ارمان – بتول جنوری ۲۰۲۲
جونہی ذکیہ بیگم کی سانس کی ڈور ٹوٹی، ان کے آس پاس موجود سب افراد نے سکھ کا سانس لیا۔ ان کو ایسا محسوس ہوتاتھا کہ جیسے گزشتہ دوڈھائی سال سے وہ سب ذکیہ بیگم کی جیتی جاگتی لاش کو اپنے کندھوں پراٹھائے پھر رہے تھے۔ آج اچانک یہ لاش سرک گئی تھی اوران کے کندھے اس بوجھ سے آزاد ہوگئے تھے۔ اس آزادی کا احساس ہوتے ہی انہوں نے گردنیں گھما کر ایک دوسرے کو کچھ اس انداز سے دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو یقین دلارہے ہوں کہ ذکیہ بیگم اب کبھی لوٹ کران کی دنیا میں واپس نہیں آئیںگی۔ پھر بڑی بہو نے اپنے میاں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کہا، کفن خریدنے جائو گے تو ساتھ ہی گلاب کے پھولوں کی ڈھیر ساری پتیاں ضرور لیتے آنا۔ امی کو گلاب کی خوشبو بہت پسند تھی‘‘۔
منجھلی رقت طاری کرتے ہوئے کہنے لگی۔
’’اجی سنیے! ذرا جا کر مدرسے سے کچھ بچوں کو لے آئیے۔یہاں بیٹھ کر وہ قرآن خوانی کرتے رہیں گے تاکہ امی کی روح کو سکون ملے‘‘۔
چھوٹی بہو نازیہ نے اپنے دوپٹے کو سرپر جماتے ہوئے اعلان کیا۔
’’میں نہلانے والی ماسی کو لینے جارہی ہوں۔ میت کو نہلانے کی ذمہ داری میری…