طوبیٰ احسن

یہ کیسی راہیں – بتول نومبر ۲۰۲۱

عروج بیوٹی پارلر میں اس وقت کام عروج پر تھا۔ روزی، روبی، تانیہ سمیت تقریباًسب ورکرز ہی مصروف تھیں۔ کچھ خواتین اپنی باری کا انتظار کررہی تھیں۔ عروج ریسپشن پر بیٹھی کال اٹینڈ کررہی تھی۔ ’’ہیلو جی! آپ کل صبح11بجے تک آجائیں۔ ‘‘ اس کاانداز پروفیشنل تھا۔ جیسے ہی فون رکھتی پھر کال شروع ہو جاتی۔ سامنے ٹیبل پر کمپیوٹر رکھا تھا جوبھی کال آتی وہ لوگوں کو ٹائم دے کر کمپیوٹر پر اندارج کردیتی۔ آج ریسپشن پر بیٹھنے والی عافیہ غیر حاضر تھی لہٰذا عروج کو اس کی جگہ سنبھالنی پڑ رہی تھی۔ پارلر میں آج رش زیادہ تھا۔4بجنے کے بعد تو روزانہ ہی ایسا رش ہوتاتھا جو کہ رات دس بجے تک جاری رہتا۔ عروج بیوٹی پارلر کا ایک نام اور مقام تھا۔ خواتین اس کی کارکردگی سے مطمئن تھیں اور یہاں سے کام کروانے کو باعثِ فخر سمجھتی تھیں۔ ’’ہیلو‘‘اچانک پھر کال آئی’’ جی آپ کا نام؟‘‘

مزید پڑھیں

روٹھے ہو تم – بتول مارچ ۲۰۲۳

میں ایک کہانی نویس ہوں ۔میں جب لکھتی ہوں تو ڈوب کر لکھتی ہوں۔ اپنے پڑھنے والوں میں میری پہچان ہے۔لوگ مجھے شوق سے پڑھتے ہیں اور میرے لکھے ہوئے افسانوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ خالی خولی دعویٰ نہیں بلکہ اس کا ثبوت لاتعداد خطوط ہیں جو ہر ماہ میرے قارئین کی طرف سے مجھے وصول ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت میں ایک پریشانی سے دوچار ہوں۔ اپنی پریشانی کا تذکرہ کرنے سے پہلے یہ بتادوں کہ میں صرف سچ لکھتی ہوں۔سچ،جو کہ تلخ اور کڑوا ہو یا پھر شیریں۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں لکھا۔ آج مجھ کو جو پریشانی ہے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ مجھ کو جھوٹ لکھنا ہی پڑے گا۔چلیے میں آپ سے شئیر کرتی ہوں، شاید آپ مجھ کو بہتر مشورہ دیں۔ ارے! آپ مجھ کو بغور کیوں دیکھ رہے ہیں؟میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ آپ تو سراپا سوال ہی بن گئے۔ چلیے میں

مزید پڑھیں