بتول فائل – امّی – صبیحہ نبوت خان
’’آپ اتنے دن بعد آئی ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے آگے بڑھ کر امی کا استقبال کیا۔ میں نے امی کا ہاتھ تھاما۔ دیکھا تو دو موتی سفید براق ہاتھ پر جگمگا رہے تھے۔ یہ کس کے آنسو تھے؟ اب نظریں سوالیہ نشان تھیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا لیکن وہ اپنی عادت کے مطابق مسکرا رہی تھیں او رکسی خیال میں گم۔
پھر یہ کس کے آنسو تھے؟ … یہ جاننے کے لیے میں نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھا تو وہاں دو کیا بے شمار موتی پھیل رہے تھے۔ لیکن میں نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور امی سے مخاطب رہی۔
’’آپ اتنے دن سے کہاں تھیں۔ میں روز انتظار کرتی ہوں اور آپ کو یاد کرتی ہوں‘‘ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہہ رہی تھیں۔
’’میں یہیں تو تھی تمھارے پاس! اس دن جب تم پریشان تھیں… میں نے ہی تو تمھیں پیار کیا تھا۔ کیا تم بھول گئی ہو۔‘‘ وہ رک رک کر بولتی رہیں …’’ تم بیمار ہوتی ہو تو کون تمھاری خدمت کرتا ہے؟ کون تم کو دوا پلاتا ہے ؟ کون تمھارا سر دباتا ہے؟ کون تسبیح…