محشر خیال -بتول نومبر ۲۰۲۱
ڈاکٹر مقبول شاہد ۔ لاہور
اکتوبر۲۱ء کے چمن بتول میں محترمہ نجمہ یاسمین یوسف کی ایک غزل شائع ہوئی ہے ۔ اس غزل میں جب میں نے یہ شعر پڑھا:
الفاظ کے رہین ہیں دنیا کے انقلاب
تلوار کی کہاں ہے جو طاقت قلم کی ہے
تو مجھے اپنی زندگی کا 1940ء کے عشرے کا زمانہ یاد آگیا جب میں ابھی چھوٹا سا بچہ تھا اور ابھی سکول میں بھی داخل نہیںہؤا تھا ۔ میرے دادا جان چوہدری رحیم بخش مرحوم مجھے گھر پر ہی پڑھنا لکھنا سکھاتے تھے اور اس کے ساتھ خوش خطی پر بہت زور دیتے تھے ، اور مجھے اس کی مشق کراتے تھے ۔ وہ خود فارسی زبان کے عالم بھی تھے اور کلام سعدیؒ اور فارسی شاعری سے انہیں خاص شغف تھا ۔ لکھنا سیکھنے کے لیے اس زمانے میں لکڑی کی تختی اور سر کنڈے کے قلم کا رواج تھا ۔ روشنائی کے لیے بازار میں کالی سیاہی کی پُڑیاں ملتی تھیں جنہیں پانی میں حل کر کے شیشے کی دوات میں ڈال لیتے تھے ۔خوش خطی کی مشق کے لیے دادا جان مجھے تختی کی پہلی سطر میں فارسی کا درج ذیل مصرع لکھ دیا کرتے تھے جسے میں نیچے کی سطروں میں بار بار لکھ…