تبریز اور درخت – نور مارچ ۲۰۲۱
پارک میں کھیلتے کھیلتے تبریز میاں کی نظر جامن کے ایک درخت پر پڑی، اور وہ اس کے پاس آگئے۔
’’اچھا درخت ہے!‘‘انہوں نے اس کے سائے میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں چاقو سے اس پر اپنا نام لکھتا ہوں۔‘‘
’’مگر میرے پاس تو چاقو ہے ہی نہیں۔ امی جان رکھنے ہی نہیں دیتیں۔‘‘وہ مایوس ہوئے۔
’’مگر علیم کے پاس تو ہوگا چاقو۔ وہ ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہے!‘‘ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’علیم، میری بات سنو!‘‘تبریز میاں نےدور کھیلتے علیم کو پکارا۔
’’کیاہے؟‘‘علیم قریب آیا۔
’’ذرااپنا چاقوتودینا،مجھے درخت پر اپنا نام لکھنا ہے۔‘‘
علیم نے انھیں چاقو دے دیا، وہ خوشی خوشی درخت پر اپنا نام لکھنے لگے۔
’’آہ! لڑکےایسا مت کرو۔ مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے۔‘‘درخت کراہتے ہوئے بولا۔
مگرتبریز میاں درخت کی تکلیف سےبےخبر اپنےکام میں لگےرہے۔
’’آہ! میرے درد کو سمجھو لڑکے! میں بہت تکلیف محسوس کررہا ہوں۔‘‘درخت کی آواز بھراگئی۔
’’لو۔ میں نے اپنا نام لکھ ہی لیا‘‘تبریزمیاں اپنےکارنامےپربہت خوش نظرآر ہے تھے۔
’’تم نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے!‘‘درخت بولا۔ تبریز میاں درخت کادردجانےبنا علیم کو اس کا چاقو واپس کرنےچلے گئے۔
٭٭٭
تبریز میاں روز پارک جاتے، جامن توڑنےکےلیےدرخت پر پتھر پھینکتے، شغل کرطورپرپتے گراتے اور ٹہنیاں توڑتے۔ درخت کراہتا ،انھیں سمجھاتا کہ ایسا نہیں کرتے۔ مگر وہ نا کچھ سمجھتےاورنا سمجھنا چاہتے تھےحالانکہ ان کی امی نےانھیں…