ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

آلے گجری – بتول مارچ ۲۰۲۲

عتیق احمد اور انیق احمد،دونوں بھائیوں میں جتنی چاہت اور محبت تھی اس کے لیے دنیا کی کسی لغت میں ترجمانی کے لیے الفاظ موجود نہیں تھے۔ دونوں کے مشاغل،دلچسپیاں اور مصروفیت ایک جیسی تھی ،پسند ناپسند ایک جیسی تھی، سونے جاگنے کے اوقات ایک جیسے تھے ،لیکن کاتب تقدیر نے ان کی بیویوں میں مشرق اور مغرب کا بعد رکھاتھا۔بڑی مشقت اور خواری کے بعد ایک ہی خاندان (اور وہ بھی قطعاً غیر ) سے لڑکیاں ڈھونڈیں کہ بھائیوں کے دلی تعلقات ہمیشہ مثالی رہیں گے۔لیکن نہ نہ نہ ……سوچا ایسا ہی تھا، رشتہ بھی ہم عمر کزنز کا مگر دلچسپیاں شوق مشاغل سب ایک دوسرے سے الگ!
ایک کریلے کھاتی اور شوق سے کھاتی۔ قیمہ کریلے ،چنے کی دال کے بھرے ہوئے ،آلو ڈال کے……کریلے کے نام پر جو مرضی کھلادو رغبت سے کھائے گی اور دوسری کریلوں کو دیکھ کر ماتھے پر کریلوں سے زیادہ بل ڈال لیتی، ناک منہ چڑھاتی اور انڈے کا ہوش پوش بنا کر روٹی کھا لیتی۔ بھوکی مرجائے گی لیکن کریلے نام کی سبزی حلق سے کیا اتارے ہاتھ لگانے کی بھی روادار نہ ہوگی ۔
یہ سب فرق تو سگی بہنوں میں بھی ہوجاتا ہے بس ان میں ہر بات ہر نکتے پر اختلاف تھا ۔ایک کا خیال تھا کہ زکوٰۃ خیرات صدقات بلکہ انفاق فی سبیل اللہ کی تمام اقسام پر کام والی ماسیوں کا حق بنتا ہے۔ دوسری (روبی ) کا خیال تھا کہ روپیہ پیسہ تو کیا مدد کی کوئی بھی قسم ان پر حرام ہے۔ انہیں ان کی تنخواہ دو چائے پانی پلانے کے بعد ان کو کچھ بھی دینا انہیں فقیروں میں شامل کرنے کی کوشش ہے۔
بڑے رسان سے روبی پوچھتی۔
’’نینو بھابھی کیا ڈاکٹر کو یا ٹیچر کو بھی تنخواہوں کے علاوہ کچھ دیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے وہ بھی مالی مشکلات کی وجہ سے ہی ملازمت کرتی ہیں‘‘۔
نینو بھابھی جارحانہ انداز میں جواب دیتیں
’’دونوں میں تقابلی جائزہ مت لو ….. کیا ٹیچرز ہزار ہزار کے دو نیلے نوٹوں کے لیے عزت نفس کا سودا کرلیتی ہیں ؟‘‘
’’جو بھی ہو میں سمجھتی ہوں ان ماسیوں کو تنخواہوں کے علاوہ کچھ دینا انہیں معذور کردیتا ہے ۔وہ ہر کسی سے بڑھ چڑھ کر پہلے سے زیادہ مدد کی توقع رکھتی ہیں…..کپھر منہ سے مانگتی ہیں اور وجہ ہم ہیں جو ان کو پیشہ ور فقیر بنا دیتے ہیں ‘‘۔
’’جو بھی ہو میں تو اسی کی قائل ہوں جو ہمارے ہاں اپنی محنت مشقت اور وقت کا سرمایہ خرچ کرتی ہیں ہمیں ہی ان پر خرچ کرنا چاہیے‘‘۔روبی نے کہا۔
بسا اوقات تو بات چیت ہلکے پھلکے انداز میں شروع ہو کر ہلکے پھلکے انداز میں ہی ختم ہو جاتی اور کبھی نوبت دانت کچکچاتے ہوئے آنکھوں سے بھسم کرنے والے شعلوں پر ہوتی ۔دونوں ایک ہی دادا پردادا کی اولاد تھیں لہٰذا ہار کوئی بھی نہ مانتی!
ساس کبھی صلح صفائی کے لیے میدان میں کودتیں کبھی ہری جھنڈی دکھا دیتیں۔ساس کااپنا معتدل نظریہ تھا کہ جو مانگنے آتا ہےاسے دو مگر جو لپٹ لپٹ کر مانگتا ہے ایک چیز دو تو پانچ سات کی لسٹ مزید سنادے وہ بہرحال مستحق نہیں ہے!!
’’یہ کلیہ قاعدہ ہے خدا بھی یہی کہتا ہے بھلے تم آزما کے دیکھ لو‘‘۔
پہلی مرتبہ اس گھر کی بہو بیٹیوں نے آزمایا تو بات سو فیصد سچ ثابت ہوئی ۔شبو مراثن سے لے کر نجو بیگم تک سب کی سب ایسی ہی تھیں دس روپے دیے تو بیس مانگ لیتیں، جوتے دیے تو جرسی کی فرمائش …..اور جو ساس کے بقول اصلی مستحق کی پہچان یہ بھی ہے کہ راہ خدا جو بھی پکڑاؤ وہ خوشی سے لیتا ہے اور احساس تشکر سے جاتا ہے ۔ان سب میں شکر تو دور کی بات ،دھڑلے سے حق سمجھ کر لیتیں سوائے آلے گجری کے!!
ہاں یہ واحد نام اور واحد موضوع تھا جس پر سب کا اتفاق تھا!
دونوں گھرانوں میں اچھے تعلقات تھے ۔باپ دادا کے بعد آلے گجری کا میاں رفیق گجر دودھ فروش کا کام سنبھال چکا تھا ۔وہ جتنا اچھا اور صالح فطرت کا مالک تھا بیوی اس سے بھی کہیں اچھی ملی ۔آلے کا اصل نام تو شاید عالیہ ہی ہوگا مگر آلے اس پر خوب پھبتا ۔اونچی ،لمبی ،قدرے بھاری جسامت ،آتی تو اس کے لیے چارپائی رکھنا پڑتی ۔ہنس مکھ تھی قدرت نے اوپر تلے چار بچوں کی ماں بھی بنادیا ۔بڑا بیٹا اور دو بیٹیوں کے بعد پھر بیٹا ۔سال میں دو ایک چکر لگاتی، دودھ سے بنی سوغات از قسم خالص کھویا،گاجر کا حلوہ وغیرہ ضرور لاتی۔ عتیق اور انیق کی شادیوں پر پانچ دن ان کے ہاں سے وافر دودھ ملتا رہا۔ سلامی کے نام پر بھی ٹھیک ٹھاک رقم کا لفافہ پکڑایا۔
مگر قدرت کے بعض اوقات کچھ فیصلے انسان کی فہم سے بالا ہوتے ہیں۔ رفیق گجر تو تھا ہی اکلوتی اولاد،آلے کا بھی بس ایک ہی بھائی تھا وہ اچانک حادثہ میں جاں بحق ہوگیا ۔سال بھر اس صدمے سے سمجھوتہ میں خرچ ہو&ٔا تو رفیق کی دو بھینسوں میں سے ایک اچانک گری اور مر گئی ۔چند ہفتے قبل اسے منہ کھر کی بیماری ہوئی تھی ۔رفیق نے شہر کے سب سے اچھے ڈنگر ڈاکٹر کو مٹھی بھر فیس دے کر بلایا اس کی بتائی ہدایات پر عمل کیا اور بھینس بھلی چنگی ہوگئی۔دو چار دنوں میں دودھ بھی پہلے والی مقدار کو پہنچ گیا۔ اب اچانک ہؤا کیا ،یہ صرف اوپر والا ہی جانتا تھا۔
رفیق کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا لیکن بے خبر تھا کہ ایک چوٹ باقی ہے ۔کاروبار میں اب شراکت گائے کے دودھ کی تھی۔ بالکل اسی طرح گائے بھی زمین پر گری اور ماہیِ ہے آب کی طرح تڑپی ۔بھلا ہو نورا قصائی ساتھ ہی گھر میں رہتا تھا اس نے جھٹ پٹ بآواز بلند تکبیر پڑھ کر گلے پر چھری پھیر دی ۔گائے تو ذبح ہو کر مارکیٹ میں پہنچ گئی ،کسی نے اس کے گوشت کی بریانی بنائی ہوگی کسی نے تکے کباب ،لیکن رفیق گجر کو چھری پھیرنے کی اذیت چوبیس گھنٹے محسوس ہوتی۔ کوئی اور ہنر آتا تھا نہ سرمایہ پاس تھا۔گائے کے ذبح ہونے کے منظر نے اس کی ٹانگوں کو ساکت اور زبان کو گنگ کردیا۔غم تو سہہ لیا پرفالج کا حملہ بے بسی کی انتہا پر لے گیا اور روتی کر لاتی آنسو پونچھتی آلے گلبرگ کے ان مکینوں کے پاس پہنچی جہاں برسوں کے تعلقات تھے۔نینو اور روبی کو تو بہو ئیں ہونے کی وجہ سے اس کے متعلق خاص علم نہ تھا لیکن ان کی ساس آمنہ خانم ،ان کی تینوں بیٹیاں دونوں بیٹے تو گھر کے فرد کی طرح جانتے تھے۔ اس کی چائے اور بسکٹ سے تواضع کی۔دھیمے دھیمے لہجے میں آلے نے اپنے اوپر آئی سختی بیان کی ۔ بائیں ہاتھ کی پشت دونوں آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو پونچھ پونچھ کر گیلی ہو چکی تھی۔
آمنہ خانم نے گلا صاف کرنے سے جوابی گفتگو کا آغاز کیا۔
’’دیکھو آلے وقت تو بے شک کڑی آزمائش کا ہے لیکن ہمت مت ہارنا‘‘۔
آلے دکھ سے بولی ۔
’’چار بچے پانچواں بیمار مفلوج معذور میاں ،زندگی گزارنے کا سبب ختم ہوچکا ہاتھ پلے کچھ ہے نہیں…… کروں تو کیا کروں؟‘‘
’’فی الحال تو یہ رقم رکھو ،میاں کی صحت کی طرف دھیان دو ،اور کوئی ہنر جو تمہیں آتا ہو اسے ذریعہ معاش بنائو‘‘۔
آلے نے آنسو صاف کیے اور بولی۔
’’دہی کی دو کنالیا ں بناتی تھی ،سردیوں میں گاجر کا حلوہ بنا کر حلوائی کو دیتی تھی ……لیکن یہ دونوں کام دودھ سے ہوتے ہیں اب ہم دودھ فروش نہیں رہے‘‘۔
’’اوہ اچھا !کوئی اور ہنر؟‘‘
آلے نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ جمع شدہ رقم گھر کے خرچے پر لگ گئی۔ اپنی بالیاں بیچی ہیں تو ان کے لیے دوا اور گوشت کے علاوہ سودا سلف لیا ہےاور بس ‘‘۔
اس کے لہجے میں نقاہت تھی چہرےپر زردی کھنڈی تھی ۔
’’زندگی تو واقعی مشکل ہے اب تمہارے لیے……کچھ نہ کرنا تو ہوگا ‘‘آمنہ خانم نے روپے اس کی مٹھی میں دیے کہ وہ کرنٹ کھا کر پلٹی‘‘۔
’’نہیں بوا…..یہ نہیں…..سدا دینے والوں میں سے تھے اب لینے والے بن جائیں؟‘‘ بھل بھل بہتے آنسو اس کی اذیت کے ترجمان بن گئے تھے۔
’’پھر گزارہ کیسے ہوگا ؟ اب یہ لے لو زکوٰۃ صدقات تو نہیں پرانے تعلقات بھی تو ہیں ناں‘‘آمنہ خانم نے اسے حوصلہ دیا اور گھر بیٹھے روزگار ڈھونڈنے میں معاونت کا وعدہ بھی کیا ۔
آلے گجری کا دوسرا چکر سات ماہ کے بعد لگا ۔اس کا رنگ روپ قدرے سنولایا ہؤا تھا۔چہرے کی تازگی قصہ پارینہ بن چکی تھی۔ میاں ہسپتال میں آخری دموں پر تھا ۔اس کے مانگے بغیر آمنہ خانم نے دو تین نیلے نوٹ اسے دیے جو اس نے خاموشی سے رکھ لیے۔ جاتے ہوئے بس یہی کہا:
’’آپ دعا کریں یہ رقم میں جلد واپس کردوں ‘‘۔
جلد واپس کرنے کی نوبت نہ آئی۔ میاں ابدی سفر پر روانہ ہوا۔بھائی پہلے ہی مر چکا تھا، بھابھی بھی بیمار تھی، وہ اسے بھی اس کی تین کمسن بچیوں کے ساتھ اپنے گھر لے ائی۔کہنے کو اس نے بھابھی کا تین مرلے والا گھر کرائے پر اٹھا دیا ۔اپنے گھر کی بیٹھک میں بچوں کی ٹافیاں بسکٹ سلنٹیاں پاپڑ ،اور دالوں کی ساری اقسام صابن سرف بھی رکھ چھوڑے تھے ۔
اس نے اچار ڈالنا سیکھا اور پاؤ پاؤ بھر کے اچار کے پیکٹ بنا کر دکانوں پر بھیجنے لگی۔ دیسی لہسن منڈی سے لے آتی اور بچیوں کو ساتھ لگاتی منٹوں میں چھیل چھال کر قلیل سے معاوضہ پر دے آتی ۔مگر یہ سارے ہنر بیمار بھابھی سات بچے اور اس کی اپنی سخت جاں کے گزارے کے لیے ناکافی تھے! بھابھی کو اندر ہی اندر روگ لگاہؤا تھا ۔چار چھ سالوں میں وہ بھی روانہ ہوگئی تو سات بچوں کی واحد کفیل ،نگہبان وہی تھی!
مشقت کے ساتھ ہی سہی زندگی گزر رہی تھی ۔زیادہ سارے مٹر چھیلنے کا کام ہوتا یا گندم بیننا ہوتی تو آمنہ خانم اسے بلوا بھیجتیں، معاوضہ کے علاوہ بھی اسے کچھ دے دلا کر رخصت کرتیں ۔بڑے پیمانہ پر کوئی دعوت ہوتی تو مددگار کے طور پر اسے بلا لیتیں۔ اس نے مانگا کبھی نہیں تھا لیکن حالات اسے منگتا بنانے والے ہی تھے۔ کبھی بچوں کے امتحانی داخلہ فیس نیلے نوٹوں میں جاتی کبھی سارے ہی موسمی بیماری سے لوٹ پوٹ ہوجاتے ۔کبھی بجلی کا بل زیادہ آجاتا تو کبھی کوئی ناگہانی ضرورت پیش آجاتی ۔ہاں آتے ہوئے وہ کبھی ساگ کاٹ کر لے آتی کبھی چھلا ہؤا لہسن ، کبھی چاولوں کی پنیاں….. خالی ہاتھ کبھی نہیں آئی تھی۔حالات کی خرابی نے اسے منگتا بنانا چاہا پر اس نے ہاتھ نہیں پھیلایا بس ضرورت بیان کرتی ۔ در در نہیں جاتی تھی بس یہی دو ایک گھر تھے جو اسے دیا جاتا شکریہ کے لفظوں کی ادائیگی کے بعد واپس چلی جاتی۔ کبھی اس نے مٹھی کھول کر یہ بھی نہ دیکھا کہ دینے والی نے رقم دی کتنی ہے،یا اس کی ضرورت پوری ہوسکتی بھی ہے یا نہیں۔
اس کے گھنے بال چوہیا کی دم جتنے رہ گئے،اس کا فربہی مائل جسم لکڑی کا ڈنڈہ بن گیا۔ لیکن اس کی آن بان وہی تھی ،صاف ستھرے کپڑوں میں آتی ،جوتے پرانے ہوتے لیکن چمکتے ہوئے !
ہاں اس آلے گجری پر سب کا اتفاق تھا یہ مستحق ہے کیونکہ سب اس کے حالات کے چشم دید گواہ تھے۔ وہ لے کر تشکر والی نگاہوں سے دیکھتی ۔اسے جو دیا جاتا وہ ہل من مزید کا نعرہ نہیں لگاتی تھی۔ کوئی بھی پریشانی آتی گھر والے صدقہ خیرات اسے ہی بھیجتے۔آخر سات یتیم بچے پال رہی تھی بیوہ تھی !
’’امی جان اب آپ پالک خود نہ کاٹیں آلے کو بھیج دیں دعوت کے لیے بیس گٹھیاں گھر میں تو نہیں کاٹی جا سکتیں…..سا رہ کی منگنی پر پندرہ لوگ آرہے ہیں اتنے ہی کم و بیش ہم گھر کے افراد ہیں، ماموں وقار اور عصمہ خالہ کو ملائیں تو چالیس لوگوں کے لیے گھر پر کھانا بنانا ہے ۔آپ آلے کو بلالیں لہسن پیاز سلاد ،چائنیز کے لیے سبزیاں کاٹنا یہ سب وہ کر لے گی، اب تو ویسے بھی کافی عرصہ سے نہیں آئی میں نے کچھ چیزیں اس کے لیے رکھی ہیں اچھا ہے بھلا ہوجائے گا ‘‘روبی نے کہا۔
فوری طور پر آلے کو پیغام بھیجا گیا مگر پیغام لے کے جانے والا رستہ ہی میں تھا کہ آلے گجری بنفس نفیس خود تشریف لے آئی۔ہاتھ میں بڑا سا شاپر ،مٹھائی کا ڈبہ اور کچھ چھوٹے موٹے کھلونے ۔
’’السلام علیکم بؤا!‘‘ اس کے لہجہ کی بشاشت چہرے پر تازگی اور آنکھوں میں چمک تھی ۔
’’وعلیکم السلام،کیسی ہو بہت دنوں سے نہیں آئیں تم……ہم تمہیں ہی یاد کر رہے تھے ابھی‘‘آمنہ خانم نے کہا ۔
نینو ،روبی اور باقی افراد بھی آگئے۔
’’بوا اللہ نے بہت کرم کیا ۔مصروفیت ہی بہت رہی اوپر تلے بڑے سے بڑے کام سر پرآتے رہے….. اب ہوش ٹھکانے آئے تو سب سے پہلے آپ کی طرف آئی ہوں…..یہ پہلے تو منہ میٹھا کریں‘‘۔
اس نے مٹھائی کا ڈبہ آمنہ خانم کے آگے کیا۔
’’ اپنا وقاص میٹرک کے بعد سال پورا ورکشاپ میں لگا کے دو ماہ پہلے سعودی عرب گیا تھا کل اس کی پہلی تنخواہ ملی ہے……اللہ نے ہم کمزوروں کا بازو پکڑ لیا ہے تو میں نے سوچا جنہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دیا ان کو کیسے بھول جاؤں‘‘۔
اس نے بند مٹھی سے مڑا تڑا سا پانچ ہزار کا نوٹ نکالا۔
’’یہ آپ سے وقاص کے ابا کی بیماری میں میں نے قرض لیا تھا بعد میں تو آپ خود ہی دیتی رہیں ناں……مگرقرضہ تو سر پر لٹکی تلوار ہوتا ہے……اور یہ بھا شفیق کا بیٹا کل سعودی عرب سے آیا تو وقاص پتر نے جاے نماز،زمزم اور کھجوروں کے ساتھ بچوں کے کھلونے بھیجے تھے۔
’’بوا میں آپ کے احسانوں کا بدلہ نہیں دے سکتی بس آپ دعا کریں اللہ میرے منصوبہ میں میری مدد کرے……میں نے ہر ماہ اب کمیٹی ڈالی ہے ،پہلی کمیٹی سے جس جس سے قرضہ لیا ہے وہ اتاروں گی، دوسری مرتبہ مسجد میں موٹر خراب ہے نئ لگوانے کا سوچا ہے۔دکان جو بیٹھک میں کھولی تھی وہ اب وقاص پتر نے بند کروادی ہے اس کا سامان بیچ کر سامنے والی بیوہ نسرین کی بیٹی کی شادی پر دوں گی۔ پھر چھوٹی کمیٹی ڈالی ہے جس کی رقم آپ کو دوں گی ۔آپ کے پاس میری جیسی پتہ نہیں کتنی بے بس عورتیں آتی رہتی ہیں آپ ان کی مدد کردیا کریں‘‘ ۔
’’وقاص پتر نے عمرہ کروانے کا وعدہ کیا ہے ،عمرہ کر لیا تو جواچار بنا کر دیتی ہوں ان پیسوں سے قربانی کا جانور ضرور خریدوں گی ۔ میرا جی چاہتا ہے محلے کے سارے غریب غربا کے گھروں میں عید کے روز گوشت پکے سب کھائیں اور مجھے دعائیں دیں جیسے میں آپ کو دعائیں دیتی ہوں، آپ کے لیے روزانہ نفل پڑھ کر دعا کرتی ہوں……اور……‘‘
وہ اپنے منصوبے بتارہی تھی ,نینو روبی اس کے چہرے کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ستر ہزار ستاروں کا قافلہ اس کی آنکھوں میں اتر آیا تھا جس کی چمک سے صرف اس کا چہرہ گلنار نہیں تھا بلکہ سب تک اس کی روشنی پہنچ رہی تھی ۔سب کی آنکھیں چندھیا رہی تھیںسب مبہوت اسے تک رہے تھے ۔

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x