ثمرین محسود

کوڑے کے ڈھیر پر – بتول جون ۲۰۲۳

وہ کوڑے کا ڈھیر تھا جس پہ وہ سب دائرے کی شکل میں بیٹھے تھے۔ سب کی شکلیں بگڑی ہوئیں جن پہ مردنی چھائی تھی۔بچوں کے چہروں پر بچپن میں ہی بڑھاپے کی جھریاں نمایاں تھیں۔ سب کے پاس ایک ایک آٹے کی خالی بوری دھری تھی جن پر مکھیاں ایسے بھنبھنا رہی تھیں جیسے روشنی کے گرد پتنگے… مکھیاں ہی ان کی واحد رفیق تھیں جو بھری دوپہروں میں بھن بھن کرتی ان کی سوتی زندگیوں میں ارتعاش پیدا کرتیں۔
وہ سب ایسے ہی روز وہاں آتے ۔ابھی دکانوں کی اور سبزیوں کے ٹھیلوں کی شٹریں نہ اٹھی ہوتیں کہ وہ اپنی اپنی بوریاں لیے حاضر ہو جاتےاور یوں کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر انتظار کرتے۔ سب کے چہروں بشروں سے بے فکری عیاں تھی مگر انتظار نمایاں ہوتا، مانو ابھی دکانوں کے شٹر اٹھیں گے اور یہ سب دھاوا بول دیں گے – ان میں بچے، بوڑھے، جوان، زن و مرد ہر نوع کے انسان موجود ہوتے- ان سب کی بیٹھک کوڑے کے ڈھیر پر ہوتی مگر وہ ایک دوسرے سے اتنے ہی لاتعلق…. سب کے ذہنوں میں اپنے مسئلوں کے انبار تھے اوروں سے کیا سروکار، مگر سب کا مقام ایک تھا ،کوڑے کا ڈھیر….
عورتوں کی گودوں…

مزید پڑھیں