر دیا ۔ خود میرے باپ فوت ہوئے تو میں نے کمرہ بند کر دیا ، عورتوں سے کہتی تھی میرے ابو کا چہرہ دکھنا آپ کے لیے جائز نہیں ۔ لیکن وہ سمجھنہیں رہی تھیں خود میری والدہ میرے خلاف ہو گئیں۔
میری باتیں سن کروہ عالم کہنے لگے بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے ابھی تک اس رخ پر سوچا ہی نہیں ۔ اس لیے لحاظ سے اس سمت میں کوئی کام نہیں ہؤا۔ نہ ہی نا واقف مسلمانوں کو یہ پتہ ہے کہ میت کا ذکر خیر کرنا چاہیے اس کی بخشش کی دعا کرنی چاہیے ۔ بلکہ کوئی میت کے پاس کھڑ ہؤا نعتیں پڑھتے ہیں کوئی کلمہ اور کوئی کچھ حالانکہ لوحقین کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین اور اجر کی امید دلانا یہ بات مسنون ہے ۔ ایسا ماحول بنا ہوتا اور ایسا وا ویلا مچا ہوتا ہے کہ کیابات کی جائے ۔
علاج اس کا یہی ہے کہ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے کہ ہم یہاں رہنے نہیںآئے اورنہ ہی یہ جدائی مستقل ہے ۔ جو بیٹھے ان کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے گھر والوںکوحوصلہ دینا ہے ۔ وہ یہ کرتے ہیںکہ اس کو اور رلائو تاکہ اس کا غم نکل جائے اس طرح ایک کے بعد ایک گلے لگ لگ رلاتا ہے کہ اچھے بھلے گھر والے صبر کرنے لگتے ہیں کہ اور رلانے والے آجاتے ہیں ۔ پھر تسلی کے دو بول تو نصیب والے ہی کہتے ہیں ۔یہ تو نادانوں کا حال ہے۔
علم والوں کی خوشیاں غمیاں بھی دیکھنے کا موقع ملا وہاں نہ تو خوشی کے موقع پر ایسا تھا کہ ڈھول پیٹ پیٹ کر اور ڈیک بجا کر آس پاس والوں کے ناک میںدم کیا ہو ۔ بلکہ بہت اچھا نظارہ مرد و خواتین کوعلیحدہ بٹھایا گیا تاکہ خواتین آزادی سے گپ شپ لگائیں اپنے لباس کی نمائش کریں کوئی مردوں کا میل جول نہیں ۔ پھر اچھے طریقے سے کھانے کے لیے سب کو اطلاع بہت اچھا لگا۔
غم میںبھی سب صبر کے پیکر ۔ ان کی بیٹی بار بار کہتی تھیں ہماری ماں کے لیے آواز سے نہیںرونا کیونکہ آواز سے رونا منع ہے ۔ منہ سے کوئی

ایسا جملہ نہیں کہنا جو اللہ کو ناراض کرنے والا ہو۔ ظاہر ہے جب گھر والے خود صبر کا پیکر ہوں بلکہ دوسروں کوسمجھانے والے ہوں پھر غیر مسنون کام کیسے ہو۔پھر خود اپنی ماں کو غسل دیا سنت کے مطابق میں نے دل میں دعا کی کہ مولا میرے بھی وقت آخر بچوں کو ایسے ہی طرز عمل کی توفیق دینا ۔پھر بچوں کو بھی تاکید کی۔
٭…٭…٭

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x